سیاست کا رنگیلا پن
عمران خان کو پلانٹ اور بیل آؤٹ کروانے والے چاہتے ہیں کہ وہ اقتدار میں آکر آئین کی اٹھارویں ترمیم کو ختم کریں
سیلاب کی تباہی اور بربادی سے پریشان اوربے روزگاری کے ذریعے معاشی تنگدستی میں مبتلا محروم عوام کو عمران خان کے عدالتی فرد جرم عائد کرنے یا نا اہلی سے کیوں دلچسپی رہے،جب کہ عوام سیاست اور اقتدار کے ان سارے مداریوں کو جانتی ہے جو ہمہ وقت طاقت کے اشاروں کے منتظر کبھی بھوک و پیاس ختم کرنے،کبھی عام آدمی کو انصاف فراہم کرنے اور کبھی اسلامی ٹچ کے نعرے دے کر عوام کو سیاسی شعور دینے کے مقابل ذہنی غلام بنانے کا دھندا کرتے رہتے ہیں۔
عوام کا بنیادی سوال عزت و وقار سے مناسب معاشی ضروریات کو پورا کرنے کا ہے،عوام کا سوال اپنے سیاسی،جمہوری اور انسانی حقوق حاصل کرنے کا ہے،جو کوئی بھی حکمران عوام کو ان کے بنیادی حقوق 75 برس بعد بھی نہیں دے پایا ہے۔ عوام کا سوال یہ نہیں کہ عمران خان کو کس نے لانچ کیا؟،عوام عمران خان کی منظر عام پر آنے والی مختلف حرکات، غیر سیاسی بیانات، توہین عدالت کے معاملات و غلط تاریخی حوالوں میں اپنے جمہوری حقوق سے زیادہ دلچسپی ہرگز نہیں رکھتے۔
سوال یہ بھی نہیں کہ غیر جمہوری قیادت پر اس کے ماورا آئین اقدامات کی روشنی میں تنقید نہ کی جائے،ملکی سیاسی تاریخ کے ہر زمانے اور سیاسی حالات کے تناظر میںغیر جمہوری قوتوں کی سیاست میں مداخلت پر ہمیشہ سیاسی طرز سے تنقید کی جاتی رہی ہے بلکہ سیاسی حقوق کی تحاریک کمیونسٹوں،ڈی ایس ایف،این ایس ایف سے لے کر محترمہ فاطمہ جناح،نصرت بھٹو اور بے نظیر بھٹو کے علاوہ کسی قدر نوازشریف نے بھی چلائیں اور ان سیاسی تحاریک نے اپنے ہدف حاصل بھی کیے ہیں جس کی مثال جنرل ایوب کے جبری ون یونٹ بنانے کی غیر جمہوری سوچ تھی،جس یکطرفہ قانون کو عوامی تحریک کے نتیجے میں جنرل یحیی کی قیادت کو ختم کرنا پڑا۔
اس سوال پر بھی ابتدا ہی سے سیاسی قیادت اور غیر سیاسی قیادت کے درمیان تضاد رہا کہ یہ ملک جمہوری انداز سے چلے اور اسے سیکیورٹی اسٹیٹ نہ بنایا جائے؟جمہوری قوتیں ملک میں ہمیشہ جمہوری طرز حکمرانی پر زور دیتی رہیں جب کہ،اقتدار کی خواہاں غیر جمہوری قوتوں کا موقف رہا کہ خطے کے حالات کے تناظر میں اسے سیکیورٹی اسٹیٹ بنایا جائے۔
سیاست دانوں اور غیر جمہوری قوتوں کے درمیان یہی وہ بنیادی تنازعہ تھا کہ جس نے ملک میں کم و بیش 24 برس آئین نہ بننے دیا،اور پھر ملک کے دو لخت ہونے کے بعد غیر جمہوری قوتوں نے اپنی ہم خیال سیاسی مذہبی جماعتوں کو ہم نوا بنا کر نیم سیکیورٹی اسٹیٹ کے طور پر 1973 کے متفقہ آئین کو مجبوری میں قبول کیا،غیر جمہوری قوتوں کی جانب سے 73 کے آئین کی کڑوی گولی کو چھ برس بھی برداشت نہ کیا گیا اور نظام مصطفی کی تحریک کے ذریعے جمہوری اور منتخب حکومت کی بساط لپیٹنے کی کوشش شروع کر دی گئی اور 1977 میں مارشل لا لگا دیا گیا، اور متفقہ آئین کے خلاف اقتدار لے کر دھڑا دھڑ من پسند مطلق العنان ترامیم کرکے آئین کا حلیہ بگاڑ دیا گیا۔
آئین سے انحراف پر جنرل ضیا کے خلاف ایم آر ڈی کی منظم سیاسی تحریک ابھری اور غیر آئینی اقدامات و ترامیم کو نہیں مانا گیا،گو جنرل ضیا کے غیر آئینی اقتدار اور ترامیم میں بعض مذہبی و سیاسی جماعتیں کابینہ کا حصہ بھی رہیں اور آئین کے بر خلاف ملک کو سیکیورٹی اسٹیٹ رکھنے میں حکومت کی غیر آئینی مدد بھی کی۔
جمہوریت پر یقین رکھنے والی جماعتوں کی کمزور آواز کے مقابل سیکیورٹی اسٹیٹ کے بیانیئے کو کبھی قومی سلامتی تو کبھی اسلام کا قلعہ بنانے کی کوششیں اپنی من پسند بعض مذہبی و سیاسی جماعتوں کے ذریعے جاری رکھی گئیں،اور گاہے گاہے سیکیورٹی اسٹیٹ کے غیر آئینی موقف کو قائم رکھنے کے لیے حمایتی سیاسی جماعتوں کے چولے بھی تبدیل کیے گئے،تاریخی طور پر ان بعض مذہبی و سیاسی جماعتوں کو مذہبی کارڈ کے حوالے سے افغان جنگ میں استعمال کرکے امریکی ڈالروں کا حصہ دار بنایا گیا،مگر زمانے کی ارتقائی تبدیلی کے خوف سے ان جماعتوں کی قیادت کو ماڈرن مذہبی اور تبدیلی پسند رہنما کے طور پر پیش کیا گیا۔
خطے کی سیاسی تبدیلیوں کے تناظر میں اپنے اقتدار کو مضبوط کرنے کی غرض سے آمرانہ مزاج کی سیکیورٹی اسٹیٹ قائم رکھنے والی ان مذہبی و سیاسی جماعتوں کو پھر حالات کے تقاضوں کے تحت پیچھے دھکیلا گیا اور ان کے مقابل لسانیت کا عوامی تقسیم بیانیہ لا کر ملک کے سب سے اہم معاشی شہر میں ایم کیو ایم بنائی۔ موجودہ سیاسی ماحول میں ملکی سیاسی تاریخ سے بے خبر غیر سیاسی نسل کو ایک مرتبہ پھر ہیرو ور شپ کے بخار میں مبتلا کرکے عمران خان کے کمزور بیانیے کو مضبوط کرنے کی خطرناک کوشش جاری ہے،جس کے اجزائے ترکیبی کو سمجھنا بہت ضروری ہے،اس پوری ہنگامہ خیز سیاسی صورتحال میں یہ سوال بہت اہم ہے کہ کیوں اور کن مقاصد کے تحت عمران خان کو سیاست میں لایا گیا اور اپنے کن خاص مطلوبہ اہداف کے لیے چنا گیا،آیا ان کی وجوہات کیا تھیں اور کیا ہو سکتی ہیں۔
سوشل میڈیا ٹیکنالوجی میں ماڈرن مزاج کے کرکٹر عمران خان کو جہاں ہیرو بنانے کے قرائن میں مستقبل کے لیے امریکی Paradigm یعنی غیر جمہوری آمرانہ طرز فکر نمونہ اپنانے کے لیے چنا گیا،جس میں شہرت اور ہیرو ور شپ کو ایڈورٹائزنگ کی مدد لے کر آج کی سوشل میڈیا کے ٹول کو مہارت کے ساتھ استعمال کیا گیا اور جنرل ضیا کی طلبہ سیاست کی نس بندی کی وجہ سے پیدا ہونے والی غیر سیاسی نئی نسل کو ہیرو ور شپ میں مبتلا رکھنے کی منصوبہ بندی کی گئی جسے آج تحریک انصاف کی سیاست میں دیکھا جا سکتا ہے، جس میں بیک وقت خاص منصوبہ بندی کے تحت جھوٹ بولنا اور عوام کے تبصروں میں مسلسل رہنے کی حکمت عملی اپنائی گئی ہے،جو بظاہر تو جھوٹ اور غلط تاریخی حوالوں سے عبارت ہے مگر یہ عالمی منصوبہ بندی کے تحت پروپیگنڈہ مارکیٹ کی اصطلاح میں عوام کے اندر موضوع بننے اور شہرت حاصل کرنے کا منفی مارکیٹنگ کا سادہ اور عام سا فرد کو بہکانے کا وہ خطرناک طریقہ ہے،جسے نظریاتی سوشلسٹ اور سنجیدہ جمہوری و سیاسی حلقوں اور تجزیہ کاروں کو بہت باریکی سے نہ صرف دیکھنا ہے بلکہ غلط معاشی اعداد و شمار پیش کرنے کے منفی مارکیٹنگ '' جن'' کے مقابل مثبت سیاسی و سماجی اور دور رس ٹیکنالوجی کا طریقہ ڈھونڈنا ہے۔
موجودہ سیاست میں نظر آنے والی لڑائی یا تضاد کی بنیادی وجہ اٹھارویں ترمیم ہے جس نے آئین کی بحالی کا اہم کام کیا ہے،پاکستان کے سیاسی ماحول کی گاڑی کو چلانے والی اٹھارویں ترمیم میں جمہوری آئین کی بحالی پر پھر ایک مرتبہ جنرل ایوب کے یکطرفہ طاقت اور اقتدار اپنے پاس رکھنے والوں کا کھیل شروع کیا گیا۔
عمران خان کو پلانٹ اور بیل آؤٹ کروانے والے چاہتے ہیں کہ وہ اقتدار میں آکر آئین کی اٹھارویں ترمیم کو ختم کریں یا جنرل ضیا کی طرح اس ترمیم کا حلیہ بگاڑنے کے لیے پارلیمنٹ کا استعمال کرکے عوام میں جمہوریت کا ڈھنڈورا پیٹا جائے،جب کہ دوسری سوچ کا پیراڈائم ان کی فاشسٹ سوچ کے مدمقابل اب تک ایک بہت مضبوط اور مثبت سوچ کے ساتھ رکاوٹ بن کر کھڑا ہے۔اصل جنگ اور تضاد جمہوری سوچ اور آمرانہ سوچ کے نکتہ نظر کی ہے،جسے جتنی جلد سمجھ لیا جائے گا،اتنا ہی جلد امکانات ہیں کہ ملک آہستہ آہستہ جمہوریت کی جانب بڑھنا شروع ہو سکتا ہے۔
عوام کا بنیادی سوال عزت و وقار سے مناسب معاشی ضروریات کو پورا کرنے کا ہے،عوام کا سوال اپنے سیاسی،جمہوری اور انسانی حقوق حاصل کرنے کا ہے،جو کوئی بھی حکمران عوام کو ان کے بنیادی حقوق 75 برس بعد بھی نہیں دے پایا ہے۔ عوام کا سوال یہ نہیں کہ عمران خان کو کس نے لانچ کیا؟،عوام عمران خان کی منظر عام پر آنے والی مختلف حرکات، غیر سیاسی بیانات، توہین عدالت کے معاملات و غلط تاریخی حوالوں میں اپنے جمہوری حقوق سے زیادہ دلچسپی ہرگز نہیں رکھتے۔
سوال یہ بھی نہیں کہ غیر جمہوری قیادت پر اس کے ماورا آئین اقدامات کی روشنی میں تنقید نہ کی جائے،ملکی سیاسی تاریخ کے ہر زمانے اور سیاسی حالات کے تناظر میںغیر جمہوری قوتوں کی سیاست میں مداخلت پر ہمیشہ سیاسی طرز سے تنقید کی جاتی رہی ہے بلکہ سیاسی حقوق کی تحاریک کمیونسٹوں،ڈی ایس ایف،این ایس ایف سے لے کر محترمہ فاطمہ جناح،نصرت بھٹو اور بے نظیر بھٹو کے علاوہ کسی قدر نوازشریف نے بھی چلائیں اور ان سیاسی تحاریک نے اپنے ہدف حاصل بھی کیے ہیں جس کی مثال جنرل ایوب کے جبری ون یونٹ بنانے کی غیر جمہوری سوچ تھی،جس یکطرفہ قانون کو عوامی تحریک کے نتیجے میں جنرل یحیی کی قیادت کو ختم کرنا پڑا۔
اس سوال پر بھی ابتدا ہی سے سیاسی قیادت اور غیر سیاسی قیادت کے درمیان تضاد رہا کہ یہ ملک جمہوری انداز سے چلے اور اسے سیکیورٹی اسٹیٹ نہ بنایا جائے؟جمہوری قوتیں ملک میں ہمیشہ جمہوری طرز حکمرانی پر زور دیتی رہیں جب کہ،اقتدار کی خواہاں غیر جمہوری قوتوں کا موقف رہا کہ خطے کے حالات کے تناظر میں اسے سیکیورٹی اسٹیٹ بنایا جائے۔
سیاست دانوں اور غیر جمہوری قوتوں کے درمیان یہی وہ بنیادی تنازعہ تھا کہ جس نے ملک میں کم و بیش 24 برس آئین نہ بننے دیا،اور پھر ملک کے دو لخت ہونے کے بعد غیر جمہوری قوتوں نے اپنی ہم خیال سیاسی مذہبی جماعتوں کو ہم نوا بنا کر نیم سیکیورٹی اسٹیٹ کے طور پر 1973 کے متفقہ آئین کو مجبوری میں قبول کیا،غیر جمہوری قوتوں کی جانب سے 73 کے آئین کی کڑوی گولی کو چھ برس بھی برداشت نہ کیا گیا اور نظام مصطفی کی تحریک کے ذریعے جمہوری اور منتخب حکومت کی بساط لپیٹنے کی کوشش شروع کر دی گئی اور 1977 میں مارشل لا لگا دیا گیا، اور متفقہ آئین کے خلاف اقتدار لے کر دھڑا دھڑ من پسند مطلق العنان ترامیم کرکے آئین کا حلیہ بگاڑ دیا گیا۔
آئین سے انحراف پر جنرل ضیا کے خلاف ایم آر ڈی کی منظم سیاسی تحریک ابھری اور غیر آئینی اقدامات و ترامیم کو نہیں مانا گیا،گو جنرل ضیا کے غیر آئینی اقتدار اور ترامیم میں بعض مذہبی و سیاسی جماعتیں کابینہ کا حصہ بھی رہیں اور آئین کے بر خلاف ملک کو سیکیورٹی اسٹیٹ رکھنے میں حکومت کی غیر آئینی مدد بھی کی۔
جمہوریت پر یقین رکھنے والی جماعتوں کی کمزور آواز کے مقابل سیکیورٹی اسٹیٹ کے بیانیئے کو کبھی قومی سلامتی تو کبھی اسلام کا قلعہ بنانے کی کوششیں اپنی من پسند بعض مذہبی و سیاسی جماعتوں کے ذریعے جاری رکھی گئیں،اور گاہے گاہے سیکیورٹی اسٹیٹ کے غیر آئینی موقف کو قائم رکھنے کے لیے حمایتی سیاسی جماعتوں کے چولے بھی تبدیل کیے گئے،تاریخی طور پر ان بعض مذہبی و سیاسی جماعتوں کو مذہبی کارڈ کے حوالے سے افغان جنگ میں استعمال کرکے امریکی ڈالروں کا حصہ دار بنایا گیا،مگر زمانے کی ارتقائی تبدیلی کے خوف سے ان جماعتوں کی قیادت کو ماڈرن مذہبی اور تبدیلی پسند رہنما کے طور پر پیش کیا گیا۔
خطے کی سیاسی تبدیلیوں کے تناظر میں اپنے اقتدار کو مضبوط کرنے کی غرض سے آمرانہ مزاج کی سیکیورٹی اسٹیٹ قائم رکھنے والی ان مذہبی و سیاسی جماعتوں کو پھر حالات کے تقاضوں کے تحت پیچھے دھکیلا گیا اور ان کے مقابل لسانیت کا عوامی تقسیم بیانیہ لا کر ملک کے سب سے اہم معاشی شہر میں ایم کیو ایم بنائی۔ موجودہ سیاسی ماحول میں ملکی سیاسی تاریخ سے بے خبر غیر سیاسی نسل کو ایک مرتبہ پھر ہیرو ور شپ کے بخار میں مبتلا کرکے عمران خان کے کمزور بیانیے کو مضبوط کرنے کی خطرناک کوشش جاری ہے،جس کے اجزائے ترکیبی کو سمجھنا بہت ضروری ہے،اس پوری ہنگامہ خیز سیاسی صورتحال میں یہ سوال بہت اہم ہے کہ کیوں اور کن مقاصد کے تحت عمران خان کو سیاست میں لایا گیا اور اپنے کن خاص مطلوبہ اہداف کے لیے چنا گیا،آیا ان کی وجوہات کیا تھیں اور کیا ہو سکتی ہیں۔
سوشل میڈیا ٹیکنالوجی میں ماڈرن مزاج کے کرکٹر عمران خان کو جہاں ہیرو بنانے کے قرائن میں مستقبل کے لیے امریکی Paradigm یعنی غیر جمہوری آمرانہ طرز فکر نمونہ اپنانے کے لیے چنا گیا،جس میں شہرت اور ہیرو ور شپ کو ایڈورٹائزنگ کی مدد لے کر آج کی سوشل میڈیا کے ٹول کو مہارت کے ساتھ استعمال کیا گیا اور جنرل ضیا کی طلبہ سیاست کی نس بندی کی وجہ سے پیدا ہونے والی غیر سیاسی نئی نسل کو ہیرو ور شپ میں مبتلا رکھنے کی منصوبہ بندی کی گئی جسے آج تحریک انصاف کی سیاست میں دیکھا جا سکتا ہے، جس میں بیک وقت خاص منصوبہ بندی کے تحت جھوٹ بولنا اور عوام کے تبصروں میں مسلسل رہنے کی حکمت عملی اپنائی گئی ہے،جو بظاہر تو جھوٹ اور غلط تاریخی حوالوں سے عبارت ہے مگر یہ عالمی منصوبہ بندی کے تحت پروپیگنڈہ مارکیٹ کی اصطلاح میں عوام کے اندر موضوع بننے اور شہرت حاصل کرنے کا منفی مارکیٹنگ کا سادہ اور عام سا فرد کو بہکانے کا وہ خطرناک طریقہ ہے،جسے نظریاتی سوشلسٹ اور سنجیدہ جمہوری و سیاسی حلقوں اور تجزیہ کاروں کو بہت باریکی سے نہ صرف دیکھنا ہے بلکہ غلط معاشی اعداد و شمار پیش کرنے کے منفی مارکیٹنگ '' جن'' کے مقابل مثبت سیاسی و سماجی اور دور رس ٹیکنالوجی کا طریقہ ڈھونڈنا ہے۔
موجودہ سیاست میں نظر آنے والی لڑائی یا تضاد کی بنیادی وجہ اٹھارویں ترمیم ہے جس نے آئین کی بحالی کا اہم کام کیا ہے،پاکستان کے سیاسی ماحول کی گاڑی کو چلانے والی اٹھارویں ترمیم میں جمہوری آئین کی بحالی پر پھر ایک مرتبہ جنرل ایوب کے یکطرفہ طاقت اور اقتدار اپنے پاس رکھنے والوں کا کھیل شروع کیا گیا۔
عمران خان کو پلانٹ اور بیل آؤٹ کروانے والے چاہتے ہیں کہ وہ اقتدار میں آکر آئین کی اٹھارویں ترمیم کو ختم کریں یا جنرل ضیا کی طرح اس ترمیم کا حلیہ بگاڑنے کے لیے پارلیمنٹ کا استعمال کرکے عوام میں جمہوریت کا ڈھنڈورا پیٹا جائے،جب کہ دوسری سوچ کا پیراڈائم ان کی فاشسٹ سوچ کے مدمقابل اب تک ایک بہت مضبوط اور مثبت سوچ کے ساتھ رکاوٹ بن کر کھڑا ہے۔اصل جنگ اور تضاد جمہوری سوچ اور آمرانہ سوچ کے نکتہ نظر کی ہے،جسے جتنی جلد سمجھ لیا جائے گا،اتنا ہی جلد امکانات ہیں کہ ملک آہستہ آہستہ جمہوریت کی جانب بڑھنا شروع ہو سکتا ہے۔