سیاسی کھیل
جہاں تک نائن زیرو میں آتشزدگی کا معاملہ ہے اس پر ایم کیو ایم لندن کی جانب سے سخت تشویش ظاہر کی گئی ہے
گزشتہ دنوں نائن زیرو کی عمارت آگ لگنے سے تباہ ہوگئی۔ یہ ایک سانحہ تھا مگر اس پر کسی نے کوئی افسوس ظاہر نہیں کیا سوائے ڈاکٹر فاروق ستار نے جنھوں نے آگ لگنے پر نہ صرف افسوس کا اظہار کیا بلکہ اس واقعے کی انکوائری کا بھی مطالبہ کیا۔
ڈاکٹر فاروق ستار کی بانی متحدہ سے وفاداری کبھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان جیسا کارکن بانی متحدہ کو مل ہی نہیں سکا تھا جو ان کے ہر حکم کو بجا لانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے تھے، وہ ایم کیو ایم کی ابتدا سے لے کر اس کے حصے بخرے ہونے تک بانی متحدہ کے ساتھ رہے البتہ بانی متحدہ کے مردہ باد کا نعرہ بلند کرنے کے بعد انھوں نے ایم کیو ایم لندن سے علیحدگی اختیار کرلی تھی مگر ان کے مخالفین اسے ان کی مصلحت پسندی سے تعبیر کرنے لگے تھے کیونکہ ان کے مطابق ایم کیو ایم میں انھیں جو بھی فضیلت اور رتبہ حاصل تھا وہ پارٹی میں کسی اور کو نصیب نہیں ہوسکا تھا ،یہ تمام عنایات انھیں بانی متحدہ کی جانب سے عطا ہوئی تھیں۔
یہ کوئی معمولی بات نہیں تھی کہ پارٹی کی رجسٹریشن بھی ان کے ہی نام پر ہوئی تھی۔ اسی بنیاد پر وہ ایم کیو ایم پاکستان بننے کے بعد اس کے بھی سب سے اعلیٰ عہدے پر فائز رہے ۔ وہ پارٹی کی پرانی خونی اور دہشت گرد تصویر کو مٹانا چاہتے تھے مگر اس کا صلہ یہ ملا کہ انھیں ایم کیو ایم پاکستان کی رہنمائی سے فارغ کردیاگیا۔ اس وقت بھی ایم کیو ایم لندن کی جانب سے ایم کیو ایم پاکستان کے رہنمائوں کے خلاف بیانات آرہے ہیں اور انھیں غدار کہا جارہا ہے مگر فاروق ستار کو تو اس غداری کا سرغنہ قرار دیا جارہا ہے اب انھوں نے مہاجر قومی محاذ تشکیل دی ہے جسے وہ جیسے تیسے چلارہے ہیں مگر اسے عوام میں کوئی خاص پذیرائی حاصل نہیں ہے جس کا ثبوت کراچی کے حلقہ 245 کا الیکشن ہے کہ جس میں وہ ہارگئے انھیں وہاں ان کی توقعات کے مطابق ووٹ نہیں مل سکے ۔وہ اس ضمنی الیکشن سے قبل ایم کیو ایم پاکستان کا حصّہ بن سکتے تھے کیونکہ اس کے رہنما انھیں پارٹی میں واپس لانے کے لیے تیار تھے مگر وہ انھیں ضمنی الیکشن کا ٹکٹ دینا نہیں چاہتے تھے۔ کاش کہ وہ ٹکٹ کے چکر میں پڑنے کے بجائے پارٹی میں داخل ہونے کو ترجیح دیتے۔ اس طرح وہ وہاں اپنا پھر مقام بناسکتے تھے مگر انھوں نے یہ نادر موقع کھودیا۔
حقیقت یہ ہے کہ بانی متحدہ کا کھیل ختم ہونے کے بعد سے ان کی پہلے جیسی حیثیت نہیں رہی تھی پھر کامران ٹیسوری کی وجہ سے بھی ان کی ساکھ کافی متاثر ہوئی تھی۔کامران ٹیسوری ایم کیو ایم کے لیے نیا بندہ تھا اسے انھوں نے فرش سے اٹھاکر عرش پر پہنچا دیا تھا پارٹی کے پرانے رہنمائوں کے ساتھ یہ سراسر زیادتی تھی ۔ کامران ٹیسوری کیوں کہ ان کی پسند تھے اس کی وجہ کسی کی سمجھ میں نہیں آرہی تھی۔ اس وجہ سے اب ایم کیو ایم پاکستان میں بھی کافی خلفشار پیدا ہوگیا ہے۔ خالد مقبول صدیقی نے انھیں پارٹی کا ایک اعلیٰ عہدہ عطا کردیا ہے۔ ٹیسوری میںکوئی خاص بات ہے کہ فاروق ستار کے بعد اب خالد مقبول صدیقی بھی ان کے دیوانے بن چکے ہیں۔ پارٹی میں بڑھتے ہوئے خلفشار سے لگتا ہے کہ اگر ٹیسوری کے فیصلے کو بدلا نہیں گیا تو پارٹی میں دراڑ پڑسکتی ہے ۔
جہاں تک نائن زیرو میں آتشزدگی کا معاملہ ہے اس پر ایم کیو ایم لندن کی جانب سے سخت تشویش ظاہر کی گئی ہے اور اسے دہشت گردی سے جوڑا گیا ہے۔ سیکیورٹی ذرایع کا کہنا ہے کہ آگ کسی نے نہیں لگائی۔ آگ لگنے کی وجہ وہاں موجود ایئرکنڈیشنز کی نالیوں میں گیس کا جمع ہونا اور اس کے دھماکے سے آگ لگی ہوگی۔ تاہم کچھ لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ آگ دراصل ان لوگوں کی آہوں کا نتیجہ ہے، جن کے پیارے وہاں سے جاری ہونے والے احکامات کی وجہ سے ناحق مارے گئے تھے۔ اس مقام سے مسلسل 35 سال تک مہاجروں کی قسمت کے فیصلے ہوتے رہے۔ ان فیصلوں سے مہاجرین کو تباہی و بربادی کے سوا کچھ نہ مل سکا۔
مہاجروں کو جتنا نقصان یہاں سے پہنچا اتنا تو کوئی دشمن بھی انھیں نہیں پہنچا سکتا تھا۔ یہاں نفرت کے پرچار سے کبھی پنجابیوں کی، کبھی سندھیوں تو کبھی پٹھانوں کو مہاجرین کا دشمن بنایاگیا۔ اس بیانیے کا اصل مقصد مہاجرین کو ایم کیو ایم کے پرچم تلے اکٹھا رکھنا تھا تاکہ ان کا ووٹ حاصل کرکے سیاسی فائدہ اٹھایا جائے۔ اپنے سیاسی مفادات کے لیے قوم میں ایک دوسرے کے خلاف نفرت کے بیج بوئے گئے، قوم کو آپس میں لڑانے کی سازشیں کی گئیں۔
کبھی پنجابیوں کے خلاف نفرت کے نعرے لگائے گئے اور کبھی پٹھانوں کے خلاف ، جس کا واحد مقصد فساد برپا کرنا اور مہاجروں پر یہ ثابت کرنا تھا کہ ان کے اصل خیر خواہ ہم ہیں اور باقی تمام لوگ ان کے دشمن ہیں اور اگر انھوں نے اپنے وجود کو قائم رکھنا اور اپنے سیاسی و معاشرتی مفادات کا تحفظ کرنا ہے تو پھر انھیں ایم کیو ایم کے پرچم تلے اکٹھا ہو کر اس کی قیادت کے ہر حکم کی بلا چوں و چراں تعمیل کرنا ہوگی۔ مہاجروں نے اس پارٹی کے لیے بے دریغ جانیں قربان کیں مگر ان کا ایک بھی مسئلہ حل نہیں ہوا بلکہ ان کے مسائل کو زیادہ سے زیادہ الجھانے کی کوشش کی گئی بعد میں یہ بات مہاجروں پر عیاں ہوگئی کہ نفرت اور تعصب کا پرچار بھارتی ایما پر کیاگیا۔
دہشت گردی کو اس قدر فروغ دیا گیا کہ کراچی میں روز بے گناہ شہریوں کی لاشیں گرنے کا سلسلہ شروع ہو گیا،گھر سے نکلنے والے کسی شخص کو نہیں پتہ تھا کہ شام کو اس کی زندہ واپسی بھی ہو گی یا نہیں، ممکن ہے کہ شام کو اس کی لاش گھر پہنچے ،ہر طرف مایوسی اور بے یقینی پھیل چکی تھی، جس کا ایک ہی مقصد تھا کہ یہاں نفرت کے بیج بو کر پاکستان کو کمزور کر دیا جائے بلکہ اس سے بھی آگے بڑھ کر ملک کو تقسیم کر دیا جائے۔اس طرح بھارت بغیر جنگ لڑے پاکستان کو نقصان پہنچانے میں کامیاب ہو جائے گا۔
دشمن جانتا ہے کہ کراچی پاکستان کی معیشت کا مرکز ہے اور یہاں کے ریونیو سے ہی پورا ملک چلتا ہے۔ کراچی میں قتل و غارت گری اور ہڑتالوں کے لامتناہی سلسلے کی یہی اصل وجہ تھی۔ آج فاروق ستار کو ایم کیو ایم سے جو باہر کیاگیا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ پارٹی کی خونی اور دہشت گردی کی شبیہہ کو درست کرنے کے لیے اسے پاک سرزمین پارٹی سے جوڑنا چاہتے تھے مگر پارٹی کے کچھ رہنمائوں کی مخالفت نے ایسا نہ ہونے دیا۔ اس کے بعد سے ہی وہ پارٹی میں غیر مقبول ہوتے گئے اور آج اس سے باہر ہیں مگر مطمئن لگتے ہیں۔
ڈاکٹر فاروق ستار کی بانی متحدہ سے وفاداری کبھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان جیسا کارکن بانی متحدہ کو مل ہی نہیں سکا تھا جو ان کے ہر حکم کو بجا لانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے تھے، وہ ایم کیو ایم کی ابتدا سے لے کر اس کے حصے بخرے ہونے تک بانی متحدہ کے ساتھ رہے البتہ بانی متحدہ کے مردہ باد کا نعرہ بلند کرنے کے بعد انھوں نے ایم کیو ایم لندن سے علیحدگی اختیار کرلی تھی مگر ان کے مخالفین اسے ان کی مصلحت پسندی سے تعبیر کرنے لگے تھے کیونکہ ان کے مطابق ایم کیو ایم میں انھیں جو بھی فضیلت اور رتبہ حاصل تھا وہ پارٹی میں کسی اور کو نصیب نہیں ہوسکا تھا ،یہ تمام عنایات انھیں بانی متحدہ کی جانب سے عطا ہوئی تھیں۔
یہ کوئی معمولی بات نہیں تھی کہ پارٹی کی رجسٹریشن بھی ان کے ہی نام پر ہوئی تھی۔ اسی بنیاد پر وہ ایم کیو ایم پاکستان بننے کے بعد اس کے بھی سب سے اعلیٰ عہدے پر فائز رہے ۔ وہ پارٹی کی پرانی خونی اور دہشت گرد تصویر کو مٹانا چاہتے تھے مگر اس کا صلہ یہ ملا کہ انھیں ایم کیو ایم پاکستان کی رہنمائی سے فارغ کردیاگیا۔ اس وقت بھی ایم کیو ایم لندن کی جانب سے ایم کیو ایم پاکستان کے رہنمائوں کے خلاف بیانات آرہے ہیں اور انھیں غدار کہا جارہا ہے مگر فاروق ستار کو تو اس غداری کا سرغنہ قرار دیا جارہا ہے اب انھوں نے مہاجر قومی محاذ تشکیل دی ہے جسے وہ جیسے تیسے چلارہے ہیں مگر اسے عوام میں کوئی خاص پذیرائی حاصل نہیں ہے جس کا ثبوت کراچی کے حلقہ 245 کا الیکشن ہے کہ جس میں وہ ہارگئے انھیں وہاں ان کی توقعات کے مطابق ووٹ نہیں مل سکے ۔وہ اس ضمنی الیکشن سے قبل ایم کیو ایم پاکستان کا حصّہ بن سکتے تھے کیونکہ اس کے رہنما انھیں پارٹی میں واپس لانے کے لیے تیار تھے مگر وہ انھیں ضمنی الیکشن کا ٹکٹ دینا نہیں چاہتے تھے۔ کاش کہ وہ ٹکٹ کے چکر میں پڑنے کے بجائے پارٹی میں داخل ہونے کو ترجیح دیتے۔ اس طرح وہ وہاں اپنا پھر مقام بناسکتے تھے مگر انھوں نے یہ نادر موقع کھودیا۔
حقیقت یہ ہے کہ بانی متحدہ کا کھیل ختم ہونے کے بعد سے ان کی پہلے جیسی حیثیت نہیں رہی تھی پھر کامران ٹیسوری کی وجہ سے بھی ان کی ساکھ کافی متاثر ہوئی تھی۔کامران ٹیسوری ایم کیو ایم کے لیے نیا بندہ تھا اسے انھوں نے فرش سے اٹھاکر عرش پر پہنچا دیا تھا پارٹی کے پرانے رہنمائوں کے ساتھ یہ سراسر زیادتی تھی ۔ کامران ٹیسوری کیوں کہ ان کی پسند تھے اس کی وجہ کسی کی سمجھ میں نہیں آرہی تھی۔ اس وجہ سے اب ایم کیو ایم پاکستان میں بھی کافی خلفشار پیدا ہوگیا ہے۔ خالد مقبول صدیقی نے انھیں پارٹی کا ایک اعلیٰ عہدہ عطا کردیا ہے۔ ٹیسوری میںکوئی خاص بات ہے کہ فاروق ستار کے بعد اب خالد مقبول صدیقی بھی ان کے دیوانے بن چکے ہیں۔ پارٹی میں بڑھتے ہوئے خلفشار سے لگتا ہے کہ اگر ٹیسوری کے فیصلے کو بدلا نہیں گیا تو پارٹی میں دراڑ پڑسکتی ہے ۔
جہاں تک نائن زیرو میں آتشزدگی کا معاملہ ہے اس پر ایم کیو ایم لندن کی جانب سے سخت تشویش ظاہر کی گئی ہے اور اسے دہشت گردی سے جوڑا گیا ہے۔ سیکیورٹی ذرایع کا کہنا ہے کہ آگ کسی نے نہیں لگائی۔ آگ لگنے کی وجہ وہاں موجود ایئرکنڈیشنز کی نالیوں میں گیس کا جمع ہونا اور اس کے دھماکے سے آگ لگی ہوگی۔ تاہم کچھ لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ آگ دراصل ان لوگوں کی آہوں کا نتیجہ ہے، جن کے پیارے وہاں سے جاری ہونے والے احکامات کی وجہ سے ناحق مارے گئے تھے۔ اس مقام سے مسلسل 35 سال تک مہاجروں کی قسمت کے فیصلے ہوتے رہے۔ ان فیصلوں سے مہاجرین کو تباہی و بربادی کے سوا کچھ نہ مل سکا۔
مہاجروں کو جتنا نقصان یہاں سے پہنچا اتنا تو کوئی دشمن بھی انھیں نہیں پہنچا سکتا تھا۔ یہاں نفرت کے پرچار سے کبھی پنجابیوں کی، کبھی سندھیوں تو کبھی پٹھانوں کو مہاجرین کا دشمن بنایاگیا۔ اس بیانیے کا اصل مقصد مہاجرین کو ایم کیو ایم کے پرچم تلے اکٹھا رکھنا تھا تاکہ ان کا ووٹ حاصل کرکے سیاسی فائدہ اٹھایا جائے۔ اپنے سیاسی مفادات کے لیے قوم میں ایک دوسرے کے خلاف نفرت کے بیج بوئے گئے، قوم کو آپس میں لڑانے کی سازشیں کی گئیں۔
کبھی پنجابیوں کے خلاف نفرت کے نعرے لگائے گئے اور کبھی پٹھانوں کے خلاف ، جس کا واحد مقصد فساد برپا کرنا اور مہاجروں پر یہ ثابت کرنا تھا کہ ان کے اصل خیر خواہ ہم ہیں اور باقی تمام لوگ ان کے دشمن ہیں اور اگر انھوں نے اپنے وجود کو قائم رکھنا اور اپنے سیاسی و معاشرتی مفادات کا تحفظ کرنا ہے تو پھر انھیں ایم کیو ایم کے پرچم تلے اکٹھا ہو کر اس کی قیادت کے ہر حکم کی بلا چوں و چراں تعمیل کرنا ہوگی۔ مہاجروں نے اس پارٹی کے لیے بے دریغ جانیں قربان کیں مگر ان کا ایک بھی مسئلہ حل نہیں ہوا بلکہ ان کے مسائل کو زیادہ سے زیادہ الجھانے کی کوشش کی گئی بعد میں یہ بات مہاجروں پر عیاں ہوگئی کہ نفرت اور تعصب کا پرچار بھارتی ایما پر کیاگیا۔
دہشت گردی کو اس قدر فروغ دیا گیا کہ کراچی میں روز بے گناہ شہریوں کی لاشیں گرنے کا سلسلہ شروع ہو گیا،گھر سے نکلنے والے کسی شخص کو نہیں پتہ تھا کہ شام کو اس کی زندہ واپسی بھی ہو گی یا نہیں، ممکن ہے کہ شام کو اس کی لاش گھر پہنچے ،ہر طرف مایوسی اور بے یقینی پھیل چکی تھی، جس کا ایک ہی مقصد تھا کہ یہاں نفرت کے بیج بو کر پاکستان کو کمزور کر دیا جائے بلکہ اس سے بھی آگے بڑھ کر ملک کو تقسیم کر دیا جائے۔اس طرح بھارت بغیر جنگ لڑے پاکستان کو نقصان پہنچانے میں کامیاب ہو جائے گا۔
دشمن جانتا ہے کہ کراچی پاکستان کی معیشت کا مرکز ہے اور یہاں کے ریونیو سے ہی پورا ملک چلتا ہے۔ کراچی میں قتل و غارت گری اور ہڑتالوں کے لامتناہی سلسلے کی یہی اصل وجہ تھی۔ آج فاروق ستار کو ایم کیو ایم سے جو باہر کیاگیا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ پارٹی کی خونی اور دہشت گردی کی شبیہہ کو درست کرنے کے لیے اسے پاک سرزمین پارٹی سے جوڑنا چاہتے تھے مگر پارٹی کے کچھ رہنمائوں کی مخالفت نے ایسا نہ ہونے دیا۔ اس کے بعد سے ہی وہ پارٹی میں غیر مقبول ہوتے گئے اور آج اس سے باہر ہیں مگر مطمئن لگتے ہیں۔