نظریات کی جنگ
جمشید دستی نے الزام عائد کیا ہے کہ پارلیمنٹ لاجز میں غیر اخلاقی سرگرمیاں ہوتی ہیں۔
جمشید دستی نے الزام عائد کیا ہے کہ پارلیمنٹ لاجز میں غیر اخلاقی سرگرمیاں ہوتی ہیں۔ ان کے موقف پر مہر صداقت ثبت کرتے ہوئے نبیل گبول نے بھی کہہ دیا ہے کہ انھوں نے پارلیمنٹ لاجز میں خود ڈائن گھومتے دیکھی ہیں۔ ہماری سیاست میں طرح طرح کے فنکار موجود ہیں جن کی طرف سے مختلف قسم کے ڈرامے دیکھنے میں آتے رہے ہیں۔ ماضی میں ایک رکن اسمبلی جے سالک بہت سے عوامی مسائل پر حکومت کی توجہ اور عوام کی دلچسپی مرکوز کرانے کے لیے اچھوتے قسم کے مظاہرے کرتے رہے ہیں۔ کبھی انھوں نے ٹاٹ کا لباس زیب تن کیا تو کبھی احتجاجاً اپنے آپ کو ایک پنجرے میں قید کرلیا، کبھی احتجاجاً اپنے گھر کا سامان سڑک پر رکھ کر نذر آتش کیا تو کبھی ڈبل سواری پر پابندی کے خلاف یاداشت پیش اور احتجاج کے لیے اس کی خلاف ورزی کرتے ہوئے وزیراعلیٰ اور گورنر ہاؤس پہنچ گئے۔ لیکن جے سالک کے ان اقدامات میں سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کی بجائے عوامی مسائل کو اجاگر کرنے یا حکومتی و عوامی حمایت و توجہ حاصل کرنے کا عنصر نمایاں نظر آتاتھا۔ جے سالک کا دوسرا نعم البدل جمشید دستی کی صورت میں ہماری سیاست میں سرگرم عمل اور توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ جمشید دستی بھی کرکٹ سے لیکر سیاست تک میں تلاطم پیدا کرنے کے لیے نئے نئے انکشافات کرتے رہے ہیں، اپنی ہی سیاسی جماعتوں اور حلیفوں سے بیر لیتے رہے ہیں ان کے لیے پوائنٹ اسکورنگ بھی کرتے رہے ہیں اور اپنی نشستوں سے محروم و مستعفی بھی ہوئے ہیں۔ سپریم کورٹ میں اپنی درس نظامی کی جعلی ڈگری کا دفاع کرتے ہوئے انھوں نے عدالت میں یہ انکشاف بھی کیا تھا کہ انھوں نے حضرت موسیٰ ؑ کی لکھی ہوئی قرآن پاک کی تفسیر پڑھی ہے۔ اپنے حالیہ الزامات کی صداقت کے سلسلے میں وہ ایک بوری میں شراب کی خالی بوتلیں اور دیگر سامان لیکر گھوم رہے ہیں اور انھیں ٹیبلوں پر سجاکر اپنے الزامات کی صداقت و ثبوت کے طور پر پیش کرتے ہیں۔
سیاسی ریٹنگ کے لیے اس قسم کے ڈرامے ہماری سیاست میں پہلے بھی ہوتے رہے ہیں ایک خاتون رکن اسمبلی بھی اسمبلی اور ٹی وی اسٹوڈیو میں لوٹے بھر کے لے آتی تھیں اور انھیں لہرا لہرا کر سیاسی پوائنٹ اسکورنگ اور اپنے سیاسی ریٹنگ میں اضافے کے لیے استعمال کرتی تھیں، وقتی طور پر ایسے سیاسی کارکنوں کی پارٹیاں خوب پذیرائی کرتی ہیں جو سیاسی مخالفین کی کردار کشی اور ذاتیات پر حملے کے لیے حق و انصاف اور اخلاقیات کے تمام پہلو نظر انداز بلکہ ملیا میٹ کردیتے ہیں۔
جمشید دستی کے ارکان پارلیمنٹ سے متعلق حالیہ انکشاف نے سیاسی حلقوں میں کھلبلی مچادی ہے، انتظامیہ حرکت میں آگئی ا ور کچھ اقدامات بھی دیکھنے میں آئے ہیں۔ ایک طبقہ سرگرداں ہے کہ دستی کے عائد کردہ الزامات کو غلط ثابت کیا جائے، ان الزامات سے پارلیمنٹ لاجز میں اپنے اہل خانہ کے ساتھ رہائش پذیر شرفا اور باکردار اراکین کو بھی اپنی عزت و وقار کی فکر دامن گیر ہوگئی ہے۔ الزامات کی تحقیقات بھی شروع ہوچکی ہے، اس قسم کی اخلاق باختہ حرکتوں کے مرتکب اراکین کو جرم ثابت ہونے پر ان کی نشستوں سے فارغ کردینا چاہیے اور اگر یہ الزامات جھوٹے ثابت ہوجائیں تو پھر جمشید دستی کے خلاف کارروائی عمل میں آنا چاہیے۔ دستی نے معاملے کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ تک جانے کا اعلان کیا ہے۔ ہمارے سیاسی کلچر اور اخلاقیات میں یہ کوئی انوکھی یا اچنبھے کی بات نہیں ہے۔ شراب نوشی کی حرمت کی اس بحث پر ملک کے کسی کونے سے کسی مذہبی، سیاسی، سماجی جماعت، شخصیت یا ادارے بشمول جے دستی صاحب کے کوئی اعتراض یا مذمت تک دیکھنے میں نہیں آئی تھی حالانکہ ایسے اراکین اسمبلی پر قانونی اور شرعی طور پر حد نافذ اور قانون حرکت میں آنا چاہیے تھا۔
جمشید دستی کے پیدا کردہ سیاسی تلاطم کی لہریں ابھی تھمنے نہ پائیں تھیں کہ اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین مولانا محمد خان شیرانی کے بیان نے ایک نیا بھونچال برپا کردیا جس میں انھوں نے فرمایا تھا کہ شوہر پہلی بیوی کی اجازت کے بغیر دوسری شادی کرسکتا ہے اور یہ کہ کم عمر بچیوں کی شادی بھی کی جاسکتی ہے۔ مولانا کے اس بیان پر ایک نئی بے وقت و بے مقصد بحث کا آغاز ہوچکا ہے، مولانا شیرانی نے بالکل بجا فرمایا ہے کہ دنیا میں اصل جنگ خدا پرستی اور مادہ پرستی کے درمیان ہے اگر تمام مذاہب کے لوگ اپنی اپنی شریعت پر عمل کریں تو دنیا میں امن قائم ہوسکتا ہے۔ مولانا کے ان گراں قدر خیالات سے ہر شخص بلا لحاظ ملک و مذہب اتفاق کرے گا لیکن مولانا نے جو یہ وضاحت پیش کی ہے کہ عورتوں کی تعداد مردوں سے زیادہ ہے وہ جنگوں میں بھی مارے جاتے ہیں یہ فیصلہ اسی صورت حال کو دیکھ کر کیا گیا ہے اس میں یہ پہلو تشنہ طلب ہے کہ یہ فیصلہ کس نے اور کب کیا؟ اور انھوں نے اس کا اظہار کس موقع و مناسبت کے لحاظ سے کیا؟ مودودی سے کسی غیر مسلم نے اسی قسم کا سوال کیا تھا کہ اسلام مساوات کی بات کرتا ہے لیکن اس نے عورت کے مقابلے میں مرد کو چار شادیوں کا اختیار دیا ہے کیا یہ صنفی امتیاز نہیں ہے جس پر مودودی نے جواب دیا تھا کہ اسلام نے دوسری شادی کا نہ حکم دیا ہے نہ ہی اسے ثواب قرار دیا ہے اس کے لیے صرف مخصوص صورتوں میں اجازت ہے جب کہ اس کا خواہش مند مرد صحت و اسباب کی بنیاد پر اس کا متحمل ہوسکے اور زوجین کے درمیان انصاف پر قائم رہ سکے، مولانا نے مزید وضاحت کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ آپ کے مذہب میں مرد کو دوسری شادی کی اجازت تو نہیں ہے لیکن داشتائیں رکھنے، ناجائز اولاد کو قانون تحفظ اور وراثت میں حق دینے کا قانون موجود ہے گویا پابندی صرف حلال کام پر ہے کہ شرعی و حلال طریقے سے دوسرا نکاح نہ کرنے دیا جائے جب کہ اسلام مخصوص صورتوں میں اسی عمل کو حلال طریقے سے کرنے کا حق عطا کرتاہے۔
کافی عرصے پہلے فاطمہ ثریا بجیا نے بھی کراچی شہر میں مردوں کی ہلاکتوں، لڑکیوں کے تناسب میں اضافہ اور رشتوں کی کمیابی کی بنا پر دوسری شادی کرنے کی تجویز دی تھی تو ان پر کافی لے دے ہوئی تھی۔ اسلامی رسوم و رواج اور اسلامی سزاؤں کی سب سے بڑی ناقد عاصمہ جہانگیر کا معنی خیز بیان سامنے آیا ہے کہ ملک کو قائد اعظم کا پاکستان بنائیں یا شیرانی کا کونسل والے اپنی عیاشیوں کی بات کرتے ہیں، ان کے ذہنوں پر عورت طاری ہے، میری رائے ہے کہ مرد کو ایک سے زائد شادیوں کی اجازت دے دی جائے مگر جب طلاق ہو تو دولت آدھی آدھی تقسیم کردی جائے۔ عاصمہ جہانگیر کی تجویز بھی اس مغربی تہذیب کا حصہ یا اس ایجنڈے کے لیے تن آسانی پیدا کرنے اور سوچ بیدار کرنے کی کوشش ہے جس کی وجہ سے وہاں لوگ شادیاں کرنے کی بجائے بغیر نکاح کے خاندانوں کی بنیاد رکھتے ہیں اور وہاں کا خاندانی نظام اور اخلاقیات تباہ و برباد ہوکر رہ گئی ہے۔ اگر یہ بحث چل نکلی تو بہت دور تک جاسکتی ہے جس کے معاشرے پر بڑے دور رس منفی نتائج مرتب ہوںگے، خاص طورپر آج کی دنیا میں جہاں خدا پرستی اور مفاد پرستی کی عالمی جنگ اپنے منطقی انجام تک پہنچ رہی ہے اس میں عوام اور خاص طورپر علما کو جن کی خاصی تعداد دانستہ یا نا دانستہ طور پر مفاد پرستی کی سپہ گیری اختیار کرچکی ہے ہوش میں آنے اور اپنے اعمال کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔
سیاسی ریٹنگ کے لیے اس قسم کے ڈرامے ہماری سیاست میں پہلے بھی ہوتے رہے ہیں ایک خاتون رکن اسمبلی بھی اسمبلی اور ٹی وی اسٹوڈیو میں لوٹے بھر کے لے آتی تھیں اور انھیں لہرا لہرا کر سیاسی پوائنٹ اسکورنگ اور اپنے سیاسی ریٹنگ میں اضافے کے لیے استعمال کرتی تھیں، وقتی طور پر ایسے سیاسی کارکنوں کی پارٹیاں خوب پذیرائی کرتی ہیں جو سیاسی مخالفین کی کردار کشی اور ذاتیات پر حملے کے لیے حق و انصاف اور اخلاقیات کے تمام پہلو نظر انداز بلکہ ملیا میٹ کردیتے ہیں۔
جمشید دستی کے ارکان پارلیمنٹ سے متعلق حالیہ انکشاف نے سیاسی حلقوں میں کھلبلی مچادی ہے، انتظامیہ حرکت میں آگئی ا ور کچھ اقدامات بھی دیکھنے میں آئے ہیں۔ ایک طبقہ سرگرداں ہے کہ دستی کے عائد کردہ الزامات کو غلط ثابت کیا جائے، ان الزامات سے پارلیمنٹ لاجز میں اپنے اہل خانہ کے ساتھ رہائش پذیر شرفا اور باکردار اراکین کو بھی اپنی عزت و وقار کی فکر دامن گیر ہوگئی ہے۔ الزامات کی تحقیقات بھی شروع ہوچکی ہے، اس قسم کی اخلاق باختہ حرکتوں کے مرتکب اراکین کو جرم ثابت ہونے پر ان کی نشستوں سے فارغ کردینا چاہیے اور اگر یہ الزامات جھوٹے ثابت ہوجائیں تو پھر جمشید دستی کے خلاف کارروائی عمل میں آنا چاہیے۔ دستی نے معاملے کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ تک جانے کا اعلان کیا ہے۔ ہمارے سیاسی کلچر اور اخلاقیات میں یہ کوئی انوکھی یا اچنبھے کی بات نہیں ہے۔ شراب نوشی کی حرمت کی اس بحث پر ملک کے کسی کونے سے کسی مذہبی، سیاسی، سماجی جماعت، شخصیت یا ادارے بشمول جے دستی صاحب کے کوئی اعتراض یا مذمت تک دیکھنے میں نہیں آئی تھی حالانکہ ایسے اراکین اسمبلی پر قانونی اور شرعی طور پر حد نافذ اور قانون حرکت میں آنا چاہیے تھا۔
جمشید دستی کے پیدا کردہ سیاسی تلاطم کی لہریں ابھی تھمنے نہ پائیں تھیں کہ اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین مولانا محمد خان شیرانی کے بیان نے ایک نیا بھونچال برپا کردیا جس میں انھوں نے فرمایا تھا کہ شوہر پہلی بیوی کی اجازت کے بغیر دوسری شادی کرسکتا ہے اور یہ کہ کم عمر بچیوں کی شادی بھی کی جاسکتی ہے۔ مولانا کے اس بیان پر ایک نئی بے وقت و بے مقصد بحث کا آغاز ہوچکا ہے، مولانا شیرانی نے بالکل بجا فرمایا ہے کہ دنیا میں اصل جنگ خدا پرستی اور مادہ پرستی کے درمیان ہے اگر تمام مذاہب کے لوگ اپنی اپنی شریعت پر عمل کریں تو دنیا میں امن قائم ہوسکتا ہے۔ مولانا کے ان گراں قدر خیالات سے ہر شخص بلا لحاظ ملک و مذہب اتفاق کرے گا لیکن مولانا نے جو یہ وضاحت پیش کی ہے کہ عورتوں کی تعداد مردوں سے زیادہ ہے وہ جنگوں میں بھی مارے جاتے ہیں یہ فیصلہ اسی صورت حال کو دیکھ کر کیا گیا ہے اس میں یہ پہلو تشنہ طلب ہے کہ یہ فیصلہ کس نے اور کب کیا؟ اور انھوں نے اس کا اظہار کس موقع و مناسبت کے لحاظ سے کیا؟ مودودی سے کسی غیر مسلم نے اسی قسم کا سوال کیا تھا کہ اسلام مساوات کی بات کرتا ہے لیکن اس نے عورت کے مقابلے میں مرد کو چار شادیوں کا اختیار دیا ہے کیا یہ صنفی امتیاز نہیں ہے جس پر مودودی نے جواب دیا تھا کہ اسلام نے دوسری شادی کا نہ حکم دیا ہے نہ ہی اسے ثواب قرار دیا ہے اس کے لیے صرف مخصوص صورتوں میں اجازت ہے جب کہ اس کا خواہش مند مرد صحت و اسباب کی بنیاد پر اس کا متحمل ہوسکے اور زوجین کے درمیان انصاف پر قائم رہ سکے، مولانا نے مزید وضاحت کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ آپ کے مذہب میں مرد کو دوسری شادی کی اجازت تو نہیں ہے لیکن داشتائیں رکھنے، ناجائز اولاد کو قانون تحفظ اور وراثت میں حق دینے کا قانون موجود ہے گویا پابندی صرف حلال کام پر ہے کہ شرعی و حلال طریقے سے دوسرا نکاح نہ کرنے دیا جائے جب کہ اسلام مخصوص صورتوں میں اسی عمل کو حلال طریقے سے کرنے کا حق عطا کرتاہے۔
کافی عرصے پہلے فاطمہ ثریا بجیا نے بھی کراچی شہر میں مردوں کی ہلاکتوں، لڑکیوں کے تناسب میں اضافہ اور رشتوں کی کمیابی کی بنا پر دوسری شادی کرنے کی تجویز دی تھی تو ان پر کافی لے دے ہوئی تھی۔ اسلامی رسوم و رواج اور اسلامی سزاؤں کی سب سے بڑی ناقد عاصمہ جہانگیر کا معنی خیز بیان سامنے آیا ہے کہ ملک کو قائد اعظم کا پاکستان بنائیں یا شیرانی کا کونسل والے اپنی عیاشیوں کی بات کرتے ہیں، ان کے ذہنوں پر عورت طاری ہے، میری رائے ہے کہ مرد کو ایک سے زائد شادیوں کی اجازت دے دی جائے مگر جب طلاق ہو تو دولت آدھی آدھی تقسیم کردی جائے۔ عاصمہ جہانگیر کی تجویز بھی اس مغربی تہذیب کا حصہ یا اس ایجنڈے کے لیے تن آسانی پیدا کرنے اور سوچ بیدار کرنے کی کوشش ہے جس کی وجہ سے وہاں لوگ شادیاں کرنے کی بجائے بغیر نکاح کے خاندانوں کی بنیاد رکھتے ہیں اور وہاں کا خاندانی نظام اور اخلاقیات تباہ و برباد ہوکر رہ گئی ہے۔ اگر یہ بحث چل نکلی تو بہت دور تک جاسکتی ہے جس کے معاشرے پر بڑے دور رس منفی نتائج مرتب ہوںگے، خاص طورپر آج کی دنیا میں جہاں خدا پرستی اور مفاد پرستی کی عالمی جنگ اپنے منطقی انجام تک پہنچ رہی ہے اس میں عوام اور خاص طورپر علما کو جن کی خاصی تعداد دانستہ یا نا دانستہ طور پر مفاد پرستی کی سپہ گیری اختیار کرچکی ہے ہوش میں آنے اور اپنے اعمال کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔