خصوصی عدالتوں میں سیکڑوں مقدمات 10 برس سے التوا کا شکار
ایک مقدمے کو 26برس گزر چکے ہیں، 3 ملزمان اور تفتیشی افسر انتقال کرگیا ہے، فیصلے کے روز ہی جج کا تبادلہ ہوگیا
خصوصی عدالتوں کے قائم کرنے کا مقصد ماتحت عدالتوں کی نسبت مقدمات کو جلد نمٹانا اور ملزمان کو کیفرکردار تک پہنچانا ہے لیکن خصوصی عدالتوں کے قیام کے بعد عدالتوں کے طویل عرصے تک خالی رہنے کے باعث حکومت مقاصد کے حصول میں ناکام ہے۔
وفاقی بدعنوانی ایکٹ 1947 جس کا مقصد بدعنوانی اور رشوت خوری کو زیادہ سے زیادہ فعال طریقے سے روکنا ہے ،اسی قانون کے تحت خصوصی عدالتیں قائم کی گئیں تاکہ رشوت خوری ، بدعنوانی کے مقدمات کے فیصلے جلد کیے جائیں لیکن ان خصوصی عدالتوں کے ججز کے تبادلے، تفتیشی افسران کی عدم دلچسپی اورسرکاری وکلا کی رخصت کے باعث بدعنوانی کے سیکڑوں مقدمات 10برس سے التوا کا شکار ہیں، ایک مقدمے کو 26برس گزر چکے ہیں لیکن مقدمے کا فیصلہ نہ ہوسکا،اس طویل عرصے کے دوران 3 ملزمان کی طبعی موت ہوچکی ہے،ایک ملزم فالج کے مرض میں مبتلا ہوکر بستر مرگ پر ہے، 31مئی1988کو پاکستان سیکیورٹی پرنٹنگ پریس سے ایک لاکھ 25ہزار خواتین کے قومی شناختی کارڈ چوری ہوگئے تھے ایف آئی اے کرائم سرکل نے ملزمان ملک جان ، حیات اعوان ، ملک سکندر اعوان میجر (ر) ولایت خان ،میجر (ر) پرویز افضل پر الزام عائد کیا تھا کہ انھوں نے عام انتخابات میں دھاندلی کرنے کی نیت سے قومی شناختی کارڈ چوری کیے ہیں اور انکے خلاف مقدمہ درج کیا تھا ۔
ملزمان کے خلاف ایک ماہ بعد ہی مقدمے کا چالان جمع کرادیا گیا تھا تاہم ایف آئی اے کی ناقص تفتیش کے باعث مقدمہ التوا کا شکار رہا ، وکیل صفائی سابق ایڈووکیٹ جنرل سندھ شہادت اعوان کے مطابق26برس کے دوران ججوں کے تبادلہ کے باعث عدالت تقریباً15برس خالی رہی،متعدد بار سرکاری وکلا رخصت پر رہے،تفتیشی افسر بھی وفات پاگئے،ایف آئی اے گواہوںکو پیش نہ کرسکی، 3ملزمان طارق ، اشرف ، جمشید مقدمے کا فیصلہ سنے بغیر ان کی بھی طبعی موت مر گئے ، بلآخر26برس گزر جانے کے بعد وکیل صفائی شہادت اعوان کے حتمی دلائل مکمل ہونے کے بعد مقدمے کا فیصلہ محفوظ کیا گیا تھا،لیکن فیصلے کے روز فاضل جج کا بھی تبادلہ ہوگیا اورفیصلہ 17اپریل کیلیے موخر ہوگیا اورعدالت دوبارہ خالی ہوگئی،مذکورہ مقدمے سمیت سیکڑوں مقدمات جج کی تعیناتی تک التوا کا شکار رہیں گے ۔
وفاقی بدعنوانی ایکٹ 1947 جس کا مقصد بدعنوانی اور رشوت خوری کو زیادہ سے زیادہ فعال طریقے سے روکنا ہے ،اسی قانون کے تحت خصوصی عدالتیں قائم کی گئیں تاکہ رشوت خوری ، بدعنوانی کے مقدمات کے فیصلے جلد کیے جائیں لیکن ان خصوصی عدالتوں کے ججز کے تبادلے، تفتیشی افسران کی عدم دلچسپی اورسرکاری وکلا کی رخصت کے باعث بدعنوانی کے سیکڑوں مقدمات 10برس سے التوا کا شکار ہیں، ایک مقدمے کو 26برس گزر چکے ہیں لیکن مقدمے کا فیصلہ نہ ہوسکا،اس طویل عرصے کے دوران 3 ملزمان کی طبعی موت ہوچکی ہے،ایک ملزم فالج کے مرض میں مبتلا ہوکر بستر مرگ پر ہے، 31مئی1988کو پاکستان سیکیورٹی پرنٹنگ پریس سے ایک لاکھ 25ہزار خواتین کے قومی شناختی کارڈ چوری ہوگئے تھے ایف آئی اے کرائم سرکل نے ملزمان ملک جان ، حیات اعوان ، ملک سکندر اعوان میجر (ر) ولایت خان ،میجر (ر) پرویز افضل پر الزام عائد کیا تھا کہ انھوں نے عام انتخابات میں دھاندلی کرنے کی نیت سے قومی شناختی کارڈ چوری کیے ہیں اور انکے خلاف مقدمہ درج کیا تھا ۔
ملزمان کے خلاف ایک ماہ بعد ہی مقدمے کا چالان جمع کرادیا گیا تھا تاہم ایف آئی اے کی ناقص تفتیش کے باعث مقدمہ التوا کا شکار رہا ، وکیل صفائی سابق ایڈووکیٹ جنرل سندھ شہادت اعوان کے مطابق26برس کے دوران ججوں کے تبادلہ کے باعث عدالت تقریباً15برس خالی رہی،متعدد بار سرکاری وکلا رخصت پر رہے،تفتیشی افسر بھی وفات پاگئے،ایف آئی اے گواہوںکو پیش نہ کرسکی، 3ملزمان طارق ، اشرف ، جمشید مقدمے کا فیصلہ سنے بغیر ان کی بھی طبعی موت مر گئے ، بلآخر26برس گزر جانے کے بعد وکیل صفائی شہادت اعوان کے حتمی دلائل مکمل ہونے کے بعد مقدمے کا فیصلہ محفوظ کیا گیا تھا،لیکن فیصلے کے روز فاضل جج کا بھی تبادلہ ہوگیا اورفیصلہ 17اپریل کیلیے موخر ہوگیا اورعدالت دوبارہ خالی ہوگئی،مذکورہ مقدمے سمیت سیکڑوں مقدمات جج کی تعیناتی تک التوا کا شکار رہیں گے ۔