حکومت طالبان مذاکرات کیلیے 2 مقامات شارٹ لسٹ جنوبی وزیرستان میں پہلی ملاقات کا امکان
حکومت نے ایف آر بنوں، جبکہ طالبان نے جنوبی وزیرستان کا علاقہ شکتو تجویز کیا ہے۔
حکومت اورطالبان نے براہ راست مذاکرات کیلیے2 مقامات شارٹ لسٹ کرلیے ہیں، حکام کے مطابق یہ مقامات جنوبی وزیرستان کاعلاقہ شکتواورفرنٹیئر ریجن بنوں ہیں۔
ایکسپریس ٹریبیون کو ذرائع نے بتایاکہ حکومت نے ایف آر بنوں جبکہ طالبان نے شکتوکامقام تجویز کیا۔طالبان نے ایف آربنوں پر تحفظات ظاہر کیے ہیں اس لیے امکان ہے کہ فریقین میں پہلی ملاقات شکتو،جنوبی وزیرستان میں ہوگی۔دونوں مقامات وزیر داخلہ چوہدری نثار کی صدارات میں نئی حکومتی کمیٹی کے اجلاس میں شارٹ لسٹ کیے گئے، وزیر داخلہ نے طالبان مذاکراتی کمیٹی کے سربراہ مولاناسمیع الحق سے بھی مشاورت کی۔ ذرائع کے مطابق طالبان شوریٰ کے ارکان سیکیورٹی فورسز کی کارروائی کے خدشے کے پیش نظرایف آر بنوں کا سفر کرنے سے گریزاں ہیں جبکہ حکومتی کمیٹی کے ارکان طالبان کے زیر اثرعلاقے میں جانے میں سہولت محسوس نہیں کرتے،اس ڈیڈلاک کو ختم کرنے کیلیے امکان ہے کہ حکومت شکتوکے علاقے پراتفاق کرلے گی۔
ایک سرکاری افسرنے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایاکہ فریقین میں پہلی براہ راست ملاقات اہمیت کی حامل ہے کیونکہ اس ملاقات کے بعدتوقع ہے کہ فریقین میں اعتماد کاخلاکم ہوگا۔انھوں نے کہاکہ طالبان کوٹھوس یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ کہ مذاکرات میں شریک طالبان شوریٰ کے ارکان کے خلاف سیکیورٹی فورسزکوئی کارروائی نہیںکریںگی۔طالبان نے شکتوکامقام نسبتاً محفوظ خیال کرتے ہوئے تجویز کیاہے کیونکہ وہاں شمالی وزیرستان اوردیگرعلاقوں کے مقابلے میں سیکیورٹی فورسز کی موجودگی بہت کم ہے۔مذکورہ افسر نے بتایاکہ پہلی ملاقات کے بعددوسری ملاقات ایف آر بنوں میں ہونے کا امکان ہے، حتمی مقام کے حوالے سے فیصلہ جلدکر لیاجائیگا۔
وفاقی وزیرداخلہ چوہدری نثارسے طالبان سے مذاکرات کیلیے نئی حکومتی کمیٹی کے ارکان نے ملاقات کی جس کے دوران طالبان کی طرف سے پیش کردہ مطالبات پر غور کیاگیا، ملاقات کے دوران طے کیاگیا کہ مذاکرات کیلیے جس جگہ کابھی انتخاب کیاگیاحکومتی کمیٹی کے ارکان بغیر کسی تاخیرکے وہاں جا کرمذاکرات کریں گے۔ملاقات میں امن مذاکرات سے متعلق حکمت عملی کو حتمی شکل دے دی گئی۔وزیر داخلہ نے کہاکہ حکومت نے طالبان سے ملاقات کی جگہ کاجوتعین کیا ہے اس پراتفاق کیلیے گرین سگنل کاانتظارکررہی ہے۔
آئی این پی کے مطابق حکومت اورطالبان کی ملاقات کیلیے بنوں ایئرپورٹ پر اتفاق ہوگیاہے۔ حکومت کی طرف سے طالبان سے کہاجائے گاکہ وہ اپنے ڈسپلن میں نہ آنیوالے گروپس کی نشاندہی کریں تاکہ حکومت ان گروپس کے خلاف کارروائی کرے۔وزیر داخلہ نے واضح کیاکہ سیاسی اورعسکری قیادت نے ایسے عسکری گروپوں کے بارے میں اپنی پالیسی واضح کردی ہے کہ اگرانھوں نے منفی کارروائیاں بند نہ کیں تو ان کے خلاف سخت ترین کارروائی کی جائیگی۔وزیرداخلہ نے پاکستان علما کونسل کے سربراہ طاہر اشرفی سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ مدارس عربیہ کا ملک میں کردارہمیشہ مثبت رہا ہے مدارس عربیہ کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا جا رہا۔ علمااو ر مدارس عربیہ کے ذمے داران افواہوں اور مفروضوں پر یقین نہ کریں۔
قومی سیکیورٹی پالیسی میں مدارس عربیہ کیخلاف کوئی سازش نہیں کی جا رہی۔ادھر طالبان کمیٹی کے سربراہ مولانا سمیع الحق نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ طالبان کسی بھی حکومتی عمارت میں یاایئرپورٹ پر مذاکرات کیلیے ہرگز تیار نہیں جبکہ حکومتی کمیٹی کوبھی ان کے پاس جانے میں دشواری کا سامنا ہے کیونکہ وہ دور دراز کے علاقے ہیں مذاکرات میں کوئی ڈیڈ لاک نہیں،دونوں کمیٹیوںکی جمعے کو ملاقات ہوگی، طالبان ماضی کے تجربات کی وجہ سے حکومتی عملداری والے علاقے میں آکربات کرنے سے گریزاں ہیں،خواجہ آصف کو کہتا ہوں کہ وہ خاموش رہیں، نواز شریف مذاکرات کی کامیابی کیلیے پرعزم ہیں جگہ کاحتمی تعین ہونے کے بعد امن کا عمل منطقی انجام تک پہنچائیں گے،ہم یہ نہیں چاہتے کہ ملک کے کسی خطے کوطالبان کے حوالے کردیا جائے ہمیں حکومت کو محفوظ جگہ لے جاناہے،اگر طالبان کو معلوم ہوجائے کہ سیز فائر کے بعد ملک میں دھماکے کس نے کیے تو وہ خودانھیں دیکھ لیں گے،بدامنی میں بیرونی طاقتیں اوران کی ایجنسیاں ملوث ہیں،خواجہ آصف سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ سوچ سمجھ کر بات کیاکریں۔
طالبان کمیٹی کے رکن پروفیسر ابراہیم نے پشاور میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حکومت اور طالبان کے درمیان براہ راست مذاکرات بہت جلدمتوقع ہیں اور یہ کامیاب ہونگے، مذاکراتی عمل میں تاخیر نقصان دہ ہوسکتی ہے،طالبان پاکستان کے آئین کے بارے میں جو خیالات رکھتے ہیں اُن کا مذاکرات پرکوئی اثر نہیں پڑے گا،آئین اسلامی ہے، مذاکراتی عمل میں ٹائم فیکٹر(Time Factor) بہت اہمیت اختیار کرچکاہے اور پوری قوم حکومت اور طالبان مذاکرات کی کامیابی چاہتی ہے ۔پروفیسرابراہیم نے مزید کہا کہ طالبان کا دعویٰ ہے کہ300سے زائد عورتیں ، بچے اور غیر عسکری افرادمختلف حکومتی ایجنسیوں کی قید میں ہیں جبکہ آئی ایس پی آرنے طالبان کے دعوے کی تردید کی ہے۔
انھوں نے کہا کہ وہ نہ توطالبان کے دعوے کی تصدیق یا تردید کر سکتے ہیں اورنہ ہی وہ آئی ایس پی آر کے بیان کو غلط یا درست کہہ سکتے ہیں کیونکہ اس حوالے سے طالبان کمیٹی کے پاس کوئی معلومات نہیں تاہم انھوں نے کہاکہ طالبان چاہتے ہیں کہ ان کے دعوے کی حقیقت جاننے کے لیے کوئی تحقیقاتی کمیشن بنایاجاسکتاہے جو ان علاقوں کا دورہ کر کے یہ معلوم کر سکتا ہے کہ طالبان کے دعوے میں کتنی صداقت ہے؟ تاہم انھوں نے کہا کہ یہ معاملات حکومت اورطالبان کے درمیان براہ راست مذاکرات کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنیں گے۔ طالبان شوریٰ اور وزیراعظم نواز شریف ، وزیر داخلہ چوہدری نثار سمیت اعلی حکومتی عہدیداروں سے حالیہ ملاقاتوں میں انھوں نے یہ محسوس کیاہے دونوں طرف امن کی شدید خواہش پائی جاتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ انھیں مذاکرات کی کامیابی کی قوی اُمیدہے۔
ایکسپریس ٹریبیون کو ذرائع نے بتایاکہ حکومت نے ایف آر بنوں جبکہ طالبان نے شکتوکامقام تجویز کیا۔طالبان نے ایف آربنوں پر تحفظات ظاہر کیے ہیں اس لیے امکان ہے کہ فریقین میں پہلی ملاقات شکتو،جنوبی وزیرستان میں ہوگی۔دونوں مقامات وزیر داخلہ چوہدری نثار کی صدارات میں نئی حکومتی کمیٹی کے اجلاس میں شارٹ لسٹ کیے گئے، وزیر داخلہ نے طالبان مذاکراتی کمیٹی کے سربراہ مولاناسمیع الحق سے بھی مشاورت کی۔ ذرائع کے مطابق طالبان شوریٰ کے ارکان سیکیورٹی فورسز کی کارروائی کے خدشے کے پیش نظرایف آر بنوں کا سفر کرنے سے گریزاں ہیں جبکہ حکومتی کمیٹی کے ارکان طالبان کے زیر اثرعلاقے میں جانے میں سہولت محسوس نہیں کرتے،اس ڈیڈلاک کو ختم کرنے کیلیے امکان ہے کہ حکومت شکتوکے علاقے پراتفاق کرلے گی۔
ایک سرکاری افسرنے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایاکہ فریقین میں پہلی براہ راست ملاقات اہمیت کی حامل ہے کیونکہ اس ملاقات کے بعدتوقع ہے کہ فریقین میں اعتماد کاخلاکم ہوگا۔انھوں نے کہاکہ طالبان کوٹھوس یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ کہ مذاکرات میں شریک طالبان شوریٰ کے ارکان کے خلاف سیکیورٹی فورسزکوئی کارروائی نہیںکریںگی۔طالبان نے شکتوکامقام نسبتاً محفوظ خیال کرتے ہوئے تجویز کیاہے کیونکہ وہاں شمالی وزیرستان اوردیگرعلاقوں کے مقابلے میں سیکیورٹی فورسز کی موجودگی بہت کم ہے۔مذکورہ افسر نے بتایاکہ پہلی ملاقات کے بعددوسری ملاقات ایف آر بنوں میں ہونے کا امکان ہے، حتمی مقام کے حوالے سے فیصلہ جلدکر لیاجائیگا۔
وفاقی وزیرداخلہ چوہدری نثارسے طالبان سے مذاکرات کیلیے نئی حکومتی کمیٹی کے ارکان نے ملاقات کی جس کے دوران طالبان کی طرف سے پیش کردہ مطالبات پر غور کیاگیا، ملاقات کے دوران طے کیاگیا کہ مذاکرات کیلیے جس جگہ کابھی انتخاب کیاگیاحکومتی کمیٹی کے ارکان بغیر کسی تاخیرکے وہاں جا کرمذاکرات کریں گے۔ملاقات میں امن مذاکرات سے متعلق حکمت عملی کو حتمی شکل دے دی گئی۔وزیر داخلہ نے کہاکہ حکومت نے طالبان سے ملاقات کی جگہ کاجوتعین کیا ہے اس پراتفاق کیلیے گرین سگنل کاانتظارکررہی ہے۔
آئی این پی کے مطابق حکومت اورطالبان کی ملاقات کیلیے بنوں ایئرپورٹ پر اتفاق ہوگیاہے۔ حکومت کی طرف سے طالبان سے کہاجائے گاکہ وہ اپنے ڈسپلن میں نہ آنیوالے گروپس کی نشاندہی کریں تاکہ حکومت ان گروپس کے خلاف کارروائی کرے۔وزیر داخلہ نے واضح کیاکہ سیاسی اورعسکری قیادت نے ایسے عسکری گروپوں کے بارے میں اپنی پالیسی واضح کردی ہے کہ اگرانھوں نے منفی کارروائیاں بند نہ کیں تو ان کے خلاف سخت ترین کارروائی کی جائیگی۔وزیرداخلہ نے پاکستان علما کونسل کے سربراہ طاہر اشرفی سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ مدارس عربیہ کا ملک میں کردارہمیشہ مثبت رہا ہے مدارس عربیہ کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا جا رہا۔ علمااو ر مدارس عربیہ کے ذمے داران افواہوں اور مفروضوں پر یقین نہ کریں۔
قومی سیکیورٹی پالیسی میں مدارس عربیہ کیخلاف کوئی سازش نہیں کی جا رہی۔ادھر طالبان کمیٹی کے سربراہ مولانا سمیع الحق نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ طالبان کسی بھی حکومتی عمارت میں یاایئرپورٹ پر مذاکرات کیلیے ہرگز تیار نہیں جبکہ حکومتی کمیٹی کوبھی ان کے پاس جانے میں دشواری کا سامنا ہے کیونکہ وہ دور دراز کے علاقے ہیں مذاکرات میں کوئی ڈیڈ لاک نہیں،دونوں کمیٹیوںکی جمعے کو ملاقات ہوگی، طالبان ماضی کے تجربات کی وجہ سے حکومتی عملداری والے علاقے میں آکربات کرنے سے گریزاں ہیں،خواجہ آصف کو کہتا ہوں کہ وہ خاموش رہیں، نواز شریف مذاکرات کی کامیابی کیلیے پرعزم ہیں جگہ کاحتمی تعین ہونے کے بعد امن کا عمل منطقی انجام تک پہنچائیں گے،ہم یہ نہیں چاہتے کہ ملک کے کسی خطے کوطالبان کے حوالے کردیا جائے ہمیں حکومت کو محفوظ جگہ لے جاناہے،اگر طالبان کو معلوم ہوجائے کہ سیز فائر کے بعد ملک میں دھماکے کس نے کیے تو وہ خودانھیں دیکھ لیں گے،بدامنی میں بیرونی طاقتیں اوران کی ایجنسیاں ملوث ہیں،خواجہ آصف سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ سوچ سمجھ کر بات کیاکریں۔
طالبان کمیٹی کے رکن پروفیسر ابراہیم نے پشاور میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حکومت اور طالبان کے درمیان براہ راست مذاکرات بہت جلدمتوقع ہیں اور یہ کامیاب ہونگے، مذاکراتی عمل میں تاخیر نقصان دہ ہوسکتی ہے،طالبان پاکستان کے آئین کے بارے میں جو خیالات رکھتے ہیں اُن کا مذاکرات پرکوئی اثر نہیں پڑے گا،آئین اسلامی ہے، مذاکراتی عمل میں ٹائم فیکٹر(Time Factor) بہت اہمیت اختیار کرچکاہے اور پوری قوم حکومت اور طالبان مذاکرات کی کامیابی چاہتی ہے ۔پروفیسرابراہیم نے مزید کہا کہ طالبان کا دعویٰ ہے کہ300سے زائد عورتیں ، بچے اور غیر عسکری افرادمختلف حکومتی ایجنسیوں کی قید میں ہیں جبکہ آئی ایس پی آرنے طالبان کے دعوے کی تردید کی ہے۔
انھوں نے کہا کہ وہ نہ توطالبان کے دعوے کی تصدیق یا تردید کر سکتے ہیں اورنہ ہی وہ آئی ایس پی آر کے بیان کو غلط یا درست کہہ سکتے ہیں کیونکہ اس حوالے سے طالبان کمیٹی کے پاس کوئی معلومات نہیں تاہم انھوں نے کہاکہ طالبان چاہتے ہیں کہ ان کے دعوے کی حقیقت جاننے کے لیے کوئی تحقیقاتی کمیشن بنایاجاسکتاہے جو ان علاقوں کا دورہ کر کے یہ معلوم کر سکتا ہے کہ طالبان کے دعوے میں کتنی صداقت ہے؟ تاہم انھوں نے کہا کہ یہ معاملات حکومت اورطالبان کے درمیان براہ راست مذاکرات کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنیں گے۔ طالبان شوریٰ اور وزیراعظم نواز شریف ، وزیر داخلہ چوہدری نثار سمیت اعلی حکومتی عہدیداروں سے حالیہ ملاقاتوں میں انھوں نے یہ محسوس کیاہے دونوں طرف امن کی شدید خواہش پائی جاتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ انھیں مذاکرات کی کامیابی کی قوی اُمیدہے۔