انسانی آواز سے جسم میں خطرناک امراض کا پتہ چلانے والی ایپ
انسانی آواز کے ذریعے نمونیا، آٹزم، ڈپریشن، پارکنسن، الزائمر اور فالج جیسے امراض کی تشخیص ممکن ہوجائے گی
محققین انسانی آوازوں کا ایک ایسا ڈیٹا بیس بنا رہے ہیں جسے وہ آرٹیفیشل انٹیلی جنس پر مبنی ٹولز کے ذریعے خطرناک بیماریوں کی تشخیص میں مدد لے سکیں گے۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ کی مالی اعانت سے چلنے والے ایسے پروجیکٹ کا اعلان کیا گیا ہے جس میں انسانی آواز کو کسی ایسی چیز میں تبدیل کرنے کی کوشش کی گئی ہے جسے بیماری کی تشخیص میں بائیو مارکر کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔
یہ پروجیکٹ چار سال تک چلے گا اور اس دوران نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ 14 ملین ڈالر تک کی فنڈنگ جمع کرسکتی ہے۔ جس کی مدد سے تحقیقی ٹیم ایک ایسی ایپ بنانا شروع کرے گی جو انسانی آواز کے ذریعے نمونیا، آٹزم، ڈپریشن، پارکنسن، الزائمر اور فالج جیسے امراض کی تشخیص کرسکے گی۔
عموی طور پر پیچیدہ بیماریوں کی تشخیص کے لیے استعمال ہونے والے بائیو مارکر خون یا درجہ حرارت ہیں تاہم اب سائنس دانوں کا خیال ہے کہ انسان کی آواز سے ہی ان کے جسم میں پنپنے والی بیماریوں کا سراغ لگایا جا سکتا ہے اور اسی نکتے پر تحقیق جاری ہے۔
سائنس دانوں کے بقول اگر مذکورہ بالا امراض میں مبتلا افراد کی آوازوں کو ریکارڈ کر کے ایک ڈیٹا بنالیا جائے اور پھر آواز کی فریکوئنسی سے کسی دوسرے مریض کی آواز کا موازنہ کیا جائے تو نتائج حیران کن ہوں گے۔
ویل کارنیل میڈیسن کے انسٹی ٹیوٹ فار کمپیوٹیشنل بائیو میڈیسن کے پروفیسر اور اس پروجیکٹ کے سرکردہ تفتیش کاروں میں سے ایک اولیور ایلیمینٹو کا کہنا ہے کہ "وائس ڈیٹا کے بارے میں سب سے اچھی بات یہ ہے کہ یہ شاید سب سے سستے قسم کے ڈیٹا میں سے ایک ہے جسے آپ لوگوں سے جمع کر سکتے ہیں یعنی یہ ایک انتہائی قابل رسائی قسم کی معلومات ہے۔
اسی طرح یو ایس ایف ہیلتھ کے ایک اوٹولرینگولوجسٹ اور دوسرے سرکردہ تفتیش کار یائل بینسوسن کا دعویٰ ہے کہ گزشتہ کچھ برسوں کے مطالعے سے تصدیق ہوتی ہے کہ بیماری کی تشخیص میں مدد کے لیے انسانی آواز بھی کارگر ہے تاہم ابھی صرف ابتدا ہے، کافی کام کرنا باقی ہے۔ سب سے بڑا چیلنج ڈیٹا اکٹھا کرنے کے معیارات بنانا ہیں۔
خیال رہے کہ طبی محققین ہی نہیں ٹیکنالوجی کی بڑی کمپنیاں بھی بیماریوں کی تشخیص کے لیے آواز کا استعمال کرنے میں دلچسپی رکھتی ہیں جیسے ایمازون جن کے پاس پیٹنٹ ہیں جو الیکسا کا استعمال کرتے ہوئے یہ معلوم کریں گے کہ آیا لوگوں کو جذباتی مسائل ڈپریشن، یا جسمانی امراض جیسے گلے کی سوزش کس حد تک سنگین ہے۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ کی مالی اعانت سے چلنے والے ایسے پروجیکٹ کا اعلان کیا گیا ہے جس میں انسانی آواز کو کسی ایسی چیز میں تبدیل کرنے کی کوشش کی گئی ہے جسے بیماری کی تشخیص میں بائیو مارکر کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔
یہ پروجیکٹ چار سال تک چلے گا اور اس دوران نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ 14 ملین ڈالر تک کی فنڈنگ جمع کرسکتی ہے۔ جس کی مدد سے تحقیقی ٹیم ایک ایسی ایپ بنانا شروع کرے گی جو انسانی آواز کے ذریعے نمونیا، آٹزم، ڈپریشن، پارکنسن، الزائمر اور فالج جیسے امراض کی تشخیص کرسکے گی۔
عموی طور پر پیچیدہ بیماریوں کی تشخیص کے لیے استعمال ہونے والے بائیو مارکر خون یا درجہ حرارت ہیں تاہم اب سائنس دانوں کا خیال ہے کہ انسان کی آواز سے ہی ان کے جسم میں پنپنے والی بیماریوں کا سراغ لگایا جا سکتا ہے اور اسی نکتے پر تحقیق جاری ہے۔
سائنس دانوں کے بقول اگر مذکورہ بالا امراض میں مبتلا افراد کی آوازوں کو ریکارڈ کر کے ایک ڈیٹا بنالیا جائے اور پھر آواز کی فریکوئنسی سے کسی دوسرے مریض کی آواز کا موازنہ کیا جائے تو نتائج حیران کن ہوں گے۔
ویل کارنیل میڈیسن کے انسٹی ٹیوٹ فار کمپیوٹیشنل بائیو میڈیسن کے پروفیسر اور اس پروجیکٹ کے سرکردہ تفتیش کاروں میں سے ایک اولیور ایلیمینٹو کا کہنا ہے کہ "وائس ڈیٹا کے بارے میں سب سے اچھی بات یہ ہے کہ یہ شاید سب سے سستے قسم کے ڈیٹا میں سے ایک ہے جسے آپ لوگوں سے جمع کر سکتے ہیں یعنی یہ ایک انتہائی قابل رسائی قسم کی معلومات ہے۔
اسی طرح یو ایس ایف ہیلتھ کے ایک اوٹولرینگولوجسٹ اور دوسرے سرکردہ تفتیش کار یائل بینسوسن کا دعویٰ ہے کہ گزشتہ کچھ برسوں کے مطالعے سے تصدیق ہوتی ہے کہ بیماری کی تشخیص میں مدد کے لیے انسانی آواز بھی کارگر ہے تاہم ابھی صرف ابتدا ہے، کافی کام کرنا باقی ہے۔ سب سے بڑا چیلنج ڈیٹا اکٹھا کرنے کے معیارات بنانا ہیں۔
خیال رہے کہ طبی محققین ہی نہیں ٹیکنالوجی کی بڑی کمپنیاں بھی بیماریوں کی تشخیص کے لیے آواز کا استعمال کرنے میں دلچسپی رکھتی ہیں جیسے ایمازون جن کے پاس پیٹنٹ ہیں جو الیکسا کا استعمال کرتے ہوئے یہ معلوم کریں گے کہ آیا لوگوں کو جذباتی مسائل ڈپریشن، یا جسمانی امراض جیسے گلے کی سوزش کس حد تک سنگین ہے۔