سویلین سپرمیسی
اقوام متحدہ کے سول و پولیٹیکل رائٹس کمیشن کے فیصلہ کے تحت شہری کو غیر قانونی حراست میں رکھنا فوجداری جرم ہے
جبری گمشدگیاں نا قابلِ برداشت ہیں۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اﷲ نے 9دسمبر کو گمشدہ افراد کے مسئلہ کا حل تلاش کرنے کے لیے ملک کے چیف ایگزیکٹو وزیر اعظم شہباز شریف کو پیش ہونے کا حکم دیا۔
وزیر اعظم شہباز شریف اپنے وزیر قانون اعظم تارڑ کے ہمراہ معزز عدالت کے روبرو پیش ہوئے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اﷲ نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ '' جبری گمشدگیاں ناقابل برداشت ہیں۔ شہریوں کو لاپتہ کرنا آئین توڑنے کے مترادف ہے۔ '' انھوں نے مزید کہا کہ '' وزیر اعظم صاحب یہ سلسلہ ختم کرنا آپ کی ذمے داری ہے ، اگر چیف ایگزیکٹو تسلیم کرے کہ ایجنسیاں اس کے ماتحت نہیں تو عہدہ چھوڑ دیں۔
اس مسئلہ کو پارلیمنٹ میں لے کر جائیں، قانون ساز ی کریں، بھارت اور دیگر ممالک میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ ایک ایگزیکٹو نے اپنی کتاب میں فخر سے لکھا کہ لوگوں کو بیرون ملک فروخت کیا گیا۔ ملک میں کوئی آئین سے بالاتر نہیں ۔ عدالت سول سپرمیسی کو یقینی بنائے گی۔'' وزیر اعظم نے معزز عدالت کو بتایا '' جب میں عدالت میں آیا تو دروازہ پر ایک بچے نے کہا کہ میرے ابو کو مجھ سے ملا دیں۔ بچے کا یہ جملہ مجھے دکھی کرگیا۔ میرے اہل خانہ نے بھی اذیت دیکھی ہے۔
میں اس مسئلہ کے حل کے لیے کوئی کسر نہیں چھوڑوں گا۔ '' پھر وزیر اعظم شہباز شریف کی ہدایت پر وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اﷲ کی قیادت میں کوئٹہ گئے۔ وزیر داخلہ اور ان کے وفد کے ارکان نے لاپتہ افراد کے لواحقین کی روداد سنی۔ وزیر اعلیٰ بلوچستان عبدالقدوس بزنجو کے ہمراہ انھوں نے ایک پریس کانفرنس بھی کی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اﷲ نے گزشتہ سال یہ رولنگ دی تھی کہ لاپتہ افراد سے مراد وہ افراد ہیں جنھیں غیر قانونی طور پر اغواء کیا جاتا ہے۔ شہریوں کو اغواء کرنا بڑا پرانا مسئلہ ہے۔
امریکا نے لاطینی امریکی ممالک اسکوا ڈور، چلی اور دیگر ممالک میں جہاں بائیں بازو کی مزاحمتی تحریکیں مضبوط تھیں ان تحریکوں کے رہنماؤں، کارکنوں، دانشوروں اور شاعروں کو غیر قانونی طور پر اغواء کرنے اور انھیں طویل عرصہ لاپتہ کرنے اور پھر ان افراد کی لاشیں ملنے کا طریقہ رائج کیا تھا۔ جرمنی میں آمر ہٹلر نے اپنے مخالفین کو راستہ سے ہٹانے کے لیے یہ طریقہ کار استعمال کیا جو پوری دنیا میں فاشسٹ طریقہ کے نام سے مشہور ہوا۔
جنرل ایوب خان کے دورِ اقتدار میں کمیونسٹ پارٹی کے رہنما حسن ناصر اور ان کے ساتھیوں کو غیر قانونی طور پر اغواء کیا گیا تھا اور لاہور کے شاہی قلعہ میں حسن ناصر کو بد ترین تشدد کر کے شہید کیا گیا۔ پیپلز پارٹی کے پہلے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے دور اقتدار میں آزاد کشمیر میں دلائی کیمپ میں سماجی منحرفین کو قید کرکے رکھا گیا۔
جنرل ضیاء الحق کے دور اقتدار میں سیاسی کارکنوں کے اغواء اور ان پر تشدد کا سلسلہ جاری رہا۔ سندھ نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے صدر نذیر عباسی کو کراچی یا کسی نامعلوم مقام پر تشدد کر کے شہید کیا گیا۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں ہزاروں کارکنوں کو 1973کے آئین کی بحالی کے مطالبہ کی حمایت کرنے پر اغواء کیا گیا۔ یہ لاہور کا شاہی قلعہ ، پشاور کا قلعہ بازار ،کوئٹہ کا قلی کیمپ کراچی میں بلدیہ اسپورٹس کمپنی کو اسی بناء پر بین الاقوامی شہرت حاصل ہوئی۔
جنرل پرویز مشرف کا دور جبری گمشدگی کے حوالہ سے بد ترین دور ہے۔ اس صدی کے آغاز پر کوئٹہ میں مری قبیلہ سے تعلق رکھنے والے افراد لاپتہ ہوئے۔ القاعدہ اور پاکستانی طالبان سے رابطہ کے مبینہ الزام میں سیکڑوں افراد کو غیر قانونی طور پر حراست میں رکھا گیا۔
سابق صدر پرویز مشرف نے اپنی کتاب "In the line of fire" میں تحریر کیا ہے کہ کئی افراد کو امریکا کے حوالہ کیا گیا۔ ان میں اسلام آباد میں تعینات سابق افغانی سفیر بھی شامل تھے مگر 2008میں پیپلز پارٹی کی حکومت 2013 میں مسلم لیگ ن کی حکومت اور 2018 میں عمران خان کی حکومت میں سیاسی کارکنوں کی جبری گمشدگی کے معاملات جاری رہے۔
سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری نے سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس جاوید اقبال کی قیادت میں ایک کمیشن قائم کیا تھا۔ اس کمیشن میں دو نمایندے اور تھے مگر یہ کمیشن کوئی خاطر خواہ کام نہ کرسکا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے کمیشن کی کارکردگی پر مایوسی کا اظہار کیا تھا۔ انسانی حقوق کی تنظیم ایچ آر سی پی اور لاپتہ افراد کی بازیابی کی تنظیمیں مسلسل مطالبہ کررہی ہیں کہ لاپتہ افراد کا مسئلہ حل کیا جائے۔
اقوام متحدہ کے سول و پولیٹیکل رائٹس کمیشن کے فیصلہ کے تحت شہری کو غیر قانونی حراست میں رکھنا فوجداری جرم ہے۔ پاکستان نے اس کمیشن کی توثیق کی تھی مگر یورپی یونین نے گمشدہ افراد کو فوجداری جرم قرار دینے کی قرارداد منظور کی۔ یورپی یونین نے پاکستان کی گارمنٹس کی مصنوعات کو جی ایس پی پلس کا درجہ برقرار رکھنے کے لیے انسانی حقوق کی صورتحال بہتر بنانے پر زور دیا ہے۔
گمشدہ افراد کے مسئلہ پر قانون سازی اور عمران خان کی حکومت نے شہری کو جبری اغواء کرنے کو فوجداری جرم قرار دینے کے لیے ایک مسودہ قانون تیار کیا تھا۔ سینیٹ نے اس قانون کی منظوری بھی دیدی ہے مگر انسانی حقوق کی اس وقت کی وزیر ڈاکٹر شیریں مزاری نے مختصر سا اعلان کیا کہ سینیٹ سے یہ مسودہ لاپتہ ہوا۔ ڈاکٹر شیریں مزاری انسانی حقوق کی بالادستی کے نعرے بلند کررہی ہے مگر سینیٹ کے قانون کا مسودہ لاپتہ ہونے پر انھوں نے تحقیقات کا کوئی حکم نہیں دیا۔ اب یہ اطلاعات ہیں کہ وزیر داخلہ کی قیادت میں ایک کمیٹی قائم کی گئی ہے جس میں بلوچستان اور سابقہ فاٹا سے تعلق رکھنے والے وفاقی وزراء شامل ہیں۔
ایک معروف صحافی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کمیٹی نے گمشدہ افراد کے لواحقین اور متعلقہ سرکاری محکموں کے افسران سے ملاقاتیں کی ہیں تاکہ ایسی حکمت عملی تشکیل دی جاسکے کہ گمشدہ افراد کا مسئلہ حل کیا جائے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس مسئلہ کا ایسا قانونی حل تلاش کیا جائے جیسا ترقی یافتہ ممالک میں ہوتا ہے۔
ایک طرف تو وزیر اعظم شہباز شریف نے لاپتہ افراد کے مسئلہ کے حل کی یقین دہانی کرائی ، دوسری طرف کراچی میں ایم کیو ایم کے تین لاپتہ افراد کی لاشیں ملنے سے معاملہ اور زیادہ سنگین ہوگیا اور کراچی کے لوگ بھی یہ سوچنے لگے کہ کیا معاملہ حل ہو گا۔ لاپتہ افراد کا مسئلہ حل نہ ہونے سے ایک طرف متاثرہ افراد کا اعتماد ختم ہو چلا ہے ۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے گمشدہ افراد کی بازیابی کے لیے تاریخی فیصلے کیے ہیں۔
شریف خاندان نے گزشتہ 4 برسوں میں قید وبند کی صعوبتیں برداشت کی ہیں۔ پیپلز پارٹی کے رہنما بھی ایسے ہی تجربات سے گزرے ہیں۔ ان دونوں جماعتوں کو اس مسئلہ کو جڑ سے حل کرنے کے لیے نہ صرف قانون سازی کرنی چاہیے بلکہ اس پر عملدرآمد کو بھی یقینی بنایا جائے۔عدلیہ نے آئین کی بالادستی اور سویلین سپرمیسی قائم کرنے کا عہد کیا ہے۔ موجودہ حکومت کو اس عہد کی تجدید کرنی چاہیے۔