چیف جسٹس پاکستان کا خطاب
چیف جسٹس جناب عمر عطا بندیال نے کہا ہے کہ اگر آئین یا آئینی اداروں کو نیچا دکھایا گیا، ان کی خلاف ورزی کی گئی
چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے نئے عدالتی کے سال شروع میں اپنے خطاب میں چند اہم نکا ت اٹھائے ہیں۔ انھوں نے دو ٹوک انداز میں کہا کہ آئین کا ہر تناظر میں تحفظ کرنے کے لیے پر عزم ہیں۔
پارلیمان، صوبائی اسمبلیوں، اعلیٰ عدلیہ اور ماتحت عدلیہ، الیکشن کمیشن، فوج، آڈیٹر جنرل اور سول سروس پاکستان کا تحفظ ہر صورت میں یقینی بنائیں گے۔ محترم چیف جسٹس کے اس خطاب سے ملک میں جمہوریت اور جمہوری ادارے مضبوط ہوئے ہیں۔ سپریم کورٹ کو ہر حال میں ملک کے آئین وقانون کا تحفظ کرنا ہے۔
آئینی اداروں کا تحفظ کرنا ہے اور ملک کو آئین کے مطابق چلانے میں کردارادا کرنا ہے۔ چیف جسٹس جناب عمر عطا بندیال نے کہا ہے کہ اگر آئین یا آئینی اداروں کو نیچا دکھایا گیا، ان کی خلاف ورزی کی گئی، ان پر حملہ کیا گیاتو یہ عدالت اداروں کے آئینی تحفظ کے لیے ذرہ برابر بھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرے گی۔
چیف جسٹس پاکستان کے یہ خیالات ملک میں جمہوریت کو مضبوط کرنے میں کلیدی حیثیت رکھتے ہیں۔ جب تک سپریم کورٹ آئین اور آئینی اداروں کے ساتھ کھڑی ہے، ملک میں کوئی غیر آئینی کام نہیں ہو سکتا۔ آئین کا تحفظ ہی سپریم کورٹ کا بنیادی کردار ہے، اس لیے چیف جسٹس کے خیالات ان سب کے لیے واضح ہیں جو ملک میں کسی غیر آئینی کام کے لیے راہ ہموار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ پاکستان میں ماضی میں بھی جب بھی کوئی غیر آئینی کام ہوا ، اس وقت کی عدلیہ کی کمزوری کی وجہ سے ہی ہوا ہے۔
چاہے وہ کمزوری نظریہ ضرور ت کی صورت میں سامنے آئی ہو یا پی سی او حلف کی صورت میں آئی ہو،اس لیے مضبوط، متحرک اور ذہین عدلیہ ہی مضبوط جمہوریت کی ضامن ہے۔آئین پاکستان میں ہر ادارے کے فرائض اور دائرہ کار درج ہے، اس لیے عدلیہ ہو یا کوئی اور ادارہ ، ان کا آئینی حدود قیود میں رہنا بھی ضروری ہے کیونکہ آئین سے باہر نکلنے سے ملک میں غیر آئینی کام شروع ہو جاتے ہیں، ماضی میں اس کی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی کی رولنگ کے فیصلے پر سو موٹو کا بھی اپنے خطاب میں ذکر کیا ہے۔ انھوں نے کہا یہ سوموٹو ساتھی ججز کی مشاورت سے لیا گیا ۔ یہ درست ہے کہ چیف جسٹس عمر عطا بندیا ل نے سوموٹو جیوڈیشل ایکٹوزم کو بریک لگائی ہے۔ انھوں نے ماضی کے چیف جسٹس صاحبان کی طرح روزانہ سوموٹو نہیں لیے ، اس لیے ان کی جانب سے لیے گئے سو موٹو انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں۔
اسی لیے انھوں نے کہا کہ جب انھوں نے چیف جسٹس پاکستان کا چارج سنبھالا تو انھیں سستے اور فوری انصاف جیسے چیلنجز کا سامنا تھا۔ اسی طرح زیرالتو مقدمات اور از خود نوٹس کے اختیارات کے استعمال کے چیلنجز کا بھی سامنا تھا۔ چیف جسٹس پاکستا ن نے بتایا کہ ان کے دور میں زیرالتو مقدمات کی تعداد 54سے کم ہو کر 50ہزار ہو گئی ہے۔ میرے نزدیک اس سے ز یادہ تیز رفتار سے زیر التو مقدمات ختم کیے جانے چاہیں اور اس کا ایک واضح روڈ میپ عوام کے سامنے پیش کرنا چاہیے۔
چیف جسٹس پاکستان نے جہاں اپنے خطاب میں ایسے آئینی نکات کی نشاندہی کی جس پر سب کا اتفاق ہے، وہاں انھوں نے چند متنازعہ نکات کی طرف بھی نشاندہی کی۔ انھوں نے پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے مقدمے کا بالخصوص ذکر کیا۔ انھوں نے کہا کہ وفاق نے اس مقدمہ میں لارجر بنچ بنانے کے لیے کہا لیکن وفاق کا یہ مطالبہ قانون کے مطابق نہیں تھا۔
مجھے آئین اور قانون کی کوئی خاص سمجھ نہیں ہے لیکن عام آدمی یہ قانونی گتھی سمجھنے سے قاصر ہے کہ مریم نواز کو ایک پاسپورٹ واپسی کے لیے تو فل بنچ بن جائے، ایک فرد عمران خان کے خلاف توہین عدالت کے لیے تو فل بنچ بن جائے تو پھر جہاں پوری ایک حکومت کا معاملہ تھا، وہاں فل بنچ بنانے میں حرج کیا تھا۔ ماضی میں ایک جج کے ریفرنس پر بھی فل بنچ بنا دیا گیا تھا۔ کم اہمیت کے آئینی و قانونی معاملات پر فل بنچ بنائے گئے تو ایسے میں اگر چیف جسٹس پاکستان فل بنچ بنا دیتے تو آئین وقانون کی کونسی شق کی خلاف ورزی ہو جاتی ۔
عام آدمی اس کو ایسے بھی دیکھتا ہے کہ جب قومی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کا کیس تھا تو پانچ رکنی فل بنچ نے سماعت کی تو پھر پنجاب اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کا مقدمہ پانچ رکنی فل بنچ نے کیوں نہیں سنا؟ اب چیف جسٹس نے خطاب میں بات کر ہی دی ہے تو مسئلہ کا حل بھی نکلنا چاہیے۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا ہے کہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ کے مقدمہ میں سپریم کورٹ بار کا کردار بھی جانبدرانہ تھا۔ ویسے تو سپریم کورٹ بار میں سیاسی جماعتوں کے حامی وکلا موجود ہیں، اس لیے وہاں سے سیاسی رائے آسکتی ہے۔ لیکن پھر بھی یہ ملک بھر کے سینئر وکلا کا ایک منتخب فورم ہے۔ جہاں وکلا کی اجتماعی دانش نظر آتی ہے لہٰذا سپریم کورٹ بار کی رائے کو مکمل طور پر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ سپریم کورٹ اور سپریم کورٹ بار کے درمیان لفظی کشیدگی بھی نظام انصاف کے لیے اچھی نہیںہوتی۔
جہاں تک جیوڈیشل کمیشن کی بات ہے تو چیف جسٹس پاکستان نے کہا ہے کہ پنجاب کے مقدمے کا رد عمل جیوڈیشل کمیشن میں آیا'اس حوالے سے میں کوئی رائے نہیں دوں گا تاہم میڈیا میںیہ بھی آیا تھا کہ جیوڈیشل کمیشن میں ساتھی ججز نے بھی مختلف رائے دی ہے۔ اس لیے کہیں نہ کہیں ججز کی تعیناتی پر سپریم کورٹ کو متحد رکھنا بھی چیف جسٹس کا ہی کام ہے۔ انھوں نے اس پر کام بھی کیا ہے۔ بہر حال چیف جسٹس کا خطاب جمہوریت کے لیے بہترین تھا۔ اس سے ملک میں جمہوریت مضبوط ہوئی ہے۔