کیا وقت دعا ہے

بیشک چند دہشت گرد مسافروں سے بھری لانچ کو ڈبو سکتے ہیں لیکن ویسی لانچ بنا سکتے ہیں نہ چلا سکتے ہیں

بیشک چند دہشت گرد مسافروں سے بھری لانچ کو ڈبو سکتے ہیں لیکن ویسی لانچ بنا سکتے ہیں نہ چلا سکتے ہیں۔ پاکستان کی محرومی یہ ہے کہ اس کے پاس خودکش بمباری کا توڑ نہیں ہے کیونکہ سایوں کا تعاقب تو کیا جا سکتا ہے لیکن ان سے مقابلہ نہیں کیا جا سکتا ہے نہ ان کا قلع قمع۔ طالبان کی مجبوری یہ ہے کہ وہ پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا سکتے ہیں، حکومت کو تگنی کا ناچ نچا سکتے ہیں اور عوام کو دہشت زدہ بھی کر سکتے ہیں لیکن پاکستان پر قبضہ نہیں کر سکتے۔ اس کے لیے ان کو اپنی اپنی کمین گاہوں سے باہر نکلنا پڑے گا پھر وہ ناقابل تسخیر سایے نہیں رہتے بلکہ جیتے جاگتے انسان بن جاتے ہیں اور ان کے مقابل 18کروڑ ستم رسیدہ عوام اور لاکھوں افواج کھڑی ہونگی۔ جنگ کی بنیاد طاقت کے بل بوتے پر کمزور حریف پر ''غلبہ'' حاصل کرنے کی خواہش ہوتی جب کہ اور امن مذاکرات کی بنیاد ''کچھ دو اور کچھ لو'' کے تحت ''بقائے باہمی'' کی تمنا۔ یہی وجہ ہے کہ بات چیت اور طاقت، جنگ اور امن ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے کیونکہ امن مذاکرات کی کامیابی کا انحصار ''باہمی اعتماد پر ہوتا ہے جب کہ جنگ میں دھوکا دہی کو ''حکمت عملی'' کہتے ہیں۔

سانحہ اسلام آباد کے بعد امن مذاکرات پر ''ٹھنڈک'' طاری ہو گئی تھی۔ میاں نواز شریف کی خواہش اور کوشش سے اس وقت نہ صرف دوبارہ مذاکرات شروع ہونے جا رہے ہیں بلکہ مشاورت میں عمران خان بھی شامل ہو گئے ہیں۔ نئی حکومتی مذاکراتی ٹیم زیر تکمیل ہے جو طالبان سے براہ راست مذاکرات کرے گی (اگر ''خفیہ ہاتھ'' ہاتھ پرہاتھ دھرے بیٹھا رہا تو) مذاکرات پر مزید تبصرے سے پہلے چند اہم نکات پر ایک نظر۔

A۔ آج کی پیچیدہ، سنگین صورتحال کی بنیاد یہ ہے کہ TTP کی چھتری تلے جتنی بھی پارٹیاں ہیں ان سب کے ایجنڈے اپنے اپنے ہیں۔ صرف حکمت عملی یعنی دہشت گردی مشترکہ ہے۔ کارروائی کوئی بھی کرے ذمے داری TTP قبول کرتی ہے۔ پچھلے دنوں فوج کے خلاف تخریبی کارروائی ہوئی، فوج نے طالبان کے ٹھکانوں پر بمباری کر دی۔ باقی تو کالعدم ہیں۔

B۔ اس وقت نفاذ شریعت کے تین ممکن حل ہیں۔(1)۔ ایسا ملک جہاں کی غالب اکثریت کسی ایک مسلک کے پیروکاروں پر مشتمل ہو تو وہاں شریعت کا نفاذ کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔ مثلاً ہمارے پڑوس میں ہی دو مسلم ممالک ایسے ہیں۔ (2)۔ دوسری صورت یہ ہے کہ اگر ملک میں مسالک کی کثرت ہے تو تمام علمائے دین سر جوڑ کر بیٹھ جائیں اور شریعت کے بنیادی احکامات پر ایک ہو جائیں۔ یہ مسئلہ دین اسلام کا ہے اس کا حل بھی علمائے دین ہی نکال سکتے ہیں۔ جاہلان مطلق (حکومت) نہیں۔ (3)۔ اگر یہ بھی ناممکن ہے تو پھر پاکستان میں رائج صورت حال آئیڈیل ہے ۔ 1973 کے متفقہ آئین کی رو سے (جس پر تمام جید بزرگ علمائے دین کے بھی دستخط ہیں) شریعت کے خلاف قانون سازی کی ہی نہیں جا سکتی۔ اگر کوئی قانون شریعت کے خلاف پایا گیا تو وہ شریعت کورٹ میں چیلنج کیا جا سکتا ہے اگر رہنمائی کی ضرورت ہے تو اس کے لیے اسلامی نظریاتی کونسل موجود ہے۔


C۔ معطل شدہ میرٹ بحال کرنے کے لیے طاقت کا استعمال آخری آپشن ہوتا ہے کیونکہ یہ اپنے ہی ملک میں اور اپنے ہی لوگوں کے خلاف استعمال ہوتا ہے۔ چنانچہ آخری آپشن سے پہلے ہر قابل عمل آپشن آزما لینا عقلمندی ہے۔

چنانچہ جب بھی اس ملک میں معطل ریاستی رٹ کو بحال کرنے کے لیے (سابق آرمی چیف جنرل اسلم بیگ کے مطابق ایکسپریس، ٹریبیون، 2 مارچ ) ہارڈ پاور (ریاستی طاقت) استعمال کی جائے۔ کنٹرول حاصل کرنے کے بعد فوراً سوفٹ پاور (سول انتظامیہ) حرکت میں آ جائے تا کہ شورش زدہ علاقے میں قانون کی حکمرانی قائم ہو اور سیاسی سرگرمیاں بحال ہو جائیں۔ اس کے بعد ہارڈ پاور بتدریج وہیں چلا جائے۔ یہاں میں ایک اور ضرورت کی طرف بھی توجہ دلاؤں گا کہ ان مثبت نتائج کو دوام بخشنے کے لیے علاقے میں تعلیم کا چلن، مفلسی کا خاتمہ بھی ضروری ہے۔

پرانے وقتوں کی بات ہمارے اسکول میں ایک کرسچین ڈرائنگ ٹیچر ''نائیڈو صاحب'' ہوا کرتے تھے جن کے پاس ہمیشہ ایک بوتل ہوا کرتی تھی جس میں سیال ہریرہ، دلیہ وغیرہ بھرا رہتا تھا جس سے وہ ہر گھنٹے دو گھنٹے بعد دو چار گھونٹ لے لیا کرتے تھے۔ یہی ان کا ناشتہ ، لنچ، ڈنر تھا۔ ایک دن دریافت کرنے پر بتایا کہ سال میں ایک دو مرتبہ ان کے پیٹ میں اتنا شدید درد اٹھتا تھا کہ وہ زیادہ سے زیادہ آدھا گھنٹہ برداشت کر سکتے تھے پھر بیہوش ہو جاتے تھے پھر رفتہ رفتہ ایسے دوروں کی تعداد بڑھنے لگی اور ہفتے میں ایک دو مرتبہ ہو گئی۔ ہر قسم کا علاج معالجہ، تعویذ گنڈے، ٹونے ٹوٹکے کرا لیے لیکن ذرہ برابر فائدہ نہیں ہوا۔ پھر انھوں نے ساری دوا دارو چھوڑ کر تہیہ کر لیا کہ جب بھی برداشت جواب دے گی خودکشی کر لیں گے۔ اس دوران ان کی مڈبھیڑ ایک سادھو سے ہو گئی وہ اس کے گلے پڑ گئے اور اس کے پیر پکڑ کر بیٹھ گئے۔ اپنی بپتا سنائی اور کسی ''چٹکلے'' کا تقاضا کرنے لگے۔ جب سادھو مجبور ہو گیا تو اسے ایک پڑیا دی اور کہا کہ اس کو کسی محفوظ جگہ رکھ کر بھول جائیں۔ جب خودکشی کرنے لگیں تب بجائے زہر کھانے کے وہ پڑیا پھانک لیں۔ اتنا شدید درد اٹھے گا کہ منٹوں میں بے ہوش ہو جائیں گے۔ اگر ہوش آ گیا تو سمجھ لیں کہ وہ صحت یاب ہو گئے۔ ہمیشہ کے لیے۔ اس کے بعد ان کو چاہیے کہ سیال غذا استعمال کریں۔ خالی پیٹ نہ رہیں۔

اس وقت مرگ مسلسل دہشتگردی سے تنگ آئے ہوئے عوام ''پڑیا'' پھانکنے پر تلے بیٹھے ہیں۔ ان کے انتظار کا پیمانہ کرچی کرچی (کراچی کراچی نہیں) ہو گیا ہے اور صبر کا دامن اس تار تار۔ وہ دہشت گردی سے نجات چاہتے ہیں۔ بات چیت سے ہو یا طاقت سے۔ فریقین (حکومت + طالبان) زور و شور سے مذاکرات کی تیاریاں کر رہے ہیں ۔ نئی حکومتی مذاکراتی ٹیم تشکیل کی جا چکی، وزیر اعظم اور عمران خان ملاقات بھی ہو چکی۔ لیکن ذہنوں میں اندیشوں کا راج بھی ہے۔ فضا پر بے یقینی کی دھند بھی چھائی ہوئی ہے۔ یہاں تک کہ حد نظر صفر رہ گئی ہے۔ اس کے باوجود مذاکرات کو ہونا چاہیے۔ یہ آخری موقعہ ہے۔ دونوں فریق (حکومت+طالبان) یہ سمجھ کر مذاکرات کریں کہ اس کے علاوہ کوئی آپشن ہے ہی نہیں۔ کیوں۔۔۔؟ کیونکہ اب اگر مذاکرات ناکام ہوتے ہیں تو TTP کا سب سے طاقتور بانی گروپ دہشت گردی کے خلاف پاکستان کے پیج پر اگر نہیں بھی آتا ہے تو اس کا غیر جانبدار ہو جانا بھی بڑی کامیابی ہے۔ عمر بن عبدالعزیز (عمر ثانی) سے سوال کیا گیا ''آپ اپنے دشمن سے کس طرح پیش آتے ہیں؟ ''جواب ملا ''میں اسے نیست و نابود کر دیتا ہوں'' پھر سوال کیا گیا ''کیسے؟'' پھر جواب ملا ''میں اسے اپنا دوست بنا لیتا ہوں۔''
Load Next Story