اپنے ہی دریا میں پیاسی لہریں

پاکستان زراعتی ملک ہے، جس کا دارومدار توانائی و پانی کے ذرایع اور ان کے بہتر معیار پر منحصر ہے۔


Shabnam Gul March 19, 2014
[email protected]

HARIPUR: پاکستان زراعتی ملک ہے، جس کا دارومدار توانائی و پانی کے ذرایع اور ان کے بہتر معیار پر منحصر ہے۔ جس سمت دریا اور خوب صورت جھیلیں بہتی ہیں تو ان کے کناروں پر رنگا رنگ تہذیبیں پروان چڑھتی ہیں۔ دریاؤں کے قریب رہنے والوں کے مزاج بھی پانیوں جیسے فراخ دل ہوتے ہیں، سانگھڑ کی طرف جائیں گے تو نارا کینال قدیم زمانے سے نارا کا پانی سفید صحرا کی پیاسی زمین کو سیراب کرتا نظر آئے گا۔ ہاکڑو، مہران، سندھ ساگر، سانکرو اور سانگڑو کے نام سے پہچانی جانے والی نارا کا سب سے پہلے ایک بنگالی انجینئر نے سروے کیا تھا۔ یہ انجینئر کیپٹن ڈبلیو بیکر تھے جنھوں نے نارا کی اہمیت و افادیت کو دریافت کیا۔ یوں لیفٹیننٹ جے جے فائین کی نظر وارہ میں دریائے سندھ سے نارا کا راستہ نکال کر اسے دائمی دریا کی حیثیت دی گئی۔ سفید صحرا پر یا تھر پارکر کے راستے پر ہر طرف سفر کرتے ہوئے جا بجا پانی کی کمی کا احساس ہوتا ہے۔ یہ خشک سالی ہے جو قحط کا سبب بنتی ہے۔ یہی حال دریائے سندھ کا ہے جس کا پانی کبھی تو بارشوں کے بعد سیلابی ریلے کی صورت اختیار کر لیتا ہے تو کبھی لہریں اپنے ہی دریا میں پیاسی رہ جاتی ہیں۔ پاکستان کا شمار ان سترہ ملکوں میں ہوتا ہے جو پانی کی کمی کا شکار ہیں، عالمی بینک کی رپورٹ کے مطابق ہمارے ملک کا شمار دنیا کے ان چھتیس ملکوں کی صف میں ہوتا ہے جہاں غذائی قلت کا شدید خطرہ ہے۔ یہ ملک موسمیاتی تغیر کے حوالے سے بھی دنیا کے بارہ ممالک میں سے ایک ہے۔ پچھلے 65 سالوں میں پاکستان میں بارہ بڑے سیلاب آ چکے ہیں۔ 2010ء کے سیلاب میں پاکستان کی معیشت کو دس ارب ڈالرز کا نقصان اٹھانا پڑا۔

پانی کی قلت کی پیش نظر پاکستان اور خصوصی سندھ میں ڈیمز بنانے کا مسئلہ جاری ہے۔ کہا جاتا ہے کہ بیسویں صدی میں ڈیمز بننے کی تعداد دنیا بھر میں 46,000 رہی ہے جس میں 22,000 ڈیمز چین، 675 امریکا، 2491 بھارت میں۔ جب کہ یہ تعداد پاکستان میں کم رہی۔ پاکستان میں دو بڑے اور ستر درمیانے درجے کے ڈیمز موجود ہیں۔ سندھ حکومت نے عالمی بینک کے تعاون سے چوٹیاری... ڈیم بنایا جو سانگھڑ میں واقع ہے۔ جس کے مطابق پانی کی مقدار کو بڑھاکر نہر کے وسیلے عمر کوٹ تک بھیجا جائے گا۔ جس سے عمر کوٹ کی چالیس ہزار ایکڑ پر پھیلی ہوئی زمین آباد ہو گی۔ یہ ڈیم 45 ہزار ایکڑ اور ایک سو چوالیس میل پر مشتمل ہے۔ سانگھڑ سے 10 کلو میٹر کے فاصلے پر نارا کے دائیں طرف مکھی جھیل کے مرکز میں تعمیر کیا گیا ہے۔ اس ڈیم میں سات لاکھ ایکٹر فٹ سے بھی اوپر پانی کا ذخیرہ موجود رہے گا۔ ماہرین کا کہناتھا کہ ڈیم بننے کے بعد پانچ سو ٹن مچھلی کے بجائے پانچ ہزار ٹن مچھلی شکار ہو گی۔ اس ڈیم بننے سے مقامی لوگوں کی ہزاروں ایکڑ زمین ضایع ہو گئی۔ ان زمینوں کے پیسے بھی حق داروں کو ملنے کے بجائے راشی افسروں کے بینک اکاؤنٹس میں شفٹ ہو گئے۔ ہمارے ہاں ڈیمز بننے کا کام بہت سست ہے۔ جب ڈیمز بن جاتے ہیں تو ان کی مناسب دیکھ بھال نہیں کی جاتی۔ سیم و تھور کی وجہ سے ہزاروں ایکڑ زمینیں غیر آباد ہو گئی ہے۔ جس سے زرعی معیشت تباہ ہو کے رہ گئی ہے۔

منچھر جھیل کی تباہی کا ذمے دار آر بی او ڈی کو ٹھہرایا جاتا ہے۔ اس مسئلے کے حل کے لیے ایک اور پروجیکٹ آر بی او ڈی ٹو کے نام سے شروع کیا گیا جس کا مقصد یہ تھا کہ زہریلے پانی کو روک کے اس کا اخراج گھارو کریک کے توسط سے سمندر میں کیا جائے تا کہ منچھر جھیل اس آلودگی سے نجات پا سکے مگر یہ سلسلہ بھی ابھی تک پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ پایا۔ اس وقت ملک میں پانی کے جو ذرایع ہیں انھیں ہنگامی بنیادوں پر بہتر بنانے کی اشد ضرورت ہے۔ کیوں کہ ہماری معیشت کی خوش حالی کا انحصار زراعت پر ہے۔ تاہم گزشتہ برسوں میں جی پی ڈی مارکیٹنگ اور معلوماتی نظام میں غیر تسلی بخش سرمایہ کاری کے نتیجے میں قیمتوں میں عدم استحکام، خوراک میں قلت اور مستقل سرپلس جیسے مسائل سر اٹھانے لگتے ہیں۔ پاکستان کی چھتیس فی صد آبادی خوراک کی کمی کا شکار ہے۔ دوسری جانب ذخیرہ کرنے کے ناقص انتظامات کی وجہ سے ہر سال 15 لاکھ ٹن گندم ضایع ہو جاتی ہے۔ ذخیرہ اندوزی کی وجہ سے بھی ایک طرف قیمتوں میں اضافہ ہوتاہے تو دوسری طرف پسماندہ علاقے غذائی قلت کا شکار ہو جاتے ہیں۔ چوں کہ عوام کے منتخب کردہ نمایندے خود صنعت کار، سرمایہ دار اور زمیندار ہیں لہٰذا ان کے منافعے کا گراف ہمیشہ اونچائی پر رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ملک میں امیر طبقہ امیر ترین اور غریب بدحالی کے بھنورسے باہر نکل نہیں پاتے۔ ان ہی وجوہات کی بنا پر پسماندہ علاقے غذا کی شدید قلت کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ایک طرف جشن بہاراں منانے میں لاکھوں کروڑوں روپے خرچ کر دیے جاتے ہیں دوسری طرف یہ نہیں دیکھا جاتا کہ دور افتادہ علاقوں میں پانی یا غذا کی قلت قیمتی انسانی جانیں ضایع نہ کر دے۔ انتظامی امور میں ہونے والی کوتاہیاں جمہوری نظام کو ناقص اور غیر فعال بنا دیتی ہیں۔

کیوں کہ صحت مند غذا کے حصول اور شفاف پانی کے میسر ہونے میں زندگیوں کی بقا کا جواز مضمر ہے۔ دیکھا جائے تو دنیا میں ایک ارب سے زیادہ لوگ بھوک سے مقابلہ کر رہے ہیں تو دوسری طرف امریکا میں ہر سال ایک ارب تیس کروڑ ٹن خوراک ضایع کر دی جاتی ہے۔ہمارے ملک میں وسائل کی کمی نہیں ہے مگر غیر محتاط منصوبہ بندی اور حکمت عملی کی وجہ سے عوام ان وسائل سے فائدہ اٹھانے سے قاصر دکھائی دیتے ہیں۔ ہمارے ملک میں پانی، بجلی اور غذا کے حوالے سے بے احتیاطی برتی جاتی ہے اور ان وسائل کو بے دریغ ضایع کیا جاتا ہے جو ان سہولیات کی قلت اور خسارے کا سبب بنتا ہے۔ زراعت کے لیے جو ہم پانی استعمال کرتے ہیں اس میں چالیس فی صد پانی ضایع ہو جاتا ہے۔کھیتوں کو پانی کی فراہمی کے لیے Sprinkles لگائے جائیں اور پانی کو شفاف بنانے کے لیے ٹریٹمنٹ پلانٹس کی بھی اشد ضرورت ہے۔ اس وقت منرل واٹر کا استعمال زیادہ ہے۔ جس کی اکثر برانڈز ناقص اور غیر موثر قرار پائی جا چکی ہیں۔ یورپ میں سب سے زیادہ بھروسہ Tap Water نلکے کا پانی پر کیا جاتاہے لیکن ہمارے ہاں ایریگیشن کا شعبہ بھی عرصہ دراز سے جمود کا شکار ہے۔ 2004ء میں منچھر کا زہریلا پانی دریائے سندھ میں چھوڑا گیا تھا۔ جس کی وجہ سے نہ صرف وبائی امراض پھوٹ پڑے تھے بلکہ کئی اموات واقع ہوئی تھیں۔ جہاں انسانی زندگیوں کا سوال ہو وہاں پر محکموں و اداروں کو ایسے فیصلے بہت سوچ سمجھ کر کرنے چاہئیں۔ جمہوری حکومت کے ابتدائی دنوں میں نواز شریف نے کہا تھا کہ وہ ملک سے جلد کرپشن کا خاتمہ کر دیں گے۔ جس سے اداروں کی کارکردگی میں بہتری آئے گی۔ لیکن یہ دعویٰ بھی آبی بخارات کی طرح فضاؤں میں تحلیل ہو گیا۔ ایک طرف دہشت گردی و بد امنی کا عفریت ہے تو دوسری طرف لوگ ماحولیاتی آلودگی، ناقص غذا و پانی کا زہر اپنے اندر انڈیل رہے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں