کھانے کے اوقات ہماری ذہنی صحت کو متاثر کرسکتے ہیں تحقیق
تحقیق میں محققین نے بے وقت کھانا کھانے والے افراد میں ڈپریشن اور بے چینی میں اضافہ دیکھا
ایک نئی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کھانے کے اوقات ہماری ذہنی صحت کو متاثر کرنے کی سکت رکھتے ہیں۔
امریکی ریاست میساچوسیٹس میں قائم بریگھم اینڈ ویمنز ہاسپٹل میں کی جانے والی تحقیق میں محققین نے شفٹوں کی نوکریوں کے شیڈول کا نمونہ بنایا جس میں انہوں نے بے وقت کھانا کھانے والے افراد میں ڈپریشن اور بے چینی میں اضافہ دیکھا۔
تحقیق کے شریک مصنف فرینک شیئر کا کہنا تھا کہ تحقیق کے نتائج ہمارے جسم کی اندرونی گھڑی کی بے ترتیبی کا شکار افراد کے مزاج کو کھانے کے اوقات کے سبب پہنچنے والے نقصان سے ممکنہ طور پر کم کرنے کے لیے ایک منفرد طریقہ ہونے کے شواہد پیش کرتے ہیں۔ جیسے کہ وہ لوگ جو شفٹوں میں کام کرتے ہیں اور وقتی نیند کے مسائل (جیٹ لیگ) کا شکار ہوتے ہیں۔
شیئر نے نیوز ریلیز میں کہا کہ شفٹ میں کام کرنے والے اور مطبی افراد میں مستقبل کے مطالعوں کی ضرورت ہے تاکہ اس بات کا تعین کیا جاسکے کہ کھانے کے اوقات میں تبدیلی مزاج کی حساسیت سے بچا سکتی ہے۔ تب تک کے لیے یہ تحقیق ایک نیا عنصر سامنے لاتی ہے اور وہ یہ ہے کہ کھانے کے اوقات ہمارے مزاج کے لیے مسائل رکھتے ہیں۔
تحقیق کے مطابق صنعتی معاشروں میں فیکٹریوں اور اسپتالوں جیسی جگہوں پرتقریباً 20 فی صد تک ملازمین شفٹوں میں کام کرتے ہیں۔ ان ملازمین میں سے اکثر اپنے دماغ اور روزمرہ کے رویے میں اپنی مرکزی 'سِرکیڈین کلاک'کے مابین بے ترتیبی شکار ہوتے ہیں۔ ان میں سونے جاگنے اور بھوکے رہنے اور کھانا کھانے کے دورانیے شامل ہوتے ہیں۔ ان افراد کے ڈپریشن اور بے چینی میں مبتلا ہونے کے امکانات 25 فی صد سے 40 فی صدت بلند ہوتے ہیں۔
محققین کی جانب سے کی جانے والی تحقیق میں 12 مرد اور سات خواتین کا انتخاب کیا گیا۔ شرکاء کو مدھم روشنی کے چار 28 گھنٹوں کے دنوں کو جبراً غیر مطابقتی ماحول میں رکھا گیا۔
امریکی ریاست میساچوسیٹس میں قائم بریگھم اینڈ ویمنز ہاسپٹل میں کی جانے والی تحقیق میں محققین نے شفٹوں کی نوکریوں کے شیڈول کا نمونہ بنایا جس میں انہوں نے بے وقت کھانا کھانے والے افراد میں ڈپریشن اور بے چینی میں اضافہ دیکھا۔
تحقیق کے شریک مصنف فرینک شیئر کا کہنا تھا کہ تحقیق کے نتائج ہمارے جسم کی اندرونی گھڑی کی بے ترتیبی کا شکار افراد کے مزاج کو کھانے کے اوقات کے سبب پہنچنے والے نقصان سے ممکنہ طور پر کم کرنے کے لیے ایک منفرد طریقہ ہونے کے شواہد پیش کرتے ہیں۔ جیسے کہ وہ لوگ جو شفٹوں میں کام کرتے ہیں اور وقتی نیند کے مسائل (جیٹ لیگ) کا شکار ہوتے ہیں۔
شیئر نے نیوز ریلیز میں کہا کہ شفٹ میں کام کرنے والے اور مطبی افراد میں مستقبل کے مطالعوں کی ضرورت ہے تاکہ اس بات کا تعین کیا جاسکے کہ کھانے کے اوقات میں تبدیلی مزاج کی حساسیت سے بچا سکتی ہے۔ تب تک کے لیے یہ تحقیق ایک نیا عنصر سامنے لاتی ہے اور وہ یہ ہے کہ کھانے کے اوقات ہمارے مزاج کے لیے مسائل رکھتے ہیں۔
تحقیق کے مطابق صنعتی معاشروں میں فیکٹریوں اور اسپتالوں جیسی جگہوں پرتقریباً 20 فی صد تک ملازمین شفٹوں میں کام کرتے ہیں۔ ان ملازمین میں سے اکثر اپنے دماغ اور روزمرہ کے رویے میں اپنی مرکزی 'سِرکیڈین کلاک'کے مابین بے ترتیبی شکار ہوتے ہیں۔ ان میں سونے جاگنے اور بھوکے رہنے اور کھانا کھانے کے دورانیے شامل ہوتے ہیں۔ ان افراد کے ڈپریشن اور بے چینی میں مبتلا ہونے کے امکانات 25 فی صد سے 40 فی صدت بلند ہوتے ہیں۔
محققین کی جانب سے کی جانے والی تحقیق میں 12 مرد اور سات خواتین کا انتخاب کیا گیا۔ شرکاء کو مدھم روشنی کے چار 28 گھنٹوں کے دنوں کو جبراً غیر مطابقتی ماحول میں رکھا گیا۔