سماج کا ارتقاء اورقوانین
ایک بار پھر عرض ہے کہ مسلم معاشروں کا مسئلہ ماضی کی طرف مراجعت نہیں،بلکہ جدید تحقیق اور تجربات کی طرف توجہ دینا ہے۔
دنیا کی معلوم تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ جب انسان نے سماجی ڈھانچے تشکیل دیناشروع کیے،تو انھیں منصفانہ انداز میں چلانے کے لیے مختلف نوعیت کے قوانین کی ضرورت محسوس ہوئی۔یوں قانون سازی کا عمل شروع ہوا۔لیکن تاریخ کے کسی بھی دور میں سماجی تشکیلات سے پہلے قوانین بنانے کا کوئی تصور سامنے نہیں آتا ہے،کیونکہ معاشرے قوانین کی بنیاد پر نہیں، بلکہ قوانین معاشروں کی ضروریات کے مطابق تشکیل دیے جاتے ہیں۔یہی سبب ہے کہ قوانین کبھی جامدوساکت نہیں ہوتے، بلکہ زمان ومکاں اور حالات کے تحت نئے قوانین تشکیل پاتے ہیں اور پرانے قوانین میں حسبِ ضرورت ترمیم واضافہ ہوتاہے۔یہ عمل انسانی سماجوں کے ارتقاء کا مظہر ہے۔ لہٰذا ایک ترقی دوست معاشرے میں قوانین کوسماجی تشکیلات میں رونماء ہونے والی تبدیلیوں سے ہم آہنگ کرنے کا سلسلہ جاری رہتاہے۔
اسلام مذاہبِ عالم کی تاریخ میں وہ پہلا دین ہے، جس نے قانون سازی کے لیے رہنماء اصول طے کرتے ہوئے علماء اور ریاستی اداروں کو قانون سازی کا اختیار تفویض کیا۔اس کے علاوہ اسلام نے قانون سازی کے لیے مختلف ذرایع (Sources)کا بھی تعین کردیا۔اسلام کے اصولِ قانون کے مطابق قرآن اور حدیث بنیادی Primary) (،جب کہ اجماع اور قیاس قانون سازی کے ثانوی (Secondary) ذرایع (Source)ہیں۔دورِ نبوت کے بعد اجتہاد کا پہلا سلسلہ خلافت راشدہ میں شروع ہوا اور ہر خلیفہ راشد نے وقت اور حالات کے تحت قوانین تیارکرکے نافذ کیے اور ان پر عمل درآمدکیا اور کرایا۔خلافتِ راشدہ کے تیس سالہ دور کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری رہا۔ لیکن ایک فرق یہ آیا کہ حکمرانوں کے بجائے علماء اور تحقیقی اداروں نے یہ ذمے داری سنبھال لی۔چنانچہ اسلام کے ابتدائی 150برس کے دوران پانچ فقہین نے شریعت اسلامی کی تشریحات اور تفاہیم کے ساتھ اس زمانے کی ضروریات کے مطابق قوانین بھی پیش کیے۔ان میں چار سنی اور ایک شیعہ فقہہ شامل ہے۔
کویت یونیورسٹی کے پروفیسر بسم عجمی کی تحقیق کے مطابق،1258 میں جب تاتاریوں نے بغداد پر حملہ کیا،اس وقت پوری مسلم دنیا کے مختلف علاقوں میں تحقیق کا کام جاری تھا۔ صرف بغداد میں ایک ہزار تحقیقی مراکز دینی موضوعات کے مختلف پہلوؤں پر تحقیق کے علاوہ قانون سازی میں مصروف تھے۔ان تحقیقی مراکز میں مختلف ادیان کے علاوہ یونانی اور لاطینی اصولِ قانون کا تقابلی جائزہ لیا بھی جا رہا تھا۔وسط ایشیاء، مصر، تیونس اور ہسپانیہ میں ہونے والی تحقیق اس کے سوا تھی۔اس حملے کے نتیجے میںجہاں مسلمانوں کی سیاسی مرکزیت کا خاتمہ ہوا،وہیں علمی مراکز کی تباہی کے بعد اجتہاد کے عمل کوبھی شدید دھچکا لگا۔مسلم معاشروں میں پیدا ہونے والے انتشار نے علماء کو مجبور کیا کہ وہ اجتہاد کے سلسلہ کو وقتی طور پر روک کر اس وقت تک ہونے والے اجتہاد کو حتمی قرار دیدیں۔یہ فیصلہ اس امید پرکیاگیا تھا کہ جب مسلمان سیاسی اور سماجی طورپر سنبھل جائیں گے تو تحقیقی عمل کو دوبارہ شروع کردیا جائے گا۔بظاہر یہ قدم نیک نیتی کے ساتھ اس وقت کے معروضی حالات کے تناظر میں اٹھایا گیا تھا ،مگر آنے والوں زمانوں میں یہ فیصلہ فکری جمود کا سبب بن گیا۔شاعر مشرق اور مسلم دنیا کے مفکر علامہ اقبالؒ نے اپنی تحاریرمیں اجتہاد کے روکے جانے کو مسلم معاشروں کی زبوں حالی کا ذمے دار قرار دیتے ہوئے اس عمل کی بحالی پر زوردیا ۔
یہ وہ زمانہ تھا، جب یورپ پاپائیت کی سخت گیر زنجیروں میں جکڑا ہوا تھا اور تاریکی کے اس دور سے نکلنے کے لیے اپنی توانائیاں مجتمع کر رہا تھا۔ایک طرف علم کو کلیسا کی بندشوں سے آزاد کراکے عام آدمی تک پہنچانے کا بندوبست ہو رہا تھا،جب کہ دوسری طرف تحقیق و تجربے کے لیے ماحول کو سازگار بنانے کی کوششیں شروع ہوچکی تھیں۔ یوں سوچ کے نئے زاویے کھول رہے تھے اور نئی نئی ایجادات سامنے آرہی تھیں۔10ویں صدی سے شروع ہونے والی اس تحریک کے نتیجے میں صنعتی انقلاب کا ظہور یورپ سے ہوتا ہے۔یہ انقلاب انسان کے صدیوں کے ذہنی،فکری اورعلمی ارتقاء کا منطقی نتیجہ تھا۔اس انقلاب نے سیکڑوں صدیوں پر محیط انسانی فکرکے سفرکو ماند کردیا۔اس انقلاب کے نتیجے میں انسان کی ذہنی قوت نے جسمانی قوت کو پیچھے دھکیل دیا۔پروفیسر (ڈاکٹر)اقبال احمد مرحوم کے مطابق انقلاب کے اس سورج کو جسے 14ویں صدی میں بغداد،سمرقند و بخارا اورغرناطہ وقرطبہ کی تجربہ گاہوں سے نمودار ہونا تھا،مسلم حکمرانوں کی نااہلی اور علماء کی باہمی کشمکش کے سبب یورپ سے طلوع ہوا۔
قوانین جیسا کہ اوپر بیان کیا جاچکاہے کہ معاشرے کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے تشکیل پاتے ہیں۔ جیسا کہ خلیفہ دوئم حضرت عمرؓ نے اپنے دور خلافت میں تیزی سے پھیلتی مسلم سلطنت کے معاملات و مسائل کو مدِنظررکھتے ہوئے بعض اہم قوانین ترتیب دیے،جن کی وجہ سے مسلم ریاست مستحکم ہوئی۔اسی طرح حضرت علیؓ نے مالک بن اوشترکو مصر کا گورنر مقرر کرتے ہوئے، جو ہدایات دیں، وہ آج بھی نظم حکمرانی کے لیے ایک نادر نسخہ ہیں۔مگر وقت گذرنے کے ساتھ مسلم معاشرے علم سے دوری اور فکری جمودکے باعث تحقیق و تجربے اور دلیل کی بنیاد پر مکالمہ کی روایت سے دور ہوتے چلے گئے۔یہی سبب ہے کہ13ویں صدی کے بعد سے مسلم معاشروں میں عصری علوم کے علاوہ دینی مسائل پر تحقیق کے دروازے بند ہوگئے،جب کہ سماج کا ارتقائی عمل جاری رہا۔ وہ معاشرے جنھیں اپنی ابتدائی سائنسی تحقیق کی بنیاد پر نئی نئی تخلیقات و ایجادات کا موجد ہونا چاہیے تھا، نہ صرف محض صارف بن کررہ گئے۔بلکہ یورپی اقوام کی نوآبادیات بھی بن گئے۔ جب کہ وہ یورپ جو نویں اور دسویں صدی تک دورِ تاریکی کا شکار تھا کروٹ بدل کر عالمی فکری رہبر بن گیا۔
مفکرین کا کہنا ہے کہ طرزِ پیداوار انسانی معاشروں کے سماجی، سیاسی اور فکری رجحانات کا تعین کرتی ہے۔ مشین کی ایجاد نے جسمانی محنت کو پیچھے دھکیل کر ذہنی صلاحیتوں کی اہمیت کو ہزاروں گنا بڑھا دیا۔یوںصنعتی انقلاب نے انسانی معاشروں کا طرزِ پیداوار مکمل طور پر تبدیل کردیا۔ اس عمل کے نتیجے میں دنیا بھر میں تبدیلی کی ایک ایسی لہر اٹھی، جس نے معاشرتی، معاشی، ثقافتی اور سیاسی نظام کو مکمل طور پر تبدیل کر دیا۔ نقل وحمل کے بہتر اور جدید طریقوں کی دریافت نے دنیا بھر کے انسانوں کو ایک دوسرے سے قریب لانے اور ان کے درمیان نئے سماجی و ثقافتی روابط قائم کرنے کے مواقعے پیدا کیے۔معیشت سادہ لین دین سے آگے نکل کر کثیر الجہتی شکل اختیار کرگئی۔ تجارت کا حجم کئی گنا بڑھ گیا اور سماجی ضروریات میں بے پناہ اضافہ ہوا۔ اس صورتحال نے نئے نئے قوانین کی تیاری کی راہ ہموار کی۔لہٰذاہم دیکھتے ہیں کہ 4سو برس کے دوران انسانی معاشروں کو متوازن رکھنے کے لیے بیشمار نئے قوانین وضع کیے گئے اور ان گنت قواعد و ضوابط سامنے آئے۔یہ قوانین کسی مذہب یا عقیدے کی نمایندگی کرنے کے بجائے انسانی معاشروں کی ضرورتوں کا احاطہ کرتے ہیں۔
اسلام نے علم کی اہمیت ، تحقیق و تخلیق کی افادیت اور ترقی کی راہ اختیار کرنے پر کبھی کوئی قدغن عائد نہیں کی۔ بلکہ قرآن اور سنت میں جابجا ان اقدام کی ہمت افزائی کے اشارے ملتے ہیں۔لیکن چار صدیوں کے فکری جمود اور تبدیل ہوتی دنیا کی ضرورتوں سے ہم آہنگ سیاسی و سماجی ڈھانچے کی تشکیل میں ناکامی اور اس مناسبت سے نئی قانون سازی کے فقدان نے مسلم معاشروں کو مزید نفسیاتی ابتری کا شکار کردیا۔ یہ اپنی خامیوں ،کمزوریوں اور خرابیوں کا جائزہ لینے اور احتساب کرنے کے بجائے اپنی کوتاہیوں کو اغیار کے کاندھوں پر ڈال کر خود کو مطمئن کرنے کی بیماری میں مبتلا ہوگئے۔ حالانکہ بہت سے ایسے امور ہیں، جو عوامی فلاح (Public Good)کے اسلامی نقطہ نظرکی روشنی میں بآسانی حل کیے جاسکتے تھے، محض انا اور ضد کی نذر ہوکر پر تشدد اختلاف کا ذریعہ بن گئے۔اس کے علاوہ احساس شکستگی نے مسلم معاشروں کی رہی سہی صلاحیتوں کو بھی سلب کرلیا ہے۔ حالانکہ آج پوری دنیا اس بات سے آگاہ ہے کہ شیعہ اور سنیوں کے درمیان اتنے شدید فقہی اختلافات نہیں ہیں، جتنے رومن کیتھولک اور پروٹسٹنٹ عقائد کے درمیان پائے جاتے ہیں۔ لیکن 100برس کی خونریزی کے بعد مسیحی مذہب کے ان دونوں فرقوں نے بقائے باہمی کے اصول پر کاربند ہوکر اپنے اختلافات کو چرچ تک محدود کردیا ہے۔
ایک بار پھر عرض ہے کہ مسلم معاشروں کا مسئلہ ماضی کی طرف مراجعت نہیں،بلکہ جدید تحقیق اور تجربات کی طرف توجہ دینا ہے۔اس صورتحال کا المناک پہلو یہ ہے کہ مسلم معاشرے عملی طور پر تو اکیسویں صدی میں زندگی گذار رہے ہیں، لیکن فکری طور پر 10ویں صدی سے آگے نہیں بڑھ سکے ہیں۔ان کے لیے ضروری ہوگیا ہے کہ آگے بڑھ کر تاریخ کے ارتقائی عمل کی ڈوری کو تھام لیاجائے اور جس طرح دنیا کے دیگر معاشرے ترقی کی منازل طے کر رہے ہیں، خود بھی اس ترقی کا فکری طور پر حصہ بن سکیں۔ اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ بعض اہم سماجی وسیاسی امور کی غلط تاویلات پیش کرنے کے بجائے مفتیان کرام اور ماہرین قانون(Jurists) سنجیدگی کے ساتھ بیٹھیں اور فقہی اختلافات پر توجہ مرکوز کرنے کے بجائے اسلام کی بنیادی تعلیمات کی روشنی میں عصری تقاضوں کی مناسبت سے قانون سازی کے عمل کو آگے بڑھائیں،جس کی وکالت خود علامہ اقبال بھی کرتے رہے ہیں۔