دلاسوں سے کام نہیں چلے گا
اب بھی وقت ہے کہ سیاستدان حالات کوسازگار بنانے پرتوجہ دیں کیونکہ اگلاالیکشن انھوں نے اپنی اپنی پارٹیوں کے تحت لڑناہوگا
ہم ہر معاملے میں انتہا پسند ہوتے جا رہے ہیں، امن اور محبت کا درس تو اب تدفین کے مراحل طے کر رہا ہے، سیاسی طور پر ماضی کی غلطیوں نے اب فیشن کی شکل اختیار کر لی ہے، ممکنہ اقدامات اب سیاسی طور پر گہری نیند سو رہے ہیں، نہ صبح ہو گی نہ اجالا ہو گا، پاکستان 75 سال کا ہو چکا۔
ہم بدعنوانی، فضول سیاسی بیانات، پروپیگنڈا، سیاسی طور پر ذاتی مفادات کے دریا میں تو اتر چکے ہیں اگر یہی حال رہا تو سمندر میں بھی اترنے سے گریز نہیں کریں گے۔ قوم کی صبر کی کشتی مسائل اور غربت کی وجہ سے ہچکولے کھا رہی ہے کوئی سہارا دینے والا نہیں۔ اقتدار کی جنگ میں سیاست دان مقابلے کی دوڑ پر اتر آئے ہیں، کوئی ان سیاسی سرگرمیوں پر اپنا طرز بیان بدلنے پر راضی نہیں۔سردیوں کی آمد ہے، سیلاب زدگان پر ہر صوبہ خصوصی توجہ دے، کس طرح خیموں میں زندگی گزاریں گے؟
ادھر حکومت نے گھریلوصارفین کے بجلی بلوں پر دیا جانے والا سلیب بینیفٹ بھی ختم کر دیا ہے انھیں احساس نہیں ہے کہ 25000 ہزار تنخواہ پانیوالا جو کچی آبادی میں رہتا ہے وہ 4000 کا بل کیسے دے دیگا؟ یہ بات بہت اہم ہے۔ کافی عرصے کے بعد سندھ کے وزیر توانائی نے بہت خوبصورت بیان دیا ہے کہ 2023 میں کے الیکٹرک کی اجارہ داری کا خاتمہ ہو جائے گا۔ ہم تو کئی مرتبہ لکھ چکے ہیں، تھک ہار کر پھر لکھ رہے ہیں کہ نئی کمپنیوں کو دعوت دی جائے۔
دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں بجلی کی فراہمی کے لیے کئی کمپنیاں کام کرتی ہیں مگر ہم صرف سیاسی طور پر ترقی یافتہ ہیں جب کوئی مشکل مسئلہ ہو تو ہمارے سیاستدان قوم کو سکون کا انجکشن لگانے کے لیے یورپ کی مثالیں دیتے ہیں تو عقل حیران ہو جاتی ہے۔ سندھ کے وزیر توانائی نے بہت خوبصورت بات کی ہے کہ 2023 میں کے الیکٹرک کی اجارہ داری ختم ہو جائے گی۔ یہ تھکی، غمزدہ، مفلس قوم انھیں خراج تحسین پیش کرتی ہے کہ انھوں نے غریب کے دل میں جھانکنے کی کوشش کی ہے۔ شاید اسی موقع پر شاعر نے کہا:
کیا پوچھتے ہو دوست میری زندگی کا حال
شیرازہ حیات پریشان ہے آج کل
ادھر ملک میں ڈنگی وائرس نے ادھم مچا رکھا ہے خاص طور پر کراچی بہت متاثر ہے۔ شہریوں سے ڈھیروں ٹیکس وصول کرنیوالی سندھ کی صوبائی حکومت کی جانب سے مچھروں کے خاتمے کے لیے اسپرے کیوں نہیں کیا جا رہا؟ بلوں کی ادائیگی بھی جاری رہے گی اور لوگوں کی مشکلات بھی جاری رہیں گی۔ یہ بھی خوب کھیل تماشا ہے۔ یہ بل کراچی کی قیادت کے میئر نے نافذ کیا تھا، اب وہ اپوزیشن میں ہیں۔ وہ اب آواز اٹھائیں کہ کراچی میں مکمل اسپرے کیا جائے۔ پلوں پر خاص توجہ دی جائے مگر انھوں نے آج تک کوئی احتجاج ریکارڈ نہیں کرایا۔
ادھر وزیر اعظم شہبازشریف نے ادویات کی قیمتیں بڑھانے سے انکار کر دیا ہے مانا کہ یہ آپ کی گراں قدر خدمات میں شمار ہو گا مگر ادویات پر کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں ہے۔ آپ کو حیرت ہو گی کہ بازار میں بیشتر دوائیاں ایسی بک رہی ہیں جن میں ایکسپائری ڈیٹ نہیں ہوتی، کچھ کی قیمتوں پر دکان دار مارکر سے نشان لگا دیتے ہیں اور منہ مانگی قیمت وصول کرتے ہیں اگر آپ احتجاج کریں تو یہ کہہ کر بات ختم کر دی جاتی ہے کہ قیمت بڑھ گئی ہے، ہم کیا کریں؟ یہ سلسلہ کراچی سے لے کر خیبر تک جاری ہے۔ کوئی پرسان حال نہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ عوام بھیڑ بکریوں کے ڈیرے میں مقیم ہیں۔ آخر یہ سلسلہ کب تک چلے گا؟
ان حرکتوں کا ایک نا ایک دن تو سدباب ہو گا۔ صورتحال بہت ابتر ہے، میڈیکل کا شعبہ بھی تباہی کی طرف جا رہا ہے۔برسر اقتدار اور اپوزیشن نے ایک پہاڑا حفظ کر لیا ہے کہ ہمارے پاس الزامات کا کوئی جواب نہیں۔ بانی پاکستان کی برسی کے موقع پر حکومتی سطح پر کوئی بھی خصوصی تقریب منعقد نہیں ہوئی جب کہ ملکہ برطانیہ کی موت پر قومی پرچم سرنگوں کرنے کا اعلان کیا گیا، بہت اچھی بات ہے کہ سفارتی آداب کا خیال رکھا گیا مگر جس شخص نے آپ کو رب کی مدد کے تحت آزادی دلائی اس کی برسی پر خاموشی کا پرچم بلند کر دیا گیا۔ نوجوان نسل کو کیسے پتا لگے گا کہ آپ بحیثیت مسلمان ایک آزاد مملکت کے شہری ہیں۔
چلیے جناب! فیشن کے طور پر ان کی تصاویر نمایاں کر کے آفسوں میں موجود ہے یہ کیا کم عقل مندی کا ثبوت ہے جو اپنی زندگی کی 50 بہاریں دیکھ چکے انھیں اس بات کا بہت افسوس ہے۔ یہ بات دوسری ہے کہ یہ 50 بہاریں خزاں کے طور پر خاموشی سے گزر گئیں۔ ملائیشیا کے سابق وزیر اعظم نجیب رزاق پر کرپشن میں ملوث ہونے پر 12 سال کی قید سنا دی گئی اب وہ اپنی مدت پوری کریں گے۔
کاش وہ ملائیشیا کے شہری نہ ہوتے تو یہ دن نہ دیکھنے پڑتے۔ اپنے گھر میں عزت و تکریم سے زندگی گزارتے۔ ہم تو روایتوں کے تحت زندہ ہیں، ہمارا تو یہ حال کہ جب امیری کی دہلیز پر قدم رکھ دیتے ہیں تو علاج کے لیے امریکا اور لندن جاتے ہیں، شاپنگ دبئی اور یورپ میں کرتے ہیں، اولادیں یورپ میں تعلیم حاصل کرتی ہیں، سیر و تفریح کے لیے لندن، امریکا، استنبول کا رخ کرتے ہیں اور جب مرتے ہیں محب وطن لواحقین کی بھی ایک قطار ہوتی ہے جو انھیں پاکستان کی سرزمین میں دفنانے کا اہتمام کرتی ہے۔تو کیا پاکستان، پاکستانیوں کے لیے قبرستان ہے؟
اب جب یہ عالم ہو گا تو سوچیں ہم کیسے ترقی کر سکتے ہیں؟ ہماری ترقی کا تو یہ عالم ہے کہ بچہ بچہ آئی ایم ایف کا قرض دار ہے اور ان قرض داروں میں سیاستدانوں کی اولادیں بھی شامل ہیں۔ یہ کتنی فخریہ بات ہے، عجیب افراتفری کا دور ہو گیا ہے کسی کو کسی کا احساس نہیں۔گزشتہ دنوں ایک سخت بیان پڑھنے کو ملا اس قوم کو کہ اگر سیاست کے حوالے سے کسی نے اسلام آباد کا رخ کیا تو ہم قانونی طور پر اس کا سدباب کریں گے۔ یہ اعلان کرنیوالوں کو یہی نہیں پتا کہ یہ پاکستانی قوم ہے جو بند اور سخت سیکیورٹی کے باوجود دبئی اور یونان پہنچ جاتے ہیں۔ ان کے لیے اسلام آباد پہنچنا کون سا مشکل کام ہے۔
قارئین گرامی! بات ہے سمجھ کی۔ نئی حکومت آگئی اور پاکستان کی تین بڑی پارٹیوں نے اتحاد کر کے مسائل کے اداس رنگ کو مٹانے کی کوشش کی مگر افسوس حالات جوں کے توں ہیں۔ ابھی ان پارٹیوں کے پاس وقت ہے ایک سال کا، اگر سنجیدگی سے مسائل پر توجہ دی گئی تو ایک سال بہت ہوتا ہے، مگر مسائل کی گاڑی ماضی کی طرح رینگ رینگ کے چل رہی ہے۔ آنیوالا الیکشن انھیں کامیابی کے امتحان میں ڈال سکتا ہے۔
اب بھی وقت ہے کہ سیاستدان حالات کو سازگار بنانے پر توجہ دیں، کیونکہ اگلا الیکشن انھوں نے اپنی اپنی پارٹیوں کے تحت لڑنا ہو گا۔ ایک دوسرے کی شرائط کی بنا پر ان کے لیے ایک پلیٹ فارم سے الیکشن لڑنا شاید ناممکن ہو۔ آنیوالا الیکشن ایک الیکشن نہیں سیاستدانوں کے لیے امتحان ہو گا۔ اس کا انھیں ابھی احساس نہیں ہے۔ لاقانونیت، مہنگائی نے قوم کی کمر توڑ دی ہے۔ حکومت کو اس پر خاص توجہ دینی ہو گی، نہیں تو آنیوالے الیکشن میں قوم کی توجہ کسی اور پر بھی مرکوز ہو سکتی ہے، پھر یہ اتحاد اور بھائی چارہ سیاسی طور پر ختم ہو جائے گا۔