ٹرانس جینڈر ایکٹ اعتراض کیا ہے
ٹرانس جینڈرز ایکٹ حقیقی خواجہ سراؤں کو تحفظ اور حقوق دلانے کےلیے پیش کیا گیا تھا، جس کی کچھ شقیں غلط ہیں
ٹرانس جینڈر ایکٹ وقت کی اہم ضرورت تھی، جسے پاس کرکے ریاست نے اپنی ذمے داری پوری کی ہے۔ کیونکہ مخنث یا خواجہ سرا اسلامی جمہوریہ پاکستان کا وہ شرمناک چہرہ بنتے جارہے تھے جسے ہم اپنا بھی نہیں رہے تھے اور چھٹکارا بھی حاصل نہیں کرسکتے تھے۔
یہ طبقہ قانون سازی نہ ہونے کی وجہ سے اپنی زندگی گزارنے کےلیے خواہش کے باوجود کوئی باعزت پیشہ اختیار کرنے سے قاصر تھا اور مجبور ہوکر پیٹ کا دوزخ بھرنے کےلیے جسم فروشی کا سہارا لینے پر مجبور تھا۔ آئیے اس مسئلے اور قانون کو درجہ بدرجہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
خواجہ سرا یا مخنث بنیادی طور کوئی جنس نہیں۔ جنس صرف وہی ہیں جنہیں اللہ نے جنس قرار دیا ہے، یعنی مرد اور عورت۔ تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مخنث کیا ہیں؟ یہ درحقیقت ایک بیماری ہے۔ یہ بالکل ایسے ہی ایک بیماری ہے جیسے آنکھوں سے معذور، سماعت سے محروم افراد۔ دیگر معذور افراد کی طرح یہ لوگ بھی قابل توجہ اور قابل رحم ہوتے ہیں۔
یہ بیچارے اس قدر بدنصیب ہوتے ہیں کہ ان کی پیدائش کے بعد سے ہی ان پر ان کے اپنے گھر میں ہی محبتوں کے دروازے بند ہوجاتے ہیں، حالانکہ ان کا ایسا ہونے میں اپنا کوئی کردار نہیں ہوتا۔ لیکن کم علمی اور جہالت کی وجہ سے یہ اپنے گھر میں ہی اچھوت بن جاتے ہیں اور پھر دھیرے دھیرے اپنے جیسے لوگوں سے جاملتے ہیں جہاں پر نہ چاہتے ہوئے بھی پیٹ کا دوزخ بھرنے کےلیے یہ تاریک راہوں کے مسافر بن جاتے ہیں۔ کیونکہ ہمارا معاشرہ انہیں کوئی باعزت روزگار یا مقام دینے کو تیار نہیں ہوتا۔
ٹرانس جینڈر کی اصطلاح کو بھی لوگ خواجہ سراؤں میں ہی شمار کرتے ہیں، جبکہ یہ غلط ہے۔ ٹرانس جینڈر دراصل وہ افراد ہوتے ہیں جو بنیادی یا پیدائشی طور پر تو خواجہ سرا نہیں ہوتے بلکہ مکمل مرد یا مکمل عورت کے روپ میں پیدا ہوتے ہیں لیکن ہارمونز کی کمی بیشی اور نفسیاتی عوارض کے باعث بعد ازاں اپنی مخالف جنس میں شامل ہوجاتے ہیں۔ ٹرانس جینڈر کا مطلب بھی یہی ہے کہ ایسا فرد جس نے اپنی جنس کو ٹرانسفر کرلیا ہو۔ ایسے افراد جنس کی تبدیلی کےلیے آپریشن کروا کر مخالف جنس میں شامل ہوجاتے ہیں۔
ٹرانس جینڈرز ایکٹ دراصل حقیقی خواجہ سراؤں کو تحفظ اور حقوق دلانے کےلیے پیش کیا گیا تھا۔ 2018 میں منظور ہونے والا ٹرانس جینڈر ایکٹ انہیں قومی دھارے میں لانے کا سبب بنا۔ اس قانون کے منظور ہونے کے بعد یہ لوگ ڈرائیونگ لائسنس بنوا سکتے ہیں، جائیداد میں حصہ لے سکتے ہیں۔ اگر کوئی ان سے بھیک منگوائے تو اس پر 50000 روپے تک جرمانہ ہوسکتا ہے۔
اس قانون کے دور رس نتائج برآمد ہوں گے۔ اس قبیل کے وہ لوگ جو ایک پاکیزہ، نارمل زندگی گزارنا چاہتے ہیں وہ باعزت روزگار حاصل کرسکیں گے۔ جائیداد میں سے اپنا حصہ لے کر کاروبار کرسکیں گے۔ اور ایسا بھی ہوسکتا ہے ان کے گھر والے انہیں بے دخل ہی نہ کریں کیونکہ جس بدنامی کے ڈر سے وہ انہیں خود سےالگ کردیتے ہیں کل کو جائیداد کے حصے میں مطالبے کی صورت وہ بدنامی ان کا پیچھا کرے گی۔ اس لیے عین ممکن ہے بچپن ہی سے ان کا علاج کروایا جائے یا انہیں کسی باعزت شعبے میں ڈال دیا جائے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب یہ قانون اس قدر اچھا ہے تو ہماری مذہبی جماعتیں اور دیگر طبقات اس کی مخالفت کیوں کررہے ہیں؟ جیسا کہ اوپر بھی بیان کیا کہ یہ بل حقیقی خواجہ سراؤں کے تحفظ کےلیے تھا۔ لیکن دراصل ہوا کچھ یوں کہ اس قانون کی تشکیل کے دوران مادرپدر آزاد حلقوں نے اس میں کچھ غیر فطری اور متنازعہ شقیں شامل کروادیں۔ جیسے کہ اس بل کی شق نمبر 3 اور اس کی ذیلی شق نمبر 2 میں کہا گیا ہے کہ کسی بھی شخص کی جنس کا تعین اس کی اپنی مرضی کے مطابق ہوگا۔ یہاں سے ہم جنس پرستی کی راہ ہموار ہوتی ہے۔ اب اگر کوئی مرد کسی مرد سے شادی کرنا چاہے تو وہ نادرا میں جاکر ایک جھوٹا بیان حلفی جمع کروائے کہ مجھ میں عورت کی حسیات پیدا ہوچکی ہیں۔ نادرا بغیر کسی میڈیکل چیک اپ کے اس کے جھوٹے بیان حلفی کی بنیاد پر اسے عورت کا شناختی کارڈ جاری کردے گا۔ حالانکہ مادر پدر آزاد معاشرے برطانیہ میں بھی ایسا کرنے کےلیے میڈیکل کی شرط موجود ہے، لیکن ہم نے اس معاملے میں برطانیہ کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ اس طرح کی دیگر شقیں قرآن کی تعلیمات کی صریح خلاف ورزی ہیں۔ کیونکہ قرآن مجید فرقان حمید میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ انسان اپنے جسم کے بارے میں خود فیصلہ نہیں کرسکتا۔ انسانی جسم اللہ رب العزت کی امانت ہے، اس کا تصرف بھی اللہ رب العزت کے احکامات کی روشنی میں کیا جائے گا۔
اس قانون کی ایسی ہی شقوں کی بدولت اس کا منفی استعمال کیا جارہا ہے۔ بعض ذرائع کا یہ کہنا ہے کہ نادرا کے ریکارڈ کے مطابق صرف تین سال کے قلیل عرصے میں 29000 درخواستیں موصول ہوئیں، جن میں 16530 مردوں نے اپنی جنس عورت میں تبدیل کروائی، 15154 عورتوں نے اپنی جنس مرد میں تبدیل کروائی اور جن کےلیے قانون بنایا گیا تھا، یعنی جن کی آڑ لی گئی تھی، جن کے تحفظ کا پرچار کیا گیا تھا، ان کی کل 30 درخواستیں موصول ہوئیں۔ ان میں 21 خواجہ سراؤں نے مرد کے طور پر اور 9 نے عورت کے طور پر حیثیت اختیار کی۔
حکومت کو چاہیے کہ اسلامی نظریاتی کونسل کی معاونت سے اس قانون کی غیر اسلامی اور غیر شرعی شقوں کا خاتمہ کیا جائے، اور فرد کے ذاتی بیان کو کافی نہ سمجھا جائے بلکہ اعلیٰ سطح کے میڈیکل بورڈ کے سرٹیفیکٹ سے مشروط کیا جائے۔ مزید برآں اس قانون کا نام تبدیل کیا جائے کیونکہ ٹرانس جینڈر ایک الگ سے تہذیب ہے، جنہیں ایل جی بی ٹی یعنی لزبین، گے، بائی سیکسوئیل کے نام پکارا جاتا ہے۔ غیر اسلامی شقوں کی تبدیلی کے بعد اسے اسلامی نام کے ساتھ نافذ کردیا جائے۔ اسی میں حقیقی خواجہ سراؤں کی بہتری ہے، بصورت دیگر کہیں ایسا نہ ہوکہ حکومت دباؤ میں آکر اس قانون کو بالکل ہی ختم نہ کردے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
یہ طبقہ قانون سازی نہ ہونے کی وجہ سے اپنی زندگی گزارنے کےلیے خواہش کے باوجود کوئی باعزت پیشہ اختیار کرنے سے قاصر تھا اور مجبور ہوکر پیٹ کا دوزخ بھرنے کےلیے جسم فروشی کا سہارا لینے پر مجبور تھا۔ آئیے اس مسئلے اور قانون کو درجہ بدرجہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
خواجہ سرا یا مخنث کیا ہیں؟
خواجہ سرا یا مخنث بنیادی طور کوئی جنس نہیں۔ جنس صرف وہی ہیں جنہیں اللہ نے جنس قرار دیا ہے، یعنی مرد اور عورت۔ تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مخنث کیا ہیں؟ یہ درحقیقت ایک بیماری ہے۔ یہ بالکل ایسے ہی ایک بیماری ہے جیسے آنکھوں سے معذور، سماعت سے محروم افراد۔ دیگر معذور افراد کی طرح یہ لوگ بھی قابل توجہ اور قابل رحم ہوتے ہیں۔
یہ بیچارے اس قدر بدنصیب ہوتے ہیں کہ ان کی پیدائش کے بعد سے ہی ان پر ان کے اپنے گھر میں ہی محبتوں کے دروازے بند ہوجاتے ہیں، حالانکہ ان کا ایسا ہونے میں اپنا کوئی کردار نہیں ہوتا۔ لیکن کم علمی اور جہالت کی وجہ سے یہ اپنے گھر میں ہی اچھوت بن جاتے ہیں اور پھر دھیرے دھیرے اپنے جیسے لوگوں سے جاملتے ہیں جہاں پر نہ چاہتے ہوئے بھی پیٹ کا دوزخ بھرنے کےلیے یہ تاریک راہوں کے مسافر بن جاتے ہیں۔ کیونکہ ہمارا معاشرہ انہیں کوئی باعزت روزگار یا مقام دینے کو تیار نہیں ہوتا۔
ٹرانس جینڈرز کی اصطلاح کن لوگوں کےلیے ہے؟
ٹرانس جینڈر کی اصطلاح کو بھی لوگ خواجہ سراؤں میں ہی شمار کرتے ہیں، جبکہ یہ غلط ہے۔ ٹرانس جینڈر دراصل وہ افراد ہوتے ہیں جو بنیادی یا پیدائشی طور پر تو خواجہ سرا نہیں ہوتے بلکہ مکمل مرد یا مکمل عورت کے روپ میں پیدا ہوتے ہیں لیکن ہارمونز کی کمی بیشی اور نفسیاتی عوارض کے باعث بعد ازاں اپنی مخالف جنس میں شامل ہوجاتے ہیں۔ ٹرانس جینڈر کا مطلب بھی یہی ہے کہ ایسا فرد جس نے اپنی جنس کو ٹرانسفر کرلیا ہو۔ ایسے افراد جنس کی تبدیلی کےلیے آپریشن کروا کر مخالف جنس میں شامل ہوجاتے ہیں۔
ٹرانس جینڈر ایکٹ انہیں کیا حقوق دیتا ہے؟
ٹرانس جینڈرز ایکٹ دراصل حقیقی خواجہ سراؤں کو تحفظ اور حقوق دلانے کےلیے پیش کیا گیا تھا۔ 2018 میں منظور ہونے والا ٹرانس جینڈر ایکٹ انہیں قومی دھارے میں لانے کا سبب بنا۔ اس قانون کے منظور ہونے کے بعد یہ لوگ ڈرائیونگ لائسنس بنوا سکتے ہیں، جائیداد میں حصہ لے سکتے ہیں۔ اگر کوئی ان سے بھیک منگوائے تو اس پر 50000 روپے تک جرمانہ ہوسکتا ہے۔
اس قانون کے دور رس نتائج برآمد ہوں گے۔ اس قبیل کے وہ لوگ جو ایک پاکیزہ، نارمل زندگی گزارنا چاہتے ہیں وہ باعزت روزگار حاصل کرسکیں گے۔ جائیداد میں سے اپنا حصہ لے کر کاروبار کرسکیں گے۔ اور ایسا بھی ہوسکتا ہے ان کے گھر والے انہیں بے دخل ہی نہ کریں کیونکہ جس بدنامی کے ڈر سے وہ انہیں خود سےالگ کردیتے ہیں کل کو جائیداد کے حصے میں مطالبے کی صورت وہ بدنامی ان کا پیچھا کرے گی۔ اس لیے عین ممکن ہے بچپن ہی سے ان کا علاج کروایا جائے یا انہیں کسی باعزت شعبے میں ڈال دیا جائے۔
ٹرانس جینڈر ایکٹ میں غلط کیا ہے؟
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب یہ قانون اس قدر اچھا ہے تو ہماری مذہبی جماعتیں اور دیگر طبقات اس کی مخالفت کیوں کررہے ہیں؟ جیسا کہ اوپر بھی بیان کیا کہ یہ بل حقیقی خواجہ سراؤں کے تحفظ کےلیے تھا۔ لیکن دراصل ہوا کچھ یوں کہ اس قانون کی تشکیل کے دوران مادرپدر آزاد حلقوں نے اس میں کچھ غیر فطری اور متنازعہ شقیں شامل کروادیں۔ جیسے کہ اس بل کی شق نمبر 3 اور اس کی ذیلی شق نمبر 2 میں کہا گیا ہے کہ کسی بھی شخص کی جنس کا تعین اس کی اپنی مرضی کے مطابق ہوگا۔ یہاں سے ہم جنس پرستی کی راہ ہموار ہوتی ہے۔ اب اگر کوئی مرد کسی مرد سے شادی کرنا چاہے تو وہ نادرا میں جاکر ایک جھوٹا بیان حلفی جمع کروائے کہ مجھ میں عورت کی حسیات پیدا ہوچکی ہیں۔ نادرا بغیر کسی میڈیکل چیک اپ کے اس کے جھوٹے بیان حلفی کی بنیاد پر اسے عورت کا شناختی کارڈ جاری کردے گا۔ حالانکہ مادر پدر آزاد معاشرے برطانیہ میں بھی ایسا کرنے کےلیے میڈیکل کی شرط موجود ہے، لیکن ہم نے اس معاملے میں برطانیہ کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ اس طرح کی دیگر شقیں قرآن کی تعلیمات کی صریح خلاف ورزی ہیں۔ کیونکہ قرآن مجید فرقان حمید میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ انسان اپنے جسم کے بارے میں خود فیصلہ نہیں کرسکتا۔ انسانی جسم اللہ رب العزت کی امانت ہے، اس کا تصرف بھی اللہ رب العزت کے احکامات کی روشنی میں کیا جائے گا۔
اس قانون کی ایسی ہی شقوں کی بدولت اس کا منفی استعمال کیا جارہا ہے۔ بعض ذرائع کا یہ کہنا ہے کہ نادرا کے ریکارڈ کے مطابق صرف تین سال کے قلیل عرصے میں 29000 درخواستیں موصول ہوئیں، جن میں 16530 مردوں نے اپنی جنس عورت میں تبدیل کروائی، 15154 عورتوں نے اپنی جنس مرد میں تبدیل کروائی اور جن کےلیے قانون بنایا گیا تھا، یعنی جن کی آڑ لی گئی تھی، جن کے تحفظ کا پرچار کیا گیا تھا، ان کی کل 30 درخواستیں موصول ہوئیں۔ ان میں 21 خواجہ سراؤں نے مرد کے طور پر اور 9 نے عورت کے طور پر حیثیت اختیار کی۔
اصلاح کی کیا صورت ہے؟
حکومت کو چاہیے کہ اسلامی نظریاتی کونسل کی معاونت سے اس قانون کی غیر اسلامی اور غیر شرعی شقوں کا خاتمہ کیا جائے، اور فرد کے ذاتی بیان کو کافی نہ سمجھا جائے بلکہ اعلیٰ سطح کے میڈیکل بورڈ کے سرٹیفیکٹ سے مشروط کیا جائے۔ مزید برآں اس قانون کا نام تبدیل کیا جائے کیونکہ ٹرانس جینڈر ایک الگ سے تہذیب ہے، جنہیں ایل جی بی ٹی یعنی لزبین، گے، بائی سیکسوئیل کے نام پکارا جاتا ہے۔ غیر اسلامی شقوں کی تبدیلی کے بعد اسے اسلامی نام کے ساتھ نافذ کردیا جائے۔ اسی میں حقیقی خواجہ سراؤں کی بہتری ہے، بصورت دیگر کہیں ایسا نہ ہوکہ حکومت دباؤ میں آکر اس قانون کو بالکل ہی ختم نہ کردے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔