اڈیالہ جیل میں قیدی پر مبینہ تشدد میڈیکل رپورٹ کل تک جمع کرانے کا حکم
قیدی کا کنڈکٹ ٹھیک نا ہو پھر بھی آپ اسے مار نہیں سکتے اس کو روکنے کے اور طریقے ہیں ، چیف جسٹس
اسلام آباد ہائیکورٹ نے اڈیالہ جیل میں قیدی پر مبینہ تشدد کی شکایت کا کیس کل تک ملتوی کرکے وزارت انسانی حقوق اور انسانی حقوق کمیشن کے نمائندے کو آج جیل کا دورہ کرنے کا حکم دیدیا۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں اڈیالہ جیل میں قید شخص کے والدین کی درخواست پر مبینہ تشدد کے کیس پر سماعت ہوئی، اس دوران عدالت نے وزارت انسانی حقوق کو آج قیدی کا میڈیکل چیک اپ کراکر کل رپورٹ جمع کرانے کا حکم دیدیا۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے وزارت انسانی حقوق پر اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ صرف رپورٹوں پر بات نہیں ہو گی، اب تک وزارت انسانی حقوق نے عدالتی فیصلے کے تناظر میں کیا کیا ہے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دوگل اور اڈیالہ جیل کے ایڈیشنل سپریڈنٹ اڈیالہ جیل کاشف علی عدالت میں پیش ہوئے اور جج کو بتایا کہ 2019 سے چھ کیسز اس قیدی کے خلاف درج ہیں۔
عدالت کا ایڈیشنل سپریٹینڈنٹ اڈیالہ جیل سے استفسار کیا کہ کیا قیدی کو کسی کیس میں سزا ہوئی؟ جس پر جیل سپریٹنڈنٹ نے کہا کہ ابھی تک کسی کیس میں سزا نہیں ہوئی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے کہا کہ قیدی کے حقوق اپنی جگہ ہیں اس کی والدہ نے سیریس الزام لگایا ہے کہ اس پر ٹارچر ہوا ہے جس کی تردید کرتے ہوئے کاشف علی نے کہا کہ میڈیکل رپورٹ کے مطابق یہ ٹھیک ہے انگلی بھی ٹوٹی ہوئی نہیں ہے۔
عدالت نے انسانی حقوق کے نمائندے سے استفسار کیا کہ جیل ریفارم پر عمل درآمد کمیشن کا کیا بنا ؟ اور ملزم کی کل کی تصاویر بھی اڈیالہ جیل حکام نے عدالت کے سامنے پیش کردیں۔
عدالت نے وزارت انسانی حقوق کے نمائندے سے مکالمہ کیا کہ انسانی حقوق وزارت کا پورے پاکستان کا دائرہ اختیار ہے، آپ انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر رپورٹ بھی لے سکتے ہیں۔
دوران سماعت جسٹس اطہر من اللہ نے قیدی سے والدین نے کہا کہ یہ عدالت حراست کے دوران ٹارچر کو نظر انداز نہیں کرسکتی کیوں کہ یہ سنجیدہ معاملہ ہے اور کہا کہ اگر آپ کی بات غلط نکلی تو آپ کے بچے کےلیے اچھا نہیں ہوگا۔
درخواست گزار نے عدالت کو بتایا کہ قیدی پر تشدد ہوا ہے اور اس نے بھوک ہڑتال بھی کر رکھی ہے، جس پر عدالت نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے مکالمہ کیا کہ جیل کے اندر بھی قیدیوں کے حقوق ہیں قانون کے مطابق ہی آپ نے چلنا ہے۔
عدالت نے کہا کہ اس عدالت نے اس وقت کی حکومت کے پاس معاملہ بھیجا ابھی بھی جیلوں میں گنجائش سے زائد قیدی ہیں، عدالت نے جیل حکام کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ کیا انڈر ٹرائل اور سزا یافتہ قیدیوں کو الگ کر دیا گیا ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے کہا کہ قیدی کا کنڈکٹ ٹھیک نا ہو پھر بھی آپ اسے مار نہیں سکتے اس کو روکنے کے اور طریقے ہیں، یہ ایک نہیں بلکہ اڈیالہ جیل سے متعلق بہت سیریس شکایات ہیں۔
عدالت نے کیس کی سماعت کل تک ملتوی کرتے ہوئے وزارت انسانی حقوق اور انسانی حقوق کمیشن کے نمائندے کو آج اڈیالہ جیل کا دورہ کرنے اور میڈیکل ٹیم سے آج قیدی کا چیک اپ کرا کر کل تک رپورٹ جمع کرانے کا حکم دے دیا۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں اڈیالہ جیل میں قید شخص کے والدین کی درخواست پر مبینہ تشدد کے کیس پر سماعت ہوئی، اس دوران عدالت نے وزارت انسانی حقوق کو آج قیدی کا میڈیکل چیک اپ کراکر کل رپورٹ جمع کرانے کا حکم دیدیا۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے وزارت انسانی حقوق پر اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ صرف رپورٹوں پر بات نہیں ہو گی، اب تک وزارت انسانی حقوق نے عدالتی فیصلے کے تناظر میں کیا کیا ہے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دوگل اور اڈیالہ جیل کے ایڈیشنل سپریڈنٹ اڈیالہ جیل کاشف علی عدالت میں پیش ہوئے اور جج کو بتایا کہ 2019 سے چھ کیسز اس قیدی کے خلاف درج ہیں۔
عدالت کا ایڈیشنل سپریٹینڈنٹ اڈیالہ جیل سے استفسار کیا کہ کیا قیدی کو کسی کیس میں سزا ہوئی؟ جس پر جیل سپریٹنڈنٹ نے کہا کہ ابھی تک کسی کیس میں سزا نہیں ہوئی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے کہا کہ قیدی کے حقوق اپنی جگہ ہیں اس کی والدہ نے سیریس الزام لگایا ہے کہ اس پر ٹارچر ہوا ہے جس کی تردید کرتے ہوئے کاشف علی نے کہا کہ میڈیکل رپورٹ کے مطابق یہ ٹھیک ہے انگلی بھی ٹوٹی ہوئی نہیں ہے۔
عدالت نے انسانی حقوق کے نمائندے سے استفسار کیا کہ جیل ریفارم پر عمل درآمد کمیشن کا کیا بنا ؟ اور ملزم کی کل کی تصاویر بھی اڈیالہ جیل حکام نے عدالت کے سامنے پیش کردیں۔
عدالت نے وزارت انسانی حقوق کے نمائندے سے مکالمہ کیا کہ انسانی حقوق وزارت کا پورے پاکستان کا دائرہ اختیار ہے، آپ انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر رپورٹ بھی لے سکتے ہیں۔
دوران سماعت جسٹس اطہر من اللہ نے قیدی سے والدین نے کہا کہ یہ عدالت حراست کے دوران ٹارچر کو نظر انداز نہیں کرسکتی کیوں کہ یہ سنجیدہ معاملہ ہے اور کہا کہ اگر آپ کی بات غلط نکلی تو آپ کے بچے کےلیے اچھا نہیں ہوگا۔
درخواست گزار نے عدالت کو بتایا کہ قیدی پر تشدد ہوا ہے اور اس نے بھوک ہڑتال بھی کر رکھی ہے، جس پر عدالت نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے مکالمہ کیا کہ جیل کے اندر بھی قیدیوں کے حقوق ہیں قانون کے مطابق ہی آپ نے چلنا ہے۔
عدالت نے کہا کہ اس عدالت نے اس وقت کی حکومت کے پاس معاملہ بھیجا ابھی بھی جیلوں میں گنجائش سے زائد قیدی ہیں، عدالت نے جیل حکام کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ کیا انڈر ٹرائل اور سزا یافتہ قیدیوں کو الگ کر دیا گیا ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے کہا کہ قیدی کا کنڈکٹ ٹھیک نا ہو پھر بھی آپ اسے مار نہیں سکتے اس کو روکنے کے اور طریقے ہیں، یہ ایک نہیں بلکہ اڈیالہ جیل سے متعلق بہت سیریس شکایات ہیں۔
عدالت نے کیس کی سماعت کل تک ملتوی کرتے ہوئے وزارت انسانی حقوق اور انسانی حقوق کمیشن کے نمائندے کو آج اڈیالہ جیل کا دورہ کرنے اور میڈیکل ٹیم سے آج قیدی کا چیک اپ کرا کر کل تک رپورٹ جمع کرانے کا حکم دے دیا۔