نمک کا آدمی

ایک روز ساحل پر چہل قدمی کرنے والوں کے من میں ایک سوال اترا۔ سوال کہ سمندر کتنا گہرا ہے؟

یہ حکایت صدیوں پرانی ہے:
ایک روز ساحل پر چہل قدمی کرنے والوں کے من میں ایک سوال اترا۔ سوال کہ سمندر کتنا گہرا ہے؟
وہ بالادست طبقے کا میلہ تھا۔ کوئی گیانی، کوئی کلاکار۔ کوئی اہل اقتدار، کوئی جنگ جو۔ دلائل اور فلسفوں سے لیس یہ طبقہ روز ہی چہل قدمی کی غرض سے آیا کرتا، لیکن آج ایک غارت گر سوال نے اُن کے ذہن میں طوفان کھڑا کر دیا۔

''سمندر کتنا گہرا ہے؟'' وہ سوال دہراتے۔ ہاتھ ملتے۔ ایک دوسرے کی جانب دیکھتے، اور سر جھکا لیتے۔ کسی کے پاس جواب نہیں تھا۔ ایسے میں ٹیلے پر کھڑا ایک شخص لوگوں کو پکارتا ہے۔ اُس کا شاہانہ جبہ ہوا میں لہرا رہا تھا۔ وہ اہل اقتدار کی صف سے اٹھا تھا۔ سب اُس کے گرد جمع ہو گئے۔ اُس نے منطق کا سہارا لیا۔ فیصلے صادر کیے، مگر سامعین جلد جان گئے کہ اُس کے الفاظ کھوکھلے ہیں، علم مستعار لیا ہوا ہے، اُس میں تجربے کا جوہر نہیں۔

لوگ بے زار ہو کر دُور ہٹنے لگے۔ ایسے میں گیانی نے صدا لگائی۔ اُس کے بلند خیمے میں سب اکٹھے ہوئے ۔ اُس نے دانش وَرانہ ادا کے ساتھ جواب پیش کیا۔ جواب کھوکھلا نکلا۔ سوال جوں کا توں کھڑا تھا۔ ساحل پر ہیجان کی چاپ تھی۔ مایوسی کا کہرا تھا۔ ایسے میں ایک آواز سنائی دی: ''میں جواب کھوج نکالوں گا۔''

وہ نمک کا آدمی تھا۔ ایک عام انسان۔
''تم؟'' دانش وَروں کا لہجہ استہزائیہ تھا۔ اہل اقتدار نے قہقہہ لگایا۔ ''تم کیسے سمندر کی گہرائی ماپ سکتے ہوئے؟ ہماری اجتماعی دانش اور سیاسی بصیرت ناکام گئی۔''
''میں جواب لاؤں گا۔'' نمک کے آدمی نے کہا۔ ''کیوں کہ میں اُس کی تلاش میں سمندر میں اترنے کے لیے تیار ہوں۔''
سب ڈر گئے۔ ساحل پر کھڑے لوگوں کا علم ساحل تک محدود تھا۔ وہ کبھی سمندر میں نہیں اترے تھے۔

نمک کا آدمی سمندر کی جانب بڑھا۔ دھیرے دھیرے وہ غصیل لہروں میں غائب ہو گیا۔ فلسفی خاموشی سے دیکھتے رہے۔ اہل اقتدار نے چپ سادھ رکھی۔ جنگ جو لاتعلق رہے۔
نمک کا آدمی آگے بڑھتا رہا۔ سمندر کے عمیق ترین حصے تک جا پہنچا۔ وہ تہہ کو چھونے والا تھا کہ اچانک اُسے ایک تبدیلی کا ادراک ہوا۔ وہ تحلیل ہو رہا تھا۔ اور یہ عمل اُسی وقت شروع ہو گیا تھا، جب وہ سمندر میں اترا تھا، مگر وہ کھوج میں اتنا مگن تھا کہ اپنی جسمانی تبدیلیوں کو بُھلا بیٹھا۔
اس کا بدن تحلیل ہو رہا تھا۔ وہ سمندر کا حصہ بن گیا۔ اور تب ایک انکشاف اترا۔ وہ جان گیا کہ سمندر کتنا گہرا ہے۔ اُسے جواب مل گیا۔ لیکن ایک مسئلہ درپیش تھا۔ وہ واپس نہیں جا سکتا تھا۔ وہ تو اب سمندر کا حصہ تھا۔


دوسری جانب ساحل پر جمگھٹا لگا تھا۔ مباحثے جاری تھے۔ ہر ایک اپنی اپنی رائے دے رہا تھا۔ اور رائے میں قطعیت تھی۔ سمندر میں اترے بغیر اُس کی گہرائی پر تبصرے کیے جارہے تھے، فیصلے صادر ہو رہے تھے۔ کبھی کبھی وہ نمک کے آدمی کی گم شدگی پر بھی اظہار افسوس کر تے۔ وعدہ کرتے کہ اُسے جلد ڈھونڈ نکالیں گے۔ کچھ اِس واقعے کی مذمت کر رہے تھے۔
جو سمندر کی گہرائی کا علم رکھتا تھا، وہ خاموشی سے تحلیل ہو گیا، اور جو لاعلم تھے، وہ فلسفہ بیان کرتے رہے۔

صاحبو، یہ ایک قدیم تمثیل ہے، جس نے صدیوں کا سفر طے کیا۔ اوشو سمیت کچھ لوگ اِسے رام چندر جی سے منسوب کرتے ہیں۔ یہ حکایت اُس انسانی خصلت اور رویے کی نشان دہی کرتی ہے، جو تجربے کی بھٹی سے گزرے بغیر فیصلے صادر کرنے کی تحریک دیتا ہے۔ صحرا میں اترے بنا سراب پر تبصرے کا حوصلہ فراہم کرتا ہے۔ تاریکی کا عذاب بھوگے بغیر اُس کے تجزیے پر قائل کرتا ہے۔

یہ روشن روحانی حکایت دنیاوی معاملات میں بھی بڑی بامعنی لگتی ہے۔ خصوصاً اُس سمے یہ اپنے رموز آشکار کر دیتی ہے، جب سانحۂ تھر پر سندھ کے ایک وزیر یہ تبصرہ فرماتے ہیں کہ وہاں حالات اتنے بھی خراب نہیں، جتنے بیان کیے جا رہے ہیں۔ اِس تمثیل کی مزید کچھ پرتیں کھلتی ہیں، جب صوبائی حکومت کی ایک مشیر یہ اصرار کرتی ہیں کہ اِن ہلاکتوں کا بڑا سبب بھوک نہیں، نمونیا ہے۔ ہاں، یہ بامعنی ہو جاتی ہے، جب کابینہ کے ارکان مرغن کھانوں پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ جب اہل اقتدار اِس واقعے کی مذمت کرتے ہیں، تو یہ حکایت بہت یاد آتی ہے۔ ذہن ساحل پر کھڑے اُن لوگوں کی جانب چلا جاتا ہے، جو کبھی سمندر میں نہیں اترے۔

قبلہ، آپ بھوک کی انتہا کو بھلا کیوں کر جان سکتے ہیں، جب آپ اُس سے گزرے ہی نہیں۔ چلچلاتی دھوپ میں مزدوری کرنے والے آدمی کا المیہ آپ اُس وقت تک نہیں سمجھ سکتے، جب تک آپ خود دھوپ میں جھلسے نہ ہوں۔ آپ کو بھلا کیسے جعلی ادویہ نامی عفریت کی موجودگی کا ادراک ہو گا، آپ کے بچے کبھی اِس زہر کا شکار نہیں ہوئے۔ بم دھماکوں کے بعد سہولت سے اپوزیشن کو اُس سانحے پر سیاست کرنے سے باز رہنے کی تنبیہ کیجیے حضور۔ آپ کا کوئی اپنا تو لقمۂ اجل نہیں بنا۔ آزادی سے نعرے لگائیے، دعوے اور وعدے کیجیے، اگر وہ پورے نہیں ہوئے، تو آپ کا کیا جاتا ہے۔

اگر آپ عوام کے حقیقی مسائل کا ادراک رکھتے، تو کبھی اپنے مخالفین کو سڑکوں پر گھسیٹنے کا غیر حقیقی دعویٰ نہیں کرتے۔ لوڈشیڈنگ کے خاتمے کی تاریخیں نہیں دیتے پھرتے۔ اگر عام آدمی کے کرب سے آشنا ہوتے، تو ڈالر کی قدر نیچے آنے پر استعفیٰ دینے کی بات زبان پر نہیں لاتے۔ آپ کبھی ثقافتی ایمرجینسی نافذ نہیں کرتے، اگر احساس ہوتا کہ قحط کس ناسور کا نام ہے۔ اگر آپ کو اپنوں سے بچھڑے والوں کے اندوہناک غم کا احساس ہوتا، تو آپ کبھی حالات کے پُرامن ہونے پر اصرار نہیں کرتے۔

بدقسمتی سے آپ عوام سے کٹے ہوئے ہیں۔ اُن کے کرب سے لاعلم ۔ آپ ساحل پر کھڑے ہیں، اور سمندر کی گہرائی پر تبصرے جڑ رہے ہیں۔ اور نمک کا آدمی، وہ انسان جو مصائب کے سمندر میں تحلیل ہو چکا، اگر اپنا کرب بیان بھی کرے گا، تو آپ سمجھ نہیں پائیں گے۔ زلزلہ زدگان اور متاثرین سیلاب کا گریہ آپ کو اجنبی لگے گا، کیوں کہ آپ غم کے اُس تجربے سے محفوظ ہیں، جو ہماری زیست کو نیست کر چکا ہے۔

جب آپ کرب ہی کا ادراک نہیں رکھتے حضور، تو مداوے کا کیا امکان رہ جاتا ہے۔ نہیں جناب، ہمیں کوئی شکوہ نہیں۔ آپ نے دُرست فرمایا، تھر میں حالات اتنے بھی خراب نہیں۔ بچے فاقوں سے نہیں ، سردی سے مر رہے ہیں۔ شکریہ، آپ نے تحقیقاتی کمیٹی بنا دی۔ امداد کا اعلان کر دیا۔ ریلیف ٹیمیں روانہ کر دیں۔ بہت ممنون ہوں، آپ نے واقعہ کی مذمت کی۔ آپ بہ آسانی ایسا کر سکتے ہیں، کیوں کہ آپ ساحل پر کھڑے ہیں۔ اور کھڑے رہیں گے۔ نمک کے آدمی کا کیا ہے؟ وہ کرب اور بے بسی کے اتھاہ سمندر میں صدیوں سے گھلتا رہا ہے ، گھلتا رہے گا۔ آپ سلسلۂ کلام جاری رکھیے کہ تلخی کے تلخی میں مل جانے سے فرق بھی کیا پڑتا ہے۔ بس، اتنا ضرور ہے کہ نمک کے آدمی کی حکایت کو کچھ معنی مل گئے ہیں۔ اور آپ کی عطا سے ملتے رہیں گے۔ آپ کا شکریہ!

شاید رنج کے کسی ایسے ہی لمحے باقر نقوی نے یہ شعر کہا تھا:
دوا بغیر کوئی طفل مر گیا تو کیا ہوا
بس ایک پھول ہی تو تھا، بکھر گیا تو کیا ہوا
Load Next Story