بدترین سیلاب ماحولیاتی تباہی کا نتیجہ
صنعتی ممالک کی ترقی کی قیمت غریب اقوام ادا کریں گی؟عالمی حدت کے اثرات سے نمٹنے کے لیے ٹھوس منصوبہ بندی کرنی ہوگی
مسلسل دو ماہ تک برستا جل کچھ یوں اجل میں ڈھلا کہ تیرہ سو افراد کو زندگیوں سے محروم کرگیا۔ عام حالات میں دہقانوں کے چہروں پر مسرت بکھیر دینے والی بارش کی بوندیں اس بار اپنے جلو میں تباہی لیے آئیں اور فصلوں سمیت ان کے گھربار کو بھی ساتھ بہا لے گئیں۔
بارہ برس کے وقفے کے بعد سیلاب کے عفریت نے ایک بار پھر وطن عزیز کے طول و عرض میں تباہی و بربادی کی ماضی سے زیادہ ہول ناک داستانیں رقم کردی ہیں۔
نیشنل فلڈ رسپانس اینڈ کوآرڈینیشن کی جاری کردہ تفصیلات کے مطابق تادم تحریر ملک بھر میں 80 اضلاع سیلاب سے متاثر ہوئے ہیں۔ چاروں صوبوں اور گلگت بلتستان میں سوا تین کروڑ شہری براہ راست اس آفت کی زد میں آئے ہیں۔
20 لاکھ ایکڑ سے زائد رقبے پر کھڑی فصلیں منہ زور سیلاب بہا لے گیا۔ عمر بھر کی جمع پونجی جوڑ کر بنائے گئے لاکھوں مکانات سیلابی لہروں کی نذر ہوگئے۔ جو کل تک اپنے ہم وطنوں کے مانند اپنی چھت تلے روز و شب بسر کررہے تھے وہ آج کھلے آسمان کے نیچے بے یارومددگار پڑے ہیں۔ ان میں سے کتنے ہی ایسے بھی ہیں جن کے پیارے اس قدرتی آفت کے ہاتھوں ان سے جدا ہوگئے۔
خیبرپختوانخوا سے لے کر سندھ کے ضلع دادو تک سیلاب زدہ علاقوں میں سڑکوں کے کنارے، بلند مقامات پر اور کیمپوں میں لوگ اپنے اہل خانہ کے ہمراہ حسرت و یاس کی تصویر بنے ہوئے ہیں۔ کل تک جو دوسروں کی مدد کرتے تھے آج خود دوسروں کی مدد کے محتاج ہوگئے ہیں۔ سیلاب زدگان کی دادرسی کے لیے جہاں شہری اور حکومتی سطح پر کوششیں کی جارہی ہیں وہاں یہ سوال بھی اٹھایا جارہا ہے کہ آخر جدید عالمی تاریخ کے اس ہول ناک ترین سیلاب کے اسباب کیا ہیں اور کیا ہر برس اب پاکستان کو غیرمعمولی بارش کا سامنا رہے گا؟
بتایا جارہا ہے کہ رواں مون سون کے موسم میں اوسط سے 500 گنا زائد بارش ہوئی ہے۔ کچھ علاقوں میں 1500ملی میٹر بارش ریکارڈ کی گئی جبکہ عام طور پر وہاں 15 سے 20ملی میٹر تک برسات ہوتی آئی ہے۔ ایک ایسا ملک جہاں مستقبل کی منصوبہ بندی کو سرے سے کوئی اہمیت نہ دی جاتی ہو وہاں کسی بھی قدرتی آفت کا نتیجہ تباہی و بربادی کی صورت ہی میں نکلنا تھا اور یہی اس سیلاب کے بعد ہوا۔
موسمیاتی اور ماحولیاتی ماہرین حالیہ غیرمعمولی بارش اور اس کے نتیجے میں آنے والے سیلاب کو عالمی حدت (گلوبل وارمنگ) کا شاخسانہ قرار دیتے ہوئے اس کے لیے ترقی یافتہ ممالک کو موردالزام ٹھہرا رہے ہیں۔
گلوبل وارمنگ سے مراد کرۂ ارض کے اوسط درجۂ حرارت کا بڑھنا ہے جس کی ذمے داری فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس کے حجم میں اضافے پر عائد ہوتی ہے۔ اور اس گیس کا سب سے زیادہ اخراج صنعتوں سے ہوتا ہے۔ دنیا کے اوسط درجۂ حرارت میں اضافے سے عالمی موسم اور آب و ہوا میں تغیر رونما ہورہا ہے۔ کہیں گرمی، سردیِ، خزاں اور بہار کے دورانیے میں کمی بیشی مشاہدہ کی جارہی ہے، کہیں سر سبز خطوں میں خشک سالی پَر پھیلا رہی ہے تو کہیں غیرمعمولی بارشیں ہورہی ہیں۔
عالمی موسم میں بتدریج رونما ہونے والے اس بگاڑ کی وجہ سے جہاں جنگلی حیاتیات خطرے سے دوچار ہیں وہیں انسانی آبادیاں بھی اس سے متاثر ہورہی ہیں جس کی تازہ مثال پاکستان میں سیلاب کی تباہ کاریوں کی صورت میں نظر آرہی ہے۔ رواں سال موسم بہار نے پاکستان کا رخ ہی نہیں کیا۔ گرمیاں بھی شدید ترین رہیں۔ چار بار شدید ترین گرمی کی لہر ( ہیٹ ویو) آئی، جس کے نتیجے میں بلوچستان میں چلغوزے کے جنگلات سمیت کئی مقامات پر آگ لگنے کے واقعات پیش آئے۔
ترقی یافتہ صنعتی ممالک کی معاشی ترقی کا دارومدار وہاں قائم ہزاروں صنعتوں پر ہے۔ بجلی گھروں، کارساز فیکٹریوں، ٹیکسٹائل ملوں سمیت دیگر صنعتوں میں بڑے پیمانے پر رکازی ایندھن (کوئلہ، ڈیزل، پیٹرول، گیس وغیرہ ) استعمال ہوتا ہے۔ ان صنعتوں سے بڑی مقدار میں گرین ہاؤس گیسیں بالخصوص کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج ہوکر فضا میں شامل ہوکر کرۂ ارض کو گرم کررہی ہیں۔
گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج اور ان کے اسباب پر نظر رکھنے والی عالمی تنظیم گلوبل کاربن پروجیکٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق 1975ء سے 2020ء تک کاربن کا سب سے زیادہ اخراج کرنے والے سرفہرست پانچ ممالک امریکا، چین، روس، جرمنی اور برطانیہ تھے۔ دوسری جانب پاکستان کا کاربن کے عالمی اخراج میں حصہ ایک فیصد سے بھی کم ہے مگر تیسری دنیا کا یہ ترقی پذیر ملک گلوبل وارمنگ کے اثرات سے شدید طور پر متاثر ہوا ہے۔ وفاقی وزیرخزانہ مفتاح اسماعیل کہتے ہیں کہ سیلاب سے معیشت کو دس ارب ڈالر کا نقصان پہنچ چکا ہے۔
گلوبل وارمنگ کے خطرے سے نمٹنے اور کاربن کے اخراج میں کمی کے لیے اب تک کئی عالمی معاہدے ہوچکے ہیں۔ موسمیاتی تبدیلیوں پر بین الاقوامی کانفرنسیں بھی باقاعدگی سے ہوتی رہتی ہیں۔ معاہدے کرنے والے ممالک کاربن کے اخراج میں کمی کا اپنا ہدف حاصل کرنے کے سلسلے میں زور بھی دیا جاتا ہے مگر اب تک یہ معاہدے اور کانفرنسیں بے سود ثابت ہوئی ہیں۔
اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ اگر صنعتی ممالک کاربن کے اخراج میں کمی کے لیے سنجیدہ کوششیں کرتے ہیں تو ان کی معاشی ترقی متاثر ہوگی۔ دنیا میں اگرچہ گرین ٹیکنالوجی کا بھی ایک عرصے سے چرچا ہے مگر کاربن کے اخراج پر قابو پانے کے ضمن میں اس کا کردار نہ ہونے کے برابر ہے۔
گلوبل وارمنگ کے اثرات سے اگرچہ ترقی یافتہ ممالک بھی یکسر محفوظ نہیں مگر وہاں قدرتی آفات کے نقصانات کو محدود تر کرنے کے لیے مربوط منصوبہ بندی کی جاتی ہے۔
پاکستان میں حالیہ شدید ترین سیلاب اور اس سے بڑے پیمانے پر ہونے والی تباہی کے پیش نظر عالمی سطح پر یہ سوال اٹھایا جارہا ہے کہ کیا صنعتی ممالک کی ترقی کی قیمت غریب ممالک کو ادا کرنے پڑے گی؟ برطانیہ کی رکن پارلیمان کلاڈیا ویب نے کہا کہ موسمیاتی تغیر میں پاکستان کا کردار نہ ہونے کے برابر ہے مگر وہ ترقی یافتہ ممالک کے لالچ کی قیمت تباہ کن سیلاب کی شکل میں ادا کررہا ہے۔
صنعتی ممالک سے یہ توقع رکھنا عبث ہے کہ وہ تیسری دنیا کے ممالک کا خیال کرتے ہوئے کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس کے اخراج میں کمی کے لیے ٹھوس اقدامات کریں گے۔ ان کے لیے اپنی معاشی ترقی کا گراف بلند رکھنا اہم ترین ہے۔ پاکستان جیسے ممالک پر گلوبل وارمنگ کے سبب آفت ٹوٹنے پر وہ اظہارہمدردی کے طور پر نقدی، اجناس اور سازوسامان کی صورت میں امداد تو روانہ کردیں گے مگر ان کی فیکٹریاں اسی طرح کاربن اگلتی رہیں گی۔
حالیہ سیلاب سے ہونے والی بدترین تباہی کا سبب گلوبل وارمنگ ضروری سہی مگر پاکستان میں یکے بعد دیگر آنے والی حکومتوں کو بھی بری الذمہ قرار نہیں دیا جاسکتا جنھوں نے موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے نمٹنے کے لیے کوئی منصوبہ بندی نہیں کی، حالانکہ کئی عشروں سے گلوبل وارمنگ عالمی سطح پر زیربحث ہے۔ اور کئی برس سے ماہرین موسمیات خبردار کرتے آرہے ہیں کہ پاکستان کو اپنے محل وقوع کے پیش نظر گلوبل وارمنگ سے شدید متاثر ہونے کا خطرہ درپیش ہے۔ تاہم حکمران ایسی تمام رپورٹوں سے صرف نظر کرتے رہے۔
موسمیاتی تغیرات کے خطرات کی پیش بندی کے لیے حکومتی سطح پر نہ تو کوئی منصوبہ بنایا گیا اور نہ اس سمت میں کوئی عملی پیشرفت کی گئی۔ ماحولیاتی ماہرین خبردار کررہے ہیں کہ پاکستان کو اب شدید موسم کا سامنا رہے گا لہٰذا موسمی تغیرات کے ہول ناک اثرات کے پیش نظر ٹھوس منصوبہ بندی کرنی ہوگی۔
بارہ برس کے وقفے کے بعد سیلاب کے عفریت نے ایک بار پھر وطن عزیز کے طول و عرض میں تباہی و بربادی کی ماضی سے زیادہ ہول ناک داستانیں رقم کردی ہیں۔
نیشنل فلڈ رسپانس اینڈ کوآرڈینیشن کی جاری کردہ تفصیلات کے مطابق تادم تحریر ملک بھر میں 80 اضلاع سیلاب سے متاثر ہوئے ہیں۔ چاروں صوبوں اور گلگت بلتستان میں سوا تین کروڑ شہری براہ راست اس آفت کی زد میں آئے ہیں۔
20 لاکھ ایکڑ سے زائد رقبے پر کھڑی فصلیں منہ زور سیلاب بہا لے گیا۔ عمر بھر کی جمع پونجی جوڑ کر بنائے گئے لاکھوں مکانات سیلابی لہروں کی نذر ہوگئے۔ جو کل تک اپنے ہم وطنوں کے مانند اپنی چھت تلے روز و شب بسر کررہے تھے وہ آج کھلے آسمان کے نیچے بے یارومددگار پڑے ہیں۔ ان میں سے کتنے ہی ایسے بھی ہیں جن کے پیارے اس قدرتی آفت کے ہاتھوں ان سے جدا ہوگئے۔
خیبرپختوانخوا سے لے کر سندھ کے ضلع دادو تک سیلاب زدہ علاقوں میں سڑکوں کے کنارے، بلند مقامات پر اور کیمپوں میں لوگ اپنے اہل خانہ کے ہمراہ حسرت و یاس کی تصویر بنے ہوئے ہیں۔ کل تک جو دوسروں کی مدد کرتے تھے آج خود دوسروں کی مدد کے محتاج ہوگئے ہیں۔ سیلاب زدگان کی دادرسی کے لیے جہاں شہری اور حکومتی سطح پر کوششیں کی جارہی ہیں وہاں یہ سوال بھی اٹھایا جارہا ہے کہ آخر جدید عالمی تاریخ کے اس ہول ناک ترین سیلاب کے اسباب کیا ہیں اور کیا ہر برس اب پاکستان کو غیرمعمولی بارش کا سامنا رہے گا؟
بتایا جارہا ہے کہ رواں مون سون کے موسم میں اوسط سے 500 گنا زائد بارش ہوئی ہے۔ کچھ علاقوں میں 1500ملی میٹر بارش ریکارڈ کی گئی جبکہ عام طور پر وہاں 15 سے 20ملی میٹر تک برسات ہوتی آئی ہے۔ ایک ایسا ملک جہاں مستقبل کی منصوبہ بندی کو سرے سے کوئی اہمیت نہ دی جاتی ہو وہاں کسی بھی قدرتی آفت کا نتیجہ تباہی و بربادی کی صورت ہی میں نکلنا تھا اور یہی اس سیلاب کے بعد ہوا۔
موسمیاتی اور ماحولیاتی ماہرین حالیہ غیرمعمولی بارش اور اس کے نتیجے میں آنے والے سیلاب کو عالمی حدت (گلوبل وارمنگ) کا شاخسانہ قرار دیتے ہوئے اس کے لیے ترقی یافتہ ممالک کو موردالزام ٹھہرا رہے ہیں۔
گلوبل وارمنگ سے مراد کرۂ ارض کے اوسط درجۂ حرارت کا بڑھنا ہے جس کی ذمے داری فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس کے حجم میں اضافے پر عائد ہوتی ہے۔ اور اس گیس کا سب سے زیادہ اخراج صنعتوں سے ہوتا ہے۔ دنیا کے اوسط درجۂ حرارت میں اضافے سے عالمی موسم اور آب و ہوا میں تغیر رونما ہورہا ہے۔ کہیں گرمی، سردیِ، خزاں اور بہار کے دورانیے میں کمی بیشی مشاہدہ کی جارہی ہے، کہیں سر سبز خطوں میں خشک سالی پَر پھیلا رہی ہے تو کہیں غیرمعمولی بارشیں ہورہی ہیں۔
عالمی موسم میں بتدریج رونما ہونے والے اس بگاڑ کی وجہ سے جہاں جنگلی حیاتیات خطرے سے دوچار ہیں وہیں انسانی آبادیاں بھی اس سے متاثر ہورہی ہیں جس کی تازہ مثال پاکستان میں سیلاب کی تباہ کاریوں کی صورت میں نظر آرہی ہے۔ رواں سال موسم بہار نے پاکستان کا رخ ہی نہیں کیا۔ گرمیاں بھی شدید ترین رہیں۔ چار بار شدید ترین گرمی کی لہر ( ہیٹ ویو) آئی، جس کے نتیجے میں بلوچستان میں چلغوزے کے جنگلات سمیت کئی مقامات پر آگ لگنے کے واقعات پیش آئے۔
ترقی یافتہ صنعتی ممالک کی معاشی ترقی کا دارومدار وہاں قائم ہزاروں صنعتوں پر ہے۔ بجلی گھروں، کارساز فیکٹریوں، ٹیکسٹائل ملوں سمیت دیگر صنعتوں میں بڑے پیمانے پر رکازی ایندھن (کوئلہ، ڈیزل، پیٹرول، گیس وغیرہ ) استعمال ہوتا ہے۔ ان صنعتوں سے بڑی مقدار میں گرین ہاؤس گیسیں بالخصوص کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج ہوکر فضا میں شامل ہوکر کرۂ ارض کو گرم کررہی ہیں۔
گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج اور ان کے اسباب پر نظر رکھنے والی عالمی تنظیم گلوبل کاربن پروجیکٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق 1975ء سے 2020ء تک کاربن کا سب سے زیادہ اخراج کرنے والے سرفہرست پانچ ممالک امریکا، چین، روس، جرمنی اور برطانیہ تھے۔ دوسری جانب پاکستان کا کاربن کے عالمی اخراج میں حصہ ایک فیصد سے بھی کم ہے مگر تیسری دنیا کا یہ ترقی پذیر ملک گلوبل وارمنگ کے اثرات سے شدید طور پر متاثر ہوا ہے۔ وفاقی وزیرخزانہ مفتاح اسماعیل کہتے ہیں کہ سیلاب سے معیشت کو دس ارب ڈالر کا نقصان پہنچ چکا ہے۔
گلوبل وارمنگ کے خطرے سے نمٹنے اور کاربن کے اخراج میں کمی کے لیے اب تک کئی عالمی معاہدے ہوچکے ہیں۔ موسمیاتی تبدیلیوں پر بین الاقوامی کانفرنسیں بھی باقاعدگی سے ہوتی رہتی ہیں۔ معاہدے کرنے والے ممالک کاربن کے اخراج میں کمی کا اپنا ہدف حاصل کرنے کے سلسلے میں زور بھی دیا جاتا ہے مگر اب تک یہ معاہدے اور کانفرنسیں بے سود ثابت ہوئی ہیں۔
اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ اگر صنعتی ممالک کاربن کے اخراج میں کمی کے لیے سنجیدہ کوششیں کرتے ہیں تو ان کی معاشی ترقی متاثر ہوگی۔ دنیا میں اگرچہ گرین ٹیکنالوجی کا بھی ایک عرصے سے چرچا ہے مگر کاربن کے اخراج پر قابو پانے کے ضمن میں اس کا کردار نہ ہونے کے برابر ہے۔
گلوبل وارمنگ کے اثرات سے اگرچہ ترقی یافتہ ممالک بھی یکسر محفوظ نہیں مگر وہاں قدرتی آفات کے نقصانات کو محدود تر کرنے کے لیے مربوط منصوبہ بندی کی جاتی ہے۔
پاکستان میں حالیہ شدید ترین سیلاب اور اس سے بڑے پیمانے پر ہونے والی تباہی کے پیش نظر عالمی سطح پر یہ سوال اٹھایا جارہا ہے کہ کیا صنعتی ممالک کی ترقی کی قیمت غریب ممالک کو ادا کرنے پڑے گی؟ برطانیہ کی رکن پارلیمان کلاڈیا ویب نے کہا کہ موسمیاتی تغیر میں پاکستان کا کردار نہ ہونے کے برابر ہے مگر وہ ترقی یافتہ ممالک کے لالچ کی قیمت تباہ کن سیلاب کی شکل میں ادا کررہا ہے۔
صنعتی ممالک سے یہ توقع رکھنا عبث ہے کہ وہ تیسری دنیا کے ممالک کا خیال کرتے ہوئے کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس کے اخراج میں کمی کے لیے ٹھوس اقدامات کریں گے۔ ان کے لیے اپنی معاشی ترقی کا گراف بلند رکھنا اہم ترین ہے۔ پاکستان جیسے ممالک پر گلوبل وارمنگ کے سبب آفت ٹوٹنے پر وہ اظہارہمدردی کے طور پر نقدی، اجناس اور سازوسامان کی صورت میں امداد تو روانہ کردیں گے مگر ان کی فیکٹریاں اسی طرح کاربن اگلتی رہیں گی۔
حالیہ سیلاب سے ہونے والی بدترین تباہی کا سبب گلوبل وارمنگ ضروری سہی مگر پاکستان میں یکے بعد دیگر آنے والی حکومتوں کو بھی بری الذمہ قرار نہیں دیا جاسکتا جنھوں نے موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے نمٹنے کے لیے کوئی منصوبہ بندی نہیں کی، حالانکہ کئی عشروں سے گلوبل وارمنگ عالمی سطح پر زیربحث ہے۔ اور کئی برس سے ماہرین موسمیات خبردار کرتے آرہے ہیں کہ پاکستان کو اپنے محل وقوع کے پیش نظر گلوبل وارمنگ سے شدید متاثر ہونے کا خطرہ درپیش ہے۔ تاہم حکمران ایسی تمام رپورٹوں سے صرف نظر کرتے رہے۔
موسمیاتی تغیرات کے خطرات کی پیش بندی کے لیے حکومتی سطح پر نہ تو کوئی منصوبہ بنایا گیا اور نہ اس سمت میں کوئی عملی پیشرفت کی گئی۔ ماحولیاتی ماہرین خبردار کررہے ہیں کہ پاکستان کو اب شدید موسم کا سامنا رہے گا لہٰذا موسمی تغیرات کے ہول ناک اثرات کے پیش نظر ٹھوس منصوبہ بندی کرنی ہوگی۔