سیلاب اور سیاست

سیاستدانوں کے اختلافات کی وجہ سے آج تک یہ ڈیم تعمیر نہیں ہو سکا

سیاستدانوں کے اختلافات کی وجہ سے آج تک یہ ڈیم تعمیر نہیں ہو سکا۔ فوٹو: فائل

وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ عوام وقت آنے پر سیلاب پر سیاست کرنے والوں سے حساب لیں گے۔ عوام کو پتہ ہے کون سیلاب پر سیاست اورکون خدمت کر رہا ہے ، وہ خاموش ہیں لیکن ان کے اندر ناراضی ، دکھ اور تکلیف ہے جسے وہ بیان نہیں کر پا رہے۔

ان خیالات کا اظہار انھوں نے اپنی زیر صدارت وفاقی کابینہ کے اجلاس میں کیا۔ دوسری جانب سیلاب سے سندھ کے کئی علاقے تاحال پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں ۔ ملک بھر میں بارشوں اور سیلابی صورتحال کے باعث مزید54افراد جان سے گئے۔

دو ہزار دس کے سیلاب کے نقصانات کا تخمینہ چالیس ارب ڈالرز لگایا گیا تھا۔ رواں سال سیلاب کی شدت بھی زیادہ ہے اور اب کی بار دو ہزار دس کی نسبت ملک کا زیادہ علاقہ متاثر ہوا ہے۔ حالیہ سیلاب کے بعد بحالی کے لیے لہٰذا کثیر رقم درکار ہوگی۔ ملکی معیشت کا حال سب کے سامنے ہے، ان حالات میں سیاسی استحکام یقینی بنانا تمام سیاسی جماعتوں کا فرض ہے۔

سوشل اور الیکٹرانک میڈیا کے توسط سے درد ناک واقعات کی رپورٹنگ اور پروگرامز دیکھ کر دل کٹ جاتا ہے۔ سیلاب متاثرہ علاقوں میں سڑکوں اور نہروں کے کنارے لاکھوں کی تعداد میں لوگ کھلے آسمان کے نیچے موجود ہیں ، اگرچہ بڑی حد تک ریلیف کا کام شروع ہو چکا ہے مگر مستحقین کی ایک بڑی تعداد کوکوئی امداد اب تک نہیں ملی ہے۔

بہت سے علاقوں میں سیلابی پانی میں پھنسے لوگوں کے پاس کھانے کو کچھ نہیں بچا۔ چاروں طرف سے گندے پانی میں گھرے لوگوں کو پیاس بجھانے کے لیے پینے کے قابل صاف پانی بھی میسر نہیں اور وہ آلودہ پانی پینے کے سبب وبائی امراض میں مبتلا ہو رہے ہیں۔ ہر دوسرا شخص ملیریا، ڈنگی، پیٹ یا جلد کی بیماری کا شکار ہو چکا ہے۔ خدانخواستہ صورتحال یہی رہی تو بڑی تعداد میں انسانی اموات ہونے کا خدشہ ہے۔

سیلاب سے متاثرہ عوام اسی وجہ سے پانی اترنے کے بعد بھی مستقبل سے متعلق خدشات میں مبتلا ہیں ، جس وسیع رقبے پر سیلاب کا پانی موجود ہے لگتا نہیں دو ماہ میں پانی اتر جائے گا۔ کپاس اور گنے کی فصل نقد آور تصور ہوتی ہے۔ جنوبی پنجاب اور سندھ کے زرعی علاقوں میں سارے سال کے اخراجات پورے کرنے کے لیے لوگ ان فصلوں کی آمدن پر تکیہ کرتے ہیں۔

پانی میں ڈوبنے سے کپاس کی فصل مکمل طور پر ختم ہو چکی ہے اور گنے میں بھی کیڑا لگنا شروع ہو چکا ہے۔ دس سے پندرہ روز مزید گنے کی فصل ڈوبی رہی تو وہ بھی خراب ہو جائے گی۔ نومبر کے مہینے میں گندم کی بوائی ہوتی ہے۔ اکتوبر تک اگر زرعی زمینوں سے پانی مکمل طور پر نہیں نکل سکا توگندم کی فصل بھی کاشت نہیں ہو سکے گی ، یعنی جو خوش قسمت سیلاب میں ڈوب کر مرنے سے بچ جائیں گے لا محالہ اگلے سال بھی وہ قحط اور بھوک میں مبتلا رہیں گے۔

کس کس جگہ کا نوحہ لکھا جائے؟ دیکھتے ہی دیکھتے تونسہ اور ڈیرہ غازی خان میں دیہات کے دیہات صفحہ ہستی سے مٹ گئے۔ بلوچستان میں پہلے کم بدحالی اور غربت تھی، اب وہاں حالات زیادہ خراب ہونے کا خدشہ ہے ،کے پی کے بھی تباہی سے محفوظ نہیں رہا حالانکہ ابتدا میں وہاں حالات قدرے بہتر تھے۔ خصوصاً سوات، چارسدہ اور بحرین کے مناظر دل دہلا دینے والے ہیں۔ نوشہرہ تو مکمل ڈوب چکا ہے۔ کراچی کے سوا تقریباً پورا سندھ ہی زیر آب ہے۔ سکھر، لاڑکانہ اور خیرپور میں بھی بہت تباہی ہوئی ہے مگر ان بڑے شہروں کے علاوہ بھی سندھ میں اکثر علاقے مکمل برباد ہوئے ہیں۔

سیلاب میں ڈوبے ان چھوٹے شہروں اور دیہاتی علاقوں پر مگر زیادہ توجہ اب بھی کوئی نہیں دے رہا۔ خیرپور، ناتھن شاہ، جھڈو میہڑ جوہی اور نوشہرو فیروز میں سنگین المیہ برپا ہے۔ سانگھڑ بھی بلا مبالغہ مکمل سیلاب برد ہو چکا ہے۔ پورے ملک میں کئی لاکھ مکانات گر چکے ہیں اور کئی لاکھ مویشی بہہ چکے ہیں۔ بھینس اور بکریوں کے سوا غریبوں کا کوئی معاشی سہارا نہیں ہوتا، جو مویشی کسی طرح ڈوبنے سے بچ بھی گئے ہیں ان کو کھلانے کے لیے چارہ بھی دستیاب نہیں ہے۔ اندازہ لگائیں جس غریب کے سر کی چھت بھی چھن چکی ہو اور معاشی سہارا بھی ہاتھ سے نکل گیا ہو اس کا کیا حال ہو گا؟ سیلاب متاثرہ علاقوں میں سڑکوں اور نہروں کے کنارے لاکھوں کی تعداد میں لوگ کھلے آسمان کے نیچے موجود ہیں۔

نہایت افسوس کی بات ہے کہ اس نازک وقت میں بھی ہمارے سیاست دان باہم دست و گریبان ہیں۔ عمران خان اس وقت اپنی مقبولیت کے عروج پر ہے اور انھیں دنیا بھر سے پیسے اکٹھے کرنے کا سب سے وسیع تجربہ ہے، اگر ایک ماہ کے لیے اپنی سیاسی سرگرمیاں معطل کرکے سیلاب زدگان کی مدد کی مہم چلائیں تو دنیا بھر سے اس میں بہت زیادہ امداد جمع ہوسکتی تھی اور ان کے پارٹی کے ورکرز بھی پاکستان بھر سے اس کام میں جت جاتے تو ماحول یکسر بدل جاتا، مایوس دلوں، ڈوبتی نبضوں، سیلاب میں بہتے ارمانوں کا کچھ نہ کچھ مداوا ہوسکتا تھا، مگرانھوں نے ایسا نہیں کیا ۔


کسی نے انھیں متوجہ نہیں کیا، کم از کم ان کی پارٹی کے وہ لوگ جو ان متاثرہ ایریاز سے تعلق رکھتے تھے، وہی انھیں یاد کروا دیتے کہ خان صاحب ہمارے ووٹرز جنہوں نے ہمیں لاکھوں ووٹ دیئے ہیں، ہم پر اعتماد کیا ہے، وہ مصیبت میں ہیں، پہلے ان کی مصیبت کو دور کریں۔

زمینی حقائق کے تناظر میں دیکھا جائے تو ایک استعاراتی ہالہ بنتا دکھائی دیتا ہے' جس میں معاشرے کے خدوخال واضح ہو کر سامنے آتے ہیں۔ بقول ڈاکٹر نذیر تبسم :

آپ سے کس نے کہا تھا کہ محبت کیجیے

آپ تو اہل سیاست ہیں، سیاست کیجیے

وزیراعظم شہبازشریف نے کابینہ اجلاس میں جو کہا ہے ، وہ درست ہے۔ بلاشبہ یہ وقت ہے، گزر جائے گا مگر لوگوں کے رویے یاد رہیں گے، ان متاثرین کو اگر کسی نے ہمدردی کے دو بول بولے ہونگے تو یاد رہیں گے، اگر کسی نے آگے بڑھ کر کسی کو دو وقت کی روٹی دی ہوگی تو انھیں یاد رہے گی ، اگر کسی کے پانی میں بہہ جانے والے گھر کو دوبارہ تعمیر کے لیے اینٹیں، سیمنٹ لے کر دیا ہوگا تو اس کی نسلیں بھی ان کی ممنون احسان رہیں گی۔

قابل غور ہے کہ بارشوں کی وجہ سے سیلاب آنا برسوں کا معمول ہے ، لیکن حکمرانوں نے بارش کے پانی کو محفوظ کرنے کے لیے ڈیم اور پانی کے ذخائر بنانے کی طرف توجہ نہیں دی۔ چند دن پہلے کی خبر ہے کہ بھارت نے حسب معمول پاکستان کی طرف پانی چھوڑ دیا ہے۔ راوی میں بھی پانی کی سطح حد سے زیادہ بڑھنے کے خدشے کا اظہار ہو رہا ہے۔

ایک طرف ملک میں پانی کی شدید قلت ہے۔ مثال کے طور پر تھر میں پانی نہ ہونے کی وجہ سے ہر سال ہلاکتیں ہو تی ہیں۔ جانور بھی مرتے ہیں۔ یہی حال بلوچستان اور دیگر صوبوں اور شہروں کے کئی علاقوں کا ہے۔ یعنی ایک طرف عوام پانی کی بوند بوند کو ترستے ہیں۔ دوسری طرف پانی اس قدر وافر مقدار میں موجود ہے کہ سیلاب کی صورت میں غضب ڈھاتا ہے۔

برسوں سے ماہرین نوحہ کناں ہیں کہ ہمیں ڈیموں کی تعمیر کی طرف توجہ دینی چاہیے۔ یقیناً ہمارے ہاں ڈیم بننے چاہیے تھے، مگر مسئلہ یہ ہے کہ سیاستدانوں کو نعرے بازی سے فرصت نہیں۔ افسوس کہ ہمارے ہاں قومی منصوبے تک سیاست کی نذر ہو جاتے ہیں۔ کالا باغ ڈیم کی مثال ہمارے سامنے ہے۔

سیاستدانوں کے اختلافات کی وجہ سے آج تک یہ ڈیم تعمیر نہیں ہو سکا۔ کسی حکمران نے اس جانب توجہ نہیں دی۔ آج کالا باغ سمیت دیگر ڈیم بن گئے ہوتے تو پاکستان کے حالات مختلف ہوتے۔ لوگ پانی کو ترس رہے ہوتے اور نہ ہی بارشوں اور سیلاب کا پانی یوں سرعام تباہی کا باعث بن رہا ہوتا۔ اعداد و شمار کے مطابق بھارت نے پانچ ہزار سے زائد ڈیم تعمیر کر رکھے ہیں۔ ہمارے اہل سیاست ان تمام معاملات سے بے نیاز سیاسی اختلافات میں الجھے ہیں۔

ان کی توجہ ایک دوسرے کو نااہل کروانے ، ایک دوسرے کی حکومت کو گرانے، ایک دوسرے کو میدان سیاست سے باہر کرنے تک محدود ہے۔ ایسے میں بارشوں اور سیلاب متاثرین اور ڈیموں کی تعمیر کی جانب کون توجہ مرکوز کرے۔ یہ وقت سیاست کا نہیں بلکہ متاثرین کی بحالی اور امداد کا ہے ، سیاستدان قوم کی توقعات پر پورا اتریں۔
Load Next Story