چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی
فکر تو ہمیں اپنے بچوں کی ہوتی ہے جنھیں اس ملک اور اس ماحول میں ساری زندگی گذارنی ہو
یہ سیاست اور اقتدار کا نشہ بھی ایسی لت ہے کہ جس کو لگ جائے مرتے دم تک چھٹتی نہیں ہے، جو کوئی بھی اس کا عادی ہوا وہ شاید ہی کبھی چین سے بیٹھا ہو۔ دنیا کو چھوڑیے خود ہمارے یہاں ہی دیکھ لیجیے۔ خان صاحب کو کرکٹ سے ریٹائرڈ ہوئے ، پچیس تیس سال ہوچکے جو نام انھوں نے کرکٹ کے میدان میں بنایا تھا ، اُسے مزید کیش کروانے کے لیے انھوں نے سیاست کے میدان کا انتخاب کیا۔
1996سے لے کر 2011 تک وہ در در کی ٹھوکریں کھاتے رہے لیکن اس ملک کے عوام نے انھیں کبھی بھی دو نشستوں سے زیادہ پذیرائی نہیں بخشی۔ پرسنلٹی کا جادو اگر اتنا ہی اہم ہوتا تو وہ تو اس وقت مزید جوان اور ہینڈسم تھے، بے شمار لوگوں کو متاثر کرسکتے تھے۔
صاف اور شفاف کردار کے حامل افراد کو ساتھ ملا کر اقتدار حاصل کرنے کا اُن کا آئیڈیا 2010 تک بری طرح ناکام ہوگیا ، لیکن پھر جب انھوں نے کسی غیبی مدد کے ساتھ اس ملک کے روایتی چہروں کو اپنے ساتھ ملانا شروع کیا تو دیکھتے ہی دیکھتے سارا منظر نامہ ہی تبدیل ہوگیا۔ گلیوں اور چوراہوں پر بمشکل چھوٹی چھوٹی کارنر میٹنگز کرنے والے عمران خان اب اچانک بڑے بڑے جلسے کرنے لگے۔ دوسری مقبول سیاسی پارٹیوں سے وہ تمام افراد تحریک انصاف میں شامل ہونے لگے جنھیں اپنی پرانی پارٹی نے سائیڈ لائن کر دیا تھا۔
صاف اور شفاف کردار اور سیرت کا انتخاب اور سنہری اصول اب پس پشت ڈال دیا گیا اور اس کی جگہ مشہور و معروف الیکٹیبلز کے چناؤ کا ایک نیا اُصول متعارف کروایا گیا، جو اپنے اثر و رسوخ سے جتنی تعداد میں ووٹ حاصل کر لے چاہے وہ کتنا ہی کرپٹ ہو پارٹی کے لیے مفید سمجھا اور جانا گیا۔ کرپٹ مافیا کے خلاف جدوجہد کا نعرہ صرف عوام کو الو بنانے والی جذباتی تقریروں کے لیے محفوظ اور مختص کر لیا گیا۔ پارٹی کا حلیہ بدلنے کے بالآخر ثمرات 2018 میں اس وقت سامنے آہی گئے جب تمام قوتوں کی مدد سے اسلام آباد میں حکمرانی کا تاج خان صاحب کے سر سجا دیا گیا۔
الیکشن سے پہلے ہی اُن کے سب سے بڑے اور مضبوط حریف کو مائنس کرکے جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا گیا۔ کرکٹ میں نیوٹرل امپائر لانے کا کریڈٹ لینے والے نے سیاست میں امپائروں کی مدد سے اپنے خلاف سب سے بڑے خطرے کو ٹیکینکل بنیاد پرکھیل ہی سے آؤٹ کرکے مقابلہ جیت لیا۔ چار سال تک ایک پیج پر ہونے کا دم بھرنے والا جب آئینی اور جمہوری طریقہ سے ووٹ آف نوکانفیڈنس کے ذریعے نکالا گیا تو اس نے امپائروں کے نیوٹرل ہوجانے کو اپنے خلاف ایک سازش قرار دیا۔
وہ دن ہے اور آج کا دن خان صاحب ایک روز کے لیے بھی چین سے نہیں بیٹھے۔ اُن کا بس چلے تو روزانہ کی بنیاد پر ایک جلسہ کرنے کے بجائے وہ صبح و شام دو جلسے کیا کریں۔ ملک میں سیلاب ہو یا کوئی اور قدرتی آفت خان صاحب جلسے کرنے اور تقریریں کرنے سے باز نہیں آ رہے۔ ایک آدھ دن کے لیے وہ کہیں کوئی جلسہ نہ کرسکیں تو ٹی وی پر خطاب کر کے اپنی بھڑاس نکال ہی لیتے ہیں۔
اُن کے پاس اب کہنے کو کوئی نیا مواد باقی نہیں رہا تو پرانی ہی کیسٹ چلا کر اپنے آپ کو مطمئن کرلیتے ہیں۔ 25 مئی سے وہ مسلسل قوم کو کال دینے کی باتیں تو ضرور کرتے ہیں لیکن کال دینے کی ہمت نہیں کرتے۔ پتا نہیں انھیں کس چیز نے ایسا کرنے سے روکے رکھا ہے حالانکہ اُن کے پاس تو اب پنجاب صوبے کی حکومت آچکی ہے۔ اسلام آباد کی طرف مارچ کرنا اب کوئی مشکل کام تو نہیں ہے۔ لگتا ہے وہ نومبر کے مہینے میں ہونے والی اہم تعیناتی کا انتظار کر رہے ہیں۔
دنیا بھر میں آرمی چیف بدلا کرتے ہیں لیکن شاید ہی کہیں کوئی ایسا مسئلہ بنا ہو جیسے ہمارے یہاں بنا دیا گیا ہے۔ آج سے پہلے بھی مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی نے نئے آرمی چیف کے تقرر کیے ہیں لیکن کبھی ایسا مسئلہ نہیں بنا ، جیسے اب اسے اس ملک کا سب سے اہم مسئلہ سمجھ لیا گیا ہے۔
ہاں تو بات ہورہی تھی سیاست اور اقتدار کے نشہ کی۔ کرکٹ سے ریٹائر ہونا ممکن ہے لیکن سیاست سے ریٹائر ہونا ناممکن ہے۔ ہمارے یہاں بہت ہی کم سیاست دان ایسے گذرے ہیں جنھوں نے وقت سے پہلے سیاست سے کنارہ کشی اختیار کر لی ، ورنہ سبھی نے مرتے دم تک اسے نہیں چھوڑا۔ کہتے ہیں سیاست میں ریٹائرمنٹ کی کوئی عمر نہیں ہوتی ، جب تک سانس چل رہی ہے سیاست ہوتی رہے گی۔
خان صاحب کے ساتھ بھی یہی مسئلہ ہے۔ اقتدار ملنے سے پہلے وہ کبھی کبھار اپنے بچوں سے ملنے انگلینڈ چلے جایا کرتے تھے لیکن جب سے انھیں 2018 میں اقتدار کا نشہ لگا ہے وہ ایسے مسرور اور سرشار ہوئے ہیں کہ پلٹ کر کبھی بھی بچوں کو یاد ہی نہیں کرتے۔ ویسے اُن کے بچے بھی پرتعیش زندگی گزار رہے ہیں شاید اسی لیے انھیں کوئی فکر اور تشویش بھی لاحق نہیں ہے۔
فکر تو ہمیں اپنے بچوں کی ہوتی ہے جنھیں اس ملک اور اس ماحول میں ساری زندگی گذارنی ہو ، جب سیاستدانوں کے بچے مغربی ملکوں کی راحتوں اور آسائشوں میں پل بڑھ رہے ہوں انھیں بھلا اُن کی فکر کرنے کی ضرورت اور حاجت ہی کیوں لاحق ہو۔ خان صاحب کو تو ایک دن کے لیے بھی اُن مسائل کا سامنا نہ ہوا جن سے ہم اور آپ ہر روز گذرتے ہیں۔ اُن کے پاس اب کرنے کو صرف ایک ہی کام رہ گیا ہے۔ جلسے کرنا یا تقریریں کرنا۔ وزیراعظم کی حیثیت میں وہ دیگر حکومتی امور کی وجہ سے یہ کام بطریقہ احسن سرانجام نہیں دے پا رہے تھے لیکن جب سے اقتدار سے فارغ ہوئے ہیں وہ صرف یہی ایک کام سرانجام دے رہے ہیں۔
انھیں سیلاب اور اس کی تباہ کاریوں سے کوئی مطلب نہیں۔ وہ ہر وقت صرف سیاست چمکانے کی فکر میں سرگرداں دکھائی دیتے ہیں۔ انھیں پتا ہے کہ وہ اگر کچھ دنوں کے لیے منظر نامہ سے غائب ہوجائیں تو اس ملک کے عوام بھی انھیں بھلانا شروع کردیں گے۔2011 سے وہ صرف یہی ایک کام تمام سیاستدانوں کی نسبت بڑی جانفشانی سے کرتے آئے ہیں۔ ڈی چوک کے دھرنے میں بھی ہر روز وہ ایک تقریر کرکے سکون سے بنی گالا جا کر سو جایا کرتے تھے ، بلکہ ایک دو بار تو یہ اعتراف بھی کر بیٹھے تھے کہ میں تو نیند میں بھی تقریریں کیا کرتا ہوں۔
اُن کی سابقہ زوجہ محترمہ ریحام خان بھی اُن کی اس عادت سے پریشان ہو جایا کرتی تھیں۔ الحمد للہ اب وہ اور بھی منجھ چکے ہیں۔ شارٹ نوٹس پر جلسہ منعقد کرکے ایک گھنٹے کی تقریر کرنا اُن کے لیے کوئی مشکل کام نہیں رہا ، وہ تقریروں کے بادشاہ ہیں۔ اُن کے مقابلے میں اُن کا کوئی حریف بھی ایسی خصلتوں کا مالک نہیں ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ وہ مجمع لگا کر عوام الناس کو جب چاہیں اپنے خطاب کے سحر میں گرفتار کرسکتے ہیں۔ اُن کا یہ جادو ابھی تک کامیابی سے سر چڑھ کر بول رہا ہے ، مگر دیکھتے ہیں کب تک وہ اس سحر کو قائم و دائم رکھ پاتے ہیں۔ آنے والے حالات کس کروٹ بدلتے ہیں کسی کو پتا نہیں۔
1996سے لے کر 2011 تک وہ در در کی ٹھوکریں کھاتے رہے لیکن اس ملک کے عوام نے انھیں کبھی بھی دو نشستوں سے زیادہ پذیرائی نہیں بخشی۔ پرسنلٹی کا جادو اگر اتنا ہی اہم ہوتا تو وہ تو اس وقت مزید جوان اور ہینڈسم تھے، بے شمار لوگوں کو متاثر کرسکتے تھے۔
صاف اور شفاف کردار کے حامل افراد کو ساتھ ملا کر اقتدار حاصل کرنے کا اُن کا آئیڈیا 2010 تک بری طرح ناکام ہوگیا ، لیکن پھر جب انھوں نے کسی غیبی مدد کے ساتھ اس ملک کے روایتی چہروں کو اپنے ساتھ ملانا شروع کیا تو دیکھتے ہی دیکھتے سارا منظر نامہ ہی تبدیل ہوگیا۔ گلیوں اور چوراہوں پر بمشکل چھوٹی چھوٹی کارنر میٹنگز کرنے والے عمران خان اب اچانک بڑے بڑے جلسے کرنے لگے۔ دوسری مقبول سیاسی پارٹیوں سے وہ تمام افراد تحریک انصاف میں شامل ہونے لگے جنھیں اپنی پرانی پارٹی نے سائیڈ لائن کر دیا تھا۔
صاف اور شفاف کردار اور سیرت کا انتخاب اور سنہری اصول اب پس پشت ڈال دیا گیا اور اس کی جگہ مشہور و معروف الیکٹیبلز کے چناؤ کا ایک نیا اُصول متعارف کروایا گیا، جو اپنے اثر و رسوخ سے جتنی تعداد میں ووٹ حاصل کر لے چاہے وہ کتنا ہی کرپٹ ہو پارٹی کے لیے مفید سمجھا اور جانا گیا۔ کرپٹ مافیا کے خلاف جدوجہد کا نعرہ صرف عوام کو الو بنانے والی جذباتی تقریروں کے لیے محفوظ اور مختص کر لیا گیا۔ پارٹی کا حلیہ بدلنے کے بالآخر ثمرات 2018 میں اس وقت سامنے آہی گئے جب تمام قوتوں کی مدد سے اسلام آباد میں حکمرانی کا تاج خان صاحب کے سر سجا دیا گیا۔
الیکشن سے پہلے ہی اُن کے سب سے بڑے اور مضبوط حریف کو مائنس کرکے جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا گیا۔ کرکٹ میں نیوٹرل امپائر لانے کا کریڈٹ لینے والے نے سیاست میں امپائروں کی مدد سے اپنے خلاف سب سے بڑے خطرے کو ٹیکینکل بنیاد پرکھیل ہی سے آؤٹ کرکے مقابلہ جیت لیا۔ چار سال تک ایک پیج پر ہونے کا دم بھرنے والا جب آئینی اور جمہوری طریقہ سے ووٹ آف نوکانفیڈنس کے ذریعے نکالا گیا تو اس نے امپائروں کے نیوٹرل ہوجانے کو اپنے خلاف ایک سازش قرار دیا۔
وہ دن ہے اور آج کا دن خان صاحب ایک روز کے لیے بھی چین سے نہیں بیٹھے۔ اُن کا بس چلے تو روزانہ کی بنیاد پر ایک جلسہ کرنے کے بجائے وہ صبح و شام دو جلسے کیا کریں۔ ملک میں سیلاب ہو یا کوئی اور قدرتی آفت خان صاحب جلسے کرنے اور تقریریں کرنے سے باز نہیں آ رہے۔ ایک آدھ دن کے لیے وہ کہیں کوئی جلسہ نہ کرسکیں تو ٹی وی پر خطاب کر کے اپنی بھڑاس نکال ہی لیتے ہیں۔
اُن کے پاس اب کہنے کو کوئی نیا مواد باقی نہیں رہا تو پرانی ہی کیسٹ چلا کر اپنے آپ کو مطمئن کرلیتے ہیں۔ 25 مئی سے وہ مسلسل قوم کو کال دینے کی باتیں تو ضرور کرتے ہیں لیکن کال دینے کی ہمت نہیں کرتے۔ پتا نہیں انھیں کس چیز نے ایسا کرنے سے روکے رکھا ہے حالانکہ اُن کے پاس تو اب پنجاب صوبے کی حکومت آچکی ہے۔ اسلام آباد کی طرف مارچ کرنا اب کوئی مشکل کام تو نہیں ہے۔ لگتا ہے وہ نومبر کے مہینے میں ہونے والی اہم تعیناتی کا انتظار کر رہے ہیں۔
دنیا بھر میں آرمی چیف بدلا کرتے ہیں لیکن شاید ہی کہیں کوئی ایسا مسئلہ بنا ہو جیسے ہمارے یہاں بنا دیا گیا ہے۔ آج سے پہلے بھی مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی نے نئے آرمی چیف کے تقرر کیے ہیں لیکن کبھی ایسا مسئلہ نہیں بنا ، جیسے اب اسے اس ملک کا سب سے اہم مسئلہ سمجھ لیا گیا ہے۔
ہاں تو بات ہورہی تھی سیاست اور اقتدار کے نشہ کی۔ کرکٹ سے ریٹائر ہونا ممکن ہے لیکن سیاست سے ریٹائر ہونا ناممکن ہے۔ ہمارے یہاں بہت ہی کم سیاست دان ایسے گذرے ہیں جنھوں نے وقت سے پہلے سیاست سے کنارہ کشی اختیار کر لی ، ورنہ سبھی نے مرتے دم تک اسے نہیں چھوڑا۔ کہتے ہیں سیاست میں ریٹائرمنٹ کی کوئی عمر نہیں ہوتی ، جب تک سانس چل رہی ہے سیاست ہوتی رہے گی۔
خان صاحب کے ساتھ بھی یہی مسئلہ ہے۔ اقتدار ملنے سے پہلے وہ کبھی کبھار اپنے بچوں سے ملنے انگلینڈ چلے جایا کرتے تھے لیکن جب سے انھیں 2018 میں اقتدار کا نشہ لگا ہے وہ ایسے مسرور اور سرشار ہوئے ہیں کہ پلٹ کر کبھی بھی بچوں کو یاد ہی نہیں کرتے۔ ویسے اُن کے بچے بھی پرتعیش زندگی گزار رہے ہیں شاید اسی لیے انھیں کوئی فکر اور تشویش بھی لاحق نہیں ہے۔
فکر تو ہمیں اپنے بچوں کی ہوتی ہے جنھیں اس ملک اور اس ماحول میں ساری زندگی گذارنی ہو ، جب سیاستدانوں کے بچے مغربی ملکوں کی راحتوں اور آسائشوں میں پل بڑھ رہے ہوں انھیں بھلا اُن کی فکر کرنے کی ضرورت اور حاجت ہی کیوں لاحق ہو۔ خان صاحب کو تو ایک دن کے لیے بھی اُن مسائل کا سامنا نہ ہوا جن سے ہم اور آپ ہر روز گذرتے ہیں۔ اُن کے پاس اب کرنے کو صرف ایک ہی کام رہ گیا ہے۔ جلسے کرنا یا تقریریں کرنا۔ وزیراعظم کی حیثیت میں وہ دیگر حکومتی امور کی وجہ سے یہ کام بطریقہ احسن سرانجام نہیں دے پا رہے تھے لیکن جب سے اقتدار سے فارغ ہوئے ہیں وہ صرف یہی ایک کام سرانجام دے رہے ہیں۔
انھیں سیلاب اور اس کی تباہ کاریوں سے کوئی مطلب نہیں۔ وہ ہر وقت صرف سیاست چمکانے کی فکر میں سرگرداں دکھائی دیتے ہیں۔ انھیں پتا ہے کہ وہ اگر کچھ دنوں کے لیے منظر نامہ سے غائب ہوجائیں تو اس ملک کے عوام بھی انھیں بھلانا شروع کردیں گے۔2011 سے وہ صرف یہی ایک کام تمام سیاستدانوں کی نسبت بڑی جانفشانی سے کرتے آئے ہیں۔ ڈی چوک کے دھرنے میں بھی ہر روز وہ ایک تقریر کرکے سکون سے بنی گالا جا کر سو جایا کرتے تھے ، بلکہ ایک دو بار تو یہ اعتراف بھی کر بیٹھے تھے کہ میں تو نیند میں بھی تقریریں کیا کرتا ہوں۔
اُن کی سابقہ زوجہ محترمہ ریحام خان بھی اُن کی اس عادت سے پریشان ہو جایا کرتی تھیں۔ الحمد للہ اب وہ اور بھی منجھ چکے ہیں۔ شارٹ نوٹس پر جلسہ منعقد کرکے ایک گھنٹے کی تقریر کرنا اُن کے لیے کوئی مشکل کام نہیں رہا ، وہ تقریروں کے بادشاہ ہیں۔ اُن کے مقابلے میں اُن کا کوئی حریف بھی ایسی خصلتوں کا مالک نہیں ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ وہ مجمع لگا کر عوام الناس کو جب چاہیں اپنے خطاب کے سحر میں گرفتار کرسکتے ہیں۔ اُن کا یہ جادو ابھی تک کامیابی سے سر چڑھ کر بول رہا ہے ، مگر دیکھتے ہیں کب تک وہ اس سحر کو قائم و دائم رکھ پاتے ہیں۔ آنے والے حالات کس کروٹ بدلتے ہیں کسی کو پتا نہیں۔