ٹرانس جینڈر رائٹس ایکٹ بل پر اعتراضات کو ٹرانس جینڈر کمیونٹی نے پراپیگنڈا قرار دے دیا
ایکٹ کو ہم جنس پرست کہنا ٹرانس جینڈرکمیونٹی کے ساتھ ظلم کے مترادف ہے، ٹرانس جینڈر کمیونٹی
ملک میں جہاں ایک طرف سے بعض مذہبی جماعتوں کی طرف سے ٹرانس جینڈررائٹس بل کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور اسے ملک میں ہم جنس پرستی کو فروغ دینے کی کوشش قرار دیا گیا ہے وہیں دوسری طرف ٹرانس جینڈر کمیونٹی کا کہنا ہے کہ بل سے متعلق غلط پراپیگنڈا کیا جارہا ہے، صنف اور جنس کے تضاد کی جنگ اور درستگی کی جدوجہد کرنے والوں کو ہم جنس پرست کہنا ٹرانس جینڈرکمیونٹی کے ساتھ ظلم کے مترادف ہے۔
پاکستان کی قومی اسمبلی نے حال ہی میں ٹرانس جینڈر رائٹس ایکٹ منظور کیا ہے جس میں خواجہ سراؤں کے تحفظ، انہیں مساوی حقوق، تعلیم، صحت کی بنیادی سہولتوں کی فراہمی، قومی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ پر اپنی جنس خواجہ سرا لکھوانے، ووٹ اور الیکشن لڑنے کا حق دیا گیا ہے تاہم بعض مذہبی جماعتوں کا مؤقف ہے کہ یہ بل دراصل ملک میں ہم جنس پرستی کو جائز اور قانونی تحفظ دینے کی کوشش ہے۔
جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان نے اس بل کو وفاقی شرعی عدالت میں چیلنج کر دیا ہے، ان کا مؤقف ہے کہ اگر کوئی فرد نادرا کے ریکارڈ میں خود کو ٹرانس جینڈر کے طور پر رجسٹرڈ کروانا چاہتا ہے اس کے لیے میڈیکل سرٹیفکیٹ لازمی قرار دیا جائے۔
حکومت کے اتحادی اور پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کا کہنا ہے کہ ٹرانس جینڈر بل قرآن و سنت سے بغاوت ہے۔ پاکستان کی پارلیمنٹ کو قرآن و سنت کے خلاف قانون بنانے کا کوئی حق حاصل نہیں ہے۔ انہوں نے کہا یہ بل آج کا معاملہ نہیں، اس طرح کے قوانین چوری چھپے، جب کورم بھی پورا نہ ہو تو پرائیویٹ ممبر کے ذریعے پیش کرکے پاس کیے جاتے ہیں۔ جمعیت علمائے اسلام اس حوالے سے مستقل ترمیم تیار کر رہی ہے۔
دوسری طرف خواجہ سرا برادری کا موقف ہے کہ یہ خواجہ سراؤں کے تحفظ اور حقوق کا بل ہے جس میں مساوی اور بنیادی تعلیمی حقوق، کسی دوسرے شہری کی طرح بنیادی صحت کی سہولیات تک مکمل رسائی، بچے کی پیدائش کا سرٹیفکیٹ، اندراج کروانے کا حق یا فارم ب جاری کروانے کا حق، شناختی کارڈ بنوانے کا حق، شناختی کارڈ کے اندر جینڈر کے خانے میں (خواجہ سرا) لکھوائے جانے، ووٹ کا اختیار، نوکری کے حصول میں حائل رکاوٹوں کا خاتمہ، وراثتی جائیداد میں حصے کا حق اور اس حق کی وضاحت سمیت خواجہ سراؤں سے ہراسمنٹ کرنے والے کے خلاف پرچے کے اندراج کے حق کی بات کی گئی ہے۔
اس قانون میں خواجہ سرا سے زبردستی بھیک منگوانے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کا حق دیا گیا ہے جبکہ حکومت کی ذمہ داری میں یہ بات شامل کی گئی ہے کہ اگر کوئی ٹرانس جینڈر کسی جرم میں ملوث پایا جاتا ہے اور اسے سزا سنائی جاتی ہے تو اسے مردوں، عورتوں اور بچوں کی طرح الگ جیلوں میں رکھا جائے۔
خواجہ سراؤں کے حقوق کے لیے سرگرم زنایا چوہدری کا کہنا ہے کہ پاس کیے جانے والے ایکٹ کے 11 صفحات میں کسی قسم کی جنس تبدیلی کی بات نہیں کی گئی اور نہ ہی مرد کا مرد سے یا عورت کا عورت سے غیر فطری تعلق رکھنے کی اجازت دی گئی ہے اور نہ ہی کسی قسم کا ایسا ذکر موجود ہے۔ مرد دوسرے مرد سے یا عورت دوسری عورت سے شادی کرسکتی ہے ایسا ذکر بھی اس ایکٹ میں نہیں ہے۔
نامور ٹرانس آرٹسٹ جنت علی کا کہنا ہے کہ خواجہ سرا درحقیقت وہ افراد ہیں جو اپنی صنف اور جنس میں تضاد کی بنا پر معاشرتی مردانہ رویے اور قوانین کو اپنانے میں ناکام رہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ لفظ انٹر سیکس درحقیقت 30 سے زائد جنسی علامات کا مجموعہ ہے، اسکا مطلب ہر انٹر سیکس بچے کے جنسی اعضا مختلف ہوتے ہیں اور اکثر اوقات بظاہر مردانہ یا زنانہ نظر آنے والے اعضاء بلوغت کی عمر کو پہنچنے تک تبدیل ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔
جنت علی نے کہا کہ اسی نقطے کو ٹرانس جینڈر پرسن ایکٹ میں واضع کیا گیا ہے کہ 18 سال کی عمر کو پہنچنے پر ہر ٹرانس جینڈر فرد اپنی خود کی ترجیح کردہ صنفی شناخت کا انتخاب کرسکتا ہے، اس پر اعتراض کیا جا رہا ہے کہ اس طرح عام مرد اور عورت بھی اپنے ذاتی مفادات کی خاطر اپنی پسند کی جنس کا انتخاب کرسکتے ہیں حالانکہ یہ قانون صرف ٹرانس جینڈر افراد کے لیے ہے۔
واضع رہے کہ پروٹیکشن آف رائٹس ایکٹ 2018 کو عرف عام میں ٹرانس جینڈر ایکٹ کہا جاتا ہے۔ یہ قانون مسلم لیگ ن کے دور حکومت کے آخری مہینوں میں پاس ہوا جب شاہد خاقان عباسی وزیراعظم تھے۔ یہ ان چند قوانین میں سے ایک تھا جس کے حق میں حکومت اور اپوزیشن نے اتفاق رائے سے ووٹ دیا تھا۔