انسانی رنگ اور زبان میں فرق ڈارون کا نظریہ چوتھا حصہ

آج تک کسی سائنسدان نے انسان کے ’’بندر کی اولاد‘‘ والی بات نہیں کی، یہ تو وہ طنز ہے جو اہلِ کلیسا کرتے آئے ہیں

ڈارون نے کبھی بھی یہ بات نہیں کی کہ انسان بندر سے وجود میں آیا۔ (فوٹو: فائل)

اگر ہم اپنے اردگرد نظر ڈالیں تو ہمیں بہت سارے جاندار دکھائی دیتے ہیں۔ ان میں پودے بھی ہیں، چرند، پرند، درندے سب ہی شامل ہیں۔ اگر ان کی ظاہری شکل و ساخت دیکھیں تو یہ جاندار خاندانوں میں تقسیم معلوم ہوتے ہیں۔ جیسے بلی کو تو شیر کی خالہ کہا جاتا ہے لیکن کتے کو کیوں شیر، چیتے یا تیندوے کا ماموں یا چچا نہیں کہتے؟ اس کی بڑی واضح وجہ بلیوں کی شیر، چیتے وغیرہ کے ساتھ جسمانی مشابہت ہے، جبکہ کتے بھیڑیوں سے مشابہ ہیں۔ یہ مشابہت ان جانوروں کے آپس کے تعلق کو ظاہر کرتی ہے۔

اس مشابہت کے حوالے سے بات کی جائے تو سب سے پہلا اعتراض جو کیا جاتا ہے کہ اگر شیر بلی سے بنا ہے یا بلی شیر کی بگڑی ہوئی شکل ہے تو پھر ہمیں آج شیر اور بلی دونوں کیوں نظر آرہے ہیں؟ ان دونوں میں سے تو کسی ایک کو ہی موجود ہونا چاہیے ناں؟ اسی طرح کہا جاتا ہے کہ اگر انسان بندر سے بنا ہے تو آج ہمیں درجنوں اقسام کے بندر کیوں دنیا بھر کے جنگلات میں نظر آتے ہیں؟ نظریہ ارتقا کے حساب سے تو تمام بندروں کو انسانوں میں تبدیل ہوجانا چاہیے۔ منطق اور دلیل کے اعتبار سے یہ اعتراضات کافی وزنی ہیں۔

بلاگ کے ابتدائی حصے یہاں سے پڑھیے:

انسانی رنگ اور زبان میں فرق: جینیاتی ٹائم مشین ... (پہلا حصہ)

انسانی رنگ اور زبان میں فرق: رقیبِ رو سیاہ ... (دوسرا حصہ)

انسانی رنگ اور زبان میں فرق: قدرت کی نشانی... (تیسرا حصہ)

مزے دار بات تو یہ ہے کہ ڈارون یا کسی بھی سائنس دان نے کبھی بھی یہ بات نہیں کی انسان بندر سے وجود میں آیا ہے۔ اس غلط فہمی کی ابتدا کا قصہ بھی کافی دلچسپ ہے، پہلے وہ جان لیتے ہیں پھر اس اعتراض کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں۔ تو جناب یہ وہ زمانہ تھا جب ڈارون اپنا نظریہ اپنی مشہورِ زمانہ تصنیف (On the origin of species) میں پیش کرچکا تھا اور پورے انگلستان میں اس پر گرماگرم بحث جاری تھی۔ نا صرف اہلِ کلیسا پوری شدت کے ساتھ اس نظریے کی مخالفت پر کمربستہ تھے بلکہ اس وقت کے سائنسدانوں کی اکثریت بھی ڈارون کی مخالف تھی۔ جون 1860 میں آکسفورڈ میں ایک مباحثے کا اہتمام کیا گیا، جس میں انگلستان کے سرکردہ پادریوں کے نمائندے موجود تھے تو دوسری جانب ڈارون کے حامی۔ دورانِ بحث آکسفورڈ کے بشپ سیمیول ولبر فوس نے کہا کہ
''کیا تمھارے دادا دادی کو اس بات کا علم ہے کہ تم اپنے آپ کو بندر کی نسل سے سمجھتے ہو؟''
اس کے جواب میں تھامس ہکسلے (جو کہ ڈارون کی نمائندگی کررہا تھا) نے کہا
''اگر مجھے اس بات کا انتخاب کرنے کا موقع دیا جائے کہ ایک بیچارے بندر اور ایسے انسان، جس کو کہ قدرت نے ہر لحاظ سے نوازا ہو، جو معاشرے پر اثر رکھتا ہو، اور ان تمام ودیعت کردہ صلاحیتوں کے باوجود ایک سنجیدہ سائنسی بحث میں توہین آمیز طنز کرکے سچائی کے متلاشیوں کو بدنام اور بے اعتبار کرنے کی کوشش سے باز نہیں آسکتا، تو پھر میں اس معصوم بندر کو ہی ترجیح دوں گا۔''
ہکسلے کی بات سن کر ایک طرف تو خواتین دنگ ہی رہ گئیں تو دوسری جانب مردوں میں ایک فلک شگاف قہقہہ بلند ہوا۔

خیر واپس چلتے ہیں اس اعتراض نما سوال کی طرف کہ بندر کیوں موجود ہیں؟ یہ سب کے سب ارتقا کرتے ہوئے انسان کیوں نہ بن گئے؟ جیسا کہ اوپر ذکر ہوچکا ہے کہ یہ محض ایک طنزیہ جملہ تھا جو اس بحث میں کہا گیا ورنہ انسانوں اور بندروں کا براہِ راست تعلق نہیں ہے۔ جیسا کہ ہمارے خاندان میں ہمارا ڈائریکٹ رشتہ ہمارے والدین یا پھر اولاد کے ساتھ ہوتا ہے۔ لیکن ہمارے جو کزنز ہوتے ہیں ان کے ساتھ ہمارا رشتہ ہمارے والدین کے واسطے سے ہوتا ہے۔ مثلاً میرا اور میرے چچا زاد بھائی کا تعلق ہمارے والدین کی وجہ سے ہے کہ وہ دونوں ہمارے دادا کی اولاد ہیں اور یوں ہمارا تعلق ہمارے دادا پر جاکر ملتا ہے، اسی طرح اگر بات ہو میرے والد کے چچا کی تو یہ تعلق میرے پر دادا تک جاتا ہے۔ یعنی ان خاندانی رشتوں کے ماخذ ہمارے آباء و اجداد ہوئے۔ ماضی میں اسی بنیاد پر لوگ اپنی شناخت قبائل کے طور پر کرتے تھے اور آج بھی آپ کو برادریاں اور ذاتیں ملیں گی۔ ہماری طرح تمام جانداروں کے خاندان اور قبیلے بھی ایسے ہی شمار ہوتے ہیں، بس فرق صرف اتنا ہے کہ ہمارے خاندان اور قبیلے میں ہر فرد انسان ہی ہوتا ہے، جبکہ ان سائنسی قبائل میں ہر جاندار اپنی جنس کا نمائندہ سمجھا اور گنا جاتا ہے۔


ڈارون کا نظریہ ارتقا، جس کا اصل نام (Theory of Natural Selection) ہے، کہتا ہے کہ تمام جاندار مسلسل اور ہمہ وقت ایک قدرتی فلٹر سے گزر رہے ہوتے ہیں۔ یہ فلٹر قدرت کا بنایا ہوا وہ نظام ہے جس سے وہ ہی اقسام کامیابی سے گزر سکتی ہیں جو کہ اپنے ماحول میں زیادہ بہتر طریقے سے رہنے کے قابل ہوں اور وہاں موجود وسائل کو باقی جانداروں کے مقابلے میں اپنی افزائشِ نسل کےلیے زیادہ اچھے انداز میں استعمال کرسکیں۔ یہاں یہ سوال پیدا ہونا چاہیے کہ ہمیں یا قدرت کو کیسے پتہ چلے گا کہ کون سا جاندار (خواہ وہ جانور ہو یا پودا یا پھر کوئی چھوٹا سا نظر نہ آنے والا جرثومہ) بہتر ہے یا بدتر؟ اس چیز کا اندازہ اس جاندار کی اولاد کی تعداد اور بڑھتی آبادی سے کیا جاسکتا ہے، یعنی جو جاندار زیادہ کامیاب ہوگا اس کی اولاد بھی زیادہ ہوگی اور یوں اس کی آبادی باقی سب کے مقابلے میں بڑھتی چلی جائے گی۔

چلیے ایک تجربہ کرتے ہیں کہ یہ اصول کام بھی کرتے ہیں یا نہیں۔ تصور کیجئے کہ ایک جنگل میں ایک ہی نسل کی بکریوں کے دو مختلف ریوڑ پائے جاتے ہیں۔ ان دو میں سے ایک قسم وہ ہے جو صرف گھاس کھا سکتی ہے، اور اس کی تعداد بہت زیادہ ہے جبکہ تھوڑی سی تعداد میں دوسری قسم کی بکریاں ہیں جو گھاس کے ساتھ ساتھ پتے، شاخیں، درختوں کی چھال وغیرہ بھی کھا لیتی ہیں۔ کچھ سال گزرتے ہیں اور ان دونوں اقسام کی آبادی میں یکساں اضافہ ہوتا رہتا ہے، یعنی گھاس کھانے والی زیادہ اور دوسری کم۔ ایک سال اتفاق سے جنگل میں قحط پڑ جاتا ہے، اب سوچ کہ بتائیے کہ ان دونوں اقسام میں سے کون سی قسم زیادہ بہتر طریقے سے اس خشک سالی کا سامنا کرنے کے قابل ہے۔ ظاہر سی بات ہے اس مشکل وقت میں صرف گھاس کھانے والی بکریوں کےلیے گھاس ڈھونڈنے کی سختی زیادہ ہوگی، جبکہ دوسری قسم کی بکریاں ہر طرح کی غذا (خشک پتے، شاخیں اور چھالیں وغیرہ) کھا کر زندہ رہیں گی۔ اب اگر یہ قحط لمبے عرصے تک چلتا ہے تو اس کا لازمی اثر پہلی والی بکریوں کی تعداد پر پڑے گا جو کہ کھانا میسر نہ ہونے کی وجہ سے کم ہونے لگیں گی اور اگر یہ حالات اور بھی زیادہ لمبے عرصے تک ایسے ہی چلے تو ممکن ہے کہ پہلی قسم کی آبادی بالکل ختم ہی ہوجائے، جبکہ اس کے مقابلے میں دوسری قسم کی بکریاں پھلتی پھولتی رہیں گی۔ یہاں قدرت کے اس امتحان میں بکریوں کی دوسری قسم کامیاب ٹھہری۔

کچھ لوگ کہہ سکتے ہیں کہ بھئی یہ تو محض اتفاق بھی ہوسکتا ہے تو چلیے ان کی تسلی کےلیے انہی دوسری قسم کی بکریوں پر ایک تجربہ اور کرلیتے ہیں۔ ان بکریوں کو تھوڑا وقت دیتے ہیں کہ یہ اپنی آبادی قحط سے پہلے والی تعداد تک بڑھالیں، مثلاً اگر پہلے دو ہزار بکریاں تھیں تو ان میں اکثر صرف گھاس کھاتی تھیں اور چند سب کچھ۔ اب قحط کے بعد اب جب ان بکریوں کی تعداد دوبارہ دو ہزار تک پہنچے گی تو ان کی اکثریت ان بکریوں کی ہوگی جو سب کچھ کھاسکتی ہوں گی۔ تصور کرتے ہیں کہ ان میں سے کچھ بکریاں ایسی ہیں جو کہ پتے بہت شوق سے کھاتی ہیں اور زیادہ پتے کھانے کےلیے انہوں نے درختوں پر چڑھنا بھی سیکھ لیا ہے اور دن کا زیادہ تر حصہ وہ درختوں پر ہی پتے کھاتی بسر کرتی ہیں، لیکن اکثریت زمین پر ہی موجود دستیاب کھانے سے ہی مطمئن ہے۔ دن رات ایسے ہی گزرتے جاتے ہیں اور بکریاں اطمینان کے ساتھ جنگل میں منگل مناتی ہنسی خوشی اپنی زندگی گزار رہی ہوتی ہیں کہ ایک دن جنگل میں بھیڑیوں کا ایک غول نمودار ہوتا ہے۔ جنگل میں موجود ہزاروں کی تعداد میں بکریاں دیکھ کر تو ان کی رال ٹپکنے لگتی ہے اور پانچوں انگلیاں گھی میں ڈال کر صحیح معنوں میں جنگل میں منگل کرنے لگتے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ بھیڑیے درختوں پر نہیں چڑھ سکتے لہٰذا آپ بتائیں کہ ان کا شکار کون سی بکریاں بنیں گی؟ سامنے کی بات ہے کہ زمین پر موجود بکریاں ان بھیڑیوں کےلیے آسان شکار ہوں گی، جبکہ درختوں پر موجود بکریاں ان کی دسترس سے باہر۔ اب کچھ عرصہ ایسے ہی چھوڑتے ہیں کہ زمین پر موجود بکریاں یا تو درختوں پہ چڑھنا سیکھ لیں گی یا پھر اپنی حفاظت کےلیے ایسے وقت میں کھانے کو جنگل میں نکلیں گی جب بھیڑیے سو رہے ہوں یا آرام کر رہے ہوں۔ آہستہ آہستہ بکریوں کی تعداد پھر سے بڑھنے لگے گی لیکن اب کی بار ان بکریوں کا تناسب زیادہ ہوگا جو درختوں پر چڑھ کر اور پتے کھا کر گزارا کرنے کے قابل ہوں گی۔

ان دونوں تجربات میں زیادہ سے زیادہ دس پندرہ سال لگے ہیں اور اس دوران جنگل میں موجود بکریوں کے کھانے پینے اور رہنے کے طور طریقوں میں ناقابلِ یقین حد تک تبدیلی آگئی ہے۔ اگر کسی سیاح یا شکاری نے دس سال پہلے اس جنگل کی سیر کی ہو تو اس وقت اسے گھاس چرتی زمین پر پھرتی بکریاں نظر آئی تھیں، لیکن اب اگر وہ دوبارہ اسی جنگل میں داخل ہوگا تو اسے زمین کی جگہ درختوں پر چڑھی ہوئی پتے کھاتی بکریاں نظر آئیں گی۔

اسی مثال کو تھوڑا سا مزید آگے بڑھاتے ہیں۔ تصور کیجئے کہ جس جنگل کی ہم بات کررہے ہیں اس میں دو کے بجائے چار ہزار بکریاں تھیں، جن کی اکثریت زمیں پر گھاس کھاتی تھی۔ پھر اتفاق سے ایک دن زبردست زلزلہ آیا اور جنگل کے درمیان میں ایک کھائی نمودار ہوگئی اور یوں جنگل دو حصوں میں اس طرح تقسیم ہوا کہ آدھی بکریاں ایک حصے میں اور باقی کی آدھی دوسرے حصے میں۔ اب اوپر والے دونوں تجربات اس جنگل کے ایک حصے میں ہوئے، جب کہ دوسرے حصے میں نہ تو کوئی قحط پڑا اور نہ ہی کوئی بھیڑیوں کا غول آیا، یعنی قدرت نے وہاں یہ دونوں فلٹر نہیں استعمال کیے۔ اب اگر آپ اپنے دوستوں کے ساتھ ان دونوں جنگلوں کی سیر کو جائیں تو آپ کو کیا ایک قسم کی بکریاں نظر آئیں گی یا دونوں حصوں میں الگ الگ؟ ظاہر ہے کہ آپ ان کے رہن سہن اور کھانے پینے کی عادات و اطوار کو سامنے رکھتے ہوئے انہیں دو مختلف بکریاں سمجھیں گے، اور جیسے جیسے وقت گزرتا جائے گا (یعنی سیکڑوں ہزاروں سال بعد) ایک قسم سے دو نئی اقسام کی بکریاں ہمارے سامنے موجود ہوں گی۔ اگرچہ یہ بکریاں ہوں گی مختلف مگر ان کا آپس کا تعلق ویسے ہی ہوگا جیسے دو چچا زاد بھائیوں کا ہوتا ہے۔ اب قدرت جیسے جیسے نئے فلٹر لگاتی جائے گی ویسے ویسے یہ کنبہ بڑھتا جائے گا۔

یہاں میں آپ سے یہ سوال پوچھنا چاہوں گا کہ کیا آپ ان دونوں طرح کی بکریوں کو ایک دوسرے کی اولاد کہہ سکتے ہیں؟ سمجھائیے مجھے کیا کسی زمین پر گھاس چرنے والی بکری نے درخت پر چڑھ کر پتے کھانے والی بکری کو جنا؟ ہرگز نہیں۔ تو جب ان دونوں بکریوں کو ایک دوسرے کی اولاد نہیں کہا جا سکتا تو پھر انسان کیونکر بندر کی اولاد ہوسکتا ہے؟ اب اگر انسان کسی بندر کی اولاد نہیں ہے تو پھر ڈارون یا دیگر سائنسدانوں کی مت کیوں ماری گئی ہے کہ وہ خود کو بندر کی نسل سے سمجھتے ہیں۔ یاد آیا آج تک کسی ایک سائنسدان نے یہ بندر کی اولاد والی بات نہیں کی، یہ تو وہ طنز ہے جو کہ اہلِ کلیسا شروع سے کرتے آئے ہیں اور ہمارے ہاں اہلِ مذہب نے بلا غور و تفکر اس بات کو سچ سمجھ لیا ہے۔

انسانوں کا تعلق بن مانس، گوریلا، چمپنزی، بندر، لنگور وغیرہ پر مشتمل ایک بڑے قبیلے سے ہے۔ اس قبیلے میں مختلف کنبے ہیں، انسانوں کا الگ، بن مانس کا الگ، اسی طرح بندروں اور لنگوروں کے بھی الگ الگ کنبے ہیں۔ انسانی کنبہ جسے ہومی نینی (Hominini) کہتے ہیں اس میں ہمارا نمبر سب سے آخری ہے، ہم سے پہلے ہم سے ملتے جلتے بہت سارے کزنز گزر چکے ہیں۔ اب یہ کوئی ہوائی بات نہیں ہے کہ ایک دن بیٹھے بیٹھے کسی فلسفی یا سائنس دان کو خیال آیا اور اس نے کہا کہ ہم سے پہلے ہم سے ملتے جلتے انسان اس زمین پر موجود تھے۔ جی نہیں، حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ماضی کے کزنز کی موجودگی کے ہمیں بہت سارے ثبوت اور شواہد مل چکے ہیں جنھیں عرفِ عام میں فوسلز یا باقیات کہتے ہیں۔

یہ فوسلز کوئی دس بیس ہزار سال پہلے کے نہیں بلکہ کاربن ڈیٹنگ کی مدد سے جب ان کی عمریں معلوم کی گئی تو یہ لاکھوں کروڑوں برسوں کی تاریخ کا احاطہ کرتے ہیں۔ ہمارا سب سے قریبی کنبہ گوریلا اور چمپینزی کا بنتا ہے جبکہ یہ بندر اور لنگور وغیرہ ہمارے بہت دور کے رشتے دار ہیں۔ سائنس دانوں نے جب ہمارے بڑے کزنز کے فوسلز (جن میں تقریباً ان سب کے مکمل یا جزوی ڈھانچے ہی دستیاب ہیں) کا مشاہدہ کرنا شروع کیا تو ایک بہت دلچسپ بات ان کے سامنے آئی کہ جیسے جیسے فوسل کی عمر بڑھتی جاتی ہے ویسے ویسے ان فوسل (ہڈیوں اور کھوپڑیوں وغیرہ) کی ساخت ہم سے مختلف ہوتی جاتی ہے، یعنی جو فوسل جتنا نیا ہوگا وہ اتنا ہی ساخت کے اعتبار سے ہم سے ملتا جلتا ہوگا اور جو جتنا پرانا ہوگا وہ اتنا ہی ہم سے مختلف۔ باالفاظ دیگر یہ فوسلز انسان کی تخلیق رفتہ رفتہ اور مرحلہ وار طریقہ سے ہونے پر دلالت کرتے ہیں۔
(جاری ہے)

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story