پاکستان اور اس کے بڑھتے معاشی اور موسمیاتی مسائل

بدقسمتی سے پاکستان اس بحران کے موقع پر او آئی سی کا پلیٹ فارم بھی موثر طریقے سے استعمال کرنے میں ناکام رہا

آئی ایم ایف پروگرام ملنے کے بعد پاکستان کی معیشت کچھ سنبھلنے کی امید تھی جو سیلاب اور غیر متوقع بارشوں کی تباہ کاریوں نے ختم کر دی۔ اب تک کے ابتدائی تخمینے کیمطابق سیلاب اور بارشوں سے پاکستان کی معیشت کو 12 ارب ڈالرکا نقصان ہوا

۔ مہنگائی کی شرح 44 فیصد سالانہ کے حساب سے اس وقت 50 سال کی بلند ترین سطح پر ہے۔ رہی سہی کسر بجلی کے بھاری بھرکم بلوں نے پوری کردی۔ حکومتی وزرا مہنگائی اور معاشی مسائل کا ذمے دار تحریک انصاف کی سابقہ حکومت کو ٹھہراتے ہیں جس نے آئی ایم ایف کے ساتھ ہوئے معاہدے کی خلاف ورزی کرکے اتحادی حکومت کے لیے مشکلات پیدا کیں۔

آئی ایم ایف سے معاہدہ ہونے کے بعد یہ امید کی جا رہی تھی کہ پاکستان دوست ممالک ، ورلڈ بینک اور دیگر بین الاقوامی اداروں سے فنانسنگ کے حصول میں کامیاب ہوجائے گا لیکن 1 ارب ڈالر قرض کے حصول کے لیے ورلڈ بینک کی سخت ترین شرائط نے حکومت کے لیے مزید مشکلات کھڑی کردی ہیں۔ قطر ، سعودی عرب ، ترکی اور چین جیسے دوست ممالک سے جس سرمایہ کاری کی امید تھی وہ بھی فی الحال پوری ہوتی نظر نہیں آرہی۔ اس سال پاکستان کو بیرونی ادائیگیوں کے لیے 33 ارب ڈالر کی فنانسنگ کی ضرورت ہے موجودہ حالات میں اتنی بڑی فنانسنگ کا حصول ناممکن نظر آتا ہے۔

سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان میں بھی سری لنکا جیسے حالات پیدا ہو سکتے ہیں؟ ان تمام مسائل کی ذمے دار تحریک انصاف کی سابقہ حکومت اور ان کے آئی ایم ایف کے ساتھ ہوئے معاہدے ہیں ؟ کیا واقعی تحریک انصاف کے دور حکومت میں پاکستان کے بیرونی تعلقات اتنے خراب ہوگئے کہ آج کوئی بھی دوست ملک پاکستان کی مدد کرنے کو تیار نہیں؟ اس سوالات کا جواب اتنا آسان نہیں تو اتنا مشکل بھی نہیں۔ کسی بھی ملک میں معاشی استحکام کا حصول سیاسی استحکام اور معاشی پالیسیوں کے تسلسل کے بغیر کسی صورت ممکن نہیں۔

یہ حقیقت ہے کورونا کی عالمی وبا کے بعد پاکستان دنیا کے چند ممالک میں سے تھا جس کی معیشت بہت تیزی سے کورونا کے بحران سے نکلی۔ تحریک انصاف حکومت کے آخری سال پاکستان کی معیشت ٹیک آف کر چکی تھی۔ معاشی شرح نمو 6 فیصد سالانہ کے حساب سے ترقی کر رہی تھی۔ سال 2021 کے اختتام تک پاکستان نے دنیا بھر میں ریکارڈ 31 ارب ڈالر ایکسپورٹس کیں اور بیرون ملک سے اورسیز پاکستانیوں نے 30 ارب ڈالر کا زرمبادلہ پاکستان بھیجا۔ خرابی کی اصل وجہ اس وقت شروع ہوئی جب تحریک عدم اعتماد کے ذریعے عمران خان کی حکومت کا خاتمہ کرکے ایک کمزور اور مخلوط حکومت تشکیل دی گئی۔ ملک کی سب سے بڑی پارلیمانی جماعت تحریک انصاف اجتماعی استعفوں کے ذریعے مخلوط حکومت کے زیر سایہ چلنے والی پارلیمان کا بائیکاٹ کرکے سڑکوں پر نکل آئی۔


غیر یقینی اور عدم استحکام کی فضاء نے نہ صرف سرمایہ کاروں کے اعتماد کو مجروح کیا بلکہ افواہوں اور سٹے بازوں کے کمال سے ڈالر کی قیمت تاریخ کی بلند ترین سطح 255 روپے فی ڈالر تک چلی گئی۔ معاشی بحران کو فوری طور پر حل کرنے کے لیے حکومت کے پاس آئی ایم ایف کی سخت ترین شرائط تسلیم کیے بغیر کوئی چارہ نہ تھا لیکن اس کے باوجود مئی میں آئی ایم ایف کے ساتھ شروع ہونیوالے مذاکرات اگست کے آخری ہفتے تک تاخیر کا شکار ہوگئے حتی کہ پاکستان کو امریکی نائب وزیر خارجہ وینڈی شرمن سے رابطہ کرکے آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی کے لیے امریکا سے مدد کی درخواست کرنا پڑی۔ عالمی مارکیٹ میں تیل اور گیس کی بڑھتی قیمتوں ، ڈالر کی قدر میں اضافے ، پٹرول اور بجلی پر سبسڈیز کے خاتمے سے ملک میں مہنگائی کا وہ طوفان آیا جس نے نہ صرف لوئر مڈل کلاس بلکہ اپر مڈل کلاس کو بھی شدید متاثر کیا۔

ملکی تاریخ کے بدترین سیلاب نے جہاں معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا وہیں پاکستان کو بدترین غذائی قلت اور معاشی بحران کا سامنا ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے بھی اپنے دورہ پاکستان میں تسلیم کیا کہ پاکستان آج ترقی یافتہ صنعتی ممالک کی غلطیوں کی سزا بھگت رہا ہے۔ پاکستان اکیلے اس بحران کا مقابلہ نہیں کرسکتا بحالی کے کام میں مدد بین الاقوامی برادری کا احسان نہیں بلکہ ذمے داری ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پاکستان خود دنیا کے سامنے اپنا مقدمہ ٹھوس حقائق کے ساتھ پیش کرتا اور امیر صنعتی ممالک سے ملکی معیشت ، انفرا اسٹرکچر اور زراعت کو ہونیوالے نقصان کی تلافی کا مطالبہ کرتا ہم نے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل اور عالمی برادری سے مدد کی اپیل کردی۔

عالمی برادری فوری طور پر تو شاید پاکستان کی مدد کردے لیکن کیا پاکستان طویل مدتی بنیادوں پر سیلاب کے بعد پیدا ہونیوالے غذائی بحران اور معاشی مسائل سے تن تنہا نمٹ سکتا ہے ؟ حالیہ سیلاب سے ملک بھر میں قریباً 90 فیصد رقبے پر چاول ، کپاس ، مکئی اور گنے کی فصلیں تباہ ہوگئیں۔ کپاس کی فصل اور ٹیکسٹائل پاکستانی معیشت کے لیے ریڑھ کی ہڈی کا درجہ رکھتی ہے۔ ٹیکسٹائل کی صنعتوں کو چلانے کے لیے ہمیں ہنگامی طور پر باہر سے کاٹن امپورٹ کرنا ہوگی۔ غذائی بحران سے نمٹنے کے لیے ہنگامی طور پر گندم ، چاول ، ٹماٹر ، پیاز اور دیگر سبزیوں کی درآمد کرنا ہوگی جس کے لیے ڈالرز چاہئیں۔ فی الحال ہمارے پاس اتنے ڈالرز بھی نہیں کہ جان بچانے والی ادویات کے لیے خام مال کی درآمد کی جا سکے۔

اس صورتحال میں بھارت کے ساتھ تجارت ایک بہترین آپشن ہوسکتا ہے لیکن جس طرح جلد بازی میں حکومت نے بھارت سے تجارت کھولنے کا عندیہ دیا اس سے 5 اگست کے بعد کشمیر کے معاملے پر پاکستان کی دوٹوک سفارتی پوزیشن کو دھچکا لگا۔ ہمیں ہنگامی طور پر زرعی اجناس کی درآمد کے لیے براہ راست بھارت سے درخواست کرنے کے بجائے عالمی برادری اور اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم سے مدد کی اپیل کروانی چاہیے تھی اس سے نہ صرف بھارت کے ساتھ کشمیر کے معاملے پر ہماری سفارتی پوزیشن قائم رہتی بلکہ بھارت سمیت تمام بین الاقوامی برادری پر پاکستان کی مدد کے لیے ایک اخلاقی دباؤ بھی قائم ہوتا۔

بدقسمتی سے پاکستان اس بحران کے موقع پر او آئی سی کا پلیٹ فارم بھی موثر طریقے سے استعمال کرنے میں ناکام رہا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پاکستان سیلاب سے ہونی والی تباہی اور معاشی نقصان کا مقدمہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے پلیٹ فارم سے دنیا کے سامنے اٹھاتا ہماری وزارت خارجہ او آئی سی کا اجلاس تک بلانے میں ناکام رہی۔ سیکریٹری جنرل اقوام متحدہ کے تخمینے کیمطابق سیلاب سے ہونی والی تباہی کا تخمینہ کم از کم بھی 40 ارب ڈالر ہے جو پاکستان جیسی ترقی پذیر معیشت کے لیے برداشت کرنا کسی صورت ممکن نہیں۔ ہمیں عالمی برادری سے ریلیف اور بحالی کے بجائے ٹھوس انداز میں معاشی سہولیات کا مطالبہ کرنا ہوگا ورنہ معاشی تباہی ، خوراک کے بحران اور غربت کی وجہ سے پاکستان میں بہت بڑا انسانی المیہ جنم لے سکتا ہے۔
Load Next Story