متاثرین کی بحالی بڑا چیلنج
ہم اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتے کہ ان بارشوں اور سیلاب نے ایک بہت بڑے انسانی المیے کو بھی جنم دیا ہے
وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ پاکستان کو چیلنجز سے نمٹنے کے لیے عالمی برادری کی مدد کی ضرورت ہے۔ سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں انھوں نے کہا کہ سیکریٹری جنرل اقوام متحدہ کی جانب سے سیلاب متاثرین کی بے مثال معاونت پر ممنون ہیں۔
ہم اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتے کہ ان بارشوں اور سیلاب نے ایک بہت بڑے انسانی المیے کو بھی جنم دیا ہے اور اب پاکستان کے لیے ان متاثرین کی بحالی بھی ایک بہت بڑا معاشی چیلنج ہوگی۔ پہلے ہی اقتصادی مشکلات کے شکار ملک کو تقریبا 10 ارب ڈالر سے زائد مالی نقصان ہوا ہے۔ انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر امداد اور بحالی کے کاموں کے لیے اقوام متحدہ سمیت مختلف بین الاقوامی تنظیموں، مالیاتی اداروں اور ممالک نے امداد مہیا کرنے کے وعدے کیے ہیں۔
یونیسیف کو خدشہ ہے کہ 30 لاکھ سے زائد بچوں کو پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں، غذائی قلت اور سیلابی پانی میں ڈوبنے کے خطرات کا سامنا ہے۔ یونیسف نے ان مسائل سے نمٹنے کے لیے 37ملین ڈالر امداد کی اپیل کر رکھی ہے۔ یونیسیف کے بچوں کو درپیش ماحولیاتی خطرے کے انڈیکس میں پاکستان کا 163 ممالک میں سے 14واں نمبر ہے۔
اس عالمی ادارے کا کہنا ہے کہ سیلابوں نے کم از کم 18 ہزار اسکولوں کو نقصان پہنچایا ہے یا انھیں مکمل طور پر تباہ کر دیا ہے۔ یونیسف کے اندازوں کے مطابق اس قدرتی آفت نے16 ملین بچوں پر بھی اثر ڈالا، جن میں سے 3.4 ملین کو امداد کی ضرورت ہے۔ ڈبلیو ایچ او کے اندازے کے مطابق صحت کی تقریباً 900 سہولیات کو نقصان پہنچا، جن میں سے 180مکمل طور پر تباہ ہو گئی ہیں۔ عالمی ادارہ صحت نے انکشاف کیا ہے کہ متاثرہ علاقوں میں پانی کے 30 فیصد نظام کو نقصان پہنچنے کا تخمینہ لگایا گیا ہے، جس سے بیماریوں کے پھیلنے کا خطرہ مزید بڑھ گیا ہے اور لوگ غیر محفوظ پانی پی رہے ہیں۔
موجودہ سیلاب کی شدت 2010 کے میگا فلڈ سے بھی زیادہ ہے ، کیونکہ اُس سیلاب کا پانی دریاؤں کے اندر تھا جس سے دریاؤں کا قریبی علاقہ ہی متاثر ہوا ، مگر شدید بارشوں کے اس سیلاب کے اثرات وسیع تر نوعیت کے ہیں جن سے جنوبی پنجاب، سندھ اور بلوچستان کا بڑا حصہ شدید متاثر ہوا ہے۔ وسط جون سے اب تک مسلسل بارشوں کی وجہ سے آبی ذخائر مکمل بھر چکے ہیں دریاؤں میں بھی پانی کی سطح بلند ہے مگر بارشوں کا سلسلہ بدستور جاری ہے اور یہ مزید جاری رہنے کی پیشگوئی کی گئی ہے۔ ان حالات میں متاثرہ علاقوں میں نقصانات میں اضافے کا اندیشہ ہے۔
اس وقت صورتحال خوفناک المیے میں تبدیل ہو چکی ہے، معلوم ہوتا ہے کہ بروقت اقدامات میں تاخیر کا اس میں بڑا عمل دخل ہے۔ محکمہ موسمیات کی جانب سے اس سال جون میں آگاہ کیا گیا تھا کہ مون سون سیزن میں معمول سے زیادہ بارشیں ہو سکتی ہیں مگر ایسا نہیں لگتا کہ اس خدشے کو مد نظر رکھتے ہوئے اربن فلڈنگ کی صورت میں بچاؤ کے بہتر انتظامات اور بروقت تیاری کی گئی۔ سیاسی صورتحال توجہ کا محور رہی اور سیلاب زدگان کی جانب توجہ اسی وقت ہوئی جب واقعتاً پانی سر سے گزر چکا تھا اور پنجاب سندھ اور بلوچستان کے بڑے حصے میں سیلاب کی تباہ کاریاں اپنا اثر دکھا چکی تھیں۔
سیلاب زدہ علاقوں سے خیموں، دواؤں اور خوراک کے بحران کی خبریں تواتر سے آ رہی ہیں اور اقوام متحدہ کی جانب سے امداد پہنچنے تک سیلاب زدگان کو بھوک شیلٹر اور بیماریوں کی صورت میں مزید مشکلات سے گزرنا پڑے گا۔ متاثرہ علاقوں میں بارشیں مسلسل جاری رہی ہیں اور یہ سلسلہ آنے والے کئی روز تک جاری رہنے کی اطلاعات ہیں جس سے سیلاب زدگان کی مشکلات اور نقصانات میں اضافے کا اندیشہ ہے۔
ملک کے رفاحی ادارے ان حالات میں متاثرین کے لیے امداد پہنچا رہے ہیں مگر ان کے متحرک ہونے میں بھی دیر ہوئی اور رفاحی اداروں کی کپیسٹی کا سوال بھی ہے۔ اس ہنگامی صورتحال میں عوام خاص طور پر سمندر پار پاکستانیوں سے امداد کی اپیل خاصی مددگار ثابت ہو سکتی تھی مگر یہ فیصلہ ہونے میں بھی تاخیر ہوئی، مگر ان اپیلوں سے قبل حکومت کو سیلاب زدگان کی جانب متوجہ ہونا چاہیے تھا۔
2010 اور آج کے حالات میں جو فرق نمایاں ہے وہ یہ کہ اُس وقت سیلاب زدگان کے مصائب سے آگاہی اور ان کی بروقت امداد کے لیے حکومتی اور عوامی سطح پر آج کے مقابلے میں کہیں زیادہ سنجیدگی پائی جاتی تھی اس کا نتیجہ عالمی تعاون کی صورت میں بھی سامنے آیا، اگر حالیہ سیلاب اُس میگا فلڈ سے زیادہ خطرناک ہیں تو ضروری ہے کہ حکومت 2010 کی حکومت کے مقابلے میں زیادہ فکر مندی اور سنجیدگی دکھائے۔
تاہم ایسے حالات میں ذمے داری صرف حکومتوں پر عائد کر دینا کافی نہیں اصولی طور پر اس کے لیے قومی یکجہتی کی ضرورت ہوتی ہے اور سیاسی اختلافات کو بھلا کر قومی اور انسانی ہمدردی کے جذبے کے ساتھ کام کرنا ضروری ہوتا ہے۔
بنیادی ڈھانچے کو پہنچنے والے نقصان نے صورت حال کو مزید خراب کر دیا ہے۔ 3,000 کلومیٹر سے زیادہ سڑکوں اور 145 پلوں کی جزوی یا مکمل تباہی لوگوں کے محفوظ علاقوں کی طرف بھاگنے یا بازاروں، اسپتالوں یا دیگر اہم خدمات تک پہنچنے کی صلاحیت کو روکتی ہے۔
ضرورت مند لوگوں تک امداد کی فراہمی میں تاخیر اور انٹرنیٹ کی بندش کی بھی اطلاعات ملی ہیں۔ ان سارے نقصانات کا حجم اس رقم سے کہیں بڑا ہے جو سیلاب کی روک تھام کے منصوبوں پر خرچ ہو سکتی ہے، اگر حکومت کوہ سلیمان کے نزدیک بارشی ڈیم، کالام اور میانوالی کے پاس پانی کو ذخیرہ کرنے کا انتظام کر لے تو آیندہ اس نوع کے نقصانات سے بچا جا سکتا ہے۔بے حسی کی چادر نے ہمارے ایوانوں کو سر بمہر کر دیا ہے۔ ہمارے مرکزی اور صوبائی وزراء کو اپنے پرسکون دفتروں میں بیٹھنے کے بجائے متاثرہ علاقوں کے ریلیف کیمپس ہونا چاہیے۔
اقتدار اور سیاست کے کھیل میں عوام کا کام صرف نعرے لگانا اور ووٹ دینے کی حد تک رہ گیا ہے۔ پاکستان کے بے بس سیلاب زدہ عوام لیڈروں اور حکمرانوں کو اپنے مسائل کے حل کے لیے پکار رہے ہیں تو قائدین و رہنما کیوں اس پر توجہ نہیں دے رہے ہیں شاید ان کی ترجیحات سیاسی مخالفین کے خلاف دشنام طرازی اور پرچہ بازی ہو۔ وفاقی حکومت کو تمام تر وسائل متاثرہ علاقوں میں امدادی اور بحالی کی سرگرمیوں پر لگانے چاہئیں۔ بلوچستان کا انفرا اسٹرکچر بری طرح تباہ و برباد ہوچکا ہے۔
جنوبی پنجاب میں انڈس ہائی وے شدید ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ عوام کی لرزہ دینے والی چیخ و پکار سے حکومتی ایوانوں میں معمولی سی ہلچل پیدا ہوئی ہے۔ بلوچستان حکومت کے ترجمان فرح عظیم نے اسلام آباد میں بلوچستان کے سیلاب سے متاثرین کے لیے ڈونرز کانفرنس کا اہتمام کیا ہے جس میں اقوام متحدہ کی تمام ایجنسیوں کے کنٹری ڈائریکٹر ، سفارت خانوں کے نمایندوں، بین الاقوامی ڈونر ایجنسیوں ، این جی اوز اور متعلقہ حکومتی نمایندوں نے شرکت کی ہے۔ ہمارے لیے یہ باعث غور و فکر ہے ماضی کے برعکس ہم قومی سطح پر اپنا مثبت کردار سرانجام دینے میں ناکام رہے ہیں۔
ماضی میں جب بھی کسی آفت کا لوگوں کو سامنا ہوتا تھا تو ہر پاکستانی آگے بڑھ کر اپنی استطاعت کے مطابق بھرپور انداز سے حصہ لیتا تھا۔ تاجر برادری اور صاحب ثروت لوگ کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرتے تھے اس طرح محسوس ہوتا ہے کہ ایثار و قربانی کا جذبہ ماند پڑ چکا ہے، بدحال معیشت نے لوگوں کے منہ سے نوالے چھین لیے ہیں۔
محکمہ موسمیات نے خبردار کرتے ہوئے آنے والے دنوں میں سندھ ، جنوبی پنجاب ، بلوچستان میں مزید طوفانی بارشوں کی پشین گوئی کی ہے۔ مصیبت مسلسل سیلاب زدہ علاقوں کواپنے نرغے میں لیے ہوئے ہے، مسلح افواج کے 45 سو جوان بلوچستان میں امدادی سرگرمیوں میں اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ پاکستان کی بحریہ اور فضائیہ بھی امدادی سرگرمیوں میں بھرپور انداز سے حصہ لے رہی ہے، لیکن پاکستان کے شہریوں کی بڑی تعداد امدادی سرگرمیوں سے لا تعلق ہے۔
سب مذہبی اور سیاسی جماعتوں کو مل کر امدادی سرگرمیوں میں بھرپور حصہ لینا چاہیے۔ حکومت کو اتفاق رائے سے ایک مارشل پلان آفتوں سے نپٹنے کے لیے بنا لیناچاہیے۔سیاسی بے یقینی نے پہلے ہی ملک کو معاشی مشکلات کی دلدل میں پھنسا رکھا ہے، غیر معمولی بارشوں اور سیلابی ریلوں سے ہونے والے جانی اور مالی نقصانات نے صورتحال کو اور سنگین بنا دیا ہے۔
ایسے میں ملک کی سیاسی قیادت اقتدار کی جنگ میں الجھی ہوئی ہے۔ ایک دوسرے کے خلاف مقدمات بنانے اور زہریلی بیان بازی روزمرہ کا معمول بن گیا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس وقت ملک کی فکر کی جائے اور بارشوں، سیلاب، مہنگائی اور بے روزگاری سے تباہ حال عوام پر توجہ دی جائے، ایجی ٹیشن کی سیاست کو کم سے کم وقتی طور پر ترک کر کے تدبر اور ہوش مندی کا راستہ اختیار کیا جائے۔
دنیا بھر میں سیاسی جماعتیں ماحولیات کے معاملے کو سنگین خطرہ سمجھ کر پالیسیاں بنا رہی ہیں۔ پاکستان کی سیاسی قیادت ابھی تک اسے ایک وقتی آفت سمجھ کر نظریں چرا رہی ہے۔ پاکستان ماحولیاتی بگاڑ سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے خطے میں واقع ہے ، عالمی برادری سے ماحولیاتی اصلاح کے نام پر تعاون طلب کرتے ہوئے اگر قابل عمل منصوبے ترتیب دیے جا سکیں تو آیندہ ملک کو تباہی سے محفوظ رکھا جا سکتا ہے۔
ہم اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتے کہ ان بارشوں اور سیلاب نے ایک بہت بڑے انسانی المیے کو بھی جنم دیا ہے اور اب پاکستان کے لیے ان متاثرین کی بحالی بھی ایک بہت بڑا معاشی چیلنج ہوگی۔ پہلے ہی اقتصادی مشکلات کے شکار ملک کو تقریبا 10 ارب ڈالر سے زائد مالی نقصان ہوا ہے۔ انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر امداد اور بحالی کے کاموں کے لیے اقوام متحدہ سمیت مختلف بین الاقوامی تنظیموں، مالیاتی اداروں اور ممالک نے امداد مہیا کرنے کے وعدے کیے ہیں۔
یونیسیف کو خدشہ ہے کہ 30 لاکھ سے زائد بچوں کو پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں، غذائی قلت اور سیلابی پانی میں ڈوبنے کے خطرات کا سامنا ہے۔ یونیسف نے ان مسائل سے نمٹنے کے لیے 37ملین ڈالر امداد کی اپیل کر رکھی ہے۔ یونیسیف کے بچوں کو درپیش ماحولیاتی خطرے کے انڈیکس میں پاکستان کا 163 ممالک میں سے 14واں نمبر ہے۔
اس عالمی ادارے کا کہنا ہے کہ سیلابوں نے کم از کم 18 ہزار اسکولوں کو نقصان پہنچایا ہے یا انھیں مکمل طور پر تباہ کر دیا ہے۔ یونیسف کے اندازوں کے مطابق اس قدرتی آفت نے16 ملین بچوں پر بھی اثر ڈالا، جن میں سے 3.4 ملین کو امداد کی ضرورت ہے۔ ڈبلیو ایچ او کے اندازے کے مطابق صحت کی تقریباً 900 سہولیات کو نقصان پہنچا، جن میں سے 180مکمل طور پر تباہ ہو گئی ہیں۔ عالمی ادارہ صحت نے انکشاف کیا ہے کہ متاثرہ علاقوں میں پانی کے 30 فیصد نظام کو نقصان پہنچنے کا تخمینہ لگایا گیا ہے، جس سے بیماریوں کے پھیلنے کا خطرہ مزید بڑھ گیا ہے اور لوگ غیر محفوظ پانی پی رہے ہیں۔
موجودہ سیلاب کی شدت 2010 کے میگا فلڈ سے بھی زیادہ ہے ، کیونکہ اُس سیلاب کا پانی دریاؤں کے اندر تھا جس سے دریاؤں کا قریبی علاقہ ہی متاثر ہوا ، مگر شدید بارشوں کے اس سیلاب کے اثرات وسیع تر نوعیت کے ہیں جن سے جنوبی پنجاب، سندھ اور بلوچستان کا بڑا حصہ شدید متاثر ہوا ہے۔ وسط جون سے اب تک مسلسل بارشوں کی وجہ سے آبی ذخائر مکمل بھر چکے ہیں دریاؤں میں بھی پانی کی سطح بلند ہے مگر بارشوں کا سلسلہ بدستور جاری ہے اور یہ مزید جاری رہنے کی پیشگوئی کی گئی ہے۔ ان حالات میں متاثرہ علاقوں میں نقصانات میں اضافے کا اندیشہ ہے۔
اس وقت صورتحال خوفناک المیے میں تبدیل ہو چکی ہے، معلوم ہوتا ہے کہ بروقت اقدامات میں تاخیر کا اس میں بڑا عمل دخل ہے۔ محکمہ موسمیات کی جانب سے اس سال جون میں آگاہ کیا گیا تھا کہ مون سون سیزن میں معمول سے زیادہ بارشیں ہو سکتی ہیں مگر ایسا نہیں لگتا کہ اس خدشے کو مد نظر رکھتے ہوئے اربن فلڈنگ کی صورت میں بچاؤ کے بہتر انتظامات اور بروقت تیاری کی گئی۔ سیاسی صورتحال توجہ کا محور رہی اور سیلاب زدگان کی جانب توجہ اسی وقت ہوئی جب واقعتاً پانی سر سے گزر چکا تھا اور پنجاب سندھ اور بلوچستان کے بڑے حصے میں سیلاب کی تباہ کاریاں اپنا اثر دکھا چکی تھیں۔
سیلاب زدہ علاقوں سے خیموں، دواؤں اور خوراک کے بحران کی خبریں تواتر سے آ رہی ہیں اور اقوام متحدہ کی جانب سے امداد پہنچنے تک سیلاب زدگان کو بھوک شیلٹر اور بیماریوں کی صورت میں مزید مشکلات سے گزرنا پڑے گا۔ متاثرہ علاقوں میں بارشیں مسلسل جاری رہی ہیں اور یہ سلسلہ آنے والے کئی روز تک جاری رہنے کی اطلاعات ہیں جس سے سیلاب زدگان کی مشکلات اور نقصانات میں اضافے کا اندیشہ ہے۔
ملک کے رفاحی ادارے ان حالات میں متاثرین کے لیے امداد پہنچا رہے ہیں مگر ان کے متحرک ہونے میں بھی دیر ہوئی اور رفاحی اداروں کی کپیسٹی کا سوال بھی ہے۔ اس ہنگامی صورتحال میں عوام خاص طور پر سمندر پار پاکستانیوں سے امداد کی اپیل خاصی مددگار ثابت ہو سکتی تھی مگر یہ فیصلہ ہونے میں بھی تاخیر ہوئی، مگر ان اپیلوں سے قبل حکومت کو سیلاب زدگان کی جانب متوجہ ہونا چاہیے تھا۔
2010 اور آج کے حالات میں جو فرق نمایاں ہے وہ یہ کہ اُس وقت سیلاب زدگان کے مصائب سے آگاہی اور ان کی بروقت امداد کے لیے حکومتی اور عوامی سطح پر آج کے مقابلے میں کہیں زیادہ سنجیدگی پائی جاتی تھی اس کا نتیجہ عالمی تعاون کی صورت میں بھی سامنے آیا، اگر حالیہ سیلاب اُس میگا فلڈ سے زیادہ خطرناک ہیں تو ضروری ہے کہ حکومت 2010 کی حکومت کے مقابلے میں زیادہ فکر مندی اور سنجیدگی دکھائے۔
تاہم ایسے حالات میں ذمے داری صرف حکومتوں پر عائد کر دینا کافی نہیں اصولی طور پر اس کے لیے قومی یکجہتی کی ضرورت ہوتی ہے اور سیاسی اختلافات کو بھلا کر قومی اور انسانی ہمدردی کے جذبے کے ساتھ کام کرنا ضروری ہوتا ہے۔
بنیادی ڈھانچے کو پہنچنے والے نقصان نے صورت حال کو مزید خراب کر دیا ہے۔ 3,000 کلومیٹر سے زیادہ سڑکوں اور 145 پلوں کی جزوی یا مکمل تباہی لوگوں کے محفوظ علاقوں کی طرف بھاگنے یا بازاروں، اسپتالوں یا دیگر اہم خدمات تک پہنچنے کی صلاحیت کو روکتی ہے۔
ضرورت مند لوگوں تک امداد کی فراہمی میں تاخیر اور انٹرنیٹ کی بندش کی بھی اطلاعات ملی ہیں۔ ان سارے نقصانات کا حجم اس رقم سے کہیں بڑا ہے جو سیلاب کی روک تھام کے منصوبوں پر خرچ ہو سکتی ہے، اگر حکومت کوہ سلیمان کے نزدیک بارشی ڈیم، کالام اور میانوالی کے پاس پانی کو ذخیرہ کرنے کا انتظام کر لے تو آیندہ اس نوع کے نقصانات سے بچا جا سکتا ہے۔بے حسی کی چادر نے ہمارے ایوانوں کو سر بمہر کر دیا ہے۔ ہمارے مرکزی اور صوبائی وزراء کو اپنے پرسکون دفتروں میں بیٹھنے کے بجائے متاثرہ علاقوں کے ریلیف کیمپس ہونا چاہیے۔
اقتدار اور سیاست کے کھیل میں عوام کا کام صرف نعرے لگانا اور ووٹ دینے کی حد تک رہ گیا ہے۔ پاکستان کے بے بس سیلاب زدہ عوام لیڈروں اور حکمرانوں کو اپنے مسائل کے حل کے لیے پکار رہے ہیں تو قائدین و رہنما کیوں اس پر توجہ نہیں دے رہے ہیں شاید ان کی ترجیحات سیاسی مخالفین کے خلاف دشنام طرازی اور پرچہ بازی ہو۔ وفاقی حکومت کو تمام تر وسائل متاثرہ علاقوں میں امدادی اور بحالی کی سرگرمیوں پر لگانے چاہئیں۔ بلوچستان کا انفرا اسٹرکچر بری طرح تباہ و برباد ہوچکا ہے۔
جنوبی پنجاب میں انڈس ہائی وے شدید ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ عوام کی لرزہ دینے والی چیخ و پکار سے حکومتی ایوانوں میں معمولی سی ہلچل پیدا ہوئی ہے۔ بلوچستان حکومت کے ترجمان فرح عظیم نے اسلام آباد میں بلوچستان کے سیلاب سے متاثرین کے لیے ڈونرز کانفرنس کا اہتمام کیا ہے جس میں اقوام متحدہ کی تمام ایجنسیوں کے کنٹری ڈائریکٹر ، سفارت خانوں کے نمایندوں، بین الاقوامی ڈونر ایجنسیوں ، این جی اوز اور متعلقہ حکومتی نمایندوں نے شرکت کی ہے۔ ہمارے لیے یہ باعث غور و فکر ہے ماضی کے برعکس ہم قومی سطح پر اپنا مثبت کردار سرانجام دینے میں ناکام رہے ہیں۔
ماضی میں جب بھی کسی آفت کا لوگوں کو سامنا ہوتا تھا تو ہر پاکستانی آگے بڑھ کر اپنی استطاعت کے مطابق بھرپور انداز سے حصہ لیتا تھا۔ تاجر برادری اور صاحب ثروت لوگ کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرتے تھے اس طرح محسوس ہوتا ہے کہ ایثار و قربانی کا جذبہ ماند پڑ چکا ہے، بدحال معیشت نے لوگوں کے منہ سے نوالے چھین لیے ہیں۔
محکمہ موسمیات نے خبردار کرتے ہوئے آنے والے دنوں میں سندھ ، جنوبی پنجاب ، بلوچستان میں مزید طوفانی بارشوں کی پشین گوئی کی ہے۔ مصیبت مسلسل سیلاب زدہ علاقوں کواپنے نرغے میں لیے ہوئے ہے، مسلح افواج کے 45 سو جوان بلوچستان میں امدادی سرگرمیوں میں اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ پاکستان کی بحریہ اور فضائیہ بھی امدادی سرگرمیوں میں بھرپور انداز سے حصہ لے رہی ہے، لیکن پاکستان کے شہریوں کی بڑی تعداد امدادی سرگرمیوں سے لا تعلق ہے۔
سب مذہبی اور سیاسی جماعتوں کو مل کر امدادی سرگرمیوں میں بھرپور حصہ لینا چاہیے۔ حکومت کو اتفاق رائے سے ایک مارشل پلان آفتوں سے نپٹنے کے لیے بنا لیناچاہیے۔سیاسی بے یقینی نے پہلے ہی ملک کو معاشی مشکلات کی دلدل میں پھنسا رکھا ہے، غیر معمولی بارشوں اور سیلابی ریلوں سے ہونے والے جانی اور مالی نقصانات نے صورتحال کو اور سنگین بنا دیا ہے۔
ایسے میں ملک کی سیاسی قیادت اقتدار کی جنگ میں الجھی ہوئی ہے۔ ایک دوسرے کے خلاف مقدمات بنانے اور زہریلی بیان بازی روزمرہ کا معمول بن گیا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس وقت ملک کی فکر کی جائے اور بارشوں، سیلاب، مہنگائی اور بے روزگاری سے تباہ حال عوام پر توجہ دی جائے، ایجی ٹیشن کی سیاست کو کم سے کم وقتی طور پر ترک کر کے تدبر اور ہوش مندی کا راستہ اختیار کیا جائے۔
دنیا بھر میں سیاسی جماعتیں ماحولیات کے معاملے کو سنگین خطرہ سمجھ کر پالیسیاں بنا رہی ہیں۔ پاکستان کی سیاسی قیادت ابھی تک اسے ایک وقتی آفت سمجھ کر نظریں چرا رہی ہے۔ پاکستان ماحولیاتی بگاڑ سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے خطے میں واقع ہے ، عالمی برادری سے ماحولیاتی اصلاح کے نام پر تعاون طلب کرتے ہوئے اگر قابل عمل منصوبے ترتیب دیے جا سکیں تو آیندہ ملک کو تباہی سے محفوظ رکھا جا سکتا ہے۔