مافیا۔ سب دھندہ ہے یہ…آخری قسط
منشیات کے خاتمہ کو ایک باقاعدہ جنگ سمجھ کر جنگی بنیادوں پر اس کے خلاف کوئی لائحہ عمل طے کرنا ہوگا
جب بھی ہم مافیا کا ذکر کریں تو ہمیں یہ بات ہمیشہ ذہن میں رکھنی چاہیے کہ ہر منافع بخش محکمہ یا شعبے کے لوگ اس مافیا کے... ''پے رول'' پر ہوتے ہیں جو ان کے خلاف کسی بھی کارروائی کی یا تو انھیں پیشگی اطلاع دے دیتے ہیں یا پھر اگر ان کے خلاف کوئی کارروائی شروع بھی ہو جائے تو اسے پایہ تکمیل تک نہ پہنچنے دینا ان کی اولین ذمے داری ہوتی ہے، کیونکہ اس کام کے لیے انھیں بہت ''مناسب مشاہرہ'' دیا جاتا ہے۔
ڈرگ مافیا ... میں نے گزشتہ کالم میں کراچی میں بکنے والی منشیات کا ذکر کیا جو کسی کے قابو ہی نہیں آرہی۔ اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ ہمارے تحقیقاتی اداروں کے پاس صلاحیت نہیں ہے بلکہ اس کی وجہ صرف ان اداروں کے اندر موجود وہ بدعنوان افسران و ملازمان ہیں جو منشیات کے خلاف ہونے والی کسی بھی بڑی کارروائی کی پیشگی اطلاع انھیںدے دیتے ہیں جس کی وجہ سے کوئی بھی بڑی کارروائی کبھی بھی کامیاب نہیں ہوتی۔
کراچی کے گنجان آبادی والے علاقے جہاں تنگ اور چھوٹی چھوٹی گلیوں کی وجہ سے وہاں سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کا گذرنا بہت ہی مشکل ہوتا ہے منشیات کی خریدو فروخت کی جنت تصور کیے جاتے ہیں۔ اس کی دوسری جانب کراچی کے پوش علاقوں میں کرسٹل اور آئس جیسے نشے اب بہت آسانی سے دستیاب ہیں کیونکہ یہ مہنگا نشہ ہے، اس لیے، اس کے خریدار بھی پوش علاقوں میں ہی ملتے ہیں۔ منشیات مافیا کی رسائی ان تمام اداروں میں ہے جومنشیات کی خرید و فروخت اور ترسیل کو روکنے کے ذمے دار ہیں۔
کالی بھیڑیں ہر جگہ موجود ہیں جن کا دین ایمان صرف اور صرف مال بنانا ہے اور جائز ذریعہ سے مال بنانا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ کسی بھی محکمے میں کالی بھیڑوںکو ڈھونڈنا کوئی ایسا مشکل کام نہیں ہے، اگر سینئر افسران ایماندار ہوں اور کسی قسم کالین دین نہ کرتے ہوں تو پھر یہ معاملات نچلی سطح پر ہی طے کر لیے جاتے ہیں اور اوپر سب اچھا ہے کی رپورٹ دی جاتی ہے، لیکن منشیات کی خرید و فروخت کبھی بند نہیں ہوئی۔
دراصل پوری صلاحیت استعمال کرنے کے اور تمام تر سرکاری وسائل استعمال کرنے کے باوجود بھی ابھی تک منشیات کی کراچی شہر کے اندر ترسیل کو نہیں روکا جا سکا۔ جس کی سب سے بڑی وجہ کرپشن اور کرپٹ افسران و اہلکاروں کی اہم پوزیشنز پر تعیناتی ہے۔ منشیات کی خرید و فروخت اور ترسیل کی ''موکل'' دینے کے صلے میں ان کرپٹ افسران کو اتنا پیسہ دیا جاتا ہے کہ ان کی عقل مائوف ہو جاتی ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر یہ منشیات کراچی تک پہنچتی کیسے ہے؟ جب تک اس کی سپلائی بند نہیں ہو گی، اس لعنت سے ہم کبھی چھٹکارا نہیں پا سکتے۔ کراچی شہر میں داخلے کے بظاہر صرف دو ہی بڑے راستے ہیں، براستہ سپر ہائی وے یا براستہ حب، بلوچستان۔ یہ وہ دو بڑے راستے ہیں جن سے منشیات اور غیرقانونی اسلحے کی بڑی کھیپ کراچی پہنچائی جاتی ہے۔ یہ کھیپ بسوں، ٹرکوں اور دیگر پبلک ٹرانسپورٹ کے ذریعے لائی جاتی ہے۔
کراچی کے ان دونوں داخلی راستوں ، ہائی ویز کے دونوں جانب، کچی آبادیاں آباد ہیں جو منشیات اور غیر قانونی اسلحے کا ذخیرہ کرنے کا سب سے بڑامرکز ہیں۔زیادہ تر منشیات اور غیر قانونی اسلحہ پہلے ان کچی آبادیوںمیںاتارا جاتا ہے پھر وہاں سے بتدریج مختلف ذرایع سے کراچی منتقل کیا جاتاہے، چونکہ عام طور پر خواتین کی سخت چیکنگ کرنا روایتی طور پر ممکن نہیں ہے اس لیے پچھلے کئی سالوں سے منشیات کی نقل و حرکت میں خواتین کو استعمال کیا جاتا ہے، جو چھوٹی سواریوں کے ذریعے یہ منشیات کراچی منتقل کرتی ہیں، اگر ان مرکزی راستوں پر خواتین کی تلاشی کے لیے بڑی تعداد میں لیڈی پولیس کا استعمال کیا جائے تو یہ سلسلہ ختم تو پھر بھی نہیں ہو گا لیکن کم ضرور ہو سکتا ہے۔
لیکن بد قسمتی سے پولیس کے محکمے میں لیڈی پولیس سے سخت ڈیوٹی لینا جوئے شیر لانے کے برابرہے لیکن ناممکن ہر گز نہیں ہے۔ اگر منشیات کی روک تھام میں انتظامیہ واقعی سنجیدہ ہے تو پھر سب سے پہلے ان کچی آبادیوں میں ''کریک ڈاون'' کرنا از حد ضروری ہے۔ ماضی میں شاید ایک دو بار ایسا ہوا بھی ہے لیکن جب تک ان آبادیوں کا گھیرائو کیا گیا اس سے قبل ہی ان میں رہائش پذیر مافیا کے کارندوں کو ان کے ''مخلص '' دوستوں نے اطلاع کردی اور کوئی مثبت نتیجہ نہ نکل سکا۔ ان کچی آبادیوںمیں صرف منشیات ہی نہیں بلکہ کراچی سے چوری اور ڈکیتی کے دوران لوٹا جانے والا مال بھی سستے داموں خریدا جا سکتا ہے۔ اس مافیا کی جڑیں پولیس اور دیگر تحقیقاتی ایجنسیوں کے اندر تک ہیں
اس لیے اس کا خاتمہ تو کجا اس میں کمی بھی نہیں لا جاسکی۔
ایک سب سے بڑا مذاق یہ کیا جاتا ہے کہ اعلیٰ افسران کی جانب سے ہر چند ماہ کے بعد منشیات فروشوں کے خلاف ایک مہم چلانے کا حکم جاری ہوتا ہے ، تو سوال یہ ہے کہ ایسا کوئی ''حکم ''جاری کرنے کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے جب کہ پولیس اور دیگر اداروں کا کام ہی منشیات فروشوں اور دیگر جرائم پیشہ افراد کے خلاف روزانہ کی بنیاد پر کارروائی کرنا ہے؟ جب بھی ایسی کوئی مہم شروع ہوتی ہے تو سختی سے حکم آتا ہے کہ کسی بھی تھانے سے NIL رپورٹ نہ آئے۔ اب ہوتا کیا ہے۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق ایسی مہم میں آج تک کوئی بڑا منشیات فروش نہیں پکڑا گیا بلکہ صرف گنتی پوری کرنے کے لیے اور NIL رپورٹ کی صورت میں تادیبی کارروائیوں سے بچنے کے لیے تمام تھانے منشیات کے عادی افراد کو پکڑ پکڑ کر بند کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ جن پر چند سو گرام چرس، ہیروئن وغیرہ اپنے ذرایع سے حاصل کر کے ''رکھ'' کر ایف۔ آئی۔ آر درج کر دی جاتی ہے۔ یہ منشیات کے عادی افراد پولیس کے لیے ایک درد سر ہیں کیونکہ ان کی حالت کو ٹھیک رکھنے کے لیے پولیس کو انھیں لاک اپ کے اندر تک منشیات مہیا کرنا پڑتی ہے بصورت دیگر یہ لاک اپ کے اندر قیامت برپا کر دیتے ہیں بلکہ ایسے متعدد واقعات ریکارڈ پر موجود ہیں جب ان لوگوں نے لاک اپ کے اندر ہی خود کو نہ صرف زخمی کر لیا بلکہ خودکشی کی بھی کوشش کی ، یعنی ایسی کارروائی پولیس کے اپنے گلے پڑ گئی۔
زیادہ تر ہیروئن یا چرس ہی پکڑی یا ان پر ''رکھی'' جاتی ہے۔ کرسٹل اور آئس جیسی مہنگی ''پراڈکٹس ''کی توشاذ و نادرہی کبھی کوئی بڑی مقدار پکڑی گئی ہو، اسی لیے وہ ان منشیات کے عادی افراد پر ''رکھی'' بھی نہیں جا سکتی۔ شہر میں بڑھنے والے ''اسٹریٹ کرائم'' کی ایک بڑی وجہ بھی منشیات کا استعمال ہے، جس کی وجہ سے ہر روز کسی نہ کسی شہری کو اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑتا ہے۔
اس وقت سب سے پریشان کن بات یہ ہے کہ منشیات کا استعمال کراچی کے پوش علاقوں کی یونیورسٹیز اور کالجز میں ایک وبا ء کی شکل اختیار کرتا جا رہا ہے، جہاں ان یونیورسٹیز اور کالجزکے طلبا و طالبات کرسٹل، ہیروئن اور چرس جیسے موذی اور جان لیوا نشے کے عادی بنتے جا رہے ہیں، جو ہماری موجودہ اور آنے والی نسل کے لیے ایک خطرہ کی گھنٹی ہے۔ بہت منظم طریقے سے یہ منشیات اسکول، کالج اور یونیورسٹی کے طلبا اور طالبات کو فروخت کی جا رہی ہے اور ادارے خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔
ڈرگ مافیا کا ان طلبا اور طالبات کو نشانہ بنانا ایک منظم سازش نظر آتی ہے، تاکہ آنے والے وقت ان تعلیمی اداروں سے طالب علموں کے بجائے منشیات کے عادی نوجوان پیدا ہوں،جو نہ صرف اپنی ذات، اپنے والدین بلکہ معاشرہ کے لیے ایک انتہائی پریشان کن اور خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔ جب تعلیمی ادارے اچھے اور لائق طالب علم پیدا کرنے میں ناکام ہو جائیں گے تو آنے والے سالوں میںہمیں کوئی بھی ایسا لائق شخص ڈھونڈے سے بھی نہیںمل سکے گا جو اس ملک کی ترقی اور خوشحالی میں اہم کردار اد ا کر سکے۔کرسٹل، ہیروئن اور آئس وہ نشے ہیں جن کی لت میں پڑ کر نوجوان نسل رشتوں ناتوں کو بھول جاتی ہے۔
اگر ہمارے ادارے واقعی منشیات کے خاتمے کے لیے سنجیدہ ہیں تو پھر انھیں آپس میں باہمی رابطوں کے ذریعے پہلے اپنے اندر موجود ''کالی بھیڑوں'' کی نشاندہی کر کے انھیں کیفر کردار تک پہنچانا ہو گا اور پھر منشیات کے خاتمہ کو ایک باقاعدہ جنگ سمجھ کر جنگی بنیادوں پر اس کے خلاف کوئی لائحہ عمل طے کرنا ہوگا۔ ویسے بھی سیانے کہتے ہیں
"WHERE THERE IS A WILL, THERE IS A WAY"
ڈرگ مافیا ... میں نے گزشتہ کالم میں کراچی میں بکنے والی منشیات کا ذکر کیا جو کسی کے قابو ہی نہیں آرہی۔ اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ ہمارے تحقیقاتی اداروں کے پاس صلاحیت نہیں ہے بلکہ اس کی وجہ صرف ان اداروں کے اندر موجود وہ بدعنوان افسران و ملازمان ہیں جو منشیات کے خلاف ہونے والی کسی بھی بڑی کارروائی کی پیشگی اطلاع انھیںدے دیتے ہیں جس کی وجہ سے کوئی بھی بڑی کارروائی کبھی بھی کامیاب نہیں ہوتی۔
کراچی کے گنجان آبادی والے علاقے جہاں تنگ اور چھوٹی چھوٹی گلیوں کی وجہ سے وہاں سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کا گذرنا بہت ہی مشکل ہوتا ہے منشیات کی خریدو فروخت کی جنت تصور کیے جاتے ہیں۔ اس کی دوسری جانب کراچی کے پوش علاقوں میں کرسٹل اور آئس جیسے نشے اب بہت آسانی سے دستیاب ہیں کیونکہ یہ مہنگا نشہ ہے، اس لیے، اس کے خریدار بھی پوش علاقوں میں ہی ملتے ہیں۔ منشیات مافیا کی رسائی ان تمام اداروں میں ہے جومنشیات کی خرید و فروخت اور ترسیل کو روکنے کے ذمے دار ہیں۔
کالی بھیڑیں ہر جگہ موجود ہیں جن کا دین ایمان صرف اور صرف مال بنانا ہے اور جائز ذریعہ سے مال بنانا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ کسی بھی محکمے میں کالی بھیڑوںکو ڈھونڈنا کوئی ایسا مشکل کام نہیں ہے، اگر سینئر افسران ایماندار ہوں اور کسی قسم کالین دین نہ کرتے ہوں تو پھر یہ معاملات نچلی سطح پر ہی طے کر لیے جاتے ہیں اور اوپر سب اچھا ہے کی رپورٹ دی جاتی ہے، لیکن منشیات کی خرید و فروخت کبھی بند نہیں ہوئی۔
دراصل پوری صلاحیت استعمال کرنے کے اور تمام تر سرکاری وسائل استعمال کرنے کے باوجود بھی ابھی تک منشیات کی کراچی شہر کے اندر ترسیل کو نہیں روکا جا سکا۔ جس کی سب سے بڑی وجہ کرپشن اور کرپٹ افسران و اہلکاروں کی اہم پوزیشنز پر تعیناتی ہے۔ منشیات کی خرید و فروخت اور ترسیل کی ''موکل'' دینے کے صلے میں ان کرپٹ افسران کو اتنا پیسہ دیا جاتا ہے کہ ان کی عقل مائوف ہو جاتی ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر یہ منشیات کراچی تک پہنچتی کیسے ہے؟ جب تک اس کی سپلائی بند نہیں ہو گی، اس لعنت سے ہم کبھی چھٹکارا نہیں پا سکتے۔ کراچی شہر میں داخلے کے بظاہر صرف دو ہی بڑے راستے ہیں، براستہ سپر ہائی وے یا براستہ حب، بلوچستان۔ یہ وہ دو بڑے راستے ہیں جن سے منشیات اور غیرقانونی اسلحے کی بڑی کھیپ کراچی پہنچائی جاتی ہے۔ یہ کھیپ بسوں، ٹرکوں اور دیگر پبلک ٹرانسپورٹ کے ذریعے لائی جاتی ہے۔
کراچی کے ان دونوں داخلی راستوں ، ہائی ویز کے دونوں جانب، کچی آبادیاں آباد ہیں جو منشیات اور غیر قانونی اسلحے کا ذخیرہ کرنے کا سب سے بڑامرکز ہیں۔زیادہ تر منشیات اور غیر قانونی اسلحہ پہلے ان کچی آبادیوںمیںاتارا جاتا ہے پھر وہاں سے بتدریج مختلف ذرایع سے کراچی منتقل کیا جاتاہے، چونکہ عام طور پر خواتین کی سخت چیکنگ کرنا روایتی طور پر ممکن نہیں ہے اس لیے پچھلے کئی سالوں سے منشیات کی نقل و حرکت میں خواتین کو استعمال کیا جاتا ہے، جو چھوٹی سواریوں کے ذریعے یہ منشیات کراچی منتقل کرتی ہیں، اگر ان مرکزی راستوں پر خواتین کی تلاشی کے لیے بڑی تعداد میں لیڈی پولیس کا استعمال کیا جائے تو یہ سلسلہ ختم تو پھر بھی نہیں ہو گا لیکن کم ضرور ہو سکتا ہے۔
لیکن بد قسمتی سے پولیس کے محکمے میں لیڈی پولیس سے سخت ڈیوٹی لینا جوئے شیر لانے کے برابرہے لیکن ناممکن ہر گز نہیں ہے۔ اگر منشیات کی روک تھام میں انتظامیہ واقعی سنجیدہ ہے تو پھر سب سے پہلے ان کچی آبادیوں میں ''کریک ڈاون'' کرنا از حد ضروری ہے۔ ماضی میں شاید ایک دو بار ایسا ہوا بھی ہے لیکن جب تک ان آبادیوں کا گھیرائو کیا گیا اس سے قبل ہی ان میں رہائش پذیر مافیا کے کارندوں کو ان کے ''مخلص '' دوستوں نے اطلاع کردی اور کوئی مثبت نتیجہ نہ نکل سکا۔ ان کچی آبادیوںمیں صرف منشیات ہی نہیں بلکہ کراچی سے چوری اور ڈکیتی کے دوران لوٹا جانے والا مال بھی سستے داموں خریدا جا سکتا ہے۔ اس مافیا کی جڑیں پولیس اور دیگر تحقیقاتی ایجنسیوں کے اندر تک ہیں
اس لیے اس کا خاتمہ تو کجا اس میں کمی بھی نہیں لا جاسکی۔
ایک سب سے بڑا مذاق یہ کیا جاتا ہے کہ اعلیٰ افسران کی جانب سے ہر چند ماہ کے بعد منشیات فروشوں کے خلاف ایک مہم چلانے کا حکم جاری ہوتا ہے ، تو سوال یہ ہے کہ ایسا کوئی ''حکم ''جاری کرنے کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے جب کہ پولیس اور دیگر اداروں کا کام ہی منشیات فروشوں اور دیگر جرائم پیشہ افراد کے خلاف روزانہ کی بنیاد پر کارروائی کرنا ہے؟ جب بھی ایسی کوئی مہم شروع ہوتی ہے تو سختی سے حکم آتا ہے کہ کسی بھی تھانے سے NIL رپورٹ نہ آئے۔ اب ہوتا کیا ہے۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق ایسی مہم میں آج تک کوئی بڑا منشیات فروش نہیں پکڑا گیا بلکہ صرف گنتی پوری کرنے کے لیے اور NIL رپورٹ کی صورت میں تادیبی کارروائیوں سے بچنے کے لیے تمام تھانے منشیات کے عادی افراد کو پکڑ پکڑ کر بند کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ جن پر چند سو گرام چرس، ہیروئن وغیرہ اپنے ذرایع سے حاصل کر کے ''رکھ'' کر ایف۔ آئی۔ آر درج کر دی جاتی ہے۔ یہ منشیات کے عادی افراد پولیس کے لیے ایک درد سر ہیں کیونکہ ان کی حالت کو ٹھیک رکھنے کے لیے پولیس کو انھیں لاک اپ کے اندر تک منشیات مہیا کرنا پڑتی ہے بصورت دیگر یہ لاک اپ کے اندر قیامت برپا کر دیتے ہیں بلکہ ایسے متعدد واقعات ریکارڈ پر موجود ہیں جب ان لوگوں نے لاک اپ کے اندر ہی خود کو نہ صرف زخمی کر لیا بلکہ خودکشی کی بھی کوشش کی ، یعنی ایسی کارروائی پولیس کے اپنے گلے پڑ گئی۔
زیادہ تر ہیروئن یا چرس ہی پکڑی یا ان پر ''رکھی'' جاتی ہے۔ کرسٹل اور آئس جیسی مہنگی ''پراڈکٹس ''کی توشاذ و نادرہی کبھی کوئی بڑی مقدار پکڑی گئی ہو، اسی لیے وہ ان منشیات کے عادی افراد پر ''رکھی'' بھی نہیں جا سکتی۔ شہر میں بڑھنے والے ''اسٹریٹ کرائم'' کی ایک بڑی وجہ بھی منشیات کا استعمال ہے، جس کی وجہ سے ہر روز کسی نہ کسی شہری کو اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑتا ہے۔
اس وقت سب سے پریشان کن بات یہ ہے کہ منشیات کا استعمال کراچی کے پوش علاقوں کی یونیورسٹیز اور کالجز میں ایک وبا ء کی شکل اختیار کرتا جا رہا ہے، جہاں ان یونیورسٹیز اور کالجزکے طلبا و طالبات کرسٹل، ہیروئن اور چرس جیسے موذی اور جان لیوا نشے کے عادی بنتے جا رہے ہیں، جو ہماری موجودہ اور آنے والی نسل کے لیے ایک خطرہ کی گھنٹی ہے۔ بہت منظم طریقے سے یہ منشیات اسکول، کالج اور یونیورسٹی کے طلبا اور طالبات کو فروخت کی جا رہی ہے اور ادارے خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔
ڈرگ مافیا کا ان طلبا اور طالبات کو نشانہ بنانا ایک منظم سازش نظر آتی ہے، تاکہ آنے والے وقت ان تعلیمی اداروں سے طالب علموں کے بجائے منشیات کے عادی نوجوان پیدا ہوں،جو نہ صرف اپنی ذات، اپنے والدین بلکہ معاشرہ کے لیے ایک انتہائی پریشان کن اور خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔ جب تعلیمی ادارے اچھے اور لائق طالب علم پیدا کرنے میں ناکام ہو جائیں گے تو آنے والے سالوں میںہمیں کوئی بھی ایسا لائق شخص ڈھونڈے سے بھی نہیںمل سکے گا جو اس ملک کی ترقی اور خوشحالی میں اہم کردار اد ا کر سکے۔کرسٹل، ہیروئن اور آئس وہ نشے ہیں جن کی لت میں پڑ کر نوجوان نسل رشتوں ناتوں کو بھول جاتی ہے۔
اگر ہمارے ادارے واقعی منشیات کے خاتمے کے لیے سنجیدہ ہیں تو پھر انھیں آپس میں باہمی رابطوں کے ذریعے پہلے اپنے اندر موجود ''کالی بھیڑوں'' کی نشاندہی کر کے انھیں کیفر کردار تک پہنچانا ہو گا اور پھر منشیات کے خاتمہ کو ایک باقاعدہ جنگ سمجھ کر جنگی بنیادوں پر اس کے خلاف کوئی لائحہ عمل طے کرنا ہوگا۔ ویسے بھی سیانے کہتے ہیں
"WHERE THERE IS A WILL, THERE IS A WAY"