بلدیاتی نظام سیاست کی نذر کیوں
ملک میں بلدیاتی نظام شروع سے ہی سیاست کی نذر رہا ہے
سندھ اور پنجاب میں اپوزیشن پارٹیوں کا کہنا ہے کہ ملک میں اگر منتخب بلدیاتی ادارے موجود ہوتے تو حالیہ بارشوں اور سیلاب سے اتنی تباہی اور جانی و مالی نقصان نہ ہوتا جتنا ہر صوبے میں بلدیاتی اداروں میں سرکاری ایڈمنسٹریٹروں کے تقرر سے ہوا ہے کیونکہ سرکاری ایڈمنسٹریٹر عوام کے منتخب نمایندے نہیں ہیں اور وہ نہ ان علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں جہاں وہ تعینات ہیں۔ سرکاری ایڈمنسٹریٹر خاص طور پر بیورو کریسی سے لیے گئے ہیں اور ان کے ماتحت جو بلدیاتی افسران ہیں وہ بھی سرکاری ملازم اور اپنے مختلف علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں۔
منتخب بلدیاتی اداروں کی غیر موجودگی میں اب تک کی تمام سیاسی جماعتوں نے ہمیشہ اپنے ادوار میں بلدیاتی انتخابات سے گریز کیا اور سرکاری ایڈمنسٹریٹر بلدیاتی اداروں پر مسلط کرنے کو ترجیح دی اور بلدیاتی انتخابات نہیں ہونے دیے۔ سیاسی حکومتیں صرف قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کو ہی جمہوریت قرار دیتے ہیں، کیونکہ قومی اسمبلی ملک کا وزیر اعظم اور صوبائی اسمبلیاں اپنے صوبوں کے وزرائے اعلیٰ منتخب کرتی ہیں جب کہ بلدیاتی منتخب نمایندوں کا وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی تشکیل میں کوئی عمل دخل نہیں ہوتا۔
ملک کے پہلے چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر اور فوجی صدر جنرل محمد ایوب خان نے اپنے دور میں ملک میں بی ڈی سسٹم نافذ کیا تھا جس کے ماتحت ملک کے 80 ہزار بلدیاتی منتخب نمایندوں کو صدر مملکت کے انتخاب کا اختیار دیا تھا اور بعد میں خود کو وردی میں ملک کا صدر منتخب کرایا تھا۔
دو سابق فوجی صدور جنرل ایوب اور جنرل یحییٰ خان کے بعد ذوالفقار علی بھٹو وزیر اعظم بنے تھے اور ملک کا اکثریتی صوبہ مشرقی پاکستان الگ ہونے سے ملک دولخت ہو گیا تھا اور وزیر اعظم بھٹو نے ملک کو 1973 کا جو آئین متفقہ طور پر منظور کرایا تھا ، اس میں بلدیاتی نظام بھی شامل تھا جس کے تحت باقاعدہ بلدیاتی انتخابات کرانا آئینی تقاضا تھا مگر بھٹو دور میں بلدیاتی انتخابات نہیں کرائے گئے۔
1977 میں جنرل ضیا الحق نے مارشل لا لگانے کے بعد 1979 میں ملک کو ایک بلدیاتی نظام دیا تھا جس کے تحت چار سالہ مقررہ مدت پوری ہونے کے بعد ملک میں تین بار بلدیاتی انتخابات کرائے گئے۔ 1983 کے بلدیاتی انتخابات کا پیپلز پارٹی نے بائیکاٹ کیا تھا اور 1979 اور 1987 میں حصہ لیا تھا۔
جنرل ضیا کا بلدیاتی نظام جنرل پرویز کے 2001 کے بلدیاتی انتخابات جیسا بااختیار نہیں تھا مگر پھر بھی منتخب بلدیاتی عہدیداروں نے جنرل ضیا الحق اور گورنروں کے دوروں کا بائیکاٹ ضرور کیا تھا اور حکومت نے ایسا کرنے والوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی تھی جب کہ وہ غیر جمہوری دور تھا۔ 1979 کے بلدیاتی نظام کو بیورو کریسی اور محکمہ بلدیات کے ماتحت رکھا گیا تھا اور منتخب بلدیاتی عہدیدار جنرل پرویز کے بااختیار ضلع نظام جیسے بااختیار نہیں تھے۔
1987 کے بلدیاتی انتخابات کے بعد 1999 تک پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کی حکومتیں آئیں اور زیادہ تر بلدیاتی اداروں پر سرکاری افسر مسلط رکھے گئے۔ بے نظیر دور میں ملک کی سب سے بڑی بلدیہ عظمیٰ کراچی پر غیر سرکاری کیپٹن فہیم اور (ن) لیگ کے دور میں ایک مسلم لیگی مشاہد اللہ خان کو ایڈمنسٹریٹر مقرر کیا گیا تھا۔
جنرل پرویز مشرف نے ضلع حکومتوں سے قبل بلدیہ عظمیٰ کراچی کے لیے ایک بریگیڈیئر عبدالحق اور دو ڈی ایم سیز پر دو فوجی افسروں کو ایڈمنسٹریٹر مقرر کیا تھا جب کہ اب پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت نے اپنے ایک رہنما مرتضیٰ وہاب کو ایڈمنسٹریٹر بلدیہ کراچی مقرر کر رکھا ہے جو مشیر قانون بھی ہیں اور بااختیار ایڈمنسٹریٹر شمار ہوتے ہیں جب کہ اس سے قبل کسی بھی ایڈمنسٹریٹر کے پاس حکومت کے صوبائی مشیر کا عہدہ نہیں رہا۔
منتخب بلدیاتی عہدیدار نہ ہونے سے صوبائی حکومتیں اپنی مرضی کی تقرریاں کرتی آئی ہیں اور محکمہ بلدیات مکمل بااختیار اور سرکاری ایڈمنسٹریٹر ان کے حکم سے انکار کی جرأت نہیں رکھتے یہ جرأت صرف عوام کے منتخب بلدیاتی عہدیداروں نے کرکے دکھائی ہے جو جمہوری حکومتوں میں ممکن نہیں ہے۔
موجودہ نام نہاد صوبائی جمہوری حکومتوں سے مارشل لا ادوار کی صوبائی حکومتیں اس لیے بہتر تھیں کہ انھوں نے باقاعدگی سے بلدیاتی انتخابات کرائے اور ان کے دور میں 6 بار بلدیاتی انتخابات ہوئے۔ 2015 میں جو بلدیاتی انتخابات ہوئے تھے وہ سپریم کورٹ کے حکم پر ہوئے تھے جن کی تکمیل میں صوبائی حکومتوں نے ایک سال سے زیادہ عرصہ لگا دیا تھا۔
صوبائی حکومتیں بلدیاتی اداروں کے انتخابات اس لیے نہیں کراتیں کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے بعد پی ٹی آئی بھی ان ہی جیسی ثابت ہوئی ہے جو اقتدار سے قبل بااختیار بلدیاتی نظام کے دعوے کیا کرتی تھی مگر 2013 میں کے پی کا اقتدار ملنے کے بعد کے پی کے کو کوئی بااختیار مثالی بلدیاتی نظام نہیں دیا اور نہ وہاں جلد انتخابات کرائے بلکہ سپریم کورٹ کے حکم پر ملک بھر میں بلدیاتی انتخابات ہوئے تھے جو جماعتی بنیاد پر ہوئے تھے۔ اس وقت پنجاب میں (ن) لیگ، سندھ میں پی پی، کے پی میں پی ٹی آئی کی حکومتیں تھیں جنھوں نے اپنے حکومتی ذرایع استعمال کرکے اپنے امیدوار جتوائے تھے اور دھاندلیاں بھی کرائی گئی تھیں۔
2018 میں پی ٹی آئی کو وفاق اور پنجاب کا اقتدار ملا تو پنجاب حکومت نے سب سے پہلے حملہ منتخب بلدیاتی اداروں پر کرکے اکثریت رکھنے والے مسلم لیگ (ن) کے تمام بلدیاتی اداروں کو ختم کرکے وہاں سرکاری ایڈمنسٹریٹر مقرر کردیے تھے جس کے خلاف دو سال بعد سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا تو کئی ماہ تک حکومت نے بلدیاتی ادارے بحال نہیں کیے جس پر دوبارہ سپریم کورٹ سے رابطہ کیا تو حکومت نے ادارے اس وقت بحال کیے جب ان کی مدت پوری ہونے والی تھی ، اگر یہ مسئلہ پہلے حل ہو جاتا یا بعد میں انھیں مدت پوری کرنے کا موقع ملتا اور حکم عدولی پر پنجاب حکومت کے خلاف ایکشن ہوتا تو پھر کسی بھی صوبائی حکومت کو من مانی کا موقعہ نہ ملتا اور آئین پر عمل ہوتا۔ سندھ میں پی پی اور کے پی میں پی ٹی آئی کی حکومتیں تھیں اس لیے وہاں منتخب بلدیاتی ادارے برقرار رہے۔
ملک میں بلدیاتی نظام شروع سے ہی سیاست کی نذر رہا ہے اور سیاسی مفادات اور ارکان اسمبلی کی خوشنودی کے لیے سیاسی حکومتیں بلدیاتی انتخابات نہیں کراتیں اور اگر کراتی ہیں تو اختیارات اپنے پاس رکھتی ہیں۔ جو فنڈز بلدیاتی اداروں کا حق ہے وہ ترقیات کے نام پر ارکان اسمبلی کو دے کر اپنوں کو نوازا جاتا ہے۔
منتخب بلدیاتی سربراہوں کے اختیارات وزرائے اعلیٰ نے سلب کر رکھے ہیں، جس کے خلاف سالوں فیصلے ہی نہیں ہوتے اور وہ مقدمات التوا کا شکار رہتے ہیں۔ ان عوامی معاملات کو عدالتی ترجیح نہیں ملتی حالانکہ آئین کے تحت اختیارات ملنا بلدیاتی اداروں کا قانونی حق ہے مگر سیاست کے باعث بلدیاتی اداروں کو بے اختیار اور محتاج رکھا جاتا ہے اور آئین کی کھلی خلاف ورزی عشروں سے جاری ہے مگر آئینی خلاف ورزی پر کبھی کارروائی نہیں ہوئی۔