پھر ’’ ڈو مور ‘‘ کی گردان
امریکا پاکستان کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی اپنا حق سمجھتا ہے ہم اپنے ملک میں کسی شورش کو کسی طرح رفع کرتے ہیں
امریکا کی طرف سے ایک بار پھر '' ڈو مور'' کی گردان شروع ہوگئی ہے کہ '' پاکستان تمام دہشتگردوں کے خلاف مسلسل اور موثر کارروائی کرے۔''
یہ وہی امریکا ہے جو افغانستان میں دہشت گردوں کے خاتمے کے لیے داخل ہوا تھا، لیکن دنیا کی سب سے بڑی فوجی طاقت جس کے ساتھ دنیا 40 سے زیادہ ممالک کی تمام بڑی بڑی فوجی قوتیں تھیں جدید ترین ٹیکنالوجی تھی، افغانستان میں دہشتگردی کے خاتمے میں ناکام رہی، کاش امریکی اپنی حکمت عملی کا جائزہ لیتے کہ کہاں کمزوری ہے؟
کیا غلطی ہوئی ہے، لیکن امریکی اس قدر بوکھلائے ہوئے تھے ، انھوں نے اپنی تمام تر ناکامی کا الزام پاکستان پر لگا دیا ، کیونکہ بھارت ان کو یہی سبق پڑھا رہا تھا ، جب کہ پاکستان نے امریکا اور اس کے اتحادیوں کو کمک کی فراہمی کے لیے راستہ بھی فراہم کیا اور اس جنگ میں اپنی اقتصادیات کو داؤ پر لگاتے ہوئے 100 ارب ڈالر سالانہ نقصان بھی برداشت کیا ، لیکن اس کے باوجود کہ امریکا نے پاکستان کا یہ نقصان نہیں پورا کیا ، بلکہ کولیشن سپورٹ فنڈ کے نام پر جو رقم پاکستان کو دی جانی تھی، وہ بھی بار بار روکی گئی ، بلکہ پاکستان کے ادائیگی کے مطالبے پر امریکا نے جنوری 2018 میں پاکستان سے سیکیورٹی تعاون کی معطلی کا اعلان کردیا اور کولیشن سپورٹ فنڈ کا جو ادھار امریکا پر قرض تھا وہ بھی نہیں ادا کیا۔
یہ رقم 30 کروڑ ڈالر تھی جو اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف تھی۔ پاکستان کے ساتھ سیکیورٹی تعاون کی معطلی کے باوجود ترجمان پینٹاگون نے کہا تھا کہ '' پاکستان پر تمام دہشتگرد گروپوں کے خلا ف بلا امتیاز کارروائی کے لیے دبائو ڈالتے رہیں گے اور طالبان قیادت کو مذاکرات کی میز پر لانے یا گرفتار کرکے بے دخلی کے لیے بھی پاکستان پر دباؤ ڈالتے رہیں گے'' پھر کیا ہوا کہ انھی طالبان کے سامنے امریکا نے ہتھیار ڈال دیے اور اچانک راتوں رات افغانستان سے امریکی پرواز کر گئے اور اپنے حامیوں کو افغانستان میں بے یارو مدد گار چھوڑ گئے۔ آج ستمبر 2022 میں ایک بار پھر امریکا کی جانب سے یہ مطالبہ سامنے آگیا کہ پاکستان دہشتگردوں کے ہر گروپ کے خلاف موثر اور مسلسل کارروائی کرے۔
چند دن پہلے امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے کہا کہ واشنگٹن توقع کرتا ہے کہ اسلام آباد تمام دہشتگرد گروپوں کے خلاف '' مستقل کارروائی'' کرے گا۔ پاکستان امریکا کے ساتھ اس مجوزہ فوجی سودے جس کی لاگت 450 ملین ڈالر ہے کہ امریکا، پاکستان میں ایف سولہ لڑاکا طیاروں کی مرمت اور دیکھ بھال کا انتظام کرسکے، لیکن امریکا اس کے ساتھ یہ شرط عائد کر رہا ہے۔ پاکستان یہ طیارے ''دہشتگردوں'' کے خلاف کارروائی کے لیے استعمال کرے گا۔ یہ امریکی امداد نہیں ہے پاکستان کی جانب سے سودا ہے لیکن امریکا کا طنطنہ تو دیکھیے کہ سودے کے ساتھ بھی اپنی شرائط عائد کررہا ہے۔
منگل کو پریس بریفنگ کے دوران نیڈ پرائس نے کہا کہ '' پاکستان کا F-16 پروگرام ، یہ امریکا اور پاکستان کے وسیع تر دوطرفہ تعلقات کا ایک اہم حصہ ہے، اور یہ مجوزہ فروخت-16 F کے بیڑے کو قائم رکھتے ہوئے پاکستان کی موجودہ اور مستقبل کے انسداد دہشت گردی کے خطرات سے نمٹنے کی صلاحیت کو برقرار رکھے گی۔''یہ بات قابل تشویش ہے کہ امریکا پاکستان کے حوالے سے مستقبل میں دہشتگردی کی پیش گوئی کر رہا ہے، پاکستان تقریباً4 دہائیوں سے امریکا کی وجہ سے دہشتگردی کا شکار ہے۔ پہلے سوویت یونین کے ساتھ افغان جہاد میں پاکستان میں دہشت گردی ہوتی رہی اور اس کے بعد افغانستان میں خانہ جنگی کے اثرات پاکستان پر پڑتے رہے کہ اس عرصے میں نائن الیون کا واقعہ پیش آگیا، جس کا الزام لگا تو اسامہ بن لادن پر لیکن امریکا کا غصہ ''نزلہ بر عضو ضعیف '' کے مترادف پاکستان پر گرا۔
یہ بات بھی قابل غور ہے کہ 1998 میں پاکستان نے ایٹمی دھماکے کیے تھے اور اپنی قوت کا اظہار کیا تھا۔ دنیا کو خاص طور پر امریکا کو پاکستان کی یہ کامیابی ہضم نہیں ہوئی تھی۔ اس لیے پاکستان کو ایسے معاملات میں الجھانا ضروری تھا جہاں اس کی سیکیورٹی کو خطرات لاحق ہوں۔ سوویت یونین کے خاتمے کے لیے جن جہادی گروپوں کو امریکا نے ڈالروں سے سینچا تھا وہ اب اس کے لیے کسی کام کے نہیں رہے تھے امریکا نے انھیں دہشتگرد قرار دینے کا فیصلہ کیا کیونکہ امریکی دانشور سیموئیل پی ہٹنگٹن نے '' تہذیبوں کے تصادم '' Clash of Civilizations کا نظریہ پیش کیا تھا اور انھیں نظر آیا کہ جہاد کے جس شیر کی دم کو کھینچ کر انھوں نے بیدار کیا تھا وہ کہیں انھی پر نہ جھپٹ پڑے۔ 1996 میں یہ نظریہ پیش کیا گیا اور2001 سے تہذیبی تصادم کا سلسلہ شروع ہو گیا۔
2001 میں 11/9 کا پر اسرار واقعہ پیش آیا یہ ابھی تک ایک معمہ ہے کہ محض جہازوں کے ٹکرانے سے وہ بلند و بالا عمارتیں زمین بوس ہوگئیں اور پینٹاگون کا قلعہ بھی جہاز کے ٹکرانے سے تباہ ہوگیا۔ امریکا کی وہ تمام ٹیکنالوجی کہاں چلی گئی جو کسی بھی جہاز کو اس کی فضائی حدود میں داخل ہونے سے پہلے ہی روک لیتی ہے وہ اینٹی میزائل سسٹم کہاں گیا ؟ اس واقعے کا قبل از وقت امریکی محکمہ دفاع کو کیوں علم نہیں ہوا؟ یہ سوالات اپنی جگہ موجود ہیں۔ اتنی بڑی فوج اتنی جدید ٹیکنالوجی ہونے کے باوجود امریکا دہشتگردی کے اس حملے کو نہیں ٹال سکا تو پاکستان سے یہ توقع کیوں کرتا ہے کہ وہ افغانستان میں موجود دہشتگردوں کے ٹھکانوں پر پاکستان ہی حملہ کرے۔
یہ امریکا کی جنگ میں اس کا ساتھ دینے کا ہی ثمر ہے کہ 2004 سے پاکستانی افواج اپنے ہی ملک میں دہشتگردوں سے برسر پیکار ہیں کبھی قبائلی علاقوں میں اور کبھی بلوچستان میں، لیکن یہ آگ ہے کہ بجھنے میں ہی نہیں آرہی ہے۔ پاکستان میں دہشتگردی کرنے کے لیے ان کی تربیت کا اہتمام کرتے ہیں، لیکن انھیں کبھی اس عمل سے باز رہنے کے لیے نہیں کہا جاتا۔ پاکستان نے ایف سولہ طیارے اپنی رقم خرچ کرکے خریدے تھے تاکہ اپنی سرزمین کا دفاع کرسکے نہ کہ ان طیاروں سے اپنے ہی ملک پر بمباری کی جائے، جیسا کہ امریکا چاہتا ہے، اس پریس کانفرنس میں امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان نے مزید کہا کہ '' یہ ایک ایسا فضائی بیڑا ہے جو پاکستان کو دہشتگردی کے خلاف کارروائیوں کی اجازت دیتا ہے اور ہم توقع کرتے ہیں کہ پاکستان تمام دہشتگرد گروہوں کے خلاف مستقل کارروائی کرے گا۔''
امریکا پاکستان کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی اپنا حق سمجھتا ہے ہم اپنے ملک میں کسی شورش کو کسی طرح رفع کرتے ہیں ، اس کی حکمت عملی ہمیں ہی بنانی چاہیے اگر ہم امریکا یا ان جیسے دوسرے ممالک کی حکمت عملی اپنائیں گے تو ملک میں ہر وقت کہیں نہ کہیں فوجی آپریشن چلتا رہے گا، ایک طرف ہمارے فوجی جوان شہید ہوتے رہیں گے، دوسری جانب گمراہ پاکستانی اپنی جان سے جاتے رہیں گے، کہیں تو اس سلسلے کو رکنا چاہیے۔ دہشتگردی کے خلاف جنگ میں ہماری اپنی حکمت عملی ہونی چاہیے، اس میں ضروری نہیں ہے کہ جنگ اور حملے ہی کیے جائیں بات چیت اور مذاکرات سے بھی دہشتگردی کو روکا جاسکتا ہے، لیکن امریکا یہ چاہتا ہے کہ پاکستان میں شورش جاری رہے یہی وجہ ہے کہ پرائس نے کہا کہ '' پاکستان متعدد حوالوں سے انسداد دہشتگردی کا ایک اہم پارٹنر ہے اور ہماری دیرینہ پالیسی یہ ہے کہ ہم امریکی مفادات کی خاطر ایسے پیکیج فراہم کرتے ہیں۔''
واضح رہے امریکی کانگریس کو یقین دلایا گیا ہے کہ اس ملٹری پیکیج میں پاکستان کو کوئی نئی صلاحیت، ہتھیار یا گولہ بارود نہیں دیا گیا ہے۔40 سالہ قدیم یہ لڑاکا جہاز امریکا کے پاس نئی شکلیں اختیار کرچکے ہیں لیکن پاکستان کو وہ نئی ٹیکنالوجی دینے کے لیے تیار نہیں ہیں اور پاکستان پر یہ پابندی لگائی جاتی ہے کہ ان طیاروں کو بھارت کے خلاف نہیں استعمال کیا جائے گا لیکن بھارت کو کوئی ٹیکنالوجی دیتے وقت یہ شرط نہیں عائد کی جاتی کہ وہ اسے اپنے پڑوسی ممالک کے خلاف نہیں استعمال کرے گا۔ دوسری جانب امریکا اور اس کے اتحادیوں نے پاکستان پر ایف اے ٹی ایف کی تلوار بھی لٹکا رکھی ہے۔ امریکا نے پاکستان کا اقتصادی طور پر گلا گھونٹ رکھا ہے۔ امریکا سے کون کہے گا کہ ہماری گردن تو چھوڑو۔
یہ وہی امریکا ہے جو افغانستان میں دہشت گردوں کے خاتمے کے لیے داخل ہوا تھا، لیکن دنیا کی سب سے بڑی فوجی طاقت جس کے ساتھ دنیا 40 سے زیادہ ممالک کی تمام بڑی بڑی فوجی قوتیں تھیں جدید ترین ٹیکنالوجی تھی، افغانستان میں دہشتگردی کے خاتمے میں ناکام رہی، کاش امریکی اپنی حکمت عملی کا جائزہ لیتے کہ کہاں کمزوری ہے؟
کیا غلطی ہوئی ہے، لیکن امریکی اس قدر بوکھلائے ہوئے تھے ، انھوں نے اپنی تمام تر ناکامی کا الزام پاکستان پر لگا دیا ، کیونکہ بھارت ان کو یہی سبق پڑھا رہا تھا ، جب کہ پاکستان نے امریکا اور اس کے اتحادیوں کو کمک کی فراہمی کے لیے راستہ بھی فراہم کیا اور اس جنگ میں اپنی اقتصادیات کو داؤ پر لگاتے ہوئے 100 ارب ڈالر سالانہ نقصان بھی برداشت کیا ، لیکن اس کے باوجود کہ امریکا نے پاکستان کا یہ نقصان نہیں پورا کیا ، بلکہ کولیشن سپورٹ فنڈ کے نام پر جو رقم پاکستان کو دی جانی تھی، وہ بھی بار بار روکی گئی ، بلکہ پاکستان کے ادائیگی کے مطالبے پر امریکا نے جنوری 2018 میں پاکستان سے سیکیورٹی تعاون کی معطلی کا اعلان کردیا اور کولیشن سپورٹ فنڈ کا جو ادھار امریکا پر قرض تھا وہ بھی نہیں ادا کیا۔
یہ رقم 30 کروڑ ڈالر تھی جو اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف تھی۔ پاکستان کے ساتھ سیکیورٹی تعاون کی معطلی کے باوجود ترجمان پینٹاگون نے کہا تھا کہ '' پاکستان پر تمام دہشتگرد گروپوں کے خلا ف بلا امتیاز کارروائی کے لیے دبائو ڈالتے رہیں گے اور طالبان قیادت کو مذاکرات کی میز پر لانے یا گرفتار کرکے بے دخلی کے لیے بھی پاکستان پر دباؤ ڈالتے رہیں گے'' پھر کیا ہوا کہ انھی طالبان کے سامنے امریکا نے ہتھیار ڈال دیے اور اچانک راتوں رات افغانستان سے امریکی پرواز کر گئے اور اپنے حامیوں کو افغانستان میں بے یارو مدد گار چھوڑ گئے۔ آج ستمبر 2022 میں ایک بار پھر امریکا کی جانب سے یہ مطالبہ سامنے آگیا کہ پاکستان دہشتگردوں کے ہر گروپ کے خلاف موثر اور مسلسل کارروائی کرے۔
چند دن پہلے امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے کہا کہ واشنگٹن توقع کرتا ہے کہ اسلام آباد تمام دہشتگرد گروپوں کے خلاف '' مستقل کارروائی'' کرے گا۔ پاکستان امریکا کے ساتھ اس مجوزہ فوجی سودے جس کی لاگت 450 ملین ڈالر ہے کہ امریکا، پاکستان میں ایف سولہ لڑاکا طیاروں کی مرمت اور دیکھ بھال کا انتظام کرسکے، لیکن امریکا اس کے ساتھ یہ شرط عائد کر رہا ہے۔ پاکستان یہ طیارے ''دہشتگردوں'' کے خلاف کارروائی کے لیے استعمال کرے گا۔ یہ امریکی امداد نہیں ہے پاکستان کی جانب سے سودا ہے لیکن امریکا کا طنطنہ تو دیکھیے کہ سودے کے ساتھ بھی اپنی شرائط عائد کررہا ہے۔
منگل کو پریس بریفنگ کے دوران نیڈ پرائس نے کہا کہ '' پاکستان کا F-16 پروگرام ، یہ امریکا اور پاکستان کے وسیع تر دوطرفہ تعلقات کا ایک اہم حصہ ہے، اور یہ مجوزہ فروخت-16 F کے بیڑے کو قائم رکھتے ہوئے پاکستان کی موجودہ اور مستقبل کے انسداد دہشت گردی کے خطرات سے نمٹنے کی صلاحیت کو برقرار رکھے گی۔''یہ بات قابل تشویش ہے کہ امریکا پاکستان کے حوالے سے مستقبل میں دہشتگردی کی پیش گوئی کر رہا ہے، پاکستان تقریباً4 دہائیوں سے امریکا کی وجہ سے دہشتگردی کا شکار ہے۔ پہلے سوویت یونین کے ساتھ افغان جہاد میں پاکستان میں دہشت گردی ہوتی رہی اور اس کے بعد افغانستان میں خانہ جنگی کے اثرات پاکستان پر پڑتے رہے کہ اس عرصے میں نائن الیون کا واقعہ پیش آگیا، جس کا الزام لگا تو اسامہ بن لادن پر لیکن امریکا کا غصہ ''نزلہ بر عضو ضعیف '' کے مترادف پاکستان پر گرا۔
یہ بات بھی قابل غور ہے کہ 1998 میں پاکستان نے ایٹمی دھماکے کیے تھے اور اپنی قوت کا اظہار کیا تھا۔ دنیا کو خاص طور پر امریکا کو پاکستان کی یہ کامیابی ہضم نہیں ہوئی تھی۔ اس لیے پاکستان کو ایسے معاملات میں الجھانا ضروری تھا جہاں اس کی سیکیورٹی کو خطرات لاحق ہوں۔ سوویت یونین کے خاتمے کے لیے جن جہادی گروپوں کو امریکا نے ڈالروں سے سینچا تھا وہ اب اس کے لیے کسی کام کے نہیں رہے تھے امریکا نے انھیں دہشتگرد قرار دینے کا فیصلہ کیا کیونکہ امریکی دانشور سیموئیل پی ہٹنگٹن نے '' تہذیبوں کے تصادم '' Clash of Civilizations کا نظریہ پیش کیا تھا اور انھیں نظر آیا کہ جہاد کے جس شیر کی دم کو کھینچ کر انھوں نے بیدار کیا تھا وہ کہیں انھی پر نہ جھپٹ پڑے۔ 1996 میں یہ نظریہ پیش کیا گیا اور2001 سے تہذیبی تصادم کا سلسلہ شروع ہو گیا۔
2001 میں 11/9 کا پر اسرار واقعہ پیش آیا یہ ابھی تک ایک معمہ ہے کہ محض جہازوں کے ٹکرانے سے وہ بلند و بالا عمارتیں زمین بوس ہوگئیں اور پینٹاگون کا قلعہ بھی جہاز کے ٹکرانے سے تباہ ہوگیا۔ امریکا کی وہ تمام ٹیکنالوجی کہاں چلی گئی جو کسی بھی جہاز کو اس کی فضائی حدود میں داخل ہونے سے پہلے ہی روک لیتی ہے وہ اینٹی میزائل سسٹم کہاں گیا ؟ اس واقعے کا قبل از وقت امریکی محکمہ دفاع کو کیوں علم نہیں ہوا؟ یہ سوالات اپنی جگہ موجود ہیں۔ اتنی بڑی فوج اتنی جدید ٹیکنالوجی ہونے کے باوجود امریکا دہشتگردی کے اس حملے کو نہیں ٹال سکا تو پاکستان سے یہ توقع کیوں کرتا ہے کہ وہ افغانستان میں موجود دہشتگردوں کے ٹھکانوں پر پاکستان ہی حملہ کرے۔
یہ امریکا کی جنگ میں اس کا ساتھ دینے کا ہی ثمر ہے کہ 2004 سے پاکستانی افواج اپنے ہی ملک میں دہشتگردوں سے برسر پیکار ہیں کبھی قبائلی علاقوں میں اور کبھی بلوچستان میں، لیکن یہ آگ ہے کہ بجھنے میں ہی نہیں آرہی ہے۔ پاکستان میں دہشتگردی کرنے کے لیے ان کی تربیت کا اہتمام کرتے ہیں، لیکن انھیں کبھی اس عمل سے باز رہنے کے لیے نہیں کہا جاتا۔ پاکستان نے ایف سولہ طیارے اپنی رقم خرچ کرکے خریدے تھے تاکہ اپنی سرزمین کا دفاع کرسکے نہ کہ ان طیاروں سے اپنے ہی ملک پر بمباری کی جائے، جیسا کہ امریکا چاہتا ہے، اس پریس کانفرنس میں امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان نے مزید کہا کہ '' یہ ایک ایسا فضائی بیڑا ہے جو پاکستان کو دہشتگردی کے خلاف کارروائیوں کی اجازت دیتا ہے اور ہم توقع کرتے ہیں کہ پاکستان تمام دہشتگرد گروہوں کے خلاف مستقل کارروائی کرے گا۔''
امریکا پاکستان کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی اپنا حق سمجھتا ہے ہم اپنے ملک میں کسی شورش کو کسی طرح رفع کرتے ہیں ، اس کی حکمت عملی ہمیں ہی بنانی چاہیے اگر ہم امریکا یا ان جیسے دوسرے ممالک کی حکمت عملی اپنائیں گے تو ملک میں ہر وقت کہیں نہ کہیں فوجی آپریشن چلتا رہے گا، ایک طرف ہمارے فوجی جوان شہید ہوتے رہیں گے، دوسری جانب گمراہ پاکستانی اپنی جان سے جاتے رہیں گے، کہیں تو اس سلسلے کو رکنا چاہیے۔ دہشتگردی کے خلاف جنگ میں ہماری اپنی حکمت عملی ہونی چاہیے، اس میں ضروری نہیں ہے کہ جنگ اور حملے ہی کیے جائیں بات چیت اور مذاکرات سے بھی دہشتگردی کو روکا جاسکتا ہے، لیکن امریکا یہ چاہتا ہے کہ پاکستان میں شورش جاری رہے یہی وجہ ہے کہ پرائس نے کہا کہ '' پاکستان متعدد حوالوں سے انسداد دہشتگردی کا ایک اہم پارٹنر ہے اور ہماری دیرینہ پالیسی یہ ہے کہ ہم امریکی مفادات کی خاطر ایسے پیکیج فراہم کرتے ہیں۔''
واضح رہے امریکی کانگریس کو یقین دلایا گیا ہے کہ اس ملٹری پیکیج میں پاکستان کو کوئی نئی صلاحیت، ہتھیار یا گولہ بارود نہیں دیا گیا ہے۔40 سالہ قدیم یہ لڑاکا جہاز امریکا کے پاس نئی شکلیں اختیار کرچکے ہیں لیکن پاکستان کو وہ نئی ٹیکنالوجی دینے کے لیے تیار نہیں ہیں اور پاکستان پر یہ پابندی لگائی جاتی ہے کہ ان طیاروں کو بھارت کے خلاف نہیں استعمال کیا جائے گا لیکن بھارت کو کوئی ٹیکنالوجی دیتے وقت یہ شرط نہیں عائد کی جاتی کہ وہ اسے اپنے پڑوسی ممالک کے خلاف نہیں استعمال کرے گا۔ دوسری جانب امریکا اور اس کے اتحادیوں نے پاکستان پر ایف اے ٹی ایف کی تلوار بھی لٹکا رکھی ہے۔ امریکا نے پاکستان کا اقتصادی طور پر گلا گھونٹ رکھا ہے۔ امریکا سے کون کہے گا کہ ہماری گردن تو چھوڑو۔