ماڈل یونیورسٹی ایکٹ کی ناکامی
سینیٹ اور دیگر اداروں میں اہل اور سینئر اساتذہ کو براہ راست نمایندگی کے اصول پر شامل کیا جائے
وفاقی اردو یونیورسٹی کے 16 ویں وائس چانسلر نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے۔ یونیورسٹی ایک بار پھر مستقل وائس چانسلر سے محروم ہو گئی ہے اور آئین میں درج طریقہ کار کے مطابق نئے وائس چانسلر کے انتخاب کے لیے ایک طویل عمل کا آغاز ہونے والا ہے۔
اس موقع پر یہ سوال انتہائی اہم ہے کہ ماڈل یونیورسٹی ایکٹ کے تحت قائم ہونے والی وفاقی اردو یونیورسٹی کی فقط 20 سالہ مختصر تاریخ میں 16 سے زائد وائس چانسلروں کی آمد اور پھر روانگی کی وجوہات کیا ہیں؟ آخر کیا وجہ ہے کہ وفاقی ادارہ ہونے کے باوجود، سرچ کمیٹیوں کی جانب سے وائس چانسلر کے عہدے پر منتخب ہونیوالے قابل اور اعلیٰ ترین انتظامی صلاحیتوں کے حامل ماہرین تعلیم بھی اپنے عہدے کی مدت مکمل کیے بغیر یہاں سے رخصت لینے میں ہی عافیت سمجھتے ہیں۔
وفاقی اردو یونیورسٹی 2002 میں جس قانون کے تحت وجود میں لائی گئی اسے ماڈل یونیورسٹی ایکٹ کہتے ہیں۔ ماڈل یونیورسٹی ایکٹ کی تیاری چند ایسے افراد کے ہاتھوں میں ہوئی ، جنھوں نے ملک میں موجود یونیورسٹیوں کے تعلیمی اور انتظامی نظام ،اساتذہ کی تربیت و مزاج اور پیشہ ورانہ مہارتوں اور تعلیمی اداروں سے متعلق ان کے رویوں اور تجربات سے یکسر مختلف ایک نیا قانون ترتیب دینے کی کوشش کی۔
ماڈل یونیورسٹی ایکٹ میں صدر پاکستان کو یونیورسٹی کا چانسلر مقرر کیا گیا اور یونیورسٹی میں فیصلہ سازی کے سب سے اعلیٰ ادارے یعنی سینیٹ میں صدر پاکستان کی نمایندگی کے لیے ڈپٹی چیئر سینیٹ کا عہدہ تخلیق کیا گیا۔ ڈپٹی چیئر کی قابلیت کے لیے یونیورسٹی کے آئین میں فقط اتنا لکھنا کافی تصور کیا گیا کہ یہ'' ایسا نامور فرد ہوگا جسے انتظامی امور کا خاصہ تجربہ ہو۔''
اس تشریح کے نتیجے میں یونیورسٹی میں گزشتہ 20 سالوں کے دوران ڈپٹی چیئر سینیٹ کے عہدے پر ہر وہ فرد موجود رہا ،جسے اس وقت کے چانسلر نے نامور تصور کیا ہو اور انتظامی امور میں اس کو تجربہ کار سمجھ لیا ہو۔ اس عرصے میں ڈپٹی چیئر کے عہدے پر موجود افراد نے اپنی دانست اور انتظامی امور کے تجربات کی روشنی میں ہر قسم کے تجربات کیے اور نتیجے میں یونیورسٹی کو 20 سال کی قلیل مدت میں 16 وائس چانسلر تبدیل کرنے پڑے۔
ماڈل یونیورسٹی ایکٹ کے تحت یونیورسٹی میں وائس چانسلر کے عہدے پر موجود شخصیت کو عملی طور پر تمام تعلیمی، انتظامی اور تحقیقی منصوبوں پر ڈپٹی چیئر سینیٹ کو اعتماد میں لینے کے ساتھ ساتھ ان کے مطالبات، خواہشات اور فرمائشوں کو بھی پورا کرنا پڑتا ہے،اگر ڈپٹی چیئر سینیٹ کسی وائس چانسلر کی حمایت نہ کرے تو ایسے وائس چانسلر کے لیے عہدے پر موجود رہنا نا ممکن بنا دیا جاتا ہے۔
کسی بھی وائس چانسلر کو اگر تعلیمی، انتظامی اور تحقیقی امور میں مکمل آزادی حاصل نہ ہو تو اس کی کارکردگی متاثر ہوتی ہے۔ اردو یونیورسٹی کے آرڈیننس کے مطابق ڈپٹی چیئر سینیٹ کے پاس بظاہر کوئی انتظامی اختیار نہیں ہے،یہ عہدہ مکمل طور پر اعزازی نوعیت کا ہے،لیکن عملی طور پر ڈپٹی چیئر سینیٹ، کسی نہ کسی یونیورسٹی کے انتظامی دفاتر میں موجود رہتا ہے۔ ڈپٹی چیئر کے خاص لوگ ہر وقت ہر قسم کی معلومات بہم پہنچانے کا فریضہ انجام دیتے ہیں اور وائس چانسلر کو کوئی بھی فیصلہ یا گفتگو کرنے سے پہلے اس بات کا احساس دلایا جاتا ہے کہ ''آپ کو سنا اور دیکھا جا رہا ہے۔''
ڈپٹی چیئر سینیٹ کے غیر ضروری عہدے کے علاوہ ماڈل یونیورسٹی ایکٹ کی ایک اور ناکامی وائس چانسلر کے انتخاب کے لیے قائم کی جانیوالی تلاش کمیٹی بھی ہے۔ سرچ کمیٹی کی تشکیل میں اعلیٰ ٰتعلیم سے تعلق رکھنے والے افراد کی شمولیت کے لیے خصوصی اقدامات شامل نہیں کیے جاتے۔ یہ بات اہم ہے کہ ملک کی دیگر جامعات میں وائس چانسلروں کی تلاش کے لیے صوبائی اور وفاقی حکومتوں کے اعلیٰ تعلیم سے متعلق ماہرین اور سابق وائس چانسلر اور سینئر بیوروکریٹ پر مشتمل کمیٹیاں تشکیل دی جاتی ہیں۔ ان کمیٹیوں میں یونیورسٹی کلچر کا وسیع تجربہ رکھنے والے افراد شامل ہوتے ہیں۔
اس کے برعکس اردو یونیورسٹی کے ایکٹ میں تلاش کمیٹی کی تشکیل میں توازن قائم نہیں رکھا گیا ہے، جس کے نتیجے میں موزوں افراد کا تقرر نہیں ہوپاتا۔ ڈاکٹر الطاف حسین کی سرچ کمیٹی کی مکمل کارروائی کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے مسترد کردیا تھا جب کہ ڈاکٹر اطہر عطا کی سرچ کمیٹی نے جن تین ناموں کی فہرست مرتب کی ان میں سے دو کے متعلق ہایئر ایجوکیشن کمیشن نے عدالت میں جمع کروائے جانے والے اپنے بیان میں موقف اختیار کیا کہ یہ افراد مطلوبہ اہلیت کے حامل نہیں۔ یونیورسٹی کے چانسلر صدر پاکستان نے معروف مورخ اور ماہرتعلیم اور اس وقت یونیورسٹی سینیٹ کے رکن ڈاکٹر سید جعفر احمد کی قیادت میں اردو یونیورسٹی کے آئین میں تبدیلیاں تجویز کرنے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی تھی۔
اس کمیٹی میں ڈاکٹر ریاض احمد، ڈاکٹر توصیف احمد خان اور اے کیو خلیل بھی شامل تھے۔ بعد میں اے کیو خلیل کو ڈپٹی چیئر سینیٹ کے عہدے پر فائز کر دیا گیا۔ اس کمیٹی کی سفارشات کو سینیٹ کے اجلاس میں پیش نہ کرنے میں سب سے بڑی رکاوٹ کمیٹی کے ایک رکن خود ثابت ہوئے ہیں، جنھوں نے اس کمیٹی کی سفارشات کو سینیٹ کے اجلاس میں پیش ہی نہیں ہونے دیا۔ کمیٹی نے یونیورسٹی میں ڈپٹی چیئر سینیٹ کے عہدے کے خاتمے کے ساتھ ساتھ مختلف دیگر تجاویز بھی شامل کی تھیں، جن کی مدد سے وفاقی اردو یونیورسٹی کو ملک میں رائج عمومی قوانین و فہم و فراست کی روشنی میں چلایا جا سکتا تھا، لیکن ڈپٹی چیئر سینیٹ کی منشاء یہاں بھی یونیورسٹی میں انحطاط کا سبب ثابت ہوئی۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ وفاقی اردو یونیورسٹی کے لیے نئے مستقل وائس چانسلر کی تلاش کا عمل شروع کرنے سے قبل یونیورسٹی کے آرڈیننس میں سے ڈپٹی چیئر سینیٹ جیسا غیر فطری، غیر ضروری اور غیر علمی عہدہ ختم کیا جائے۔ سینیٹ اور دیگر اداروں میں اہل اور سینئر اساتذہ کو براہ راست نمایندگی کے اصول پر شامل کیا جائے اورنامزد کنندہ کمیٹی کا کردار ختم کیا جائے،اور چانسلر کے ایمرجنسی اختیارات میں مناسب ردوبدل کرکے ایک نیا آرڈیننس تشکیل دیا جائے۔ علمی آزادی کے اصولوں کے تحت وائس چانسلر کو تعلیمی اور انتظامی نوعیت کے مکمل اختیارات دیے جائیں اور سینیٹ کے ادارے میں اعلیٰ تعلیم یافتہ اور یونیورسٹی کلچر سے آشنا افراد کی شمولیت کو یقینی بناکر ہم وفاقی اردو یونیورسٹی کو دیگر یونیورسٹی کی صفوں میں شامل کر سکتے ہیں۔
اس موقع پر یہ سوال انتہائی اہم ہے کہ ماڈل یونیورسٹی ایکٹ کے تحت قائم ہونے والی وفاقی اردو یونیورسٹی کی فقط 20 سالہ مختصر تاریخ میں 16 سے زائد وائس چانسلروں کی آمد اور پھر روانگی کی وجوہات کیا ہیں؟ آخر کیا وجہ ہے کہ وفاقی ادارہ ہونے کے باوجود، سرچ کمیٹیوں کی جانب سے وائس چانسلر کے عہدے پر منتخب ہونیوالے قابل اور اعلیٰ ترین انتظامی صلاحیتوں کے حامل ماہرین تعلیم بھی اپنے عہدے کی مدت مکمل کیے بغیر یہاں سے رخصت لینے میں ہی عافیت سمجھتے ہیں۔
وفاقی اردو یونیورسٹی 2002 میں جس قانون کے تحت وجود میں لائی گئی اسے ماڈل یونیورسٹی ایکٹ کہتے ہیں۔ ماڈل یونیورسٹی ایکٹ کی تیاری چند ایسے افراد کے ہاتھوں میں ہوئی ، جنھوں نے ملک میں موجود یونیورسٹیوں کے تعلیمی اور انتظامی نظام ،اساتذہ کی تربیت و مزاج اور پیشہ ورانہ مہارتوں اور تعلیمی اداروں سے متعلق ان کے رویوں اور تجربات سے یکسر مختلف ایک نیا قانون ترتیب دینے کی کوشش کی۔
ماڈل یونیورسٹی ایکٹ میں صدر پاکستان کو یونیورسٹی کا چانسلر مقرر کیا گیا اور یونیورسٹی میں فیصلہ سازی کے سب سے اعلیٰ ادارے یعنی سینیٹ میں صدر پاکستان کی نمایندگی کے لیے ڈپٹی چیئر سینیٹ کا عہدہ تخلیق کیا گیا۔ ڈپٹی چیئر کی قابلیت کے لیے یونیورسٹی کے آئین میں فقط اتنا لکھنا کافی تصور کیا گیا کہ یہ'' ایسا نامور فرد ہوگا جسے انتظامی امور کا خاصہ تجربہ ہو۔''
اس تشریح کے نتیجے میں یونیورسٹی میں گزشتہ 20 سالوں کے دوران ڈپٹی چیئر سینیٹ کے عہدے پر ہر وہ فرد موجود رہا ،جسے اس وقت کے چانسلر نے نامور تصور کیا ہو اور انتظامی امور میں اس کو تجربہ کار سمجھ لیا ہو۔ اس عرصے میں ڈپٹی چیئر کے عہدے پر موجود افراد نے اپنی دانست اور انتظامی امور کے تجربات کی روشنی میں ہر قسم کے تجربات کیے اور نتیجے میں یونیورسٹی کو 20 سال کی قلیل مدت میں 16 وائس چانسلر تبدیل کرنے پڑے۔
ماڈل یونیورسٹی ایکٹ کے تحت یونیورسٹی میں وائس چانسلر کے عہدے پر موجود شخصیت کو عملی طور پر تمام تعلیمی، انتظامی اور تحقیقی منصوبوں پر ڈپٹی چیئر سینیٹ کو اعتماد میں لینے کے ساتھ ساتھ ان کے مطالبات، خواہشات اور فرمائشوں کو بھی پورا کرنا پڑتا ہے،اگر ڈپٹی چیئر سینیٹ کسی وائس چانسلر کی حمایت نہ کرے تو ایسے وائس چانسلر کے لیے عہدے پر موجود رہنا نا ممکن بنا دیا جاتا ہے۔
کسی بھی وائس چانسلر کو اگر تعلیمی، انتظامی اور تحقیقی امور میں مکمل آزادی حاصل نہ ہو تو اس کی کارکردگی متاثر ہوتی ہے۔ اردو یونیورسٹی کے آرڈیننس کے مطابق ڈپٹی چیئر سینیٹ کے پاس بظاہر کوئی انتظامی اختیار نہیں ہے،یہ عہدہ مکمل طور پر اعزازی نوعیت کا ہے،لیکن عملی طور پر ڈپٹی چیئر سینیٹ، کسی نہ کسی یونیورسٹی کے انتظامی دفاتر میں موجود رہتا ہے۔ ڈپٹی چیئر کے خاص لوگ ہر وقت ہر قسم کی معلومات بہم پہنچانے کا فریضہ انجام دیتے ہیں اور وائس چانسلر کو کوئی بھی فیصلہ یا گفتگو کرنے سے پہلے اس بات کا احساس دلایا جاتا ہے کہ ''آپ کو سنا اور دیکھا جا رہا ہے۔''
ڈپٹی چیئر سینیٹ کے غیر ضروری عہدے کے علاوہ ماڈل یونیورسٹی ایکٹ کی ایک اور ناکامی وائس چانسلر کے انتخاب کے لیے قائم کی جانیوالی تلاش کمیٹی بھی ہے۔ سرچ کمیٹی کی تشکیل میں اعلیٰ ٰتعلیم سے تعلق رکھنے والے افراد کی شمولیت کے لیے خصوصی اقدامات شامل نہیں کیے جاتے۔ یہ بات اہم ہے کہ ملک کی دیگر جامعات میں وائس چانسلروں کی تلاش کے لیے صوبائی اور وفاقی حکومتوں کے اعلیٰ تعلیم سے متعلق ماہرین اور سابق وائس چانسلر اور سینئر بیوروکریٹ پر مشتمل کمیٹیاں تشکیل دی جاتی ہیں۔ ان کمیٹیوں میں یونیورسٹی کلچر کا وسیع تجربہ رکھنے والے افراد شامل ہوتے ہیں۔
اس کے برعکس اردو یونیورسٹی کے ایکٹ میں تلاش کمیٹی کی تشکیل میں توازن قائم نہیں رکھا گیا ہے، جس کے نتیجے میں موزوں افراد کا تقرر نہیں ہوپاتا۔ ڈاکٹر الطاف حسین کی سرچ کمیٹی کی مکمل کارروائی کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے مسترد کردیا تھا جب کہ ڈاکٹر اطہر عطا کی سرچ کمیٹی نے جن تین ناموں کی فہرست مرتب کی ان میں سے دو کے متعلق ہایئر ایجوکیشن کمیشن نے عدالت میں جمع کروائے جانے والے اپنے بیان میں موقف اختیار کیا کہ یہ افراد مطلوبہ اہلیت کے حامل نہیں۔ یونیورسٹی کے چانسلر صدر پاکستان نے معروف مورخ اور ماہرتعلیم اور اس وقت یونیورسٹی سینیٹ کے رکن ڈاکٹر سید جعفر احمد کی قیادت میں اردو یونیورسٹی کے آئین میں تبدیلیاں تجویز کرنے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی تھی۔
اس کمیٹی میں ڈاکٹر ریاض احمد، ڈاکٹر توصیف احمد خان اور اے کیو خلیل بھی شامل تھے۔ بعد میں اے کیو خلیل کو ڈپٹی چیئر سینیٹ کے عہدے پر فائز کر دیا گیا۔ اس کمیٹی کی سفارشات کو سینیٹ کے اجلاس میں پیش نہ کرنے میں سب سے بڑی رکاوٹ کمیٹی کے ایک رکن خود ثابت ہوئے ہیں، جنھوں نے اس کمیٹی کی سفارشات کو سینیٹ کے اجلاس میں پیش ہی نہیں ہونے دیا۔ کمیٹی نے یونیورسٹی میں ڈپٹی چیئر سینیٹ کے عہدے کے خاتمے کے ساتھ ساتھ مختلف دیگر تجاویز بھی شامل کی تھیں، جن کی مدد سے وفاقی اردو یونیورسٹی کو ملک میں رائج عمومی قوانین و فہم و فراست کی روشنی میں چلایا جا سکتا تھا، لیکن ڈپٹی چیئر سینیٹ کی منشاء یہاں بھی یونیورسٹی میں انحطاط کا سبب ثابت ہوئی۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ وفاقی اردو یونیورسٹی کے لیے نئے مستقل وائس چانسلر کی تلاش کا عمل شروع کرنے سے قبل یونیورسٹی کے آرڈیننس میں سے ڈپٹی چیئر سینیٹ جیسا غیر فطری، غیر ضروری اور غیر علمی عہدہ ختم کیا جائے۔ سینیٹ اور دیگر اداروں میں اہل اور سینئر اساتذہ کو براہ راست نمایندگی کے اصول پر شامل کیا جائے اورنامزد کنندہ کمیٹی کا کردار ختم کیا جائے،اور چانسلر کے ایمرجنسی اختیارات میں مناسب ردوبدل کرکے ایک نیا آرڈیننس تشکیل دیا جائے۔ علمی آزادی کے اصولوں کے تحت وائس چانسلر کو تعلیمی اور انتظامی نوعیت کے مکمل اختیارات دیے جائیں اور سینیٹ کے ادارے میں اعلیٰ تعلیم یافتہ اور یونیورسٹی کلچر سے آشنا افراد کی شمولیت کو یقینی بناکر ہم وفاقی اردو یونیورسٹی کو دیگر یونیورسٹی کی صفوں میں شامل کر سکتے ہیں۔