سیلاب کے نقصانات سے بچنے کے لیے نئے ڈیمز بنانا ہوں گے آرمی چیف
سب سے زیادہ تباہی دادو میں ہوئی، عالمی برادری کے ساتھ ہمیں خود بھی آگے بڑھنا ہوگا، جنرل قمر جاوید باجوہ
چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا ہے کہ مستقبل میں نقصانات سے بچنے کے لیے ڈیمز بنانا ہوں گے، جس پر کام شروع کردیا گیا ہے اور آئندہ ہفتے وزیراعظم سمیت تمام وزرائے اعلیٰ کو اس پر تفصیلی بریفنگ بھی دی جائے گی۔
پاک فوج کے شعبۂ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے سندھ کے ضلع دادو میں سیلاب متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا اور متاثرین سے ملاقات کی۔ بعد ازاں سپہ سالار نے ریسکیو اور ریلیف کے کام میں حصہ لینے والے جوانوں سے ملاقات کی۔ سپہ سالار نے متاثرین کے لیے فوری طور پر پانچ ہزار خیمے بھی فراہم کرنے کی ہدایت کی۔
'دادو سیلاب سے سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے'
دورے کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے آرمی چیف نے کہا کہ 'میں نے پاکستان کے تمام سیلاب زدہ علاقوں اوتھل، نصیر آباد، راجن پور، سوات، لاڑکانہ، شہداد کوٹ، خیر پور سمیت دیگر کا دورہ کیا۔ ملک میں سب سے زیادہ تباہی دادو میں ہوئی، جہاں منچھر جھیل اور حمل جھیل کے درمیان 100 کلو میٹر کا فاصلہ ہے تاہم قدرتی آفت کے باعث دونوں جھیلوں کا پانی آپس میں مل چکا ہے۔
'سیلاب متاثرین کی بحالی کے لیے ہمیں صرف عالمی برداری کی مدد پر انحصار نہیں کرنا چاہیے، اپنے بھائیوں کی مدد ہمیں آگے بڑھ کر خود کرنا ہوگی'
انہوں نے کہا کہ دادو کے علاوہ باقی علاقوں میں ریسکیو کا کام ختم ہو چکا ہے، جہاں لوگوں کو سانپ کاٹنے سمیت دیگر مشکلات پیش آئیں وہاں ہم ہیلی کاپٹر بھیجتے ہیں اور ریسکیو کرتے ہیں۔
اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے جنرل قمر جاوید باجوہ کا کہنا تھا کہ دادو میں ریسیکیو کا کام اور امدادی کارروائیاں بھی جاری ہیں، دادو کی آبادی پانچ لاکھ کے قریب ہے لیکن یہاں اب آبادی 10 لاکھ تک پہنچ چکی ہے، اردگرد کے پانی کا بہت زیادہ زور ہے، ڈی سی نے بہت اچھا کام کیا ہے اور پاک فوج کے ساتھ مل کر بند باندھا ہے، شہر کو محفوظ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں'۔
'سندھ اور اربن سندھ کے لوگ آگئے آئیں اور مشکل میں گھرے بھائیوں کی مدد کریں'
انہوں نے کہا کہ سب سے پہلے ہم لوگوں کو ریسکیو کر رہے ہیں، اس وقت پاکستان سے لوگ امداد دے رہے ہیں، پنجاب، خیبرپختونخوا سے کافی امداد آ رہی ہے، سندھ اور اربن سندھ کے لوگوں سے درخواست کرتا ہوں ہمارے بھائی بہت مشکل ہیں، ان کے لیے آگے آئیں اور امداد دیں، ہمیں ہر چیز کے لیے عالمی برادری کو نہیں دیکھنا چاہیے'۔
جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا کہ انٹرنیشنل کمیونٹی نے اپنا کام شروع کر دیا ہے، ورلڈ فوڈ پروگرام، یو ایس ایڈ ، اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے لوگ بھی یہاں پہنچ چکے ہیں جبکہ امریکا، یورپ، چائنہ، مشرق وسطی کے ممالک متحرک ہو گئے ہیں اور وہاں سے طیارے امدادی سامان لیکر آ رہے ہیں، یہ ممالک صرف ایک حد تک مدد کر سکتے ہیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ ہمارے ملک میں لوگوں کی ذمہ داری ہے، آگے آئیں اور اپنے مشکل میں پھنسے بھائیوں کی مدد کریں، سیلاب کے بعد بحالی کا عمل بڑا چیلنج ہے جس میں کافی لمبا عرصہ لگ سکتا ہے اور ہم اس کے لیے ہمیشہ سے تیار ہیں۔
'دریائے سندھ کے ویسٹ سائیڈ نے بہت زیادہ تباہی مچائی'
چیف آف آرمی اسٹاف کا کہنا تھا کہ ہم ہمیشہ دریاؤں کے ذریعے سیلاب کے لیے تیار رہے ہیں،جس علاقے میں اگر پچاس ملی میٹر سالانہ بارش ہوتی ہے، اگر وہاں 1700 ملی میٹر بارش ہفتے میں ہو جائے تو اس کے لیے ہماری تیاری نہیں تھی۔ دریائے سندھ کے ویسٹ سائیڈ نے بہت زیادہ تباہی مچائی ہے۔
'سیلاب سے نمٹنے کے لیے ڈیمز اور نکاسی کے سسٹم پر کام شروع کردیا ہے'
انہوں نے مزید کہا کہ حکومت پاکستان نے 2017 میں عالمی کمپنی سے سیلاب سے متعلق تحقیق کروائی تھی اسے ہم دوبارہ ری وزٹ کریں گے اور دیکھیں گے کہ انڈس دریا کے ویسٹ حصے کے ساتھ ہم نے کیسے نمٹنا ہے، اس کے لیے ہمیں چیک ڈیمز، ڈرین سسٹم بنانا ہوں گے، جس پر کام شروع کر دیا گیا ہے۔
آرمی چیف نے کہا کہ میں نے خود آرمی انجینئرنگ کو ایک ٹاسک دیا ہے اس پر انہوں نے تحقیق بھی مکمل کر لی ہے، اگلے ہفتے ہم وزیراعظم شہباز شریف سمیت چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کو اس معاملے پر بریف کریں گے، اس کے لیے عالمی ماہرین کی بھی مدد لیں گے۔
'جو لوگ بے گھر ہوئے انہیں پری فیب گاؤں بنا کر دیں گے'
سپہ سالار کا کہنا تھا کہ لانگ ٹرم میں جو لوگ بے گھرہوئے ہیں، ان کے لیے بھی پلاننگ کی جا رہی ہے، میرے پاس آئیڈیا ہے ایک پری فیب گاؤں بناتے ہیں اس کی خوبی یہ ہے گاوں چند دنوں میں بن جاتے ہیں، اس کے لیے 50 سے 100 گھروں کا ایک گاوں بنائیں گے، اس کے لیے جگہ منتخب کی جائے گی، جو بلوچستان یا سندھ میں ہو سکتی ہے۔ ان گھروں میں دوبیڈ روم، ایک باتھ ، ایک کچن پر مشتمل گھر ہو گا، جس کا تخمینہ پانچ لاکھ روپے ہے۔ ان گھروں کی زندگی بھی 50 سال سے 100 سال تک ہوتی ہے۔
'سیلاب کے بعد بیماریاں بھی بڑی عفریت بن کر سامنے آرہی ہیں'
انہوں نے کہا کہ سیلاب کی آفت کے بعد بیماریاں بھی بڑی عفریت بن کر سامنے آرہی ہیں، ڈینگی، ملیریا، سمیت دیگر بیماریاں دادو میں سامنے آ رہی ہیں، سندھ کے دیگر علاقوں میں بھی یہ مسئلہ سامنے آ رہا ہے، اس کے لیے اضافی بٹالین میڈیکل متنقل کر رہے ہیں، جو سول اداروں کے ساتھ مل کر لوگوں کو ریلیف فراہم کر رہے ہیں، جب چیلنجز آتے ہیں تو وہاں پر اپروچیونٹی بھی سامنے آتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ 'ان آفت سے ہم نے کافی کچھ سیکھا ہے، آئندہ حکومت کے ساتھ مل کر اچھی پلاننگ کریں گے'۔
ایک سوال کے جواب میں جنرل قمر جاوید باجوہ کا کہنا تھا کہ مجھے بتایا گیا ہے اس وقت کوٹری بیراج سے پانچ لاکھ کا ریلا گزر رہا ہے، جس وقت دریائے سندھ میں پانی کم ہو جائے گا تو منچھر جھیل میں بھی پانی کم ہونا شروع ہو جائے گا، ابھی بھی کچھ علاقوں میں 8 سے 10 فٹ پانی موجود ہے، جو آہستہ آہستہ نیچے آنا شروع ہو جائے گا، خیر پور اور سکھر کے علاقے میں کچھ اور تدبیریں کرنی پڑیں گی، وہاں پر ڈی واٹرنگ اور پمپ لگانا پڑیں گے، انڈس میں اگر پانی کم ہوتا ہے تو منچھر جھیل میں بھی کمی آنا شروع ہو جائے گی، مستقبل میں بند توڑ کر پانی کا رخ اس طرف کر دیں گے، اس کے لیے ہمیں کافی پلاننگ کرنا پڑے گی۔
'پاکستان اکیلا کچھ نہیں کرسکتا، موسمیاتی تبدیلیوں کے لیے دنیا کو مل کر کام کرنا ہوگا'
ان کا کہنا تھا کہ مستقبل کے لیے چھوٹے ڈیم، واٹر سسٹم بنانا پڑے گا، تب جا کر ہی اس مسئلے کا حل نکلے گا، اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری، یو ایس ایڈ اور امریکی کانگریس کے لوگ بھی پاکستان آئے ہیں، انہیں بتایا کاربن کے اخراج میں پاکستان کا حصہ صرف ایک فیصد ہے تاہم دنیا میں ہم سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں، 2010ء میں بھی بڑا سیلاب آیا تھا، 2022 میں ایک مرتبہ پھر سیلاب آیا، عالمی دنیا کے اثرات ہمیں بھگتنا پڑ رہے ہیں، ہمارے گلیشیئرز بھی پگھل رہے ہیں، پاکستان اکیلا کچھ نہیں کر سکتا، پوری دنیا کو ملکر آگے آنا ہوگا اور مصیبت سے نمٹنا کے لیے کام کرنا پڑے گا۔
جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا کہ اس کے لیے دنیا میں ابھی سے آوازیں اٹھانا شروع کر دی گئی ہیں اگر اب کچھ نہ کیا گیا تو تمام دنیا کے لیے مسائل پیدا ہوں گے، اس سال پاکستان میں گرمی کے بعد ایک ساتھ ہی ماحول تبدیل ہو گیا، انگلینڈ میں کچھ مہینے پہلے گیا تھا وہاں پر بھی سخت گرمی تھی، وہاں پر بھی خشک سالی ہوئی ہے، موسمیاتی تبدیلی کا اثر پوری دنیا پر آرہا ہے، سیاچن میں ہمارے گلیشیئرز پگھل رہے ہیں، اس کے لیے ہم دنیا کو باور کروا رہے ہیں کہ ری نیو ایبل کی طرف جایا جائے ، ہائیڈرو کاربن کا استعمال کم سے کم کیا جائے، ہمیں تیل اور کوئلے سے بجلی بنانے کا عمل بھی کم کرنا ہو گا۔
'سوات سمیت مختلف علاقوں میں بڑے ڈیمز بنا کر ہم سیلاب اور موسمیاتی تبدیلیوں کو کنٹرول کرسکتے ہیں'
آرمی چیف نے مزید کہا کہ پاکستان میں مزید بڑے ڈیم بنانا پڑیں گے، کس جگہ پر بنانا پڑیں گے میں کچھ نہیں کہہ سکتا، سوات سمیت دیگر جگہوں پر ڈیم بنانا پڑیں گے، تاکہ سیلاب سے بچنے کے علاوہ ہم بجلی بھی وافر بنا سکیں، گلوبل وارننگ کو بھی کنٹرول کرسکیں۔
پاک فوج کے شعبۂ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے سندھ کے ضلع دادو میں سیلاب متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا اور متاثرین سے ملاقات کی۔ بعد ازاں سپہ سالار نے ریسکیو اور ریلیف کے کام میں حصہ لینے والے جوانوں سے ملاقات کی۔ سپہ سالار نے متاثرین کے لیے فوری طور پر پانچ ہزار خیمے بھی فراہم کرنے کی ہدایت کی۔
'دادو سیلاب سے سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے'
دورے کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے آرمی چیف نے کہا کہ 'میں نے پاکستان کے تمام سیلاب زدہ علاقوں اوتھل، نصیر آباد، راجن پور، سوات، لاڑکانہ، شہداد کوٹ، خیر پور سمیت دیگر کا دورہ کیا۔ ملک میں سب سے زیادہ تباہی دادو میں ہوئی، جہاں منچھر جھیل اور حمل جھیل کے درمیان 100 کلو میٹر کا فاصلہ ہے تاہم قدرتی آفت کے باعث دونوں جھیلوں کا پانی آپس میں مل چکا ہے۔
'سیلاب متاثرین کی بحالی کے لیے ہمیں صرف عالمی برداری کی مدد پر انحصار نہیں کرنا چاہیے، اپنے بھائیوں کی مدد ہمیں آگے بڑھ کر خود کرنا ہوگی'
انہوں نے کہا کہ دادو کے علاوہ باقی علاقوں میں ریسکیو کا کام ختم ہو چکا ہے، جہاں لوگوں کو سانپ کاٹنے سمیت دیگر مشکلات پیش آئیں وہاں ہم ہیلی کاپٹر بھیجتے ہیں اور ریسکیو کرتے ہیں۔
اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے جنرل قمر جاوید باجوہ کا کہنا تھا کہ دادو میں ریسیکیو کا کام اور امدادی کارروائیاں بھی جاری ہیں، دادو کی آبادی پانچ لاکھ کے قریب ہے لیکن یہاں اب آبادی 10 لاکھ تک پہنچ چکی ہے، اردگرد کے پانی کا بہت زیادہ زور ہے، ڈی سی نے بہت اچھا کام کیا ہے اور پاک فوج کے ساتھ مل کر بند باندھا ہے، شہر کو محفوظ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں'۔
'سندھ اور اربن سندھ کے لوگ آگئے آئیں اور مشکل میں گھرے بھائیوں کی مدد کریں'
انہوں نے کہا کہ سب سے پہلے ہم لوگوں کو ریسکیو کر رہے ہیں، اس وقت پاکستان سے لوگ امداد دے رہے ہیں، پنجاب، خیبرپختونخوا سے کافی امداد آ رہی ہے، سندھ اور اربن سندھ کے لوگوں سے درخواست کرتا ہوں ہمارے بھائی بہت مشکل ہیں، ان کے لیے آگے آئیں اور امداد دیں، ہمیں ہر چیز کے لیے عالمی برادری کو نہیں دیکھنا چاہیے'۔
جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا کہ انٹرنیشنل کمیونٹی نے اپنا کام شروع کر دیا ہے، ورلڈ فوڈ پروگرام، یو ایس ایڈ ، اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے لوگ بھی یہاں پہنچ چکے ہیں جبکہ امریکا، یورپ، چائنہ، مشرق وسطی کے ممالک متحرک ہو گئے ہیں اور وہاں سے طیارے امدادی سامان لیکر آ رہے ہیں، یہ ممالک صرف ایک حد تک مدد کر سکتے ہیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ ہمارے ملک میں لوگوں کی ذمہ داری ہے، آگے آئیں اور اپنے مشکل میں پھنسے بھائیوں کی مدد کریں، سیلاب کے بعد بحالی کا عمل بڑا چیلنج ہے جس میں کافی لمبا عرصہ لگ سکتا ہے اور ہم اس کے لیے ہمیشہ سے تیار ہیں۔
'دریائے سندھ کے ویسٹ سائیڈ نے بہت زیادہ تباہی مچائی'
چیف آف آرمی اسٹاف کا کہنا تھا کہ ہم ہمیشہ دریاؤں کے ذریعے سیلاب کے لیے تیار رہے ہیں،جس علاقے میں اگر پچاس ملی میٹر سالانہ بارش ہوتی ہے، اگر وہاں 1700 ملی میٹر بارش ہفتے میں ہو جائے تو اس کے لیے ہماری تیاری نہیں تھی۔ دریائے سندھ کے ویسٹ سائیڈ نے بہت زیادہ تباہی مچائی ہے۔
'سیلاب سے نمٹنے کے لیے ڈیمز اور نکاسی کے سسٹم پر کام شروع کردیا ہے'
انہوں نے مزید کہا کہ حکومت پاکستان نے 2017 میں عالمی کمپنی سے سیلاب سے متعلق تحقیق کروائی تھی اسے ہم دوبارہ ری وزٹ کریں گے اور دیکھیں گے کہ انڈس دریا کے ویسٹ حصے کے ساتھ ہم نے کیسے نمٹنا ہے، اس کے لیے ہمیں چیک ڈیمز، ڈرین سسٹم بنانا ہوں گے، جس پر کام شروع کر دیا گیا ہے۔
آرمی چیف نے کہا کہ میں نے خود آرمی انجینئرنگ کو ایک ٹاسک دیا ہے اس پر انہوں نے تحقیق بھی مکمل کر لی ہے، اگلے ہفتے ہم وزیراعظم شہباز شریف سمیت چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کو اس معاملے پر بریف کریں گے، اس کے لیے عالمی ماہرین کی بھی مدد لیں گے۔
'جو لوگ بے گھر ہوئے انہیں پری فیب گاؤں بنا کر دیں گے'
سپہ سالار کا کہنا تھا کہ لانگ ٹرم میں جو لوگ بے گھرہوئے ہیں، ان کے لیے بھی پلاننگ کی جا رہی ہے، میرے پاس آئیڈیا ہے ایک پری فیب گاؤں بناتے ہیں اس کی خوبی یہ ہے گاوں چند دنوں میں بن جاتے ہیں، اس کے لیے 50 سے 100 گھروں کا ایک گاوں بنائیں گے، اس کے لیے جگہ منتخب کی جائے گی، جو بلوچستان یا سندھ میں ہو سکتی ہے۔ ان گھروں میں دوبیڈ روم، ایک باتھ ، ایک کچن پر مشتمل گھر ہو گا، جس کا تخمینہ پانچ لاکھ روپے ہے۔ ان گھروں کی زندگی بھی 50 سال سے 100 سال تک ہوتی ہے۔
'سیلاب کے بعد بیماریاں بھی بڑی عفریت بن کر سامنے آرہی ہیں'
انہوں نے کہا کہ سیلاب کی آفت کے بعد بیماریاں بھی بڑی عفریت بن کر سامنے آرہی ہیں، ڈینگی، ملیریا، سمیت دیگر بیماریاں دادو میں سامنے آ رہی ہیں، سندھ کے دیگر علاقوں میں بھی یہ مسئلہ سامنے آ رہا ہے، اس کے لیے اضافی بٹالین میڈیکل متنقل کر رہے ہیں، جو سول اداروں کے ساتھ مل کر لوگوں کو ریلیف فراہم کر رہے ہیں، جب چیلنجز آتے ہیں تو وہاں پر اپروچیونٹی بھی سامنے آتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ 'ان آفت سے ہم نے کافی کچھ سیکھا ہے، آئندہ حکومت کے ساتھ مل کر اچھی پلاننگ کریں گے'۔
ایک سوال کے جواب میں جنرل قمر جاوید باجوہ کا کہنا تھا کہ مجھے بتایا گیا ہے اس وقت کوٹری بیراج سے پانچ لاکھ کا ریلا گزر رہا ہے، جس وقت دریائے سندھ میں پانی کم ہو جائے گا تو منچھر جھیل میں بھی پانی کم ہونا شروع ہو جائے گا، ابھی بھی کچھ علاقوں میں 8 سے 10 فٹ پانی موجود ہے، جو آہستہ آہستہ نیچے آنا شروع ہو جائے گا، خیر پور اور سکھر کے علاقے میں کچھ اور تدبیریں کرنی پڑیں گی، وہاں پر ڈی واٹرنگ اور پمپ لگانا پڑیں گے، انڈس میں اگر پانی کم ہوتا ہے تو منچھر جھیل میں بھی کمی آنا شروع ہو جائے گی، مستقبل میں بند توڑ کر پانی کا رخ اس طرف کر دیں گے، اس کے لیے ہمیں کافی پلاننگ کرنا پڑے گی۔
'پاکستان اکیلا کچھ نہیں کرسکتا، موسمیاتی تبدیلیوں کے لیے دنیا کو مل کر کام کرنا ہوگا'
ان کا کہنا تھا کہ مستقبل کے لیے چھوٹے ڈیم، واٹر سسٹم بنانا پڑے گا، تب جا کر ہی اس مسئلے کا حل نکلے گا، اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری، یو ایس ایڈ اور امریکی کانگریس کے لوگ بھی پاکستان آئے ہیں، انہیں بتایا کاربن کے اخراج میں پاکستان کا حصہ صرف ایک فیصد ہے تاہم دنیا میں ہم سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں، 2010ء میں بھی بڑا سیلاب آیا تھا، 2022 میں ایک مرتبہ پھر سیلاب آیا، عالمی دنیا کے اثرات ہمیں بھگتنا پڑ رہے ہیں، ہمارے گلیشیئرز بھی پگھل رہے ہیں، پاکستان اکیلا کچھ نہیں کر سکتا، پوری دنیا کو ملکر آگے آنا ہوگا اور مصیبت سے نمٹنا کے لیے کام کرنا پڑے گا۔
جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا کہ اس کے لیے دنیا میں ابھی سے آوازیں اٹھانا شروع کر دی گئی ہیں اگر اب کچھ نہ کیا گیا تو تمام دنیا کے لیے مسائل پیدا ہوں گے، اس سال پاکستان میں گرمی کے بعد ایک ساتھ ہی ماحول تبدیل ہو گیا، انگلینڈ میں کچھ مہینے پہلے گیا تھا وہاں پر بھی سخت گرمی تھی، وہاں پر بھی خشک سالی ہوئی ہے، موسمیاتی تبدیلی کا اثر پوری دنیا پر آرہا ہے، سیاچن میں ہمارے گلیشیئرز پگھل رہے ہیں، اس کے لیے ہم دنیا کو باور کروا رہے ہیں کہ ری نیو ایبل کی طرف جایا جائے ، ہائیڈرو کاربن کا استعمال کم سے کم کیا جائے، ہمیں تیل اور کوئلے سے بجلی بنانے کا عمل بھی کم کرنا ہو گا۔
'سوات سمیت مختلف علاقوں میں بڑے ڈیمز بنا کر ہم سیلاب اور موسمیاتی تبدیلیوں کو کنٹرول کرسکتے ہیں'
آرمی چیف نے مزید کہا کہ پاکستان میں مزید بڑے ڈیم بنانا پڑیں گے، کس جگہ پر بنانا پڑیں گے میں کچھ نہیں کہہ سکتا، سوات سمیت دیگر جگہوں پر ڈیم بنانا پڑیں گے، تاکہ سیلاب سے بچنے کے علاوہ ہم بجلی بھی وافر بنا سکیں، گلوبل وارننگ کو بھی کنٹرول کرسکیں۔