خبردار ۔۔۔۔ لان آرہی ہے
اب مجھے بس خوف ہے کہ کہیں حیات میں ایسے دن دیکھنے کونہ ملیں جب زیر جامہ کے اشتہارات بھی گھروالوں کے ساتھ دیکھ رہے ہوں۔
مجھے آج بھی بہت اچھی طرح یاد ہے کہ جب ہم چھوٹے ہوا کرتے تھے توکیبل کے وجود میں آنے کے بعد ہمیں ٹی وی پر پروگرامات دیکھنے کی اجازت ہوا کرتی تھی۔ یہ ہمارے والدین کی شاید یہ خوش نصیبی ہی تھی اور اس وقت حالات بھی ایسے نہیں تھے کہ اُن کو ہم پر زیادہ نظر رکھنے کی ضرورت محسوس ہو۔اور شاید لوگ بھی روشن خیالی کے فلسفے کے رزیر عتاب نہیں تھے اس لیے ہمیں کم از کم اس بات کی پوری اجازت ہوا کرتی تھی کہ ہم پاکستانی چینلز کو جب چاہیں دیکھ سکتے تھے۔
وقت اور حالات بدلتے رہے اور ساتھ ساتھ ماحول بھی اپنی جگہ سے آگے کی جانب ہجرت کرتا رہا۔اُس وقت کو کون بھول سکتا ہے جب پی ٹی وی پر خبروں کے دوران اگر نیوز کاسٹر کے سر سے دوپٹہ ہٹ جاتا تو ایک طوفان کا برپا ہونا لازمی ہوتا تھا۔پھر وقت بدلتا گیا اور ڈوپٹہ اوپر سے نیچے آتا گیا ، مزید نیچے آیا اور آج وہ کہاں غائب ہوگیا کسی کو خبر نہ ہوئی۔
میں یہاں ہر گز دین اور مذہب کو بیچ میں نہیں لاوں گا کیونکہ مجھے معلوم ہے کہ اگر میں نے ایسا کیا تو آپ سب میرے پیچھے ڈنڈہ لیکر بھاگتے ہوئے آئینگے۔ کیونکہ وقت جو بدل گیا ہے۔میں اس بات سے بالکل غافل ہوں کہ آیا اس نفرت کے ذمہ دار ہمارے وہ علماء ہیں جنہوں نے ذاتی مفادات کی خاطر دین کو جس طرح چاہا استعمال کیا یا پھر ہماری عوام جو اب صرف آزادی چاہتی ہے صرف آزادی اور اس کے بیچ میں وہ کوئی رکاوٹ برداشت کرنے کو تیار نہیں۔
لیکن خیر بات ہورہی تھی کہ قومی نشریاتی اداروں کی کہ کس طرح اُنہوں نے جدت کو اختیار کیا اور اب تو ہر وقت ریموٹ ہاتھ میں رکھنا پڑتا ہے کہ نہ جانے کب ٹی وی پر خواتین کے اندرونی مسائل کے اشتہارات منظر کے سامنے آجائیں اور کب خوشحال زندگی کے ٹوٹکے بیان ہونا شروع ہوجائیں۔ اب مجھے بس خوف ہے تو وہ یہ کہ کہیں حیات میں ایسے دن دیکھنے کو نہ ملیں جب زیر جامہ کے اشتہارات بھی گھروالوں کے ساتھ دیکھ رہے ہوں۔
یہ مسائل تو ابھی جاری ہی تھے کہ گزشتہ کئی برسوں سے ایک نیا رواج پروان چڑھ نے لگا اور وہ ہے برانڈڈ لان کا۔میرے خیال میں یہ ایک اچھا رواج ہے ۔ اگر لوگوں کو برانڈڈ کپڑوں کا شوق ہے تو ضرور اُن کو یہ سہولت میسر آنی چاہیے۔لیکن میرا اصرار صرف یہ ہے کہ لان کو فروخت کرنے کے لیے کپڑے کے ڈیزائن کے اشتہارات کو فروغ دینا چاہیے یا پھر خواتین کو، جو کبھی سمندر کنارے نوکیلے پتھروں پر کڑی دھوپ کے مزے لے رہی ہوتی ہیں تو کبھی صوفے پر لیٹ کے نیند کے غلبے کی حالت میں آپکے اور ہمارے لیے اشتہارات کے کٹھن دور سے گزر رہی ہوتی ہے۔ میں یہ بات اب بھی سمجھنے سے قاصر ہوں کہ آخر ہزاروں کی لاگت میں بننے والے قیمتی سوٹ کو اس طرح سمندر کی گیلے مٹی پر کون، کیوں اور کیسے پہن سکتا ہے۔
میں جب بھی ایسی توبہ شکن اداوں کو دیکھتا ہوں تو سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہوں کہ میں ان دوشیزاوں کو دیکھوں یا پھر جس مقصد کے لیے انہیں سڑکوں پر سجایا گیا ہے اُس پر نظریں مرکوز رکھوں۔سڑک پر گزرتے ہر بار سوچتا ہوں کہ دیکھوں کہ آخر ان برانڈڈ لان میں ایسا کیا راز چھپا ہے کہ جو عورتوں کو محض ایک نقطے پر منجمد کردیتا ہے کہ بس مجھے تو فلاں فلاں کی لان لینی ہی ہے پھر چاہے کچھ بھی ہوجائے۔بس اسی سوچ کے دوران جب اشتہار پر نظر دوڑاتا ہوں تو مجھے خاتون کی اداؤں میں مختصر کپڑوں پر موجود ڈیزائن کو تلاش کرنے میں جس مشکل اور پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے میرے لیے بیان کرنا انتہائی مشکل ہے اور بس یہ سوچتے سوچتے منزل مقصود تک پہنچ جاتا ہوں کہ واپسی پر پھر یہ راز جاننے کی کوشش کرونگا لیکن اب تک میں یہ راز جاننے میں ناکام ہی رہا۔
میں یہاں آپ سے پوچھتا ہوں کہ اگر آپ کی نظر سڑکوں پر ہر جانب آویزاں اشتہارات پر پڑی ہو اور مجھے یقین ہے کہ لازمی پڑی ہوگی تو آپ خود ہی بتائیں کہ ان اشتہارات میں جس طرحعورتوں کی مختلف اداوں کو خصوصی طور پر دکھایا جارہا ہے کیا ان اشتہارات کی نسبت لان کی فروخت میں کچھ مدد حاصل ہوسکتی ہے؟ مجھے تو ایسا ہرگز نہیں لگتا ہاں اگر اس کے پیجھے کوئی اور مقاصد ملحوظ خاطر ہے تو میں کچھ نہیں کہہ سکتا ۔ شاید انہی حالات کو دیکھتے ہوئے اقبال نے یہ فرمایا تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[poll id="206"]
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
وقت اور حالات بدلتے رہے اور ساتھ ساتھ ماحول بھی اپنی جگہ سے آگے کی جانب ہجرت کرتا رہا۔اُس وقت کو کون بھول سکتا ہے جب پی ٹی وی پر خبروں کے دوران اگر نیوز کاسٹر کے سر سے دوپٹہ ہٹ جاتا تو ایک طوفان کا برپا ہونا لازمی ہوتا تھا۔پھر وقت بدلتا گیا اور ڈوپٹہ اوپر سے نیچے آتا گیا ، مزید نیچے آیا اور آج وہ کہاں غائب ہوگیا کسی کو خبر نہ ہوئی۔
میں یہاں ہر گز دین اور مذہب کو بیچ میں نہیں لاوں گا کیونکہ مجھے معلوم ہے کہ اگر میں نے ایسا کیا تو آپ سب میرے پیچھے ڈنڈہ لیکر بھاگتے ہوئے آئینگے۔ کیونکہ وقت جو بدل گیا ہے۔میں اس بات سے بالکل غافل ہوں کہ آیا اس نفرت کے ذمہ دار ہمارے وہ علماء ہیں جنہوں نے ذاتی مفادات کی خاطر دین کو جس طرح چاہا استعمال کیا یا پھر ہماری عوام جو اب صرف آزادی چاہتی ہے صرف آزادی اور اس کے بیچ میں وہ کوئی رکاوٹ برداشت کرنے کو تیار نہیں۔
لیکن خیر بات ہورہی تھی کہ قومی نشریاتی اداروں کی کہ کس طرح اُنہوں نے جدت کو اختیار کیا اور اب تو ہر وقت ریموٹ ہاتھ میں رکھنا پڑتا ہے کہ نہ جانے کب ٹی وی پر خواتین کے اندرونی مسائل کے اشتہارات منظر کے سامنے آجائیں اور کب خوشحال زندگی کے ٹوٹکے بیان ہونا شروع ہوجائیں۔ اب مجھے بس خوف ہے تو وہ یہ کہ کہیں حیات میں ایسے دن دیکھنے کو نہ ملیں جب زیر جامہ کے اشتہارات بھی گھروالوں کے ساتھ دیکھ رہے ہوں۔
یہ مسائل تو ابھی جاری ہی تھے کہ گزشتہ کئی برسوں سے ایک نیا رواج پروان چڑھ نے لگا اور وہ ہے برانڈڈ لان کا۔میرے خیال میں یہ ایک اچھا رواج ہے ۔ اگر لوگوں کو برانڈڈ کپڑوں کا شوق ہے تو ضرور اُن کو یہ سہولت میسر آنی چاہیے۔لیکن میرا اصرار صرف یہ ہے کہ لان کو فروخت کرنے کے لیے کپڑے کے ڈیزائن کے اشتہارات کو فروغ دینا چاہیے یا پھر خواتین کو، جو کبھی سمندر کنارے نوکیلے پتھروں پر کڑی دھوپ کے مزے لے رہی ہوتی ہیں تو کبھی صوفے پر لیٹ کے نیند کے غلبے کی حالت میں آپکے اور ہمارے لیے اشتہارات کے کٹھن دور سے گزر رہی ہوتی ہے۔ میں یہ بات اب بھی سمجھنے سے قاصر ہوں کہ آخر ہزاروں کی لاگت میں بننے والے قیمتی سوٹ کو اس طرح سمندر کی گیلے مٹی پر کون، کیوں اور کیسے پہن سکتا ہے۔
میں جب بھی ایسی توبہ شکن اداوں کو دیکھتا ہوں تو سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہوں کہ میں ان دوشیزاوں کو دیکھوں یا پھر جس مقصد کے لیے انہیں سڑکوں پر سجایا گیا ہے اُس پر نظریں مرکوز رکھوں۔سڑک پر گزرتے ہر بار سوچتا ہوں کہ دیکھوں کہ آخر ان برانڈڈ لان میں ایسا کیا راز چھپا ہے کہ جو عورتوں کو محض ایک نقطے پر منجمد کردیتا ہے کہ بس مجھے تو فلاں فلاں کی لان لینی ہی ہے پھر چاہے کچھ بھی ہوجائے۔بس اسی سوچ کے دوران جب اشتہار پر نظر دوڑاتا ہوں تو مجھے خاتون کی اداؤں میں مختصر کپڑوں پر موجود ڈیزائن کو تلاش کرنے میں جس مشکل اور پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے میرے لیے بیان کرنا انتہائی مشکل ہے اور بس یہ سوچتے سوچتے منزل مقصود تک پہنچ جاتا ہوں کہ واپسی پر پھر یہ راز جاننے کی کوشش کرونگا لیکن اب تک میں یہ راز جاننے میں ناکام ہی رہا۔
میں یہاں آپ سے پوچھتا ہوں کہ اگر آپ کی نظر سڑکوں پر ہر جانب آویزاں اشتہارات پر پڑی ہو اور مجھے یقین ہے کہ لازمی پڑی ہوگی تو آپ خود ہی بتائیں کہ ان اشتہارات میں جس طرحعورتوں کی مختلف اداوں کو خصوصی طور پر دکھایا جارہا ہے کیا ان اشتہارات کی نسبت لان کی فروخت میں کچھ مدد حاصل ہوسکتی ہے؟ مجھے تو ایسا ہرگز نہیں لگتا ہاں اگر اس کے پیجھے کوئی اور مقاصد ملحوظ خاطر ہے تو میں کچھ نہیں کہہ سکتا ۔ شاید انہی حالات کو دیکھتے ہوئے اقبال نے یہ فرمایا تھا
زمانہ آیا ہے بے حجابی کا عام دیدار یار ہوگا
سکوت تھا پردہ دار جس کا وہ راز اب آشکار ہوگا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[poll id="206"]
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 300 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔