انوکھا لاڈلا
عمران خان کو یہ زعم ہے کہ بس وہ ہیں تو سب کچھ ہے ورنہ کچھ بھی نہیں، نہ ملک، نہ ادارے اور نہ ہی عدالتیں۔
اپنے ایک آفس کولیگ کو فیملی سمیت گھر دعوت پر مدعو کیا۔ ان کی فیملی میں میاں بیوی اور ایک بہت پیارا بیٹا تھا، جس کی عمر ابھی شاید ایک سال بھی پوری نہ تھی مگر تھا گول مٹول اور سرخ سفید جسے دیکھتے ہی اس پر پیار آتا تھا۔ ابھی ہم اس کی خوبصورتی اور معصومیت پر ہی باتیں کر رہے تھے کہ بچے نے رونا شروع کردیا۔
اس کی امی نے میرے گھر والوں سے کہا کہ آپ تین چار انڈے تو بوائل کردیں، میرے بیٹے نے کھیلنا ہے۔ ہم گھر والے یہ بات سن کر حیرت سے ان کا منہ دیکھنے لگے کہ ان کا بیٹا صرف بوائل انڈوں سے ہی کھیلتا ہے اور جب تک ایسا نہ کیا جائے وہ کسی اور چیز سے بہلتا ہی نہیں۔ لہٰذا جیسے ہی وہ ابلے ہوئے انڈے بچے کے سامنے رکھے گئے وہ تروتازہ ہوگیا اور ایسا لگا جیسے اسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ الغرض وہ انڈوں سے کھیلنے لگا اور ہم بھی اپنی باتوں میں مصروف ہوگئے۔ ان کے جانے کے بعد ہم سب یہ کہنے لگے کہ یہ کیسا لاڈلا ہے جو کھیلنے کےلیے ابلے ہوئے انڈے مانگتا ہے۔
دیارِ غیر میں رہتے ہوئے عرب ملک مصر کے ایک آفس کولیگ کو جب یہ بتایا کہ ہم سارے گھر والے ایک مرغی پکاتے ہیں اور مل کر کھاتے ہیں تو اسے یقین نہ آیا کہ میں نہیں مانتا گھر کے پانچ چھ یا آٹھ افراد صرف ایک مرغی کھاتے ہیں۔ میں نے جب اس سے یہ بات نہ ماننے کی وجہ پوچھی تو کہنے لگا میں یہ بات کیسے مان لوں کیوں کہ میری دس سالہ ایک بچی ہے، وہ ایک مرغی اکیلے ایسے ہڑپ کرجاتی ہے جسے کوئی چھوٹی سی چاکلیٹ ہو۔ اور جب وہ ناراض ہوتی ہے، غصہ کرتی ہے تو ہمارے پاس اس کے علاوہ کوئی دوسرا حل نہیں ہوتا کہ اسے ایک عدد پوری مرغی کا چرغہ پیش کیا جائے۔
میں اس کی باتیں سن کر سوچنے لگا کہ ان کی بچی بھی کتنی انوکھی لاڈلی ہے کہ اپنا غصہ اور ناراضی دور کرنے کےلیے پوری ایک مرغی ہی ہضم کر جاتی ہے اور ڈکار بھی نہیں مارتی۔
یہ واقعات مجھے اپنے انوکھے لاڈلے سابق وزیراعظم عمران خان کے وہ خیالات سن کر یاد آئے جن میں وزیراعظم نہ ہوتے ہوئے بھی خود کو ذہنی طور پر ابھی تک وزیراعظم سمجھے ہوئے ہیں اور ایسے انوکھے خیالات سے اپنے عوام کو محظوظ کرتے رہتے ہیں کہ بندہ سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے یہ کیسا انوکھا لاڈلا ہے جو کھیلنے کو چاند مانگتا ہے۔
اس انوکھے لاڈلے کی ایک تازہ منطق ملاحظہ فرمائیے کہ یہ حکومت نئے چیف آف آرمی اسٹاف، جن کی تعیناتی اسی سال نومبر میں ہونی ہے، کو تعینات کرنے کی مجاز نہیں اور اس حکومت کو چاہیے کہ موجودہ آرمی چیف کو آئندہ الیکشن کے نتیجے میں قائم ہونے والی حکومت تک روک لیا جائے۔ کیوں کہ بقول اس لاڈلے کے یہ حکومت اس بات کی اہل نہیں کہ آرمی چیف جیسے بڑے عہدے کی تعیناتی کرسکے اور یہ لاڈلے صاحب سو فیصد پراعتماد ہیں کہ جب بھی الیکشن ہوں گے تو وہ دو تہائی اکثریت سے جیت کر حکومت بنائیں گے اور اس طرح وہ اپنی پسند کا آرمی چیف منتخب کریں گے۔ لہٰذا اس سے پہلے کسی کو یہ اختیار نہیں ہونا چاہیے کہ وہ اس نیک کام میں پہل کرے۔ بھلے وہ اس عہدے پر ہی کیوں نہ بیٹھا ہو جسے اس ملک کا آئین اور قانون اس بات کی مکمل اجازت اور اختیار دیتا ہے کہ وہ اس آئینی ذمے داری کو پورا کرتے ہوئے اپنے مقررہ وقت پر اپنے سامنے پیش کیے گئے جنرلز کے پینل میں سے جسے چاہے اگلے تین سال کےلیے آرمی چیف منتخب کرے اور ملک کا نظام ایک خود کار طریقہ سے چلتا رہے۔
اس انوکھے لاڈلے نے اپنی اس خواہش کا اظہار کرکے ملک کے حالات میں ایک ارتعاش پیدا کرنے کی کوشش کی ہے اور اپنے ہی پہلے سے دیے گئے اَن گنت بیانات کی نفی کی ہے۔ مگر اسے اس بات کی کیا پرواہ کہ جسے یہ تک نہ یاد ہو کہ میں نے آج صبح کو کیا کہا تھا اور اب شام کو کیا کہہ رہا ہوں۔ کیونکہ آرمی چیف کی ایکسٹینشن کے بارے میں ان کے ماضی کے خیالات اور انٹرویوز کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔ وہ اس کے کس قدر مخالف رہے ہیں کہ جنگی حالات میں بھی آرمی چیف کو ایکسٹینشن دینے کے حق میں نہیں تھے مگر جب خود ان لاڈلے صاحب کے ہاتھ میں زمام اقتدار آئی تو اپنا نام بھی آرمی چیف کو ایکسٹینشن دینے والوں کی فہرست میں لکھوانے کو ایک اعزار سمجھنے میں ذرا بھی نہ ہچکچائے اور اس کام کو اپنی فتح سمجھتے رہے۔
اس کے بعد جب اقتدار خان صاحب کی مٹھی سے ریت کی طرح نکل گیا تو انہوں نے پھر اپنا بیانیہ بدلا اور ہر اس شخص اور ادارے کی ببانگ دہل تضحیک کو اپنا وتیرہ بنایا جس نے بقول ان کے ان کی حکومت ختم کرنے میں کردار ادا کیا۔ کسی کو میر جعفر اور میر صادق سے تشبیہ دی تو کسی کو رات کو عدالتیں کھولنے پر تنقید کا نشانہ بنایا۔ اپنے حق کے فیصلوں پر جن کو سراہتے ہیں، اپنے خلاف فیصلوں پر ان کے دشمن بن جاتے ہیں۔ یہ ایسا انوکھا لاڈلا ہے کہ آرمی چیف کو ملک کا چوکیدار سمجھتے ہوئے نہ جانے کون کون سے طعنے دیتا رہا اور اب جب ان کے جانے کا وقت قریب آیا ہے تو ایک نیا شوشہ چھوڑ دیا ہے کہ ان کو اس وقت تک جانے نہ دیا جائے جب تک یہ لاڈلا اگلے الیکشن میں دو تہائی اکثریت لے کر وزیراعظم بن کر خود اگلے آرمی چیف کی تعیناتی نہ کر سکے۔ واہ جی واہ۔
ان کے لاڈلے پن کی انتہا دیکھیے کہ ان کو اپنی حکومت چلے جانے کا اتنا صدمہ پہنچا کہ کہتے ہیں کہ مجھ سے حکومت چھیننے سے بہتر تھا پاکستان پر ایٹم بم گرا دیتے۔ ایسا کہنے والے کے منہ میں خاک۔ اپنی ہر تقریر میں کوئی نہ کوئی ایسی بات کہہ جاتے ہیں جس کا یا تاریخ سے کوئی تعلق نہیں ہوتا یا پھر مذہب سے، مگر اس لاڈلے پن کے کیا کہنے کہ ہر خطاب میں تاریخ یا مذہب کا ٹچ دینا بھی لازمی ہے۔ اب تو حالت یہ ہے کہ اگر ان کی ساری باتوں اور بیانوں کو ایک جگہ جمع کیا جائے تو دیگر کئی سیاستدانوں کی طرح ان کے فرمودات اور خیالات پر مبنی لطائف کی اچھی خاصی کتاب تیار ہوسکتی ہے۔
یہ انوکھا لاڈلا تو ابلیے ہوئے انڈوں سے کھیلنے والے بچے اور ایک پوری مرغی اکیلے ہضم کرجانے والی بچی سے بھی زیادہ انوکھا ہے، جسے یہ زعم ہے کہ بس یہ ہے تو سب کچھ ہے ورنہ کچھ بھی نہیں۔ نہ ملک، نہ ادارے، نہ عدالتیں، کیوں کہ ان سب کی کریڈیبلٹی بقول اس لاڈلے کے صرف اس وقت تک ہے جب تک یہ سب اس کے ساتھ ہوں۔ بہرحال اب دیکھنا یہ ہے کہ اس کا یہ لاڈلا پن آگے کیا گل کھلاتا ہے۔
موجودہ حکومت نے کہہ دیا ہے کہ آرمی چیف کی تعیناتی اپنے مقررہ وقت پر وزیراعظم اپنے آئینی اور قانونی اختیار کے تحت کریں گے۔ خدارا ملک کے اس بڑے ادارے کے چیف کی تعیناتی کو ایک نہ حل ہونے والا سیاسی مسئلہ نہ بنائیں اور نہ ہی چیف کی ایکسٹینشن پر سیاست کریں۔ پاک آرمی ایک ادارہ ہے، اس میں جو بھی آفیسر لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے پر پہنچتا ہے وہ چنے بیچ کر نہیں بلکہ ایک پروفیشنل طریقے سے اپنی ٹریننگ اور ترقی کے مشکل امتحانات پاس کرکے اپنی ساری زندگی کی محنت سے پہنچتا ہے۔ لہٰذا وہ سب کے سب آرمی چیف بننے کے اہل ہوتے ہیں لیکن ظاہر ہے کہ ایک وقت میں ایک ہی آرمی چیف لگایا جاسکتا ہے جسے وزیراعظم ایک پینل سے منتخب کرتا ہے اور یہ حق اسے ملک کا آئین دیتا ہے۔
اگر کسی کو آئین کی اس شق پر اعتراض ہے تو وہ پہلے اپنے آپ میں اتنی قابلیت پیدا کرے کہ وہ آئین کی اس شق کو تبدیل کرسکے، بصورت دیگر انوکھا لاڈلا بن کر ایسی باتیں نہ کرے جن کی بدولت ملک کے اندر اور باہر ہماری جگ ہنسائی ہو۔ اللہ پاکستان کی حفاطت کرے اور سب انوکھے لاڈلوں کو عقل اور ہدایت نصیب فرمائے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اس کی امی نے میرے گھر والوں سے کہا کہ آپ تین چار انڈے تو بوائل کردیں، میرے بیٹے نے کھیلنا ہے۔ ہم گھر والے یہ بات سن کر حیرت سے ان کا منہ دیکھنے لگے کہ ان کا بیٹا صرف بوائل انڈوں سے ہی کھیلتا ہے اور جب تک ایسا نہ کیا جائے وہ کسی اور چیز سے بہلتا ہی نہیں۔ لہٰذا جیسے ہی وہ ابلے ہوئے انڈے بچے کے سامنے رکھے گئے وہ تروتازہ ہوگیا اور ایسا لگا جیسے اسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ الغرض وہ انڈوں سے کھیلنے لگا اور ہم بھی اپنی باتوں میں مصروف ہوگئے۔ ان کے جانے کے بعد ہم سب یہ کہنے لگے کہ یہ کیسا لاڈلا ہے جو کھیلنے کےلیے ابلے ہوئے انڈے مانگتا ہے۔
دیارِ غیر میں رہتے ہوئے عرب ملک مصر کے ایک آفس کولیگ کو جب یہ بتایا کہ ہم سارے گھر والے ایک مرغی پکاتے ہیں اور مل کر کھاتے ہیں تو اسے یقین نہ آیا کہ میں نہیں مانتا گھر کے پانچ چھ یا آٹھ افراد صرف ایک مرغی کھاتے ہیں۔ میں نے جب اس سے یہ بات نہ ماننے کی وجہ پوچھی تو کہنے لگا میں یہ بات کیسے مان لوں کیوں کہ میری دس سالہ ایک بچی ہے، وہ ایک مرغی اکیلے ایسے ہڑپ کرجاتی ہے جسے کوئی چھوٹی سی چاکلیٹ ہو۔ اور جب وہ ناراض ہوتی ہے، غصہ کرتی ہے تو ہمارے پاس اس کے علاوہ کوئی دوسرا حل نہیں ہوتا کہ اسے ایک عدد پوری مرغی کا چرغہ پیش کیا جائے۔
میں اس کی باتیں سن کر سوچنے لگا کہ ان کی بچی بھی کتنی انوکھی لاڈلی ہے کہ اپنا غصہ اور ناراضی دور کرنے کےلیے پوری ایک مرغی ہی ہضم کر جاتی ہے اور ڈکار بھی نہیں مارتی۔
یہ واقعات مجھے اپنے انوکھے لاڈلے سابق وزیراعظم عمران خان کے وہ خیالات سن کر یاد آئے جن میں وزیراعظم نہ ہوتے ہوئے بھی خود کو ذہنی طور پر ابھی تک وزیراعظم سمجھے ہوئے ہیں اور ایسے انوکھے خیالات سے اپنے عوام کو محظوظ کرتے رہتے ہیں کہ بندہ سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے یہ کیسا انوکھا لاڈلا ہے جو کھیلنے کو چاند مانگتا ہے۔
اس انوکھے لاڈلے کی ایک تازہ منطق ملاحظہ فرمائیے کہ یہ حکومت نئے چیف آف آرمی اسٹاف، جن کی تعیناتی اسی سال نومبر میں ہونی ہے، کو تعینات کرنے کی مجاز نہیں اور اس حکومت کو چاہیے کہ موجودہ آرمی چیف کو آئندہ الیکشن کے نتیجے میں قائم ہونے والی حکومت تک روک لیا جائے۔ کیوں کہ بقول اس لاڈلے کے یہ حکومت اس بات کی اہل نہیں کہ آرمی چیف جیسے بڑے عہدے کی تعیناتی کرسکے اور یہ لاڈلے صاحب سو فیصد پراعتماد ہیں کہ جب بھی الیکشن ہوں گے تو وہ دو تہائی اکثریت سے جیت کر حکومت بنائیں گے اور اس طرح وہ اپنی پسند کا آرمی چیف منتخب کریں گے۔ لہٰذا اس سے پہلے کسی کو یہ اختیار نہیں ہونا چاہیے کہ وہ اس نیک کام میں پہل کرے۔ بھلے وہ اس عہدے پر ہی کیوں نہ بیٹھا ہو جسے اس ملک کا آئین اور قانون اس بات کی مکمل اجازت اور اختیار دیتا ہے کہ وہ اس آئینی ذمے داری کو پورا کرتے ہوئے اپنے مقررہ وقت پر اپنے سامنے پیش کیے گئے جنرلز کے پینل میں سے جسے چاہے اگلے تین سال کےلیے آرمی چیف منتخب کرے اور ملک کا نظام ایک خود کار طریقہ سے چلتا رہے۔
اس انوکھے لاڈلے نے اپنی اس خواہش کا اظہار کرکے ملک کے حالات میں ایک ارتعاش پیدا کرنے کی کوشش کی ہے اور اپنے ہی پہلے سے دیے گئے اَن گنت بیانات کی نفی کی ہے۔ مگر اسے اس بات کی کیا پرواہ کہ جسے یہ تک نہ یاد ہو کہ میں نے آج صبح کو کیا کہا تھا اور اب شام کو کیا کہہ رہا ہوں۔ کیونکہ آرمی چیف کی ایکسٹینشن کے بارے میں ان کے ماضی کے خیالات اور انٹرویوز کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔ وہ اس کے کس قدر مخالف رہے ہیں کہ جنگی حالات میں بھی آرمی چیف کو ایکسٹینشن دینے کے حق میں نہیں تھے مگر جب خود ان لاڈلے صاحب کے ہاتھ میں زمام اقتدار آئی تو اپنا نام بھی آرمی چیف کو ایکسٹینشن دینے والوں کی فہرست میں لکھوانے کو ایک اعزار سمجھنے میں ذرا بھی نہ ہچکچائے اور اس کام کو اپنی فتح سمجھتے رہے۔
اس کے بعد جب اقتدار خان صاحب کی مٹھی سے ریت کی طرح نکل گیا تو انہوں نے پھر اپنا بیانیہ بدلا اور ہر اس شخص اور ادارے کی ببانگ دہل تضحیک کو اپنا وتیرہ بنایا جس نے بقول ان کے ان کی حکومت ختم کرنے میں کردار ادا کیا۔ کسی کو میر جعفر اور میر صادق سے تشبیہ دی تو کسی کو رات کو عدالتیں کھولنے پر تنقید کا نشانہ بنایا۔ اپنے حق کے فیصلوں پر جن کو سراہتے ہیں، اپنے خلاف فیصلوں پر ان کے دشمن بن جاتے ہیں۔ یہ ایسا انوکھا لاڈلا ہے کہ آرمی چیف کو ملک کا چوکیدار سمجھتے ہوئے نہ جانے کون کون سے طعنے دیتا رہا اور اب جب ان کے جانے کا وقت قریب آیا ہے تو ایک نیا شوشہ چھوڑ دیا ہے کہ ان کو اس وقت تک جانے نہ دیا جائے جب تک یہ لاڈلا اگلے الیکشن میں دو تہائی اکثریت لے کر وزیراعظم بن کر خود اگلے آرمی چیف کی تعیناتی نہ کر سکے۔ واہ جی واہ۔
ان کے لاڈلے پن کی انتہا دیکھیے کہ ان کو اپنی حکومت چلے جانے کا اتنا صدمہ پہنچا کہ کہتے ہیں کہ مجھ سے حکومت چھیننے سے بہتر تھا پاکستان پر ایٹم بم گرا دیتے۔ ایسا کہنے والے کے منہ میں خاک۔ اپنی ہر تقریر میں کوئی نہ کوئی ایسی بات کہہ جاتے ہیں جس کا یا تاریخ سے کوئی تعلق نہیں ہوتا یا پھر مذہب سے، مگر اس لاڈلے پن کے کیا کہنے کہ ہر خطاب میں تاریخ یا مذہب کا ٹچ دینا بھی لازمی ہے۔ اب تو حالت یہ ہے کہ اگر ان کی ساری باتوں اور بیانوں کو ایک جگہ جمع کیا جائے تو دیگر کئی سیاستدانوں کی طرح ان کے فرمودات اور خیالات پر مبنی لطائف کی اچھی خاصی کتاب تیار ہوسکتی ہے۔
یہ انوکھا لاڈلا تو ابلیے ہوئے انڈوں سے کھیلنے والے بچے اور ایک پوری مرغی اکیلے ہضم کرجانے والی بچی سے بھی زیادہ انوکھا ہے، جسے یہ زعم ہے کہ بس یہ ہے تو سب کچھ ہے ورنہ کچھ بھی نہیں۔ نہ ملک، نہ ادارے، نہ عدالتیں، کیوں کہ ان سب کی کریڈیبلٹی بقول اس لاڈلے کے صرف اس وقت تک ہے جب تک یہ سب اس کے ساتھ ہوں۔ بہرحال اب دیکھنا یہ ہے کہ اس کا یہ لاڈلا پن آگے کیا گل کھلاتا ہے۔
موجودہ حکومت نے کہہ دیا ہے کہ آرمی چیف کی تعیناتی اپنے مقررہ وقت پر وزیراعظم اپنے آئینی اور قانونی اختیار کے تحت کریں گے۔ خدارا ملک کے اس بڑے ادارے کے چیف کی تعیناتی کو ایک نہ حل ہونے والا سیاسی مسئلہ نہ بنائیں اور نہ ہی چیف کی ایکسٹینشن پر سیاست کریں۔ پاک آرمی ایک ادارہ ہے، اس میں جو بھی آفیسر لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے پر پہنچتا ہے وہ چنے بیچ کر نہیں بلکہ ایک پروفیشنل طریقے سے اپنی ٹریننگ اور ترقی کے مشکل امتحانات پاس کرکے اپنی ساری زندگی کی محنت سے پہنچتا ہے۔ لہٰذا وہ سب کے سب آرمی چیف بننے کے اہل ہوتے ہیں لیکن ظاہر ہے کہ ایک وقت میں ایک ہی آرمی چیف لگایا جاسکتا ہے جسے وزیراعظم ایک پینل سے منتخب کرتا ہے اور یہ حق اسے ملک کا آئین دیتا ہے۔
اگر کسی کو آئین کی اس شق پر اعتراض ہے تو وہ پہلے اپنے آپ میں اتنی قابلیت پیدا کرے کہ وہ آئین کی اس شق کو تبدیل کرسکے، بصورت دیگر انوکھا لاڈلا بن کر ایسی باتیں نہ کرے جن کی بدولت ملک کے اندر اور باہر ہماری جگ ہنسائی ہو۔ اللہ پاکستان کی حفاطت کرے اور سب انوکھے لاڈلوں کو عقل اور ہدایت نصیب فرمائے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔