کپاس سبزیوں اور پھلوں سمیت دیگر اشیاء بھارت سے درآمد کرنے کا مطالبہ
کراچی چیمبر آف کامرس اور بزنس مین گروپ نے وفاقی حکومت سے اجازت مانگی ہے
کراچی چیمبر آف کامرس اور بزنس مین گروپ نے وفاقی حکومت سے خام کپاس، سبزیوں اور پھلوں سمیت دیگر اشیائے خورونوش کی واہگہ کے راستے بھارت سے فوری طور پر درآمد کرنے کا مطالبہ کر دیا۔
یہ مطالبہ کراچی چیمبر آف کامرس کے صدر محمد ادریس اور بزنس مین گروپ کے چیئرمین زبیر موتی والا نے سیلاب سے زرعی فصلوں، سبزیوں، پھلوں، اجناس کی تباہی اور مقامی ضرورت کے تناظر میں کیا ہے۔
کراچی چیمبر کے صدر محمد ادریس نے کہا ہے کہ پاکستان کو ان تمام مصنوعات کی شدید قلت کا سامنا ہے، ملک زرعی مصنوعات کی مقامی پیداوار پر بہت زیادہ انحصار کرتا ہے لیکن اب ظاہر ہے کہ گندم، چاول، خام کاٹن، اناج اور سبزیاں وغیرہ درآمد کرنی پڑیں گی لہٰذا بہتر ہے کہ بھارت سے درآمد کیا جائے جو اجناس اور مویشی بھی بہت زیادہ پیدا کرتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ مقامی منڈیوں میں سبزیوں اور دیگر اشیاء کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہونے سے وہ ناقابل برداشت اور معاشرے کے غریب طبقے کی پہنچ سے باہر ہو گئی ہیں، اس لیے حکومت کو کوئی وقت ضائع کیے بغیر فوری طور پر بھارت سے زرعی درآمدات کی اجازت دینی چاہیے تاکہ قیمتیں مستحکم رکھی جا سکیں اور ملکی عوام بھوک اور افلاس سے بچ سکیں۔
چیئرمین بی ایم جی زبیر موتی والا نے کہا کہ طوفانی بارشوں اور سیلاب سے تباہی اور اربوں روپے کے نقصانات کے علاوہ خوراک کا بحران پیدا ہوگیا ہے چونکہ سندھ اور بلوچستان میں خام کپاس، مرچ، گوبھی، پیاز اور دیگر پھل اور سبزیوں کی فصلیں مکمل طور پر تباہ ہوگئی ہیں اور زرعی اراضی اب تک زیر آب ہے جبکہ مویشی بھی سیلابی پانی میں بہہ گئے ہیں لہٰذا واہگہ بارڈر کھولنا اور بھارت سے اجناس کی درآمد کی اجازت دینا ناگزیر ہو گیا ہے تاکہ ہمارے پڑوسی ملک سے مسابقتی نرخوں پر کم سے کم وقت میں اشیائے خورونوش درآمد کر کے ہمارے ملک کی غذائی ضروریات اور صنعت کی زرعی ان پٹ کی ضروریات کو فوری طور پر پورا کیا جا سکے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کو غذائی بحران کو روکنے کے لیے اس سلسلے میں فوری اور سمجھداری سے کام لینا ہوگا۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان کی 65 فیصد اہم غذائی فصلیں بشمول 80 فیصد گندم، چاول اور خام کپاس وغیرہ سیلاب کے دوران مکمل طور پر بہہ گئی ہیں اور 30 لاکھ سے زائد مویشی بھی مر چکے ہیں۔
زبیر موتی والا نے کہا کہ اس صورتحال میں سب سے دانشمندانہ اقدام یہ ہوگا کہ ان تمام مصنوعات کولاجسٹک کے بھاری اخراجات اور بہت زیادہ درکار وقت والے دوسرے ممالک کی نسبت بھارت سے کم لاجسٹک لاگت اور وقت کے ساتھ درآمد کیا جائے بجائے۔ بھارت سے درآمد کا ملک کے توازن ادائیگی پر دوسروں کے مقابلے میں قابل برداشت اثر پڑے گا لہٰذا قانون سازوں کو ملک کے وسیع تر مفاد میں اپنے پڑوسی ملک سے درآمدات کی اجازت دینے پر ضرور غور اور عمل کرنا چاہیے۔
انہوں نے خبردار کیا کہ زرعی فصلوں کو پہنچنے والے نقصانات سے پاکستان کی بحالی میں کئی ماہ لگ سکتے ہیں اور اگر بھارت سے خام کپاس کی بروقت درآمد کی اجازت نہ دی گئی تو پیداوار کم ہونے سے ٹیکسٹائل کی برآمدات کم ہو جائیں گی جیسا کہ کپاس ٹیکسٹائل کی پیداوار کا بنیادی اور سب سے اہم خام مال ہے۔ ٹیکسٹائل کی برآمدات میں کمی پہلے سے بیمار اور ضرورت سے زیادہ بوجھ سے دوچار معیشت کی صورتحال کو مزید خراب کر دے گی۔