برآمدی اسکیموں پر مسلسل انحصار خطرناک

پاکستان کو سمجھنا ہو گا، ترجیحی رسائی کے لیے تجارتی پالیسیاں کام نہیں کر رہیں

برآمدات بڑھانے، ترقی کی منازل طے کرنے کیلیے پاکستان کو اپنا وژن وسیع کرنا ہو گا (فوٹو : فائل)

یورپی یونین کی 10 سالہ جی ایس پی پلس اسکیم جس کے تحت پاکستانی برآمد کنندگان کو ٹیکسٹائل، کپڑوں اور چمڑے کی اشیا کے لیے ڈیوٹی فری رسائی حاصل ہے، 31 دسمبر 2023 کو ختم ہو رہی ہے اس کے بعد ایک نئی قدرے ترمیم شدہ 10 سال کی اسکیم لاگو ہوگی۔

ترقی یافتہ ممالک سے یکطرفہ ٹیرف میں رعایت کا حصول ہماری تجارتی پالیسی کا بنیادی ستون رہا ہے اس لیے ہماری حکومت اور متعلقہ کاروباری ایسوسی ایشنز اس بات کو یقینی بنانے کے لیے پوری کوشش کر رہی ہیں کہ پاکستان اگلے 10 سالوں میں نئی اسکیم سے مستفید ہو۔

درحقیقت اور کوئی بہتر ڈیوٹی فری مارکیٹ تک رسائی کا متبادل نہ ہونے پر حکومت کے پاس نئی جی ایس پی پلیز اسکیم کا حصہ بننے کے سوا کچھ چارہ نہیں تاہم اگر یورپی یونین اضافی شرائط پر اصرار کرتی ہے جیسے کچھ جرائم میں سزائے موت کو ختم کرنا یا اسے محدود کرنا ،سول سوسائٹی کو زیادہ جگہ دینا، تو اس سے کچھ ملکی حلقوں میں مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔

پاکستان اور فلپائن کے علاوہ جی ایس پی پلیز اسکیم سے مستفید ہونے والے ممالک کی معیشت کا حجم کم اور برآمدات بہت کم ہیں جیسے آرمینیا، بولیویا، کیپ ورے، کرغزستان، منگولیا، پیراگوئے اور ازبکستان۔ پاکستان نے گزشتہ 8سالوں سے جی ایس پی پلس کے بلاتعطل استعمال کا فائدہ اٹھایا ہے۔ اس سے قبل بھی یورپی یونین نے مختلف قلیل مدتی اسکیموں کے تحت صفر ڈیوٹی رسائی کی اجازت دی تھی۔


یہ حقیقت ہے کہ جی ایس پی پلس ایوارڈ کے بعد سے یورپی یونین کو پاکستان کی برآمدات 2013 میں 3.56 بلین یورو سے بڑھ کر 2021 میں 6.64 بلین یورو یا تقریباً 86 فیصد ہوگئیں تاہم اسی طرح کی ترقی (66%) امریکا کو برآمدات میں بھی دیکھی گئی جہاں پاکستان کو ڈیوٹی فری رسائی حاصل نہیں ہے۔لیکن ان دونوں منڈیوں میں اور محدود قسم کی اشیا کی برآمدات میں اضافے کے نتیجے میں پاکستان کی عالمی برآمدات میں کوئی اضافہ نہیں ہوا، جو کہ 2013 میں تقریباً 25 بلین ڈالر تھی اور 2021 میں بھی اسی قدر تھی۔

30 جون 2019 کو دستخط کیے گئے اپنے تازہ ترین ایف ٹی اے کے لحاظ سے یورپی یونین نے جی ایس پی پلس کے تحت ہمیں حاصل کردہ 66% ٹیرف لائنوں کے مقابلے ویتنامی سامان کے تمام ٹیرف کے 99% کو ختم کرنے پر اتفاق کیا ہے۔

پاکستان کو یہ سمجھنا ہوگا کہ GSP قسم کی اسکیموں کے ذریعے صرف ترجیحی رسائی کی تلاش کیلیے موجودہ تجارتی پالیسیاں کام نہیں کر رہی ہیں۔اپنی برآمدات کو بڑھانے اور ترقی کی منازل طے کرنے کے لیے پاکستان کو اپنے وژن کو وسیع کرنا ہوگا جیسا کہ بہت سے خوشحال ممالک نے کیا ،اگر یہ ماضی کی پالیسیوں میں پھنسی رہی تو اس کی مجموعی برآمدات میں اضافہ نہیں ہو سکتا۔

یورپی یونین اور امریکی منڈیوں اور چند مصنوعات پر مسلسل بھاری انحصار خطرناک ہے اگر پاکستان 10 سال بعد جی ایس پی پلس سے آگے نہیں دیکھتا ہے تو پھر وہ خود کو ایک کم آمدنی والا، کمزور ملک میں پائے گا۔
Load Next Story