احتجاج کا راستہ
سندھ کی یونیورسٹیوں کے اساتذہ نے تحریک چلائی تو حکومت نے کراچی اورسندھ یونیورسٹی کے قانون میں کی گئی ترامیم کومعطل کیا
ستمبر ، کراچی میں موسم کے اعتبار سے ستم گر ہوتا ہے۔ ستمبر کی تیز دھوپ میں مرد وخواتین اساتذہ کراچی یونیورسٹی کے ایڈمیشن بلاک کے سامنے شامیانے لگا کر علامتی بھوک ہڑتال پر بیٹھے ہیں۔ ان اساتذہ نے مختلف یونیورسٹیوں سے پی ایچ ڈی کی ڈگریاں حاصل کیں اور تمام تر مشکلات کے باوجود ریسرچ پیپرز تحریر کیے۔
کراچی یونیورسٹی کے 25 کے قریب تعلیمی شعبوں کے اساتذہ نے 2019میں سلیکشن بورڈ کے اشتہار کے لیے درخواستیں دی تھیں اور دستاویزات جمع کرائی تھیں مگر کراچی یونیورسٹی میں کئی وائس چانسلر آئے اور چلے گئے مگر سلیکشن بورڈ کے اجلاس منعقد نہیں ہوئے۔ ان میں سے کئی اساتذہ ریٹائرمنٹ کی عمرکو پہنچ گئے ہیں۔
مارکسی وادی کے دانشور ڈاکٹر ریاض احمد جنھوں نے دنیا کی معروف کیمبرج یونیورسٹی سے اپلائیڈ کیمسٹری میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی اور جنوبی کوریا سے پوسٹ ڈاکٹریٹ کیا تھا ، اساتذہ کی اس جدوجہد کو منظم کرنے میں مصروف ہیں۔
مختلف شعبوں کے علاوہ کراچی کی دیگر یونیورسٹیوں کے اساتذہ روزانہ اس احتجاجی کیمپ میں آتے ہیں اور اپنے ساتھیوں کے جائز مطالبات کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتے ہیں مگر کراچی یونیورسٹی کی انتظامیہ نے بے حسی جاری رکھی ہوئی ہے۔ یونیورسٹی کو کنٹرول کرنے والا وزیر اعلیٰ سندھ کا سیکریٹریٹ بھی خاموش ہے۔ اساتذہ کا کہنا ہے کہ اگر ان کے مطالبہ کو مان کر سلیکشن بورڈ کے اجلاس منعقد نہ ہوئے تو کراچی یونیورسٹی کے 4 سو اساتذہ سمیت 12 ہزار امیدوار سلیکشن بورڈ کے سامنے پیش ہونگے۔
جدید ممالک کی یونیورسٹیاں زندگی کے ہر موضوع پر تحقیق کرتی ہیں اور اس تحقیق سے سماج کے تمام ادارے مستفید ہوتے ہیں۔ یونیورسٹی میں تدریس اور تحقیق پر مباحثے ایک مضبوط روایت ہے۔ طلبہ اور اساتذہ ہر تحقیق پر بحث و مباحثہ کرتے ہیں اور ریاست ان خیالات کے بغیر کسی رکاوٹ کے اظہار کے لیے تحفظ فراہم کرتی ہے ، یوں علمی آزادی کا ادارہ یونیورسٹیوں کو دیگر اداروں سے ممتاز کرتا ہے۔
پاکستان کی یونیورسٹیوں میں اساتذہ کے ترقی کا طریقہ کار نہیں ہے بلکہ لیکچرار، اسسٹنٹ پروفیسر، ایسوسی ایٹ پروفیسر اور پروفیسر کی آسامی پر قواعد و ضوابط کے تحت تقرر ہوتا ہے۔ گزشتہ 20 برسوں کے دوران یونیورسٹی کلچر میں ہونے والی تبدیلیوں کے نتیجہ میں اب پی ایچ ڈی کرنے والے افراد ہی لیکچرار کے عہدہ کے اہل قرار پاتے ہیں۔
بیشتر یونیورسٹیوں میں پی ایچ ڈی کرنے والے اساتذہ کا اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر تقرر ہوتا ہے۔ ایسوسی ایٹ پروفیسر کی آسامی کے لیے 10ریسرچ پیپرز جو ہائر ایجوکیشن کمیشن (H.E.C) کے تصدیق شدہ تحقیقی رسالہ میں شایع ہوں اور 10سال کا تدریسی تجربہ لازمی ہوتا ہے۔ اسی طرح پروفیسر کے لیے 15ریسرچ پیپرز اور 15سالہ تدریس کا تجربہ لازمی ہوتا ہے۔
کراچی یونیورسٹی اس صدی کے آغاز سے تعلیمی اور مالیاتی بحران کا شکار ہے ، جو اساتذہ تحقیق کرتے ہیں یونیورسٹی ان کی مالیاتی مدد کرنے کے قابل نہیں ہے۔ کراچی یونیورسٹی کی سوشل سائنس، بزنس ایڈمنسٹریشن، اسلامیات اور قانون کی فیکلٹیز میں اساتذہ خود کتابیں تلاش کرتے ہیں۔ ایک سروے کرنا ہو تو اس پر آنے والے اخراجات استاد کو خود برداشت کرنا پڑتے ہیں۔ لائبریری میں بعض اہم کتابیں موجود نہیں ہوتیں۔ اساتذہ مارے مارے پھرتے ہیں۔ اب تو انفارمیشن ٹیکنالوجی کے جدید پلیٹ فارمز پر موضوع سے متعلق مواد حاصل کرنے کے لیے رقم ادا کرنی پڑتی ہے۔
ان فیکلٹیز میں ایچ ای سی کے منظور شدہ ریسرچ جرنلز کی تعداد محدود ہے۔ کراچی یونیورسٹی کے بعض شعبوں سے شایع ہونے والے جرنلز ایچ ای سی کی فہرست میں شامل ہیں۔ اب تو بعض ریسرچ جرنلز شایع کرنے والے ادارہ آرٹیکل کی اشاعت کے لیے فیس طلب کرتے ہیں۔ سائنس اور فارمیسی کی فیکلٹی کے شعبوں میں صورتحال زیادہ خراب ہے۔ سائنس میں لیباریٹری میں تجربات کے نتائج پر ریسرچ پیپرز تیار ہوتے ہیں مگر کراچی یونیورسٹی کے سائنس اور فارمیسی فیکلٹی میں لیب کی حالت خاصی خراب ہے۔
تجربہ کے لیے استعمال ہونے والا کیمیکل وافر مقدار میں دستیاب نہیں ہوتا۔ اساتذہ و اپنے ریسرچ پیپر کے لیے یہ کیمیکل بھی خریدنا پڑتا ہے۔ ریسرچ جنرلز کی فیس ادا کرنی پڑتی ہے۔ جب اساتذہ یہ تمام بوجھ برداشت کرتے ہیں اور سلیکشن بورڈ میں اپلائی کرتے ہیں تو برسوں گزر جاتے ہیں مگر سلیکشن بورڈ نہیں ہوتا۔ کراچی یونیورسٹی میں سیکڑوں اساتذہ عارضی بنیادوں پر کام کرتے ہیں۔ یہ اساتذہ ہمہ وقت تعلیمی شعبہ میں فرائض انجام دیتے ہیں مگر انھیں انتہائی قلیل رقم ادا کی جاتی ہے۔
ان کی ایک ہی امید ہوتی ہے کہ سلیکشن بورڈ کے ذریعہ مستقل ہوجائیں مگر کراچی یونیورسٹی کی انتظامیہ ان اساتذہ کو مستقل کرنے کے لیے سلیکشن بورڈ کا اجلاس نہیں بلاتی، یوں یونیورسٹی کم اجرت دے کر ان اساتذہ کا بدترین استحصال کرتی ہے۔ کراچی یونیورسٹی اپنے انفرااسٹرکچر کے تناظر میں دیگر یونیورسٹیوں سے پیچھے نظر آتی ہے۔ اب تک بہت سے شعبوں میں اسمارٹ کلاس رومز کا تصور عملی شکل اختیار نہیں کرسکا۔ بعض شعبوں میں اساتذہ قرونِ وسطیٰ کے بلیک بورڈ کو چاک سے بھر کر تدریس پر مجبور ہیں۔ یہی صورتحال سیمینار ہال اور ڈاکٹر محمود حسین لائبریری کی ہے۔
ایچ ای سی کراچی یونیورسٹی کی گرانٹ میں اضافہ نہیں کرتی۔ سندھ حکومت کو کراچی یونیورسٹی سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ پارٹی کے پہلے دورِ اقتدار میں یونیورسٹی کی خود مختاری اور علمی آزادی کے تحفظ کے لیے ایک جامع قانون بنایا گیا تھا۔ یونیورسٹی کے بعض اساتذہ کا کہنا ہے کہ اس پورے معاملہ میں ایک مسئلہ ایچ ای سی کے منظور کردہ جرنلز میں ریسرچ پیپرز کی اشاعت کا ہے ۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ بعض اساتذہ کے اس جرنلز میں ریسرچ پیپرز شایع ہوئے ہیں جو اب ایچ ای سی کی تسلیم شدہ جرنلز کی فہرست میں شامل نہیں ہیں، طویل عرصہ گزر گیا اب یہ مسئلہ حل ہو ہی جانا چاہیے۔
سابق فوجی آمر جنرل ضیاء الحق نے یونیورسٹی کے قانون میں کچھ تبدیلیاں کی ہیں جس کی بناء پر یونیورسٹی کے اداروں کا جمہوری تشخص خراب ہوا تھا۔ پیپلز پارٹی سے اچھے کاموں کی امید رکھنے والے صاحبان کو امید نہیں تھی کہ پیپلز پارٹی اپنے دور حکومت میں ایک ترمیم کے ذریعہ رجسٹرار اور ڈین کے تقرر کا اختیار چھین لے گی۔
سندھ کی یونیورسٹیوں کے اساتذہ نے تحریک چلائی تو حکومت نے کراچی اور سندھ یونیورسٹی کے قانون میں کی گئی ترامیم کو معطل کیا مگر بعض یونیورسٹیوں میں وہی قانون نافذ رہا۔ اب حکومت سندھ یونیورسٹیوں پر پابندی لگا رہی ہے کہ حکومت کی اجازت کے بغیر کوئی تقرر نہیں ہوسکتا، یوں یونیورسٹی کو کالج بنانے کا عمل شروع ہوگیا۔ کراچی یونیورسٹی اس ملک کا اثاثہ ہے۔ اس یونیورسٹی کو فوری طور پر اربوں روپے کی ضرورت ہے۔ ایسے نظام کی ضرورت ہے کہ اساتذہ کو احتجاج نہ کرنا پڑے۔
کراچی یونیورسٹی کے 25 کے قریب تعلیمی شعبوں کے اساتذہ نے 2019میں سلیکشن بورڈ کے اشتہار کے لیے درخواستیں دی تھیں اور دستاویزات جمع کرائی تھیں مگر کراچی یونیورسٹی میں کئی وائس چانسلر آئے اور چلے گئے مگر سلیکشن بورڈ کے اجلاس منعقد نہیں ہوئے۔ ان میں سے کئی اساتذہ ریٹائرمنٹ کی عمرکو پہنچ گئے ہیں۔
مارکسی وادی کے دانشور ڈاکٹر ریاض احمد جنھوں نے دنیا کی معروف کیمبرج یونیورسٹی سے اپلائیڈ کیمسٹری میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی اور جنوبی کوریا سے پوسٹ ڈاکٹریٹ کیا تھا ، اساتذہ کی اس جدوجہد کو منظم کرنے میں مصروف ہیں۔
مختلف شعبوں کے علاوہ کراچی کی دیگر یونیورسٹیوں کے اساتذہ روزانہ اس احتجاجی کیمپ میں آتے ہیں اور اپنے ساتھیوں کے جائز مطالبات کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتے ہیں مگر کراچی یونیورسٹی کی انتظامیہ نے بے حسی جاری رکھی ہوئی ہے۔ یونیورسٹی کو کنٹرول کرنے والا وزیر اعلیٰ سندھ کا سیکریٹریٹ بھی خاموش ہے۔ اساتذہ کا کہنا ہے کہ اگر ان کے مطالبہ کو مان کر سلیکشن بورڈ کے اجلاس منعقد نہ ہوئے تو کراچی یونیورسٹی کے 4 سو اساتذہ سمیت 12 ہزار امیدوار سلیکشن بورڈ کے سامنے پیش ہونگے۔
جدید ممالک کی یونیورسٹیاں زندگی کے ہر موضوع پر تحقیق کرتی ہیں اور اس تحقیق سے سماج کے تمام ادارے مستفید ہوتے ہیں۔ یونیورسٹی میں تدریس اور تحقیق پر مباحثے ایک مضبوط روایت ہے۔ طلبہ اور اساتذہ ہر تحقیق پر بحث و مباحثہ کرتے ہیں اور ریاست ان خیالات کے بغیر کسی رکاوٹ کے اظہار کے لیے تحفظ فراہم کرتی ہے ، یوں علمی آزادی کا ادارہ یونیورسٹیوں کو دیگر اداروں سے ممتاز کرتا ہے۔
پاکستان کی یونیورسٹیوں میں اساتذہ کے ترقی کا طریقہ کار نہیں ہے بلکہ لیکچرار، اسسٹنٹ پروفیسر، ایسوسی ایٹ پروفیسر اور پروفیسر کی آسامی پر قواعد و ضوابط کے تحت تقرر ہوتا ہے۔ گزشتہ 20 برسوں کے دوران یونیورسٹی کلچر میں ہونے والی تبدیلیوں کے نتیجہ میں اب پی ایچ ڈی کرنے والے افراد ہی لیکچرار کے عہدہ کے اہل قرار پاتے ہیں۔
بیشتر یونیورسٹیوں میں پی ایچ ڈی کرنے والے اساتذہ کا اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر تقرر ہوتا ہے۔ ایسوسی ایٹ پروفیسر کی آسامی کے لیے 10ریسرچ پیپرز جو ہائر ایجوکیشن کمیشن (H.E.C) کے تصدیق شدہ تحقیقی رسالہ میں شایع ہوں اور 10سال کا تدریسی تجربہ لازمی ہوتا ہے۔ اسی طرح پروفیسر کے لیے 15ریسرچ پیپرز اور 15سالہ تدریس کا تجربہ لازمی ہوتا ہے۔
کراچی یونیورسٹی اس صدی کے آغاز سے تعلیمی اور مالیاتی بحران کا شکار ہے ، جو اساتذہ تحقیق کرتے ہیں یونیورسٹی ان کی مالیاتی مدد کرنے کے قابل نہیں ہے۔ کراچی یونیورسٹی کی سوشل سائنس، بزنس ایڈمنسٹریشن، اسلامیات اور قانون کی فیکلٹیز میں اساتذہ خود کتابیں تلاش کرتے ہیں۔ ایک سروے کرنا ہو تو اس پر آنے والے اخراجات استاد کو خود برداشت کرنا پڑتے ہیں۔ لائبریری میں بعض اہم کتابیں موجود نہیں ہوتیں۔ اساتذہ مارے مارے پھرتے ہیں۔ اب تو انفارمیشن ٹیکنالوجی کے جدید پلیٹ فارمز پر موضوع سے متعلق مواد حاصل کرنے کے لیے رقم ادا کرنی پڑتی ہے۔
ان فیکلٹیز میں ایچ ای سی کے منظور شدہ ریسرچ جرنلز کی تعداد محدود ہے۔ کراچی یونیورسٹی کے بعض شعبوں سے شایع ہونے والے جرنلز ایچ ای سی کی فہرست میں شامل ہیں۔ اب تو بعض ریسرچ جرنلز شایع کرنے والے ادارہ آرٹیکل کی اشاعت کے لیے فیس طلب کرتے ہیں۔ سائنس اور فارمیسی کی فیکلٹی کے شعبوں میں صورتحال زیادہ خراب ہے۔ سائنس میں لیباریٹری میں تجربات کے نتائج پر ریسرچ پیپرز تیار ہوتے ہیں مگر کراچی یونیورسٹی کے سائنس اور فارمیسی فیکلٹی میں لیب کی حالت خاصی خراب ہے۔
تجربہ کے لیے استعمال ہونے والا کیمیکل وافر مقدار میں دستیاب نہیں ہوتا۔ اساتذہ و اپنے ریسرچ پیپر کے لیے یہ کیمیکل بھی خریدنا پڑتا ہے۔ ریسرچ جنرلز کی فیس ادا کرنی پڑتی ہے۔ جب اساتذہ یہ تمام بوجھ برداشت کرتے ہیں اور سلیکشن بورڈ میں اپلائی کرتے ہیں تو برسوں گزر جاتے ہیں مگر سلیکشن بورڈ نہیں ہوتا۔ کراچی یونیورسٹی میں سیکڑوں اساتذہ عارضی بنیادوں پر کام کرتے ہیں۔ یہ اساتذہ ہمہ وقت تعلیمی شعبہ میں فرائض انجام دیتے ہیں مگر انھیں انتہائی قلیل رقم ادا کی جاتی ہے۔
ان کی ایک ہی امید ہوتی ہے کہ سلیکشن بورڈ کے ذریعہ مستقل ہوجائیں مگر کراچی یونیورسٹی کی انتظامیہ ان اساتذہ کو مستقل کرنے کے لیے سلیکشن بورڈ کا اجلاس نہیں بلاتی، یوں یونیورسٹی کم اجرت دے کر ان اساتذہ کا بدترین استحصال کرتی ہے۔ کراچی یونیورسٹی اپنے انفرااسٹرکچر کے تناظر میں دیگر یونیورسٹیوں سے پیچھے نظر آتی ہے۔ اب تک بہت سے شعبوں میں اسمارٹ کلاس رومز کا تصور عملی شکل اختیار نہیں کرسکا۔ بعض شعبوں میں اساتذہ قرونِ وسطیٰ کے بلیک بورڈ کو چاک سے بھر کر تدریس پر مجبور ہیں۔ یہی صورتحال سیمینار ہال اور ڈاکٹر محمود حسین لائبریری کی ہے۔
ایچ ای سی کراچی یونیورسٹی کی گرانٹ میں اضافہ نہیں کرتی۔ سندھ حکومت کو کراچی یونیورسٹی سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ پارٹی کے پہلے دورِ اقتدار میں یونیورسٹی کی خود مختاری اور علمی آزادی کے تحفظ کے لیے ایک جامع قانون بنایا گیا تھا۔ یونیورسٹی کے بعض اساتذہ کا کہنا ہے کہ اس پورے معاملہ میں ایک مسئلہ ایچ ای سی کے منظور کردہ جرنلز میں ریسرچ پیپرز کی اشاعت کا ہے ۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ بعض اساتذہ کے اس جرنلز میں ریسرچ پیپرز شایع ہوئے ہیں جو اب ایچ ای سی کی تسلیم شدہ جرنلز کی فہرست میں شامل نہیں ہیں، طویل عرصہ گزر گیا اب یہ مسئلہ حل ہو ہی جانا چاہیے۔
سابق فوجی آمر جنرل ضیاء الحق نے یونیورسٹی کے قانون میں کچھ تبدیلیاں کی ہیں جس کی بناء پر یونیورسٹی کے اداروں کا جمہوری تشخص خراب ہوا تھا۔ پیپلز پارٹی سے اچھے کاموں کی امید رکھنے والے صاحبان کو امید نہیں تھی کہ پیپلز پارٹی اپنے دور حکومت میں ایک ترمیم کے ذریعہ رجسٹرار اور ڈین کے تقرر کا اختیار چھین لے گی۔
سندھ کی یونیورسٹیوں کے اساتذہ نے تحریک چلائی تو حکومت نے کراچی اور سندھ یونیورسٹی کے قانون میں کی گئی ترامیم کو معطل کیا مگر بعض یونیورسٹیوں میں وہی قانون نافذ رہا۔ اب حکومت سندھ یونیورسٹیوں پر پابندی لگا رہی ہے کہ حکومت کی اجازت کے بغیر کوئی تقرر نہیں ہوسکتا، یوں یونیورسٹی کو کالج بنانے کا عمل شروع ہوگیا۔ کراچی یونیورسٹی اس ملک کا اثاثہ ہے۔ اس یونیورسٹی کو فوری طور پر اربوں روپے کی ضرورت ہے۔ ایسے نظام کی ضرورت ہے کہ اساتذہ کو احتجاج نہ کرنا پڑے۔