پاکستان کو صرف ٹاپ تھری پر انحصار ترک کرنے کا مشورہ
بابراوررضوان رنز کیلیے بھوک دکھائیں، 10 اوورز میں 60 رنزپر120کی توقع کرنا مڈل آرڈر کے ساتھ ناانصافی ہے،حفیظ
قومی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان محمد حفیظ نے ورلڈکپ میں پاکستان کو صرف ٹاپ تھری پر انحصار ترک کرنے کا مشورہ دے دیا۔
پاکستان کرکٹ کی سب سے بڑی ویب سائٹ www.cricketpakistan.com.pk کو خصوصی انٹرویو میں محمد حفیظ نے کہا کہ بابراعظم اور محمد رضوان پاکستان کی نمبر ون جوڑی ہیں، دونوں نے پاکستانی ٹیم کو میچز جتوانے اور آگے بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا ہے لیکن اگر ضرورت ہے تو دونوں رنز کیلیے اپنی اپروچ میں بہتری بھی لاسکتے ہیں، بظاہر آپ کم کامیاب، کم مستقل مزاج لیکن ٹیم کیلیے زیادہ اثر انگیز ہوسکتے ہیں، میرے ماضی میں ایسے بیان کے پیچھے یہی سوچ کارفرما تھی۔
سابق کپتان نے کہا کہ مجموعی طور پر ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میں پاکستان کا کھیلنے کا انداز مڈل آرڈر کے ساتھ بھی ناانصافی ہے، یہ کیسے ممکن ہے کہ 6 اوورز کے پاور پلے کا استعمال کرکے بھی ابتدائی 10 اوورز میں 60،65 رنز بنائیں؟ اس کے بعد مڈل آرڈر پر دباؤ ہوتا ہے کہ وہ 12کے رن ریٹ سے اسکور کرکے مزید 120رنز اسکورکریں تاکہ معقول ٹوٹل تک پہنچا جا سکے، یہ مناسب سوچ نہیں، ابتدائی بیٹرز 9کے رن ریٹ سے کھیلیں اور بعد والے بھی اسی انداز میں بیٹنگ کریں تو بڑا اسکور ممکن ہے، یہ نہیں کہ پہلے 6 کے رن ریٹ سے اسکور کریں اور بعد والے 12 سے رنز بنائیں۔
مزید پڑھیں: شعیب ملک نے ڈراپ کیے جانے کا غصہ نکال دیا
محمد حفیظ نے کہا کہ ایشیا کپ کے دوران پاکستانی مڈل آرڈر ناکام ہوا کیونکہ خوشدل شاہ اور آصف علی جیسے کھلاڑی اننگز بنانے پر انحصار نہیں کرتے،وہ ایک ہی جیسے انداز سے کھیلتے ہیں، خوشدل شاہ کا اسٹرائیک ریٹ 110 اور ہم اس کو ایک انٹرنیشنل ہٹر سمجھتے ہیں، یہ درست نہیں، ہمیں مسائل کی تہہ تک پہنچنے کی ضرورت ہے،ہمیں خود سے پوچھنا ہوگا کہ کیا ان کھلاڑیوں میں دباؤ برداشت کرنے کی صلاحیت ہے؟ اگر وہ نہیں سمجھ پا رہے تو کسی دوسرے لانے کی ضرورت ہے، بابر اعظم اور محمد رضوان کی وکٹیں جلد گرنے پر کیا وہ اننگز آگے بڑھا سکتے ہیں؟ ہم نے ان کھلاڑیوں کو دراصل اس بنیاد پر منتخب کیا کہ ہمارے ٹاپ آرڈر کو سیٹ ہونے میں وقت لگتا ہے، یہ ایک مضحکہ خیز سوچ ہے،ہمیں صرف چھکوں کی ضرورت نہیں، 30گیندوں پر 50رنز بنانے والے چاہئیں، سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا فخرزمان نے فٹنس مسائل کے ساتھ ہی ایشیا کپ میں حصہ لیا، ان کو کیوں آزمایا جاتا رہا،ایسا کیا ہوا کہ فائنل میں اچانک ان فٹ ہوگئے۔
ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ میں پاکستان کی فتح کے امکانات پرمحمد حفیظ نے کہا کہ ٹیم کا کمبی نیشن اور مومینٹم انتہائی اہمیت کا حامل ہے،ہر وکٹ خاص ہوتی ہے،ہمیں صرف ٹاپ تھری پر انحصار کا رجحان ختم کرتے ہوئے بعد میں آنے والی کی کارکردگی کو بھی اہم سمجھنا ہوگا،یہ نہیں کہ کبھی نمبر 4پر شاداب خان اور کبھی محمد نواز آجائیں، بابر اعظم اور محمد رضوان کی فارم اہم اور ان کو رنز کیلیے بھوک بھی دکھانا ہوگی،شاہین واپس آ جائیں تو نسیم شاہ اور حارث رؤف کے ساتھ بولنگ یونٹ مکمل ہوگا مگر کیا انجریز کی صورت میں اچھا بیک اپ بھی موجود ہے جس سے اعلی سطح پر بہترین کارکردگی کی توقع کرسکیں؟ اسپن میں عثمان قادر کو جب بھی موقع ملے وہ پرفارم نہیں کرپاتے،کہیں پیس بولنگ میں ایسا مسئلہ نہ ہو۔
شعیب ملک کو گذشتہ سال ہی ریٹائرمنٹ کا مشورہ دیا تھا
محمد حفیظ نے کہا کہ شعیب ملک نے 21،22 سال پاکستان کی بہترین خدمت کی، اتنے طویل عرصے اپنی فٹنس کو برقرار رکھنا اور ملک کی نمائندگی کرنا کوئی آسان کام نہیں ہوتا،افسوس تو اس وقت بھی ہوا جب وہ ون ڈے کرکٹ سے ریٹائر ہونے کا اعلان کرچکے تھے مگر الوداعی میچ نہیں دیا گیا، ان کی خدمات کا احساس کرتے ہوئے میچ کھلانا چاہیے تھا، اپنے کرکٹرز کو عزت سے رخصت کرنے کے معاملے میں ہماری مینجمنٹ ہمیشہ کمزور رہی ہے۔
مزید پڑھیں: محمد عامر اور شعیب ملک کی ٹویٹس پر رمیز راجہ کا ردعمل سامنے آگیا
گذشتہ برس میں نے ریٹائرمنٹ کا اعلان کرتے ہوئے شعیب ملک کو بھی یہی مشورہ دیا تھا ، میرے کیس میں ہی اندازہ ہوگیا تھا کہ ان کو بھی عزت نہیں ملے گی،میں یہی سمجھا کہ وہ ایک آخری موقع چاہتے ہیں، سوچ یہی ہوتی ہے کہ جاتے جاتے ملک کا وقار بڑھانے میں کوئی بڑا کردار ادا کرجائیں مگر کرکٹ بڑا ظالم کھیل ہے،ان کی عدم انتخاب پر مجھے مایوسی ہوئی، اس وقت بات کرتے ہوئے مجھے اندازہ ہوا کہ شاید کسی کی طرف سے ان کو کوئی آس دلائی گئی ہے،وہ اگر ورلڈکپ میں شرکت کیلیے جاتے تو ٹیم کو ایک سینئر پلیئر مل جاتا، کٹ یا پل کی بات کریں تو یہ نہ بھولیں کہ انھوں نے 22سال کرکٹ کھیلی، عمر نہیں ٹیم کی ضرورت دیکھیں،یہاں تو نوجوانوں کو کریمپس پڑجاتے ہیں۔
شان اچھا اضافہ ثابت ہوں گے
شان مسعود کی شمولیت کے بارے میں محمد حفیظ نے کہا کہ دیر آید درست آید، وہ انٹرنیشنل چیلنج کیلیے تیار تھے مگر ہم نے ان کی صلاحیتیں ضائع کیں،انھوں نے مختلف ایونٹس میں پرفارم کرکے اپنی جگہ بنائی،شان ٹیم میں اچھا اضافہ ثابت ہوں گے،فخرزمان کی انجری کے سبب ان کا کردار مزید اہم ہوگیا۔
بھارتی کرکٹرزکے بارے میں لاڈلے والے بیان پر قائم ہوں
محمد حفیظ نے کہا کہ بھارت کی بات آئے تو لوگ خاموشی اختیار کرلیتے ہیں مگر تجزیہ کرتے ہوئے تعمیری تنقید ضرور ہونا چاہیے،کرکٹ ایک خوبصورت کھیل اور ہر ٹیم کا اپنا مقام ہے،اس سے شائقین کو تفریح ملتی ہے،متعصب کسی پلیٹ فارم پر نہیں ہونا چاہیے، تعمیری تنقید کی ہمیشہ ضرورت ہوتی ہے،یہ نہیں سمجھ لینا چاہیے کہ مجھے اصلاح کی ضرورت نہیں، بھارت کے پاس بڑے نام ہیں مگر دیگر ملکوں میں بھی بہترین پرفارمرز موجود ہیں، میں نے اسی لیے بھارتی کرکٹرزکے بارے میں لاڈلے کا لفظ استعمال کیا اور اس بیان پر قائم ہوں۔
مزید پڑھیں: شاہد آفریدی کے دو چھکوں نے ایشون کا کیریئر ختم کر دیا، حفیظ
انھوں نے کہا کہ کرکٹ نیمجھے بہت کچھ دیا اور سیکھنے کا موقع بھی ملا،اس خوبصورت کھیل کے تجربات کو دوسروں تک پہنچانا بھی خوش آئند ہوتا ہے،مجھے تجزیہ کار کے طور پر سامنے آنے کی کوئی جلدی نہیں تھی مگر ایشیا کپ کی بات چلی تو اس کو بہتر اور بڑا موقع سمجھا،پاکستان،بھارت، سری لنکا اور بنگلہ دیش سمیت مختلف ملکوں کی ٹیموں کے بارے میں دیانتداری سے تجزیہ کیا، اللہ کا شکر ہے کہ عوام کو میری باتیں پسند آئیں۔
پاکستان سے ورلڈکپ میچ،بظاہر بلوشرٹس کے پاس بہتر وسائل ہیں
بھارت کیخلاف میچ کے سوال پر محمد حفیظ نے کہا کہ موجودہ پاکستانی کرکٹرز نے آسٹریلیا میں زیادہ کرکٹ نہیں کھیلی،بھارتی وہاں پرفارم کرچکے ہیں،روہت شرما، کوہلی اور پنت کی وہاں پرفارمنسز ہیں، بظاہر تو بلوشرٹس کے پاس بہتر وسائل ہیں۔
پاکستان کرکٹ کی سب سے بڑی ویب سائٹ www.cricketpakistan.com.pk کو خصوصی انٹرویو میں محمد حفیظ نے کہا کہ بابراعظم اور محمد رضوان پاکستان کی نمبر ون جوڑی ہیں، دونوں نے پاکستانی ٹیم کو میچز جتوانے اور آگے بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا ہے لیکن اگر ضرورت ہے تو دونوں رنز کیلیے اپنی اپروچ میں بہتری بھی لاسکتے ہیں، بظاہر آپ کم کامیاب، کم مستقل مزاج لیکن ٹیم کیلیے زیادہ اثر انگیز ہوسکتے ہیں، میرے ماضی میں ایسے بیان کے پیچھے یہی سوچ کارفرما تھی۔
سابق کپتان نے کہا کہ مجموعی طور پر ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میں پاکستان کا کھیلنے کا انداز مڈل آرڈر کے ساتھ بھی ناانصافی ہے، یہ کیسے ممکن ہے کہ 6 اوورز کے پاور پلے کا استعمال کرکے بھی ابتدائی 10 اوورز میں 60،65 رنز بنائیں؟ اس کے بعد مڈل آرڈر پر دباؤ ہوتا ہے کہ وہ 12کے رن ریٹ سے اسکور کرکے مزید 120رنز اسکورکریں تاکہ معقول ٹوٹل تک پہنچا جا سکے، یہ مناسب سوچ نہیں، ابتدائی بیٹرز 9کے رن ریٹ سے کھیلیں اور بعد والے بھی اسی انداز میں بیٹنگ کریں تو بڑا اسکور ممکن ہے، یہ نہیں کہ پہلے 6 کے رن ریٹ سے اسکور کریں اور بعد والے 12 سے رنز بنائیں۔
مزید پڑھیں: شعیب ملک نے ڈراپ کیے جانے کا غصہ نکال دیا
محمد حفیظ نے کہا کہ ایشیا کپ کے دوران پاکستانی مڈل آرڈر ناکام ہوا کیونکہ خوشدل شاہ اور آصف علی جیسے کھلاڑی اننگز بنانے پر انحصار نہیں کرتے،وہ ایک ہی جیسے انداز سے کھیلتے ہیں، خوشدل شاہ کا اسٹرائیک ریٹ 110 اور ہم اس کو ایک انٹرنیشنل ہٹر سمجھتے ہیں، یہ درست نہیں، ہمیں مسائل کی تہہ تک پہنچنے کی ضرورت ہے،ہمیں خود سے پوچھنا ہوگا کہ کیا ان کھلاڑیوں میں دباؤ برداشت کرنے کی صلاحیت ہے؟ اگر وہ نہیں سمجھ پا رہے تو کسی دوسرے لانے کی ضرورت ہے، بابر اعظم اور محمد رضوان کی وکٹیں جلد گرنے پر کیا وہ اننگز آگے بڑھا سکتے ہیں؟ ہم نے ان کھلاڑیوں کو دراصل اس بنیاد پر منتخب کیا کہ ہمارے ٹاپ آرڈر کو سیٹ ہونے میں وقت لگتا ہے، یہ ایک مضحکہ خیز سوچ ہے،ہمیں صرف چھکوں کی ضرورت نہیں، 30گیندوں پر 50رنز بنانے والے چاہئیں، سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا فخرزمان نے فٹنس مسائل کے ساتھ ہی ایشیا کپ میں حصہ لیا، ان کو کیوں آزمایا جاتا رہا،ایسا کیا ہوا کہ فائنل میں اچانک ان فٹ ہوگئے۔
ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ میں پاکستان کی فتح کے امکانات پرمحمد حفیظ نے کہا کہ ٹیم کا کمبی نیشن اور مومینٹم انتہائی اہمیت کا حامل ہے،ہر وکٹ خاص ہوتی ہے،ہمیں صرف ٹاپ تھری پر انحصار کا رجحان ختم کرتے ہوئے بعد میں آنے والی کی کارکردگی کو بھی اہم سمجھنا ہوگا،یہ نہیں کہ کبھی نمبر 4پر شاداب خان اور کبھی محمد نواز آجائیں، بابر اعظم اور محمد رضوان کی فارم اہم اور ان کو رنز کیلیے بھوک بھی دکھانا ہوگی،شاہین واپس آ جائیں تو نسیم شاہ اور حارث رؤف کے ساتھ بولنگ یونٹ مکمل ہوگا مگر کیا انجریز کی صورت میں اچھا بیک اپ بھی موجود ہے جس سے اعلی سطح پر بہترین کارکردگی کی توقع کرسکیں؟ اسپن میں عثمان قادر کو جب بھی موقع ملے وہ پرفارم نہیں کرپاتے،کہیں پیس بولنگ میں ایسا مسئلہ نہ ہو۔
شعیب ملک کو گذشتہ سال ہی ریٹائرمنٹ کا مشورہ دیا تھا
محمد حفیظ نے کہا کہ شعیب ملک نے 21،22 سال پاکستان کی بہترین خدمت کی، اتنے طویل عرصے اپنی فٹنس کو برقرار رکھنا اور ملک کی نمائندگی کرنا کوئی آسان کام نہیں ہوتا،افسوس تو اس وقت بھی ہوا جب وہ ون ڈے کرکٹ سے ریٹائر ہونے کا اعلان کرچکے تھے مگر الوداعی میچ نہیں دیا گیا، ان کی خدمات کا احساس کرتے ہوئے میچ کھلانا چاہیے تھا، اپنے کرکٹرز کو عزت سے رخصت کرنے کے معاملے میں ہماری مینجمنٹ ہمیشہ کمزور رہی ہے۔
مزید پڑھیں: محمد عامر اور شعیب ملک کی ٹویٹس پر رمیز راجہ کا ردعمل سامنے آگیا
گذشتہ برس میں نے ریٹائرمنٹ کا اعلان کرتے ہوئے شعیب ملک کو بھی یہی مشورہ دیا تھا ، میرے کیس میں ہی اندازہ ہوگیا تھا کہ ان کو بھی عزت نہیں ملے گی،میں یہی سمجھا کہ وہ ایک آخری موقع چاہتے ہیں، سوچ یہی ہوتی ہے کہ جاتے جاتے ملک کا وقار بڑھانے میں کوئی بڑا کردار ادا کرجائیں مگر کرکٹ بڑا ظالم کھیل ہے،ان کی عدم انتخاب پر مجھے مایوسی ہوئی، اس وقت بات کرتے ہوئے مجھے اندازہ ہوا کہ شاید کسی کی طرف سے ان کو کوئی آس دلائی گئی ہے،وہ اگر ورلڈکپ میں شرکت کیلیے جاتے تو ٹیم کو ایک سینئر پلیئر مل جاتا، کٹ یا پل کی بات کریں تو یہ نہ بھولیں کہ انھوں نے 22سال کرکٹ کھیلی، عمر نہیں ٹیم کی ضرورت دیکھیں،یہاں تو نوجوانوں کو کریمپس پڑجاتے ہیں۔
شان اچھا اضافہ ثابت ہوں گے
شان مسعود کی شمولیت کے بارے میں محمد حفیظ نے کہا کہ دیر آید درست آید، وہ انٹرنیشنل چیلنج کیلیے تیار تھے مگر ہم نے ان کی صلاحیتیں ضائع کیں،انھوں نے مختلف ایونٹس میں پرفارم کرکے اپنی جگہ بنائی،شان ٹیم میں اچھا اضافہ ثابت ہوں گے،فخرزمان کی انجری کے سبب ان کا کردار مزید اہم ہوگیا۔
بھارتی کرکٹرزکے بارے میں لاڈلے والے بیان پر قائم ہوں
محمد حفیظ نے کہا کہ بھارت کی بات آئے تو لوگ خاموشی اختیار کرلیتے ہیں مگر تجزیہ کرتے ہوئے تعمیری تنقید ضرور ہونا چاہیے،کرکٹ ایک خوبصورت کھیل اور ہر ٹیم کا اپنا مقام ہے،اس سے شائقین کو تفریح ملتی ہے،متعصب کسی پلیٹ فارم پر نہیں ہونا چاہیے، تعمیری تنقید کی ہمیشہ ضرورت ہوتی ہے،یہ نہیں سمجھ لینا چاہیے کہ مجھے اصلاح کی ضرورت نہیں، بھارت کے پاس بڑے نام ہیں مگر دیگر ملکوں میں بھی بہترین پرفارمرز موجود ہیں، میں نے اسی لیے بھارتی کرکٹرزکے بارے میں لاڈلے کا لفظ استعمال کیا اور اس بیان پر قائم ہوں۔
مزید پڑھیں: شاہد آفریدی کے دو چھکوں نے ایشون کا کیریئر ختم کر دیا، حفیظ
انھوں نے کہا کہ کرکٹ نیمجھے بہت کچھ دیا اور سیکھنے کا موقع بھی ملا،اس خوبصورت کھیل کے تجربات کو دوسروں تک پہنچانا بھی خوش آئند ہوتا ہے،مجھے تجزیہ کار کے طور پر سامنے آنے کی کوئی جلدی نہیں تھی مگر ایشیا کپ کی بات چلی تو اس کو بہتر اور بڑا موقع سمجھا،پاکستان،بھارت، سری لنکا اور بنگلہ دیش سمیت مختلف ملکوں کی ٹیموں کے بارے میں دیانتداری سے تجزیہ کیا، اللہ کا شکر ہے کہ عوام کو میری باتیں پسند آئیں۔
پاکستان سے ورلڈکپ میچ،بظاہر بلوشرٹس کے پاس بہتر وسائل ہیں
بھارت کیخلاف میچ کے سوال پر محمد حفیظ نے کہا کہ موجودہ پاکستانی کرکٹرز نے آسٹریلیا میں زیادہ کرکٹ نہیں کھیلی،بھارتی وہاں پرفارم کرچکے ہیں،روہت شرما، کوہلی اور پنت کی وہاں پرفارمنسز ہیں، بظاہر تو بلوشرٹس کے پاس بہتر وسائل ہیں۔