قومی اسمبلی توہین عدالت ترمیمی بل منظور ا پوزیشن کا شدید احتجاج
صدر، وزیراعظم،وزرا اورگورنر توہین عدالت سے مستثنیٰ
قومی اسمبلی نے توہین عدالت ترمیمی بل 2012ء اپوزیشن کی مخالفت کے باوجود کثرت رائے سے منظور کرلیا، وزیر اعظم نے اسے تاریخ ساز قانون اورپارلیمنٹ کی فتح قراردیا۔ وزیر قانون فاروق ایچ نائیک نے توہین عدالت ترمیمی بل اور26 اپریل سے 19 جون تک کے سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے اقدامات کو تحفظ دینے کاآرڈیننس بھی اسمبلی میںپیش کردیا۔
توہین عدالت ترمیمی بل پیش کرتے ہوئے فاروق نائیک کاکہنا تھا کہ بل کو فوری طور پر منظور کیاجائے، پرویز مشرف کا توہین عدالت کا قانون ختم کرنا چاہتے ہیں، اپوزیشن مشرف کا قانون قائم رکھناچاہتی ہے توبتائے۔مسلم لیگ ن کے مہتاب عباسی نے کہا کہ تاریخ میںکبھی ایسا نہیں ہواکہ بل پیش کرتے ہی منظورہو، آپ نے رولز کو خراب کرناہے تو کرلیں، اپنی بد اعمالیوں میں پارلیمنٹ کو شریک نہ بنائیں،آج پارلیمانی تاریخ کا سیاہ دن ہے،بل قائمہ کمیٹی میں بھجوایا جائے۔توہین عدالت ترمیمی بل 2012 پیش اور بعد ازاں منظور کیے جانے پرمسلم لیگ ن کے ارکان نے نو نو اور شیم شیم کے نعرے لگائے،
ن لیگ نے ہنگامہ آرائی بھی کی، جے یو آئی ف کے سربراہ فضل الرحمان نے بھی کھڑے ہو کراحتجاج کیا، انہوں نے بات کرنے کی کوشش کی تو سپیکر نے ان کا مائیک نہ کھولا۔ مسلم لیگ (ن) کے خرم دستگیر نے کہا کہ حکومت کو غلط قانون بنانے کاحق نہیں، اس کا نتیجہ اچھا نہیں ہوگا۔کشمالہ طارق نے کہاکہ حکومت صرف عدلیہ کے ساتھ تصادم کی نیت میں ہے،ذاتیات کو بچانے کیلیے قانون سازی کرنا اچھی روایت نہیں۔ آفتاب شیر پائو نے بھی احتجاج ریکارڈ کرایا۔ سعدرفیق نے حکومتی بنچوں کو مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ ہم پر جتنا مرضی ہنسیں، کل آپ خود پر ہنسیں گے، اس کے بعد ن لیگ نے ایوان سے واک آئوٹ کردیا۔بعد ازاں ایوان میں خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف نے کہا کہ یہ پارلیمنٹ کی بڑی کامیابی ہے،
ہماری طرف سے کوئی بدنیتی نہیں، ہم صرف جمہوریت کو پروان چڑھانا چاہتے ہیں، ایوان کو مقتدر کرنا چاہتے ہیں، ہم عدلیہ کی عزت کرتے ہیں، ٹکرائو نہیں چاہتے، آج اس کارنامے پرمیں، حکومت اور قوم کی طرف سے ارکان کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
انھوں نے کہا کہ پارلیمنٹ کو بڑی کامیابی نصیب ہوئی، بل کا مقصد کسی کو مقدس گائے بنانا نہیں،ہم جمہوری لوگ ہیں اور جمہوریت کی عزت اور دفاع کرنا جانتے ہیں۔وزیراعظم نے مزید کہا کہ اپوزیشن نیٹو سپلائی بحالی پر اپنا بزنس ایوان میں لائے، ہم نے اصولی موقف کی وجہ سے آٹھ ماہ تک سپلائی بند رکھی۔ پرویز اشرف نے غیر جانبدار چیف الیکشن کمشنر کے تقرر پر حکومت اور اپوزیشن کو مبارکباد دی۔ مانیٹرنگ ڈیسک کے مطابق توہین عدالت بل کے مطابق اسپیکرقومی اسمبلی، چیئرمین سینٹ اگر کسی رکن کے عدالت کے بارے میں ریمارکس کوحذف قرار دیتا ہے توان ریمارکس کو شہادت کے طور پر عدالت میں پیش نہیں کیاجا سکے گا،صدر، وزیراعظم، وفاقی ،صوبائی وزراء اور گورنر توہین عدالت سے مستثنیٰ ہونگے، سپریم کورٹ کے توہین عدالت کے فیصلے کیخلاف اپیل کی مدت30 روز سے بڑھا کر 60روز کر دی گئی۔
مسودے میں کہا گیا ہے کہ توہین عدالت کا نوٹس لینے والا جج اسکی سماعت کرنیوالے بینچ کا حصہ نہیں ہوگا، کوئی شخص جج کے بارے میں سچا بیان دیتا ہے، جو اس کی عدالتی سرگرمیوں کے بارے میں نہیں تو وہ بیان توہین عدالت کے زمرے میں نہیں آئیگا، عدالتی فیصلوں کے بارے میں مناسب الفاظ میں تبصرہ کرنا بھی توہین عدالت نہیں ہوگا۔ ایک اہم شق یہ بھی ہے کہ توہین عدالت کا کوئی فیصلہ یا عبوری حکم اس وقت تک حتمی تصور نہیں ہوگا جب تک اس کیخلاف اپیل اور نظر ثانی کی درخواستوں پر حتمی فیصلہ نہیں آتا، توہین عدالت کے بل کے متن کے مطابق کسی جج کیخلاف اس کی شہرت سے متعلق معاملے کی صورت میں متعلقہ جج خود وہ مقدمہ نہیں سن سکتا اور چیف جسٹس بنچ بنائیں گے،
کسی جج کی عدالتی کارروائی سے ہٹ کر ان کیخلاف کوئی معاملہ آتا ہے تو وہ پوری عدالت کی ساکھ متاثر کرنا تصور نہیں ہو گا،چیف جسٹس کو سکینڈلائز کرنے کا معاملہ سب سے سینئر جج نمٹائیں گے، انٹرا کورٹ حکم یا عبوری حکم کیخلاف اپیل سپریم کورٹ کے ملک میں موجود تمام ججوں پر مشتمل بڑا بینچ سنے گا، توہین عدالت کے مقدمہ میں عدالت ملزم کو اسی روز ضمانت پر رہا کریگی، مقدمہ مزید چلا تو سزا دی جا سکے گی، جج کے بارے میں سچا بیان توہین عدالت کے زمرے میں نہیں آئیگا، کسی فریق کی اپیل نصف ججوں نے سنی تو اس کیخلاف اپیل یا نظر ثانی کی درخواست فل کورٹ کریگا۔ وزیر قانون نے ترمیمی بل منظور ہونے کے بعد کہا کہ کوئی چیز آئین و قانون کیخلاف نہیں کی گئی، توہین عدالت کے قانون میں موجود ابہام دور کیا گیا ہے، بل میں اچھے نکات ڈالے گئے ہیں، عدالت کا کوئی حق نہیں لیا گیا۔دریں اثناء اکیسویں ترمیم کا بل 2012ء بھی قومی اسمبلی میں پیش کر دیا گیا۔
وزیر قانون نے بل پیش کرتے ہوئے کہا کہ بعض ارکان نے اپنی تقاریر میں کہا کہ ہم ججوں کی بیوائوں کی پنشن میں اضافہ کر کے انھیں خوش کر رہے ہیں، اعلیٰ عدلیہ کے ججوں نے وزارت قانون کو پنشن میں اضافہ کرنے کا معاملہ ارسال کیا ،اس حوالے سے ایک کمیٹی قائم کی گئی اور29فروری 2012ء کو اس کی منظوری دی،اس کو مدنظر رکھ کر بل کا مسودہ بنایا گیا یہ کوئی رشوت نہیں ،آئین اور قانون کی بات ہے۔اس سے پہلے مسلم لیگ (ن) نے نیٹو سپلائی کی بحالی کیخلاف اجلاس سے علامتی واک آئوٹ کیا۔ادھر قومی اسمبلی میںبرما کے مسلمانوں کے قتل عام کے خلاف مذمتی قرار داداتفاق رائے سے منظور کر لی گئی جبکہ مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کو ملک کیلئے گرانقدر خدمات پر خراج تحسین پیش کیا گیا۔قبل ازیں قومی اسمبلی کی ہائوس بزنس ایڈوائزری کمیٹی نے44 ویں سیشن کے ایجنڈے کی منظوری دی جس کے مطابق رواں سیشن جمعہ تک جاری رہیگا۔
توہین عدالت ترمیمی بل پیش کرتے ہوئے فاروق نائیک کاکہنا تھا کہ بل کو فوری طور پر منظور کیاجائے، پرویز مشرف کا توہین عدالت کا قانون ختم کرنا چاہتے ہیں، اپوزیشن مشرف کا قانون قائم رکھناچاہتی ہے توبتائے۔مسلم لیگ ن کے مہتاب عباسی نے کہا کہ تاریخ میںکبھی ایسا نہیں ہواکہ بل پیش کرتے ہی منظورہو، آپ نے رولز کو خراب کرناہے تو کرلیں، اپنی بد اعمالیوں میں پارلیمنٹ کو شریک نہ بنائیں،آج پارلیمانی تاریخ کا سیاہ دن ہے،بل قائمہ کمیٹی میں بھجوایا جائے۔توہین عدالت ترمیمی بل 2012 پیش اور بعد ازاں منظور کیے جانے پرمسلم لیگ ن کے ارکان نے نو نو اور شیم شیم کے نعرے لگائے،
ن لیگ نے ہنگامہ آرائی بھی کی، جے یو آئی ف کے سربراہ فضل الرحمان نے بھی کھڑے ہو کراحتجاج کیا، انہوں نے بات کرنے کی کوشش کی تو سپیکر نے ان کا مائیک نہ کھولا۔ مسلم لیگ (ن) کے خرم دستگیر نے کہا کہ حکومت کو غلط قانون بنانے کاحق نہیں، اس کا نتیجہ اچھا نہیں ہوگا۔کشمالہ طارق نے کہاکہ حکومت صرف عدلیہ کے ساتھ تصادم کی نیت میں ہے،ذاتیات کو بچانے کیلیے قانون سازی کرنا اچھی روایت نہیں۔ آفتاب شیر پائو نے بھی احتجاج ریکارڈ کرایا۔ سعدرفیق نے حکومتی بنچوں کو مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ ہم پر جتنا مرضی ہنسیں، کل آپ خود پر ہنسیں گے، اس کے بعد ن لیگ نے ایوان سے واک آئوٹ کردیا۔بعد ازاں ایوان میں خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف نے کہا کہ یہ پارلیمنٹ کی بڑی کامیابی ہے،
ہماری طرف سے کوئی بدنیتی نہیں، ہم صرف جمہوریت کو پروان چڑھانا چاہتے ہیں، ایوان کو مقتدر کرنا چاہتے ہیں، ہم عدلیہ کی عزت کرتے ہیں، ٹکرائو نہیں چاہتے، آج اس کارنامے پرمیں، حکومت اور قوم کی طرف سے ارکان کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
انھوں نے کہا کہ پارلیمنٹ کو بڑی کامیابی نصیب ہوئی، بل کا مقصد کسی کو مقدس گائے بنانا نہیں،ہم جمہوری لوگ ہیں اور جمہوریت کی عزت اور دفاع کرنا جانتے ہیں۔وزیراعظم نے مزید کہا کہ اپوزیشن نیٹو سپلائی بحالی پر اپنا بزنس ایوان میں لائے، ہم نے اصولی موقف کی وجہ سے آٹھ ماہ تک سپلائی بند رکھی۔ پرویز اشرف نے غیر جانبدار چیف الیکشن کمشنر کے تقرر پر حکومت اور اپوزیشن کو مبارکباد دی۔ مانیٹرنگ ڈیسک کے مطابق توہین عدالت بل کے مطابق اسپیکرقومی اسمبلی، چیئرمین سینٹ اگر کسی رکن کے عدالت کے بارے میں ریمارکس کوحذف قرار دیتا ہے توان ریمارکس کو شہادت کے طور پر عدالت میں پیش نہیں کیاجا سکے گا،صدر، وزیراعظم، وفاقی ،صوبائی وزراء اور گورنر توہین عدالت سے مستثنیٰ ہونگے، سپریم کورٹ کے توہین عدالت کے فیصلے کیخلاف اپیل کی مدت30 روز سے بڑھا کر 60روز کر دی گئی۔
مسودے میں کہا گیا ہے کہ توہین عدالت کا نوٹس لینے والا جج اسکی سماعت کرنیوالے بینچ کا حصہ نہیں ہوگا، کوئی شخص جج کے بارے میں سچا بیان دیتا ہے، جو اس کی عدالتی سرگرمیوں کے بارے میں نہیں تو وہ بیان توہین عدالت کے زمرے میں نہیں آئیگا، عدالتی فیصلوں کے بارے میں مناسب الفاظ میں تبصرہ کرنا بھی توہین عدالت نہیں ہوگا۔ ایک اہم شق یہ بھی ہے کہ توہین عدالت کا کوئی فیصلہ یا عبوری حکم اس وقت تک حتمی تصور نہیں ہوگا جب تک اس کیخلاف اپیل اور نظر ثانی کی درخواستوں پر حتمی فیصلہ نہیں آتا، توہین عدالت کے بل کے متن کے مطابق کسی جج کیخلاف اس کی شہرت سے متعلق معاملے کی صورت میں متعلقہ جج خود وہ مقدمہ نہیں سن سکتا اور چیف جسٹس بنچ بنائیں گے،
کسی جج کی عدالتی کارروائی سے ہٹ کر ان کیخلاف کوئی معاملہ آتا ہے تو وہ پوری عدالت کی ساکھ متاثر کرنا تصور نہیں ہو گا،چیف جسٹس کو سکینڈلائز کرنے کا معاملہ سب سے سینئر جج نمٹائیں گے، انٹرا کورٹ حکم یا عبوری حکم کیخلاف اپیل سپریم کورٹ کے ملک میں موجود تمام ججوں پر مشتمل بڑا بینچ سنے گا، توہین عدالت کے مقدمہ میں عدالت ملزم کو اسی روز ضمانت پر رہا کریگی، مقدمہ مزید چلا تو سزا دی جا سکے گی، جج کے بارے میں سچا بیان توہین عدالت کے زمرے میں نہیں آئیگا، کسی فریق کی اپیل نصف ججوں نے سنی تو اس کیخلاف اپیل یا نظر ثانی کی درخواست فل کورٹ کریگا۔ وزیر قانون نے ترمیمی بل منظور ہونے کے بعد کہا کہ کوئی چیز آئین و قانون کیخلاف نہیں کی گئی، توہین عدالت کے قانون میں موجود ابہام دور کیا گیا ہے، بل میں اچھے نکات ڈالے گئے ہیں، عدالت کا کوئی حق نہیں لیا گیا۔دریں اثناء اکیسویں ترمیم کا بل 2012ء بھی قومی اسمبلی میں پیش کر دیا گیا۔
وزیر قانون نے بل پیش کرتے ہوئے کہا کہ بعض ارکان نے اپنی تقاریر میں کہا کہ ہم ججوں کی بیوائوں کی پنشن میں اضافہ کر کے انھیں خوش کر رہے ہیں، اعلیٰ عدلیہ کے ججوں نے وزارت قانون کو پنشن میں اضافہ کرنے کا معاملہ ارسال کیا ،اس حوالے سے ایک کمیٹی قائم کی گئی اور29فروری 2012ء کو اس کی منظوری دی،اس کو مدنظر رکھ کر بل کا مسودہ بنایا گیا یہ کوئی رشوت نہیں ،آئین اور قانون کی بات ہے۔اس سے پہلے مسلم لیگ (ن) نے نیٹو سپلائی کی بحالی کیخلاف اجلاس سے علامتی واک آئوٹ کیا۔ادھر قومی اسمبلی میںبرما کے مسلمانوں کے قتل عام کے خلاف مذمتی قرار داداتفاق رائے سے منظور کر لی گئی جبکہ مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کو ملک کیلئے گرانقدر خدمات پر خراج تحسین پیش کیا گیا۔قبل ازیں قومی اسمبلی کی ہائوس بزنس ایڈوائزری کمیٹی نے44 ویں سیشن کے ایجنڈے کی منظوری دی جس کے مطابق رواں سیشن جمعہ تک جاری رہیگا۔