تحریک انصاف اور امریکی ملاقاتیں
ایسی صورت میں اگر عمران خان سے امریکا ، یا امریکا سے عمران خان دوبارہ تعلقات بحال کر رہے ہیں تو اس میں بری بات کیا ہے؟
آج کل بہت سی خبروں نے آن گھیرا ہے کہ تحریک انصاف جو امریکا کے خلاف جارحانہ لب و لہجہ رکھتی تھی، نے امریکا کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے ''لابنگ'' شروع کردی ہے۔
ویسے آگے چلنے سے پہلے بتاتا چلوں کہ ہم تو اس حوالے سے شروع دن سے ہی کہتے آئے ہیں کہ امریکا آج بھی سپر پاور ہے، کل بھی تھا اور کم از کم اگلے 30,35سال تک رہے گا، اس لیے اُس کے ساتھ بگاڑ پیدا کرنے کا فائدہ نہیں، ہاں!یورپ کی طرح آپ کی حکمت عملی ایسی ہونی چاہیے کہ آپ ذاتی سطح پر فائدے لینے کے بجائے قومی سطح پر اُس سے فنانشل فائدے لے کر پاکستان کی معیشت بہتر بنائیں۔
اس کے لیے پاکستان کو بھی کم از کم بھارت، بنگلہ دیش جیسی نسبتاً مضبوط معیشت کے برابر رکھنا پڑے گا، تبھی امریکا بات بھی سنے گا، اور اعلیٰ سطح پر مذاکرات بھی کرے گا۔ عمران خان نے بھی اپنے دور میں یہی کوشش کی تھی کہ کم از کم برابری کی سطح پر بات نا بھی ہو مگر اتنی نچلی سطح پر بھی بات نہیں ہونی چاہیے کہ آپ کا مورال ڈاؤن کر دیا جائے۔
لہٰذااس بات کو لے کر اس وقت تحریک انصاف کے خلاف جو ''پراپیگنڈہ '' کیا جا رہا ہے کہ شاید تحریک انصاف امریکا کے ہاتھوں میں ہاتھ دینے کے لیے بے تاب ہو رہی ہے، اُس حوالے سے پہلی ''تصدیق شدہ'' خبر گزشتہ ماہ آئی جب پی ٹی آئی نے 6 ماہ کے لیے امریکا میں ایک لابنگ فرم کی خدمات حاصل کی ہیں اور معاہدے کے مطابق کمپنی پی ٹی آئی کو پبلک ریلیشنز سروسز فراہم کرے گی۔
اس کے علاوہ کمپنی مضامین چھپوانے، پی ٹی آئی نمایندوں اور حمایت کرنے والوں کے ٹی وی انٹرویوز کا اہتمام بھی کرے گی۔ جب کہ اس حوالے سے فواد چوہدری کہتے ہیں کہ جس فرم سے معاہدہ کیا گیا ہے وہ لابی فرم نہیں ہے بلکہ وہ میڈیا ریلیشن شپ کی فرم ہے جس کے ساتھ پی ٹی آئی (USA) نے میڈیا میں اپنے نقطہ نظر کو اجاگر کرنے کے لیے معاہدہ کیا ہے۔
جب کہ دوسری تصدیق شدہ خبر کے مطابق وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں ان دنوں عمران خان کی سابق خاتون امریکی سفارتکار رابن رافیل سے بنی گالہ میں ملاقات موضوع بحث بنی ہوئی ہے ، اس بات میں شدت اس وقت آئی جب عمران خان انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش ہوئے تو میڈیا کے نمایندوں نے ان سے اس ملاقات کے بارے میں استفسار کیا لیکن انھوں نے نہ تو اس کی تصدیق کی اور نہ ہی تردید۔ایسے موقعے پر اس طرز عمل سے یہ فرض کر لیا جاتا ہے کہ واضح لفظوں میں جواب نہ ملنا اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ بیک اسٹیج ڈپلومیسی جاری ہے۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ رابن رافیل محض سفارتکار ہی نہیں بلکہ کئی حوالوں سے ان کی شخصیت کے متنازعہ پہلو بھی ہیں، 80 کی دہائی میں پاکستان میں متعین امریکی سفیر آرنلڈ لوئیس رافیل کی بیوہ ہیں جو 17 اگست 1988میں جنرل ضیاء الحق کے طیارے کو پیش آنے والے حادثے میں لقمہ اجل بن گئے تھے۔ سینئر سفارتکار کی حیثیت سے ان کی اہلیہ پاکستان کے امور کی ماہر سمجھی جاتی ہیں وہ پاکستان کے لیے امریکا کے غیر فوجی ترقیاتی پروگراموں کی رابطہ کار بھی رہ چکی ہیں اور پاکستان اور افغانستان میں امریکا کے خصوصی نمایندے کے لیے پاکستانی امور کی مشیر بھی۔
اس کے علاوہ ایک اور خبر یہ آئی کہ پشاور کے دورے کے دوران امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم اور عمران خان کے درمیان ٹیلیفونک رابطہ ہوا تھا اور ''خوشگوار'' موڈ میں بات ہوئی تھی۔ اور اس رابطے میں پل کا کردار فواد چوہدری نے ادا کیا تھا، مگر وہ میڈیا پر اس بات سے شاید اس لیے انکاری تھے کہ ایک مخصوص طبقہ (میڈیا) اُن کے خلاف اس حوالے سے پراپیگنڈہ کر سکتا ہے۔ خیر امریکا کے ساتھ تعلقات میں توازن اور وقار قائم کرنا محض عمران خان کی خواہش نہیں بلکہ ہر حکمران اور پاکستانی کی رہی ہے۔
چلیں مان لیا کہ خان صاحب کے ہاتھ ایک ایسا کاغذ کا ٹکڑا لگا جس میں اُس وقت کی حکومت یا پاکستان کے خلاف سازش کی گئی تھی اور عمران خان نے اُسے پبلک بھی کر دیا۔ ہر جلسے جلوس میں اُس کا ذکر بھی کرتے پائے گئے، تو کیا غلطی کا ازالہ نہیں کیا جا سکتا؟ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ امریکا دنیا کا سب سے طاقت ور ملک ہے۔
لہٰذا ایسی صورت میں اگر عمران خان سے امریکا ، یا امریکا سے عمران خان دوبارہ تعلقات بحال کر رہے ہیں تو اس میں بری بات کیا ہے؟ میرے خیال میںاس حوالے سے تحریک انصاف کو ایک بھرپور کانفرنس کا انعقاد کرنا چاہیے، اور بتانا چاہیے کہ اُن کی پارٹی امریکا سے کس قسم کے تعلقات چاہتی ہے۔ یہ بھی بتانا چاہیے کہ ماضی میں امریکا نے کس کس طرح پاکستان کو استعمال کیا اور بدلے میں پاکستان اُس سے کوئی فائدہ حاصل نہ کر سکا۔ بلکہ 60کی دہائی میں پاکستان نے امریکا اور چین کے تعلقات بہتر بنانے میں اہم کردار ادا کیا مگر بدلے میں پاکستانی حکمران ذاتی مفادات حاصل کرتے رہے لیکن پاکستان کے لیے کچھ حاصل نہ کر سکے۔ بالآخر پاکستان کی کوششوں سے چین اور امریکا کے تعلقات بحال ہوئے تھے مگر بقول شاعر ہم پھر بھی رسوا رہے۔
رسوا ہوئے ذلیل ہوئے در بدر ہوئے
حق بات لب پہ آئی تو ہم بے ہنر ہوئے
بہرکیف آج صورتحال یہ ہے کہ امریکی بھی ہوا کا رُخ دیکھ کر فیصلہ کرتے ہیں، وہ مانیٹر کر رہے ہیں کہ عمران خان کی پاکستان کی مستقبل کی سیاست میں کیا حیثیت ہے کیونکہ امریکا ہر کارڈ کو اس کی اہمیت کے مطابق کھیلنے کا فن جانتا ہے۔
ویسے آگے چلنے سے پہلے بتاتا چلوں کہ ہم تو اس حوالے سے شروع دن سے ہی کہتے آئے ہیں کہ امریکا آج بھی سپر پاور ہے، کل بھی تھا اور کم از کم اگلے 30,35سال تک رہے گا، اس لیے اُس کے ساتھ بگاڑ پیدا کرنے کا فائدہ نہیں، ہاں!یورپ کی طرح آپ کی حکمت عملی ایسی ہونی چاہیے کہ آپ ذاتی سطح پر فائدے لینے کے بجائے قومی سطح پر اُس سے فنانشل فائدے لے کر پاکستان کی معیشت بہتر بنائیں۔
اس کے لیے پاکستان کو بھی کم از کم بھارت، بنگلہ دیش جیسی نسبتاً مضبوط معیشت کے برابر رکھنا پڑے گا، تبھی امریکا بات بھی سنے گا، اور اعلیٰ سطح پر مذاکرات بھی کرے گا۔ عمران خان نے بھی اپنے دور میں یہی کوشش کی تھی کہ کم از کم برابری کی سطح پر بات نا بھی ہو مگر اتنی نچلی سطح پر بھی بات نہیں ہونی چاہیے کہ آپ کا مورال ڈاؤن کر دیا جائے۔
لہٰذااس بات کو لے کر اس وقت تحریک انصاف کے خلاف جو ''پراپیگنڈہ '' کیا جا رہا ہے کہ شاید تحریک انصاف امریکا کے ہاتھوں میں ہاتھ دینے کے لیے بے تاب ہو رہی ہے، اُس حوالے سے پہلی ''تصدیق شدہ'' خبر گزشتہ ماہ آئی جب پی ٹی آئی نے 6 ماہ کے لیے امریکا میں ایک لابنگ فرم کی خدمات حاصل کی ہیں اور معاہدے کے مطابق کمپنی پی ٹی آئی کو پبلک ریلیشنز سروسز فراہم کرے گی۔
اس کے علاوہ کمپنی مضامین چھپوانے، پی ٹی آئی نمایندوں اور حمایت کرنے والوں کے ٹی وی انٹرویوز کا اہتمام بھی کرے گی۔ جب کہ اس حوالے سے فواد چوہدری کہتے ہیں کہ جس فرم سے معاہدہ کیا گیا ہے وہ لابی فرم نہیں ہے بلکہ وہ میڈیا ریلیشن شپ کی فرم ہے جس کے ساتھ پی ٹی آئی (USA) نے میڈیا میں اپنے نقطہ نظر کو اجاگر کرنے کے لیے معاہدہ کیا ہے۔
جب کہ دوسری تصدیق شدہ خبر کے مطابق وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں ان دنوں عمران خان کی سابق خاتون امریکی سفارتکار رابن رافیل سے بنی گالہ میں ملاقات موضوع بحث بنی ہوئی ہے ، اس بات میں شدت اس وقت آئی جب عمران خان انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش ہوئے تو میڈیا کے نمایندوں نے ان سے اس ملاقات کے بارے میں استفسار کیا لیکن انھوں نے نہ تو اس کی تصدیق کی اور نہ ہی تردید۔ایسے موقعے پر اس طرز عمل سے یہ فرض کر لیا جاتا ہے کہ واضح لفظوں میں جواب نہ ملنا اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ بیک اسٹیج ڈپلومیسی جاری ہے۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ رابن رافیل محض سفارتکار ہی نہیں بلکہ کئی حوالوں سے ان کی شخصیت کے متنازعہ پہلو بھی ہیں، 80 کی دہائی میں پاکستان میں متعین امریکی سفیر آرنلڈ لوئیس رافیل کی بیوہ ہیں جو 17 اگست 1988میں جنرل ضیاء الحق کے طیارے کو پیش آنے والے حادثے میں لقمہ اجل بن گئے تھے۔ سینئر سفارتکار کی حیثیت سے ان کی اہلیہ پاکستان کے امور کی ماہر سمجھی جاتی ہیں وہ پاکستان کے لیے امریکا کے غیر فوجی ترقیاتی پروگراموں کی رابطہ کار بھی رہ چکی ہیں اور پاکستان اور افغانستان میں امریکا کے خصوصی نمایندے کے لیے پاکستانی امور کی مشیر بھی۔
اس کے علاوہ ایک اور خبر یہ آئی کہ پشاور کے دورے کے دوران امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم اور عمران خان کے درمیان ٹیلیفونک رابطہ ہوا تھا اور ''خوشگوار'' موڈ میں بات ہوئی تھی۔ اور اس رابطے میں پل کا کردار فواد چوہدری نے ادا کیا تھا، مگر وہ میڈیا پر اس بات سے شاید اس لیے انکاری تھے کہ ایک مخصوص طبقہ (میڈیا) اُن کے خلاف اس حوالے سے پراپیگنڈہ کر سکتا ہے۔ خیر امریکا کے ساتھ تعلقات میں توازن اور وقار قائم کرنا محض عمران خان کی خواہش نہیں بلکہ ہر حکمران اور پاکستانی کی رہی ہے۔
چلیں مان لیا کہ خان صاحب کے ہاتھ ایک ایسا کاغذ کا ٹکڑا لگا جس میں اُس وقت کی حکومت یا پاکستان کے خلاف سازش کی گئی تھی اور عمران خان نے اُسے پبلک بھی کر دیا۔ ہر جلسے جلوس میں اُس کا ذکر بھی کرتے پائے گئے، تو کیا غلطی کا ازالہ نہیں کیا جا سکتا؟ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ امریکا دنیا کا سب سے طاقت ور ملک ہے۔
لہٰذا ایسی صورت میں اگر عمران خان سے امریکا ، یا امریکا سے عمران خان دوبارہ تعلقات بحال کر رہے ہیں تو اس میں بری بات کیا ہے؟ میرے خیال میںاس حوالے سے تحریک انصاف کو ایک بھرپور کانفرنس کا انعقاد کرنا چاہیے، اور بتانا چاہیے کہ اُن کی پارٹی امریکا سے کس قسم کے تعلقات چاہتی ہے۔ یہ بھی بتانا چاہیے کہ ماضی میں امریکا نے کس کس طرح پاکستان کو استعمال کیا اور بدلے میں پاکستان اُس سے کوئی فائدہ حاصل نہ کر سکا۔ بلکہ 60کی دہائی میں پاکستان نے امریکا اور چین کے تعلقات بہتر بنانے میں اہم کردار ادا کیا مگر بدلے میں پاکستانی حکمران ذاتی مفادات حاصل کرتے رہے لیکن پاکستان کے لیے کچھ حاصل نہ کر سکے۔ بالآخر پاکستان کی کوششوں سے چین اور امریکا کے تعلقات بحال ہوئے تھے مگر بقول شاعر ہم پھر بھی رسوا رہے۔
رسوا ہوئے ذلیل ہوئے در بدر ہوئے
حق بات لب پہ آئی تو ہم بے ہنر ہوئے
بہرکیف آج صورتحال یہ ہے کہ امریکی بھی ہوا کا رُخ دیکھ کر فیصلہ کرتے ہیں، وہ مانیٹر کر رہے ہیں کہ عمران خان کی پاکستان کی مستقبل کی سیاست میں کیا حیثیت ہے کیونکہ امریکا ہر کارڈ کو اس کی اہمیت کے مطابق کھیلنے کا فن جانتا ہے۔