پاک فوج کی سیلابی خدمات
پاک فوج نے ہیلی کاپٹر حادثے کے بعد سیلابی صورت حال ملک گیر ہو جانے کے بعد اپنی امدادی سرگرمیاں مزید بڑھا دیں
مون سون کی طوفانی بارشوں نے ملک کے چاروں صوبوں میں جیسے ہی سیلابی صورت حال اختیار کی پاک فوج نے عوام کو بچانے کے لیے اپنی خدمات بلوچستان میں شروع کردی تھیں جب کہ پنجاب کی حکومت وفاقی حکومت سے پنجہ آزمائی کے منصوبے بناتی رہی اور پنجاب و کے پی کے میں برسراقتدار پی ٹی آئی حکومتوں کے وزرائے اعلیٰ عمران خان کی خوشنودی کے لیے ان کے جلسوں کے انعقاد اور اپنی تقاریر میں وفاقی حکومت پر برستے رہے جب کہ عمران خان نے ملک گیر اتحاد کی چھوٹی حکومت قرار دے کر جلسوں کا سلسلہ جاری رکھا۔
بلوچستان، سندھ، پنجاب اور کے پی میں بارش کی تباہ کاریاں بڑھتی رہیں مگر عمران خان اور پی ٹی آئی کی ساری توجہ شہباز گل پر مرکوز رہی اور عمران خان کی خوشنودی کے لیے ملک کا میڈیا بھی بارشوں کی تباہی پر شہباز گل پر مبینہ تشدد کو ترجیح دیتا رہا جب کہ پاک فوج متاثرین کے تحفظ اور ان کی مدد میں مصروف رہی اور یکم اگست کو پاک فوج کا ایک ہیلی کاپٹر بھی موسم کی خرابی کے باعث حادثے کی نذر ہو گیا جس میں سوار اعلیٰ فوجی حکام بارش کے متاثرین کے لیے کیے جانے والی امدادی سرگرمیوں میں مصروف تھے اور شہید ہوگئے۔
اس ہولناک حادثے پر سوشل میڈیا پر بے بنیاد پروپیگنڈا کیا گیا اور پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا سیل نے فوجی افسروں کی اہم شہادت پر بھی سیاست جاری رکھی اور بارشوں پر توجہ نہ دی۔
پاک فوج نے ہیلی کاپٹر حادثے کے بعد سیلابی صورت حال ملک گیر ہو جانے کے بعد اپنی امدادی سرگرمیاں مزید بڑھا دیں جس میں پہلے پاک آرمی شامل تھی جس کے بعد پاک فضائیہ اور نیوی کے جوان بھی شامل ہوگئے اور چاروں صوبوں میں وہاں کی حکومتوں سے پہلے پاک فوج نظر آئی جس کے جہازوں نے اپنے وسائل سے متاثرین تک امدادی سامان پہنچایا۔ اپنے ہیلی کاپٹروں سے سیلاب میں پھنسے لوگوں کو محفوظ مقامات تک پہنچایا اور پاک بحریہ کے جوانوں اور پاک فوج نے اپنی کشتیوں کے ذریعے متاثرین کو نہ صرف ڈوبنے سے بچایا بلکہ آمد و رفت کی سہولتوں سمیت ہر قسم کی امداد اور سہولت فراہم کی۔
پاک فوج اور صوبوں کی پولیس کا سیلابی صورت حال میں کردار روزنامہ ایکسپریس میں شایع ہونے والی دو تصاویر سے ہی لگایا جاسکتا ہے جہاں ایک سب انسپکٹر پولیس اپنے کپڑے اور جوتے بچانے کے لیے کسی شخص کے کندھوں پر سوار ہو کر تھانے پہنچا وہاں ایک فوجی جوان جنوبی پنجاب میں سیلاب سے متاثرہ بچے کو اپنی گود میں بٹھا کر کھانا کھلا رہا تھا۔
کوہستان کے پی میں دریا میں پھنسے 5 نوجوان گھنٹوں مدد نہ ملنے پر دریا میں بہہ گئے اور جس ہیلی کاپٹر کے ذریعے ان نوجوانوں کو بچایا جاسکتا تھا اس میں فضائی سفر کے عادی عمران خان اور وزیر اعلیٰ کے پی سیلابی صورت حال کا فضائی جائزہ لیتے رہے اور کے پی حکومت کے دوسرے ہیلی کاپٹر کے ذریعے بھی پھنسے نوجوانوں کو بچانے کی کوشش ہی نہیں کی گئی کیونکہ ریلیف کرنے سے ہیلی کاپٹر کو نقصان پہنچ سکتا تھا اس لیے پانچ نوجوانوں کو ڈوبنے دیا گیا۔
ایکسپریس کی دوسری تصویر میں دادو اندرون سندھ میں سیلاب میں پھنسے خاندان کو نیوی ہیلی کاپٹر سے ریسکیو کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ صدر ڈاکٹر عارف علوی کو کسی علاقے کا دورہ کرنے کی توفیق نہیں ہوئی اور جب بارشوں میں کمی آئی تو ایوان صدر میں اپنی 50 ویں شادی کی سالگرہ منانے کے بعد انھیں سیلاب متاثرین کا خیال آیا تو انھوں نے سیلاب کی تباہیاں دیکھ کر قوم سے اپیل کی کہ وہ متاثرین کے لیے دل کھول کر عطیات دیں اور انھوں نے کئی روز بعد عالمی برادری سے بھی اپیل کی کہ وہ حکومتی امدادی اپیل پر معاونت کریں پھر وہ 31 اگست کو دورے پر گئے۔
سابق صدر آصف زرداری کی صحت نے انھیں متاثرین کے پاس جانے کی اجازت نہیں دی مولانا فضل الرحمن اپنے آبائی علاقے میں پھنسے رہ کر تمام اختلافات بھلا کر سیلاب متاثرین کی مدد کی اپیل کی مگر ان کی حکومت نے عمران خان سے اپنے اختلافات برقرار رکھے اور پی ٹی آئی کو اے پی سی میں مدعو نہیں کیا۔
پی پی چیئرمین اپنے وزیر اعلیٰ کے ہمراہ اندرون سندھ دورے کرتے نظر آئے۔ سندھ کے وزیر اعلیٰ اپنے سیلابی دوروں میں دیگر وزرائے اعلیٰ سے زیادہ مستعد نظر آئے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب صرف ایک بار ڈی جی خان جا کر تھک گئے۔ وزیر اعلیٰ کے پی نے سب سے زیادہ غفلت دکھائی۔ جی بی اور بلوچستان کے وزرائے اعلیٰ نہ جانے کہاں مصروف رہے۔ عمران خان جلسے کرتے رہے صرف جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق متاثرین میں زیادہ نظر آئے۔
مریم نواز کو بھی کافی دنوں بعد ڈی جی خان کے متاثرہ دوروں کا خیال آیا اور اپنے ہمراہ وہ کچھ امدادی سامان بھی لے کر گئیں۔ عمران خان کو پورے اگست جلسوں کا زیادہ خیال رہا اور کے پی کے مختصر ہوائی دورے اور زمین پر رکھی اینٹوں کے بجائے پھیلے پانی پر چل کر انھوں نے تصویر بنائی اور باقی تین صوبوں میں جانے کی انھوں نے زحمت ہی نہیں کی۔
وزیر اعظم شہباز شریف اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے چاروں صوبوں کا عملی دورہ کیا اور متاثرین میں جا کر ان کی تکالیف سنیں اور خود حالات کا جائزہ لیا۔ آرمی چیف نے کور کمانڈروں سے کانفرنس میں سیلاب کے متاثرین کی پورے ملک میں فوری مدد کا فیصلہ کیا اور اپنی فوج کو ملک بھر میں امدادی سرگرمیوں میں عوام کی مدد کے لیے سرگرم رکھا۔ تینوں افواج نے اپنے جہاز، ہیلی کاپٹر اور کشتیاں سیلاب متاثرین کے لیے وقف کردیں اور فوج ہر اس جگہ پہنچی جہاں کوئی صوبائی حکومت نہ پہنچ سکی تھی۔
فوجی افسروں اور جوانوں نے سب سے پہلے اپنی تنخواہ سے وزیر اعظم ریلیف فنڈ میں حصہ ڈالنے کا اعلان کیا اور فوج کے پاس راشن کا جو ذخیرہ تھا اس کا منہ متاثرین کے لیے کھول دیا اور سب سے پہلے اپنے مال سے متاثرین کو راشن کی فراہمی شروع کی۔ جنرل باجوہ چاروں صوبوں میں ہر اس متاثرہ علاقوں میں پہنچے جہاں وزیر اعظم یا کوئی بھی وزیر اعلیٰ نہیں جاسکا تھا۔
آرمی چیف نے کالام میں دریا کنارے بنے ہوٹلوں کی تباہی بھی جا کر خود دیکھی اور اس امر کی تحقیقات کا مطالبہ کیا کہ وہاں غیر قانونی تعمیرات کی اجازت دوبارہ دینے والوں کے خلاف تحقیقات ہونی چاہیے کہ جنھوں نے 2010 کی تباہیوں کے بعد وہاں سیاحتی ہوٹل کیوں بننے دیے۔
یوں تو پاک فوج ملک میں ہر قدرتی آفت میں ماضی سے اب تک نمایاں رہی ہے جو اپنے چیف کے حکم پر فوری طور پر متاثرہ علاقوں میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے ذمے داروں سے پہلے موجود ملتی ہے اور جانی نقصان تک برداشت کرتی ہے مگر وہ اپنی اس کارکردگی کو سیاستدانوں کی طرح دکھاؤ زیادہ اور کام کم کرنے پر یقین نہیں رکھتی اور متاثرین کی تکالیف اور قوم کے دکھ کو اپنا سمجھ کر امدادی سرگرمیاں شروع کردیتی ہے اور کام نہ کرنے والے سیاسی لوگ اس کا کریڈٹ خود لے جانے میں مصروف ہوتے ہیں اور وہ قدر نہیں کرتے جو پاک فوج کا حقیقی حق ہونا چاہیے۔