بلوچستان کے حالات کیسے سدھریں گے
صرف نواز شریف کی پشت پناہی سے ڈاکٹر مالک کی حکومت کو استحکام نصیب نہیں ہوسکتا
مئی 2013کے انتخابات کے بعد نواز شریف صاحب نے یقینا بڑی فراخ دلی اور بردباری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ڈاکٹر مالک کو بلوچستان کا وزیر اعلیٰ بنوایا۔ سطحی حقائق کی روشنی میں اس صوبے کی حکومت کا سربراہ کسی مسلم لیگی کو ہونا چاہیے تھا کیونکہ اسی جماعت کے لوگ اکثریت کے ساتھ تو نہیں مگر سب سے زیادہ تعداد میں جیتے تھے۔ ثناء اللہ زہری ان کے سربراہ تھے اور مولانا فضل الرحمن کی جمعیت العلمائے اسلام جو 2002ء سے مسلسل بلوچستان میں حکمرانی کے فوائد اٹھا رہی تھی بہت شدت کے ساتھ زہری صاحب کی حمایت کررہی تھی۔ نواز شریف مگر خوب سمجھتے تھے کہ بلوچ عوام میں برسوں سے پلنے والی بیگانگی اور احساسِ محرومی کے دیرپا تدارک کے لیے ضروری ہے کہ کچھ اس انداز سے حکومت سازی کی جائے کہ اس صوبے کے لوگوں کو تبدیلی کا کوئی ٹھوس پیغام ملے۔ ڈاکٹر مالک اپنی جوانی میں ''علیحدگی پسند'' ہونے کی تہمتیں بھگتتے رہے ہیں۔ وہ کسی قبیلے کے سردار بھی نہیں۔ تعلق ان کا مکران کے ایک پڑھے لکھے متوسط طبقے کے خاندان سے ہے اور حب سے جیوانی کی ساحلی پٹی کے ساتھ ساتھ 700کلومیٹر تک پھیلا مکران ہی بلوچستان کا وہ علاقہ ہے جہاں کے نوجوانوں میں محرومی کا احساس سب سے زیادہ شدت کے ساتھ پایا جاتا ہے۔ ڈاکٹر مالک سے بجا طور پر یہ امید باندھی گئی کہ وہ اپنے ماضی کے حوالوں اور مکران سے تعلق کی بناء پر بلوچستان میں ایک نئے اور مثبت سیاسی نظام کو متعارف کروا سکتے ہیں۔ نواز شریف کے لیے ڈاکٹر مالک کو وزیر اعلیٰ بنوانا اس لیے بھی آسان ہوگیا کہ محمود خان اچکزئی اور ان کی پشتون قوم پرست جماعت نے ان کی بھرپور حمایت کا اعلان کردیا۔
صرف نیک تمنائیں اور خواہشات مگر تبدیلی نہیں لایا کرتیں۔ قدرتی وسائل سے مالامال بلوچستان جس کی جغرافیائی حوالوں سے افغانستان اور ایران سے ہمسائیگی کی وجہ سے خصوصی اہمیت ہے کئی صدیوں سے ایک خاص قسم کی Path Dependencyکا شکار ہوچکا ہے۔ برطانوی سامراج کو اس کے وسائل سے زیادہ اس صوبے کے جغرافیائی محل وقوع کی فکر لاحق رہی۔ 1857ء کے بعد رابرٹ سنڈیمن جیسے افسروں کی وجہ سے انھوں نے اس صوبے کو ان تمام سہولتوں سے محروم رکھنے کا سوچا سمجھا فیصلہ کیا جو پنجاب جیسے صوبوں میں نہروں کا جال وغیرہ بچھانے کے ذریعے متعارف کروائی گئیں۔ یہاں نہ تو گورنمنٹ کالج جیسے ادارے بنائے گئے نہ باقاعدہ قوانین کو موثر بہ عمل لانے والا عدالتی نظام۔ بلوچستان کے مقامی سرداروں کا ایک مخصوص طبقہ پیدا کیا گیا جنھیں اپنے زیرنگین علاقوں پر تسلط کو برقرار رکھنے کی کھلی چھٹی دے دی گئی۔ اپنی ''خود مختاری'' کے عوض یہ سردار سرکاری وظیفے لے کر غیر ملکی حکمرانوں کے معاشی اور سفارتی مفادات کی انتہائی فرماں داری سے حفاظت کرتے رہے۔ قیام پاکستان کے بعد والی اشرافیہ نے بدقسمتی سے برطانوی سامراج والا رویہ برقرار رکھا۔ پھر یہاں قدرتی گیس کے ذخائر بھی دریافت ہوگئے اور گزشتہ چند برسوں سے گوادر کی اہمیت کو بھی دریافت کرلیا گیا ہے۔ راولپنڈی اور اسلام آباد میں بیٹھے ہمارے دائمی حکمرانوں کے لیے بلوچستان کئی حوالوں سے محض ایک بہت بڑا Assetہے۔ ان کی ساری توجہ اس اثاثے کو بچائے رکھنے پر مرکوز ہے۔ بلوچستان میں بسنے والے عام انسانوں کی زندگی سے اس اشرافیہ کوکوئی خاص دلچسپی نہیں۔
مرکز میں بیٹھی اشرافیہ کی عمومی بے حسی کی مذمت کے ساتھ ہی ساتھ ہمیں اس بات کا اعتراف بھی کرنا ہوگا کہ بلوچستان میں پاکستان مسلم لیگ نامی سیاسی جماعت میں جو لوگ موجود ہیں ان کی بے پناہ اکثریت بھی سنڈیمن کی متعارف کردہ روایات سے بالاتر ہوکر کوئی نئی بات سوچنے کو ہرگز تیار نہیں۔ ان کے ''حلقے'' ہیں جہاں سے وہ ہر طرح کے ہتھکنڈے اختیار کرتے ہوئے صوبائی اسمبلی کے لیے کسی نہ کسی طرح منتخب ہوجاتے ہیں۔ اسمبلی میں آنے کے بعد انھیں وزارت چاہیے۔ وزارت نہ ملے تو ترقیاتی فنڈز کے نام پر بھاری رقوم وہ اپنے ''حق'' کے طور پر وصول کرنا چاہتے ہیں جن کے ذریعے وہ اپنی پسند کے لوگوں کو اسکول اور سڑکیں بنوانے کے نام پر نواز سکیں۔ نواب اسلم رئیسانی نے ایسے ہی فنڈز کی بنیاد پر پیپلز پارٹی کی پشت پناہی سے بلوچستان پر پانچ سال حکومت کی۔ ثناء اللہ زہری اور ان کے ہمنوا انھی دنوں کی بحالی چاہتے ہیں اور اس ضمن میں جمعیت العلمائے اسلام کے مولانا حضرات کا رویہ بھی کچھ مختلف نہیں۔
ڈاکٹر مالک فی الحال تو وزارتِ اعلیٰ کے منصب پر قائم ہیں۔ مگر پاکستان مسلم لیگ نواز کے کوٹے سے آئے وزراء نے اپنے استعفے ثناء اللہ زہری کو دے رکھے ہیں۔ وہ کابینہ کے اجلاسوں میں بھی نہیں جاتے۔ ایسی صورتِ حال میں صرف نواز شریف کی پشت پناہی سے ڈاکٹر مالک کی حکومت کو استحکام نصیب نہیں ہوسکتا۔ ہر وقت صبح گیا یا شام گیا والا معاملہ نظر آتا رہے گا۔ وہ جسے گڈ گورننس کہا جاتا ہے اس کی کوئی مثال اس صوبے میں مشکل سے نظر آئے گی اور چل چلاؤ کا یہ منظر علیحدگی پسندوں اور فرقہ وارانہ انتہاء پسندوں کو افراتفری کا ماحول برقرار رکھنے میں مسلسل کامیاب بناتا رہے گا۔
ایمان داری کی بات یہ بھی ہے کہ ابھی تک ایک تشخیصی تجزیہ لکھنے کے بعد میرے ذہن میں حالات کو سدھارنے کا کوئی نسخہ بھی موجود نہیں۔ میرے پاس بھی صرف نیک تمنائیں اور خواہشیں ہیں جو انتظار کررہی ہیں کسی ایسی سیاسی جماعت اور رہ نماؤں کا جو بلوچستان پر صدیوں سے مسلط شدہ Path Dependencyکی زنجیروں سے آزاد ہونے کی کوئی راہ نکال سکیں۔
صرف نیک تمنائیں اور خواہشات مگر تبدیلی نہیں لایا کرتیں۔ قدرتی وسائل سے مالامال بلوچستان جس کی جغرافیائی حوالوں سے افغانستان اور ایران سے ہمسائیگی کی وجہ سے خصوصی اہمیت ہے کئی صدیوں سے ایک خاص قسم کی Path Dependencyکا شکار ہوچکا ہے۔ برطانوی سامراج کو اس کے وسائل سے زیادہ اس صوبے کے جغرافیائی محل وقوع کی فکر لاحق رہی۔ 1857ء کے بعد رابرٹ سنڈیمن جیسے افسروں کی وجہ سے انھوں نے اس صوبے کو ان تمام سہولتوں سے محروم رکھنے کا سوچا سمجھا فیصلہ کیا جو پنجاب جیسے صوبوں میں نہروں کا جال وغیرہ بچھانے کے ذریعے متعارف کروائی گئیں۔ یہاں نہ تو گورنمنٹ کالج جیسے ادارے بنائے گئے نہ باقاعدہ قوانین کو موثر بہ عمل لانے والا عدالتی نظام۔ بلوچستان کے مقامی سرداروں کا ایک مخصوص طبقہ پیدا کیا گیا جنھیں اپنے زیرنگین علاقوں پر تسلط کو برقرار رکھنے کی کھلی چھٹی دے دی گئی۔ اپنی ''خود مختاری'' کے عوض یہ سردار سرکاری وظیفے لے کر غیر ملکی حکمرانوں کے معاشی اور سفارتی مفادات کی انتہائی فرماں داری سے حفاظت کرتے رہے۔ قیام پاکستان کے بعد والی اشرافیہ نے بدقسمتی سے برطانوی سامراج والا رویہ برقرار رکھا۔ پھر یہاں قدرتی گیس کے ذخائر بھی دریافت ہوگئے اور گزشتہ چند برسوں سے گوادر کی اہمیت کو بھی دریافت کرلیا گیا ہے۔ راولپنڈی اور اسلام آباد میں بیٹھے ہمارے دائمی حکمرانوں کے لیے بلوچستان کئی حوالوں سے محض ایک بہت بڑا Assetہے۔ ان کی ساری توجہ اس اثاثے کو بچائے رکھنے پر مرکوز ہے۔ بلوچستان میں بسنے والے عام انسانوں کی زندگی سے اس اشرافیہ کوکوئی خاص دلچسپی نہیں۔
مرکز میں بیٹھی اشرافیہ کی عمومی بے حسی کی مذمت کے ساتھ ہی ساتھ ہمیں اس بات کا اعتراف بھی کرنا ہوگا کہ بلوچستان میں پاکستان مسلم لیگ نامی سیاسی جماعت میں جو لوگ موجود ہیں ان کی بے پناہ اکثریت بھی سنڈیمن کی متعارف کردہ روایات سے بالاتر ہوکر کوئی نئی بات سوچنے کو ہرگز تیار نہیں۔ ان کے ''حلقے'' ہیں جہاں سے وہ ہر طرح کے ہتھکنڈے اختیار کرتے ہوئے صوبائی اسمبلی کے لیے کسی نہ کسی طرح منتخب ہوجاتے ہیں۔ اسمبلی میں آنے کے بعد انھیں وزارت چاہیے۔ وزارت نہ ملے تو ترقیاتی فنڈز کے نام پر بھاری رقوم وہ اپنے ''حق'' کے طور پر وصول کرنا چاہتے ہیں جن کے ذریعے وہ اپنی پسند کے لوگوں کو اسکول اور سڑکیں بنوانے کے نام پر نواز سکیں۔ نواب اسلم رئیسانی نے ایسے ہی فنڈز کی بنیاد پر پیپلز پارٹی کی پشت پناہی سے بلوچستان پر پانچ سال حکومت کی۔ ثناء اللہ زہری اور ان کے ہمنوا انھی دنوں کی بحالی چاہتے ہیں اور اس ضمن میں جمعیت العلمائے اسلام کے مولانا حضرات کا رویہ بھی کچھ مختلف نہیں۔
ڈاکٹر مالک فی الحال تو وزارتِ اعلیٰ کے منصب پر قائم ہیں۔ مگر پاکستان مسلم لیگ نواز کے کوٹے سے آئے وزراء نے اپنے استعفے ثناء اللہ زہری کو دے رکھے ہیں۔ وہ کابینہ کے اجلاسوں میں بھی نہیں جاتے۔ ایسی صورتِ حال میں صرف نواز شریف کی پشت پناہی سے ڈاکٹر مالک کی حکومت کو استحکام نصیب نہیں ہوسکتا۔ ہر وقت صبح گیا یا شام گیا والا معاملہ نظر آتا رہے گا۔ وہ جسے گڈ گورننس کہا جاتا ہے اس کی کوئی مثال اس صوبے میں مشکل سے نظر آئے گی اور چل چلاؤ کا یہ منظر علیحدگی پسندوں اور فرقہ وارانہ انتہاء پسندوں کو افراتفری کا ماحول برقرار رکھنے میں مسلسل کامیاب بناتا رہے گا۔
ایمان داری کی بات یہ بھی ہے کہ ابھی تک ایک تشخیصی تجزیہ لکھنے کے بعد میرے ذہن میں حالات کو سدھارنے کا کوئی نسخہ بھی موجود نہیں۔ میرے پاس بھی صرف نیک تمنائیں اور خواہشیں ہیں جو انتظار کررہی ہیں کسی ایسی سیاسی جماعت اور رہ نماؤں کا جو بلوچستان پر صدیوں سے مسلط شدہ Path Dependencyکی زنجیروں سے آزاد ہونے کی کوئی راہ نکال سکیں۔