متاثرین سیلاب اور حکومتی کوششیں
لوگوں کے چہروں پر موت رقصاں ہے اوپر سے امداد کہاں جا رہی ہے، کسی کو علم نہیں
وزیر اعظم شہباز شریف نے مقامی اور بین الاقوامی این جی اوز اور معاشرے کے صاحب حیثیت طبقات سمیت پوری قوم سے اپیل کی ہے کہ وہ سیلاب سے متاثرہ بچوں کے لیے خوراک کی فراہمی کے لیے آگے بڑھیں، انھوں نے کہا کہ لاکھوں سیلاب متاثرہ بچوں کی نشوونما کے لیے دودھ اور خوراک کی ضرورت ہے، سیلاب زدگان کے دو ماہ کے گیس اور بجلی کے بل بھی معاف کر دیے گئے ہیں۔
وزیراعظم نے لندن روانگی سے قبل سیلاب کی صورتحال ، ریسکیو ، امدادی کارروائیوں اور بحالی کے جائزہ اجلاس کی صدارت کی۔ دوسری جانب عالمی ادارہ صحت کے سربراہ نے کہا ہے کہ پاکستان میں سیلاب کے بعد پاکستان میں بیماریوں اور اموات کا خطرہ ہے۔
سیلاب اور اس کے بعد اس کی تباہ کاریاں اپنے عروج پر ہیں نہ پیٹ بھر کر کھانے کو مل رہا ہے، نہ دوائیاں نہ پینے کا پانی اور نہ ہی چھت۔ دوسری جانب متاثرہ علاقوں میں پانی جمع ہونے کے باعث ڈنگی، ملیریا اور دیگر امراض سے روزانہ ہزاروں افراد متاثر ہو رہے ہیں۔ یہ سیلاب اپنے ساتھ کئی نئے خدشات کو لے کر آیا ہے۔
وفاقی حکومت تو متاثرین کی بحالی کے لیے ہر ممکن کوشش کررہی ہے، وزیراعظم شہباز شریف سیلاب متاثرہ علاقوں کا مسلسل دورہ کررہے ہیں اور امدادی سرگرمیوں کی بھی نگرانی کررہے ہیں لیکن ہمارے صوبوں کے درمیان روابط کے فقدان اور سیاسی عدم استحکام کے باعث سیلاب زدگان کے لیے ریلیف کے اقدامات زیادہ نظر نہیں آرہے ، یہ وقت سیاست کا نہیں ہے بلکہ متاثرین کی دلجوئی اور مدد کرنے کا ہے، لیکن اہل سیاست کے دل شاید پتھر کے ہوچکے ہیں۔ البتہ پاک فوج ، سماجی ، فلاحی اور دینی تنظیمیں سیلاب متاثرین کی ہر ممکن مدد کرتی نظر آرہی ہیں۔
حالیہ سیلاب سن دو ہزار دس کے سیلاب سے زیادہ تباہ کن ثابت ہوا ہے ، موجودہ سیلاب '' فلیش فلڈ '' کہلاتا ہے کہ مسلسل دو ماہ سے ہونے والے بارشوں کے باعث زمین کے اندر مزید پانی جذب کرنے کی صلاحیت یا گنجائش موجود نہیں رہی۔ یہی وجہ ہے کہ جوں جوں بارشیں ہو رہی ہیں تو پانی سیلابی ریلوں کی شکل اختیار کرتا جاتا ہے۔
اس سے وہ علاقے جو پہاڑیوں کے قریب ہیں جس طرح جنوبی پنجاب، بلوچستان، چترال اور سوات شدید متاثر ہوئے جب کہ سندھ کے بیشتر اضلاع میں سیلابی ریلے نہیں آئے بلکہ بارشوں کا پانی ہی اتنا زیادہ ہے کہ اسے کہیں جانے کا راستہ ہی نہیں مل رہا اور وہ شہروں اور دیہات میں مسلسل جمع ہو رہا ہے جس سے انسانی جانوں کے ضیاع کے ساتھ مکانات جانور اور فصلیں تباہ ہو رہی ہیں۔
این ڈی ایم اے کے مطابق 2010 کا سیلاب اتنا غیر متوقع تھا کہ کسی قسم کی تیاری کا موقع نہیں ملا تھا تاہم بڑے پیمانے پر ریسکیو اور ریلیف سرگرمیاں شروع کرتے ہوئے نقصانات کو کم کرنے کی ایک کوشش ضرور ہوئی تھی۔ بعدازاں لوگوں کو بحالی میں بھی مدد دی گئی، تاہم موجودہ سیلاب کے حوالے سے این ڈی ایم کا دعویٰ ہے کہ صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹیز کے ذریعے تمام متعلقہ اداروں اور حکومتوں کو بروقت آگاہی دی گئی تھی۔
اس کے باوجود بارشیں اتنی زیادہ ہوئی ہیں کہ بعض علاقوں میں سیلابی ریلے اس شدت سے آئے کہ مکانات، مویشیوں اور انسانوں کو بہا کر لے گئے ہیں، بارشوں اور سیلابی ریلوں کے بعد ہر طرف پانی ہی پانی ہے، حد نگاہ تک اجڑی اور ڈوبی زمینیں، جانور، گھر مکان اور انسان سب بہا کر ساتھ لیے جا رہا ہے انسانی زندگی کی بے توقیری ہو رہی ہے۔
نرگسیت کے مارے لوگ ڈوبتے انسانوں اور انسانیت بھول کر جلسہ پہ جلسہ سجائے جا رہے ہیں۔ مقام افسوس یہ ہے کہ اس دکھ کے موسم میں وہ ان مصیبت کے ماروں کے لیے چندہ بھی نہیں مانگنا چاہتے۔ تحریک انصاف کی خیبر پختونخوا میں دس سالہ حکومت کے دوران یہ دوسرا سیلاب ہے یہ لوگ کہتے تھے کہ کالا باغ ڈیم بنے گا تو نوشہرہ ڈوب جائے گا۔ نوشہرہ پرویز خٹک کا حلقہ ہے۔
سوات وزیراعلیٰ محمود خان اور مراد سعید کا حلقہ انتخاب ہے تونسہ شریف عثمان بزدار کا علاقہ، جس کے لیے اربوں نہیں کھربوں کے فنڈز جاری ہوئے۔ وہ کہاں استعمال ہوئے کچھ خبر نہیں، سوات برباد ہوگیا۔ کوئی محمود خان، مراد سعید کہیں نظر نہیں آیا، جنوبی پنجاب میں تباہی آگئی۔ کوئی مخدوم خسرو، بختیار کہیں نظر نہیں آ رہا۔ دکھی کر دینے والی اطلاع تو یہ بھی ہے کہ پنجاب حکومت نے متاثرین سیلاب کو جو چیک تقسیم کیے تھے وہ کیش نہیں ہورہے۔ ڈیرہ غازی خان، راجن پور، رحیم یار خان، کھنڈر میں تبدیل ہورہے ہیں۔ اب لیہ، بھکر، مظفر گڑھ، کوٹ ادو میں تباہی شروع ہے۔
چناب اور جہلم میں بھی سیلاب کے خطرات ہیں۔ گجرات، گجرانوالہ، حافظ آباد، منڈی بہاؤالدین، پنڈ دادنخان، خوشاب، حافظ آباد، چنیوٹ ،جھنگ ، شورکوٹ ، اٹھارہ ہزاری، شدید خطرات میں گھر گئے ہیں ، جب نیا سیلابی ریلا آگے بڑھے گا اور سندھ، چناب، جہلم اکٹھے ہونگے تو پھر سے جنوبی پنجاب اور سندھ، سکھر میں حیدر آباد ٹھٹہ تک تباہی کا نیا سلسلہ شروع ہوگا۔ بلوچستان میں کئی ڈیم سیلاب میں بہہ گئے۔
متاثرین سیلاب کی تعداد ساڑھے 3 کروڑ سے تجاوز کر چکی۔ دور دراز کے دشوار گزار علاقوں میں متاثرین کے پاس ابھی تک امداد نہیں پہنچ پائی۔ بعض علاقوں سے غیر مستحق لوگوں کے حقیقی حقداروں کا حق کھانے کے لیے سرگرم ہونے کی اطلاعات بھی ہیں۔
سندھ اور پنجاب کے درمیان ٹرینوں کی آمدورفت ابھی تک معطل ہے کچھ علاقوں سے بخار اور پیٹ درد کے مریضوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کی تشویشناک اطلاعات ہیں، امداد کو ترسے متاثرین کی اکثریت کی حالت دن بدن خراب ہوتی جارہی ہے۔ اپنی مدد آپ کے تحت لوگ امداد اکٹھی کر رہے ہیں۔ ہمیشہ کی طرح مصیبت میں مبتلا دیکھ کر عوام کو مہنگائی کا ایک نیا طوفان اٹھا دیا گیا۔
سبزیوں کی قیمتیں آسمان کو چھونے لگی ہیں۔ دکانداروں کا کہنا ہے کہ سیلاب سے راستے بند ہیں۔ ضرورت اور فراہمی میں عدم توازن کی وجہ سے قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے، اس صورتحال سے روزمرہ ضرورت کی اشیاء کا آن لائن کاروبار کرنے والے بھی یقیناً فائدہ اٹھا رہے ہوں گے۔ تاجروں کا موقف ہے کہ اگر ڈیمانڈ اور سپلائی میں عدم توازن دور کرنے کے لیے حکومت نے فوری اقدامات نہ کیے تو مزید مہنگائی ہوگی۔ ابھی ہمیں سیلاب کی تباہ کاریوں کا سامنا ہے۔
اس کے بعد ہمیں پتا لگے گا کہ ملک سے اناج ختم ہو گیا ہے ، ایک روپے کی چیز دو سو روپے میں بھی دستیاب نہیں ہے۔اس کے بعد ہمیں بتایا جائے گا کہ زمینیں بنجر ہو چکی ہیں۔ سیلابی پانی کی تباہ کاریوں نے زمین برباد کردی ہے۔ گھروں، عمارتوں کا ملبہ زمینوں میں مل چکا ہے۔
کہانی ابھی ختم نہیں ہوئی، پھر ایک بری خبر یہ ملے گی کہ جانور خصوصاً گائے بھینس، بکرے، مرغیاں وغیرہ پہلے ایک مخصوص بیماری سے مر گئے، جو بچے تھے وہ سیلاب میں بہہ گئے۔ گوشت ، دودھ ، مکھن، پنیر وغیرہ کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافہ متوقع ہے ، سیلابی علاقوں میں بجلی کا نظام ، کھمبے سب تباہ ہو چکے ہیں۔ حالات زیادہ سنگین ہوئے تو ہمیں پتا لگے گا کہ بہت سے لوگ اپنے گھر اور رقبے کی حدود کی نشاندہی نہیں کر پا رہے، پٹوار خانے کا مینول ریکارڈ کہیں نہیں ہے۔ مقامی دفاتر کا تمام ریکارڈ ، ہر قسم کا ترقیاتی کام، بقایا پیمنٹس کا ریکارڈ، لاکھوں کے چیک بھی سیلاب برد ہو چکے ہوں گے۔
پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق پاک فوج کے جوان سیلاب متاثرین کی مدد میں پیش پیش ہیں۔ سیلاب زدگان کو راشن ، ادویات، ٹینٹس، مچھر دانیوں کی فراہمی جاری ہے۔ اب تک آرمی ایوی ایشن کے ہیلی کاپٹرز نے546 پروازوں کے ذریعے 4648 افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا۔ پاک بحریہ اور فضائیہ بھی متاثرین کی خدمت میں دن رات مصروف ہیں۔
فلسطین کی ریپڈ ریسپانس اور ریسکیو ٹیم امدادی مشن کے لیے پاکستان پہنچ گیا۔ ترکیہ سے تیسری مال بردار ٹرین سیلاب متاثرین کے لیے امدادی سامان لے کر تفتان پہنچ گئی۔ امریکی رکن کانگریس شیلا جیکسن نے ایوان نمایندگان میں پاکستان میں سیلاب کی تباہی کی تصاویر دکھاتے ہوئے مدد کی اپیل کردی ہے۔
ملک میں وسیع پیمانے پر جانی و مالی تباہی ہوئی ہے، لوگوں کے چہروں پر موت رقصاں ہے اوپر سے امداد کہاں جا رہی ہے، کسی کو علم نہیں۔ امدادی رضاکاروں ، میڈیا نمایندوں کے مطابق ایک خطرناک صورت حال جنم لے رہی ہے جو لوٹ مار، گوداموں پر قبضے، وڈیروں کے محلات و اوطاقوں پر حملوں اور اسپتالوں سے دوائیاں ہی لوٹنے کے ہی نہیں بلکہ ان کے بیڈز وغیرہ بھی اٹھا کر لے جانے کے واقعات ہونے کے امکانات زیادہ ہیں۔
ایسی صورت حال جہاں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے لیے خطرناک ہو سکتی ہے، وہیں سیاسی کارکنوں، این جی اوز میں کام کرنے والوں اور پوری سول سوسائٹی کے لیے بھی پریشان کن ہو گا جب سیلاب زدگان اٹھ کر اناج کے گوداموں اور بڑے بڑے ذخیروں کو لوٹیں گے، ڈیروں پر حملے کر کے تجوریاں توڑیں گے، راستوں سے فراٹے بھرتی کاریں و گاڑیاں جب چھینی جائیں گی۔
ہوٹلوں اور ریسٹورنٹ سے کھانے و پینے کی تمام اشیا اس طرح چٹ کردی جائیں گی جیسے چیونٹیاں حملہ آور ہوتی ہیں۔ اس ممکنہ صورتحال سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں ایک مربوط اور منظم میکنزم بنائیں تاکہ سیلاب زدگان کو امدادی اشیا پہنچ سکیں، سیلاب متاثرین کی بحالی کے لیے پوری قوم کو یکسو ہونا پڑے گا یہی وقت کی ضرورت ہے۔
وزیراعظم نے لندن روانگی سے قبل سیلاب کی صورتحال ، ریسکیو ، امدادی کارروائیوں اور بحالی کے جائزہ اجلاس کی صدارت کی۔ دوسری جانب عالمی ادارہ صحت کے سربراہ نے کہا ہے کہ پاکستان میں سیلاب کے بعد پاکستان میں بیماریوں اور اموات کا خطرہ ہے۔
سیلاب اور اس کے بعد اس کی تباہ کاریاں اپنے عروج پر ہیں نہ پیٹ بھر کر کھانے کو مل رہا ہے، نہ دوائیاں نہ پینے کا پانی اور نہ ہی چھت۔ دوسری جانب متاثرہ علاقوں میں پانی جمع ہونے کے باعث ڈنگی، ملیریا اور دیگر امراض سے روزانہ ہزاروں افراد متاثر ہو رہے ہیں۔ یہ سیلاب اپنے ساتھ کئی نئے خدشات کو لے کر آیا ہے۔
وفاقی حکومت تو متاثرین کی بحالی کے لیے ہر ممکن کوشش کررہی ہے، وزیراعظم شہباز شریف سیلاب متاثرہ علاقوں کا مسلسل دورہ کررہے ہیں اور امدادی سرگرمیوں کی بھی نگرانی کررہے ہیں لیکن ہمارے صوبوں کے درمیان روابط کے فقدان اور سیاسی عدم استحکام کے باعث سیلاب زدگان کے لیے ریلیف کے اقدامات زیادہ نظر نہیں آرہے ، یہ وقت سیاست کا نہیں ہے بلکہ متاثرین کی دلجوئی اور مدد کرنے کا ہے، لیکن اہل سیاست کے دل شاید پتھر کے ہوچکے ہیں۔ البتہ پاک فوج ، سماجی ، فلاحی اور دینی تنظیمیں سیلاب متاثرین کی ہر ممکن مدد کرتی نظر آرہی ہیں۔
حالیہ سیلاب سن دو ہزار دس کے سیلاب سے زیادہ تباہ کن ثابت ہوا ہے ، موجودہ سیلاب '' فلیش فلڈ '' کہلاتا ہے کہ مسلسل دو ماہ سے ہونے والے بارشوں کے باعث زمین کے اندر مزید پانی جذب کرنے کی صلاحیت یا گنجائش موجود نہیں رہی۔ یہی وجہ ہے کہ جوں جوں بارشیں ہو رہی ہیں تو پانی سیلابی ریلوں کی شکل اختیار کرتا جاتا ہے۔
اس سے وہ علاقے جو پہاڑیوں کے قریب ہیں جس طرح جنوبی پنجاب، بلوچستان، چترال اور سوات شدید متاثر ہوئے جب کہ سندھ کے بیشتر اضلاع میں سیلابی ریلے نہیں آئے بلکہ بارشوں کا پانی ہی اتنا زیادہ ہے کہ اسے کہیں جانے کا راستہ ہی نہیں مل رہا اور وہ شہروں اور دیہات میں مسلسل جمع ہو رہا ہے جس سے انسانی جانوں کے ضیاع کے ساتھ مکانات جانور اور فصلیں تباہ ہو رہی ہیں۔
این ڈی ایم اے کے مطابق 2010 کا سیلاب اتنا غیر متوقع تھا کہ کسی قسم کی تیاری کا موقع نہیں ملا تھا تاہم بڑے پیمانے پر ریسکیو اور ریلیف سرگرمیاں شروع کرتے ہوئے نقصانات کو کم کرنے کی ایک کوشش ضرور ہوئی تھی۔ بعدازاں لوگوں کو بحالی میں بھی مدد دی گئی، تاہم موجودہ سیلاب کے حوالے سے این ڈی ایم کا دعویٰ ہے کہ صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹیز کے ذریعے تمام متعلقہ اداروں اور حکومتوں کو بروقت آگاہی دی گئی تھی۔
اس کے باوجود بارشیں اتنی زیادہ ہوئی ہیں کہ بعض علاقوں میں سیلابی ریلے اس شدت سے آئے کہ مکانات، مویشیوں اور انسانوں کو بہا کر لے گئے ہیں، بارشوں اور سیلابی ریلوں کے بعد ہر طرف پانی ہی پانی ہے، حد نگاہ تک اجڑی اور ڈوبی زمینیں، جانور، گھر مکان اور انسان سب بہا کر ساتھ لیے جا رہا ہے انسانی زندگی کی بے توقیری ہو رہی ہے۔
نرگسیت کے مارے لوگ ڈوبتے انسانوں اور انسانیت بھول کر جلسہ پہ جلسہ سجائے جا رہے ہیں۔ مقام افسوس یہ ہے کہ اس دکھ کے موسم میں وہ ان مصیبت کے ماروں کے لیے چندہ بھی نہیں مانگنا چاہتے۔ تحریک انصاف کی خیبر پختونخوا میں دس سالہ حکومت کے دوران یہ دوسرا سیلاب ہے یہ لوگ کہتے تھے کہ کالا باغ ڈیم بنے گا تو نوشہرہ ڈوب جائے گا۔ نوشہرہ پرویز خٹک کا حلقہ ہے۔
سوات وزیراعلیٰ محمود خان اور مراد سعید کا حلقہ انتخاب ہے تونسہ شریف عثمان بزدار کا علاقہ، جس کے لیے اربوں نہیں کھربوں کے فنڈز جاری ہوئے۔ وہ کہاں استعمال ہوئے کچھ خبر نہیں، سوات برباد ہوگیا۔ کوئی محمود خان، مراد سعید کہیں نظر نہیں آیا، جنوبی پنجاب میں تباہی آگئی۔ کوئی مخدوم خسرو، بختیار کہیں نظر نہیں آ رہا۔ دکھی کر دینے والی اطلاع تو یہ بھی ہے کہ پنجاب حکومت نے متاثرین سیلاب کو جو چیک تقسیم کیے تھے وہ کیش نہیں ہورہے۔ ڈیرہ غازی خان، راجن پور، رحیم یار خان، کھنڈر میں تبدیل ہورہے ہیں۔ اب لیہ، بھکر، مظفر گڑھ، کوٹ ادو میں تباہی شروع ہے۔
چناب اور جہلم میں بھی سیلاب کے خطرات ہیں۔ گجرات، گجرانوالہ، حافظ آباد، منڈی بہاؤالدین، پنڈ دادنخان، خوشاب، حافظ آباد، چنیوٹ ،جھنگ ، شورکوٹ ، اٹھارہ ہزاری، شدید خطرات میں گھر گئے ہیں ، جب نیا سیلابی ریلا آگے بڑھے گا اور سندھ، چناب، جہلم اکٹھے ہونگے تو پھر سے جنوبی پنجاب اور سندھ، سکھر میں حیدر آباد ٹھٹہ تک تباہی کا نیا سلسلہ شروع ہوگا۔ بلوچستان میں کئی ڈیم سیلاب میں بہہ گئے۔
متاثرین سیلاب کی تعداد ساڑھے 3 کروڑ سے تجاوز کر چکی۔ دور دراز کے دشوار گزار علاقوں میں متاثرین کے پاس ابھی تک امداد نہیں پہنچ پائی۔ بعض علاقوں سے غیر مستحق لوگوں کے حقیقی حقداروں کا حق کھانے کے لیے سرگرم ہونے کی اطلاعات بھی ہیں۔
سندھ اور پنجاب کے درمیان ٹرینوں کی آمدورفت ابھی تک معطل ہے کچھ علاقوں سے بخار اور پیٹ درد کے مریضوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کی تشویشناک اطلاعات ہیں، امداد کو ترسے متاثرین کی اکثریت کی حالت دن بدن خراب ہوتی جارہی ہے۔ اپنی مدد آپ کے تحت لوگ امداد اکٹھی کر رہے ہیں۔ ہمیشہ کی طرح مصیبت میں مبتلا دیکھ کر عوام کو مہنگائی کا ایک نیا طوفان اٹھا دیا گیا۔
سبزیوں کی قیمتیں آسمان کو چھونے لگی ہیں۔ دکانداروں کا کہنا ہے کہ سیلاب سے راستے بند ہیں۔ ضرورت اور فراہمی میں عدم توازن کی وجہ سے قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے، اس صورتحال سے روزمرہ ضرورت کی اشیاء کا آن لائن کاروبار کرنے والے بھی یقیناً فائدہ اٹھا رہے ہوں گے۔ تاجروں کا موقف ہے کہ اگر ڈیمانڈ اور سپلائی میں عدم توازن دور کرنے کے لیے حکومت نے فوری اقدامات نہ کیے تو مزید مہنگائی ہوگی۔ ابھی ہمیں سیلاب کی تباہ کاریوں کا سامنا ہے۔
اس کے بعد ہمیں پتا لگے گا کہ ملک سے اناج ختم ہو گیا ہے ، ایک روپے کی چیز دو سو روپے میں بھی دستیاب نہیں ہے۔اس کے بعد ہمیں بتایا جائے گا کہ زمینیں بنجر ہو چکی ہیں۔ سیلابی پانی کی تباہ کاریوں نے زمین برباد کردی ہے۔ گھروں، عمارتوں کا ملبہ زمینوں میں مل چکا ہے۔
کہانی ابھی ختم نہیں ہوئی، پھر ایک بری خبر یہ ملے گی کہ جانور خصوصاً گائے بھینس، بکرے، مرغیاں وغیرہ پہلے ایک مخصوص بیماری سے مر گئے، جو بچے تھے وہ سیلاب میں بہہ گئے۔ گوشت ، دودھ ، مکھن، پنیر وغیرہ کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافہ متوقع ہے ، سیلابی علاقوں میں بجلی کا نظام ، کھمبے سب تباہ ہو چکے ہیں۔ حالات زیادہ سنگین ہوئے تو ہمیں پتا لگے گا کہ بہت سے لوگ اپنے گھر اور رقبے کی حدود کی نشاندہی نہیں کر پا رہے، پٹوار خانے کا مینول ریکارڈ کہیں نہیں ہے۔ مقامی دفاتر کا تمام ریکارڈ ، ہر قسم کا ترقیاتی کام، بقایا پیمنٹس کا ریکارڈ، لاکھوں کے چیک بھی سیلاب برد ہو چکے ہوں گے۔
پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق پاک فوج کے جوان سیلاب متاثرین کی مدد میں پیش پیش ہیں۔ سیلاب زدگان کو راشن ، ادویات، ٹینٹس، مچھر دانیوں کی فراہمی جاری ہے۔ اب تک آرمی ایوی ایشن کے ہیلی کاپٹرز نے546 پروازوں کے ذریعے 4648 افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا۔ پاک بحریہ اور فضائیہ بھی متاثرین کی خدمت میں دن رات مصروف ہیں۔
فلسطین کی ریپڈ ریسپانس اور ریسکیو ٹیم امدادی مشن کے لیے پاکستان پہنچ گیا۔ ترکیہ سے تیسری مال بردار ٹرین سیلاب متاثرین کے لیے امدادی سامان لے کر تفتان پہنچ گئی۔ امریکی رکن کانگریس شیلا جیکسن نے ایوان نمایندگان میں پاکستان میں سیلاب کی تباہی کی تصاویر دکھاتے ہوئے مدد کی اپیل کردی ہے۔
ملک میں وسیع پیمانے پر جانی و مالی تباہی ہوئی ہے، لوگوں کے چہروں پر موت رقصاں ہے اوپر سے امداد کہاں جا رہی ہے، کسی کو علم نہیں۔ امدادی رضاکاروں ، میڈیا نمایندوں کے مطابق ایک خطرناک صورت حال جنم لے رہی ہے جو لوٹ مار، گوداموں پر قبضے، وڈیروں کے محلات و اوطاقوں پر حملوں اور اسپتالوں سے دوائیاں ہی لوٹنے کے ہی نہیں بلکہ ان کے بیڈز وغیرہ بھی اٹھا کر لے جانے کے واقعات ہونے کے امکانات زیادہ ہیں۔
ایسی صورت حال جہاں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے لیے خطرناک ہو سکتی ہے، وہیں سیاسی کارکنوں، این جی اوز میں کام کرنے والوں اور پوری سول سوسائٹی کے لیے بھی پریشان کن ہو گا جب سیلاب زدگان اٹھ کر اناج کے گوداموں اور بڑے بڑے ذخیروں کو لوٹیں گے، ڈیروں پر حملے کر کے تجوریاں توڑیں گے، راستوں سے فراٹے بھرتی کاریں و گاڑیاں جب چھینی جائیں گی۔
ہوٹلوں اور ریسٹورنٹ سے کھانے و پینے کی تمام اشیا اس طرح چٹ کردی جائیں گی جیسے چیونٹیاں حملہ آور ہوتی ہیں۔ اس ممکنہ صورتحال سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں ایک مربوط اور منظم میکنزم بنائیں تاکہ سیلاب زدگان کو امدادی اشیا پہنچ سکیں، سیلاب متاثرین کی بحالی کے لیے پوری قوم کو یکسو ہونا پڑے گا یہی وقت کی ضرورت ہے۔