فضائی آلودگی کینسر کا سبب کیسے بنتی ہے
ابتدا میں ایک صحت مند خلیہ اپنے جینیاتی کوڈ یا ڈی این اے میں زیادہ سے زیادہ جینیاتی تبدیلی حاصل کرتا ہے
محققین کا کہنا ہے کہ انھوں نے ایک ایسی دریافت کی ہے جس سے فضائی آلودگی سے ٹیومر بننے کے بارے میں مدد ملی ہے۔
لندن میں فرانسک کرک انسٹیٹیوٹ میں یہ تحقیق سامنے آئی ہے کہ فضائی آلودگی نقصان پہنچانے کے بجائے پرانے تباہ ہوئے سیلز کو جگا دیتی ہے۔ پروفیسر چارلس سوان تان، جو کہ دنیا کے بڑے ماہرین میں شامل ہیں، کا کہنا ہے کہ اس دریفت نے ایک نئے دور کا آغاز کیا ہے اور اب شاید کینسر کو روکنے کے لیے دوا تیار کرنا بھی ممکن ہو جائے۔ یہ نتائج یہ وضاحت بھی کر سکتے ہیں کہ جسم میں کینسر کی وجہ بننے والے سینکڑوں مادے جسم پر کیا اثر چھوڑتے ہیں۔
کینسر پر تحقیق میں یہ سامنے آتا ہے کہ ابتدا میں ایک صحت مند خلیہ اپنے جینیاتی کوڈ یا ڈی این اے میں زیادہ سے زیادہ جینیاتی تبدیلی حاصل کرتا ہے اور پھر یہ اپنی آخری حد یعنی کہ ٹوٹنے تک پہنچ جاتا ہے۔ اس صورتحال میں یہ کینسر بن جاتا ہے اور یہ بنا کسی کنٹرول کے بڑھنے لگتا ہے۔ تاہم اس خیال میں کچھ مسائل بھی ہیں: صحت مند ٹشوز میں کینسر کی جینیاتی تبدیلیاں پائی گئی ہیں اور بہت سے مادے جو کینسر کا سبب بننے کے لیے جانے جاتے ہیں، بشمول فضائی آلودگی وہ لوگوں کے ڈی این اے کو نقصان نہیں پہنچاتے۔
تو پھر کیا ہو رہا ہے؟
یونیورسٹی کالج لندن کے محققین نے ایک مختلف نظریہ پیش کیا ہے۔ اس خیال کے مطابق جیسے جیسے ہماری عمر بڑھتی ہے، ہمارے جسم کے خلیے کے ڈی این اے میں خرابی ہو چکی ہوتی ہے۔ یہ دریافت اس سوال کے جواب کی تلاش میں سامنے آئی جس میں یہ پتہ لگانے کی کوشش کی گئی کہ جو لوگ سگریٹ نہیں پیتے آخر انھیں پھیپھڑوں کا کینسر کیوں ہو جاتا ہے۔ برطانیہ کی مثال لیں تو وہاں پھیپھڑوں کے کینسر میں مبتلا زیادہ تر افراد وہ ہیں جو سگریٹ پیتے تھے لیکن 10 کیسز میں سے ایک ایسا کیس ہے جس میں فضائی آلودگی پھیپھڑوں کے سرطان کا سبب بنی۔
کرک سے وابستہ سائنس دانوں نے اپنے تحقیق کو آلودگی کا سبب بننے والے چھوٹے چھوٹے ذرات پر مرکوز رکھا جو انسانی بال کے قطر سے بھی چھوٹے ہیں، اور انھیں پی ایم 2.5 کے نام سے جانا جاتا ہے۔ انسانوں اور جانوروں پر تفصیلی تجربات کے سلسلوں میں یہ سامنے آیا کہ:
وہ علاقے جہاں فضائی آلودگی زیادہ ہے، وہاں لوگوں میں کینسر کی وجہ سگریٹ نہیں۔
پی ایم 2.5 میں سانس لینے سے ہمارے پھیپھڑوں میں انٹرلیوکن ون بیٹا خارج ہوتا ہے جو کہ خطرے کی گھنٹی ہے۔
اس کی وجہ سے سوزش ہو جاتی ہے اور پھیپھڑوں میں ہونے والے نقصان کو ٹھیک کرنے کے لیے خلیے متحرک ہو جاتے ہیں۔
50 برس سے زیادہ عمر کے افراد میں ہر چھ لاکھ خلیوں میں سے ایک خلیے میں ویسے بھی جینیاتی تبدیلی کا امکان ہوتا ہے جو کہ کینسر کا سبب بن سکتی ہے۔
یہ عمر کے بڑھنے کے ساتھ ہوتا ہے لیکن بظاہر صحت مند دکھائی دیتا ہے اور کیمیکل الارم سے متحرک ہوتا ہے اور کینسر میں بدل جاتا ہے۔
یہاں اہم بات یہ ہے کہ محققین خطرے کی گھنٹی کے سگنل کو روکنے والی دوا کا استعمال کر کے فضائی آلودگی سے متاثرہ چوہوں میں بننے والے کینسر کو روکنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔
فضائی آلودگی کے اثرات اور ہمیں کینسر کیسے ہوتا ہے، اس کی بنیادی باتوں کو سمجھنے کے لیے یہ نتائج ڈبل بریک تھرو یا دوہری کامیابی ہیں۔
ڈاکٹر ایمیلیا لم ان محققین میں سے ایک ہیں جو کرک اور یو سی ایل میں مقیم ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جن لوگوں نے کبھی سگریٹ نوشی نہیں کی تھی لیکن انھیں پھیپھڑوں کا کینسر ہوا تھا، اکثر کو اس کی وجہ معلوم نہیں ہوتی تھی۔
وہ کہتی ہیں کہ 'انھیں اس بارے میں کچھ اشارہ دینا کہ یہ کیسے کام کر سکتا ہے واقعی بہت اہم ہے۔ یہ انتہائی اہم ہے۔ دنیا میں 99 فیصد لوگ ایسی جگہوں پر رہتے ہیں جہاں فضائی آلودگی اقوام متحدہ کے ادارہ برائے صحت کے رہنما اصولوں سے زیادہ ہے۔ اس لیے یہ واقعی ہم سب کو متاثر کرتی ہے۔'
لیکن نتائج نے یہ بھی ظاہر کیا کہ صرف جینیاتی تبدیلی ہی کینسر کا سبب بننے کے لیے کافی نہیں۔ انھیں ایک اضافی عنصر کی ضرورت بھی ہو سکتی ہے۔ پروفیسر سوانٹن کے مطابق یہ ان کی لیبارٹری کا سب سے دلچسپ نتیجہ تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ مالیکیولر کینسر کی روک تھام کے لیے یہ ہمیں نئے دور کی جانب لے جائے گا۔اگر آپ بہت زیادہ آلودہ علاقے میں رہتے ہیں تو کینسر کو روکنے والی دوا کا خیال اب مکمل طور پر خیال نہیں ہے۔
ڈاکٹروں نے پہلے ہی دل کی بیماری میں ایک انٹرلییوکن-1-بیٹا دوا کا تجربہ کیا ہے اور پتہ چلا ہے کہ، مکمل حادثے کی صورت میں وہ پھیپھڑوں کے کینسر کے خطرے کو کم کرتے ہیں۔ تازہ نتائج کو یورپین سوسائٹی فار میڈیکل آنکولوجی کی ایک کانفرنس میں سائنسدانوں کے سامنے پیش کیا جا رہا ہے۔
کانفرنس میں شامل پروفیسر سوانٹن نے بتایا کہ 'آلودگی ایک خوبصورت مثال ہے مگر اگلے 10 سالوں میں اس کی 200 دوسری مثالیں آنے والی ہیں۔' ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہمیں اس بات پر دوبارہ سے غور کرنے کی ضرورت ہے کہ سگریٹ بھی کینسر کا سبب کیسے بنتا ہے؟ کیا یہ صرف تمباکو میں موجود کیمیکلز کی وجہ سے ڈی این اے کو پہنچنے والا نقصان ہے یا دھواں بھی سوزش کا باعث بنتا ہے؟
یہ خیال کہ تبدیل شدہ ڈی این اے کافی نہیں ہے اور کینسر کو بڑھنے کے لیے ایک اور محرک کی ضرورت ہے سب سے پہلے 1947 میں سائنسدان آئزک بیرن بلم نے تجویز کیا تھا۔ ان معتبر ماہرینِ حیاتیات نے75 برس پہلے یہ کام کیا تھا اور انھیں بڑے پیمانے پر نظر انداز کیا گیا تھا۔
مشعل میچل برطانیہ میں کینسر کے متعلق ریسرچ کے ادارے میں چیف ایگزیکٹو ہیں۔ وہ اس بات پر زور دیتی ہیں کہ سگریٹ نوشی پھیپھڑوں کے کینسر کی سب سے بڑی وجہ رہی ہے۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ اب ہماری سوچ بدل رہی ہے کہ کینسر کیسے پروان چڑھتا ہے۔ 'اب ہمارے پاس یہ جاننے کے لیے کہ پھیپھڑوں کے کینسر کے پیچھے کونسی وجوہات کارفرما ہیں بہتر سمجھ بوجھ ہے۔' ( بشکریہ بی بی سی )
لندن میں فرانسک کرک انسٹیٹیوٹ میں یہ تحقیق سامنے آئی ہے کہ فضائی آلودگی نقصان پہنچانے کے بجائے پرانے تباہ ہوئے سیلز کو جگا دیتی ہے۔ پروفیسر چارلس سوان تان، جو کہ دنیا کے بڑے ماہرین میں شامل ہیں، کا کہنا ہے کہ اس دریفت نے ایک نئے دور کا آغاز کیا ہے اور اب شاید کینسر کو روکنے کے لیے دوا تیار کرنا بھی ممکن ہو جائے۔ یہ نتائج یہ وضاحت بھی کر سکتے ہیں کہ جسم میں کینسر کی وجہ بننے والے سینکڑوں مادے جسم پر کیا اثر چھوڑتے ہیں۔
کینسر پر تحقیق میں یہ سامنے آتا ہے کہ ابتدا میں ایک صحت مند خلیہ اپنے جینیاتی کوڈ یا ڈی این اے میں زیادہ سے زیادہ جینیاتی تبدیلی حاصل کرتا ہے اور پھر یہ اپنی آخری حد یعنی کہ ٹوٹنے تک پہنچ جاتا ہے۔ اس صورتحال میں یہ کینسر بن جاتا ہے اور یہ بنا کسی کنٹرول کے بڑھنے لگتا ہے۔ تاہم اس خیال میں کچھ مسائل بھی ہیں: صحت مند ٹشوز میں کینسر کی جینیاتی تبدیلیاں پائی گئی ہیں اور بہت سے مادے جو کینسر کا سبب بننے کے لیے جانے جاتے ہیں، بشمول فضائی آلودگی وہ لوگوں کے ڈی این اے کو نقصان نہیں پہنچاتے۔
تو پھر کیا ہو رہا ہے؟
یونیورسٹی کالج لندن کے محققین نے ایک مختلف نظریہ پیش کیا ہے۔ اس خیال کے مطابق جیسے جیسے ہماری عمر بڑھتی ہے، ہمارے جسم کے خلیے کے ڈی این اے میں خرابی ہو چکی ہوتی ہے۔ یہ دریافت اس سوال کے جواب کی تلاش میں سامنے آئی جس میں یہ پتہ لگانے کی کوشش کی گئی کہ جو لوگ سگریٹ نہیں پیتے آخر انھیں پھیپھڑوں کا کینسر کیوں ہو جاتا ہے۔ برطانیہ کی مثال لیں تو وہاں پھیپھڑوں کے کینسر میں مبتلا زیادہ تر افراد وہ ہیں جو سگریٹ پیتے تھے لیکن 10 کیسز میں سے ایک ایسا کیس ہے جس میں فضائی آلودگی پھیپھڑوں کے سرطان کا سبب بنی۔
کرک سے وابستہ سائنس دانوں نے اپنے تحقیق کو آلودگی کا سبب بننے والے چھوٹے چھوٹے ذرات پر مرکوز رکھا جو انسانی بال کے قطر سے بھی چھوٹے ہیں، اور انھیں پی ایم 2.5 کے نام سے جانا جاتا ہے۔ انسانوں اور جانوروں پر تفصیلی تجربات کے سلسلوں میں یہ سامنے آیا کہ:
وہ علاقے جہاں فضائی آلودگی زیادہ ہے، وہاں لوگوں میں کینسر کی وجہ سگریٹ نہیں۔
پی ایم 2.5 میں سانس لینے سے ہمارے پھیپھڑوں میں انٹرلیوکن ون بیٹا خارج ہوتا ہے جو کہ خطرے کی گھنٹی ہے۔
اس کی وجہ سے سوزش ہو جاتی ہے اور پھیپھڑوں میں ہونے والے نقصان کو ٹھیک کرنے کے لیے خلیے متحرک ہو جاتے ہیں۔
50 برس سے زیادہ عمر کے افراد میں ہر چھ لاکھ خلیوں میں سے ایک خلیے میں ویسے بھی جینیاتی تبدیلی کا امکان ہوتا ہے جو کہ کینسر کا سبب بن سکتی ہے۔
یہ عمر کے بڑھنے کے ساتھ ہوتا ہے لیکن بظاہر صحت مند دکھائی دیتا ہے اور کیمیکل الارم سے متحرک ہوتا ہے اور کینسر میں بدل جاتا ہے۔
یہاں اہم بات یہ ہے کہ محققین خطرے کی گھنٹی کے سگنل کو روکنے والی دوا کا استعمال کر کے فضائی آلودگی سے متاثرہ چوہوں میں بننے والے کینسر کو روکنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔
فضائی آلودگی کے اثرات اور ہمیں کینسر کیسے ہوتا ہے، اس کی بنیادی باتوں کو سمجھنے کے لیے یہ نتائج ڈبل بریک تھرو یا دوہری کامیابی ہیں۔
ڈاکٹر ایمیلیا لم ان محققین میں سے ایک ہیں جو کرک اور یو سی ایل میں مقیم ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جن لوگوں نے کبھی سگریٹ نوشی نہیں کی تھی لیکن انھیں پھیپھڑوں کا کینسر ہوا تھا، اکثر کو اس کی وجہ معلوم نہیں ہوتی تھی۔
وہ کہتی ہیں کہ 'انھیں اس بارے میں کچھ اشارہ دینا کہ یہ کیسے کام کر سکتا ہے واقعی بہت اہم ہے۔ یہ انتہائی اہم ہے۔ دنیا میں 99 فیصد لوگ ایسی جگہوں پر رہتے ہیں جہاں فضائی آلودگی اقوام متحدہ کے ادارہ برائے صحت کے رہنما اصولوں سے زیادہ ہے۔ اس لیے یہ واقعی ہم سب کو متاثر کرتی ہے۔'
لیکن نتائج نے یہ بھی ظاہر کیا کہ صرف جینیاتی تبدیلی ہی کینسر کا سبب بننے کے لیے کافی نہیں۔ انھیں ایک اضافی عنصر کی ضرورت بھی ہو سکتی ہے۔ پروفیسر سوانٹن کے مطابق یہ ان کی لیبارٹری کا سب سے دلچسپ نتیجہ تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ مالیکیولر کینسر کی روک تھام کے لیے یہ ہمیں نئے دور کی جانب لے جائے گا۔اگر آپ بہت زیادہ آلودہ علاقے میں رہتے ہیں تو کینسر کو روکنے والی دوا کا خیال اب مکمل طور پر خیال نہیں ہے۔
ڈاکٹروں نے پہلے ہی دل کی بیماری میں ایک انٹرلییوکن-1-بیٹا دوا کا تجربہ کیا ہے اور پتہ چلا ہے کہ، مکمل حادثے کی صورت میں وہ پھیپھڑوں کے کینسر کے خطرے کو کم کرتے ہیں۔ تازہ نتائج کو یورپین سوسائٹی فار میڈیکل آنکولوجی کی ایک کانفرنس میں سائنسدانوں کے سامنے پیش کیا جا رہا ہے۔
کانفرنس میں شامل پروفیسر سوانٹن نے بتایا کہ 'آلودگی ایک خوبصورت مثال ہے مگر اگلے 10 سالوں میں اس کی 200 دوسری مثالیں آنے والی ہیں۔' ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہمیں اس بات پر دوبارہ سے غور کرنے کی ضرورت ہے کہ سگریٹ بھی کینسر کا سبب کیسے بنتا ہے؟ کیا یہ صرف تمباکو میں موجود کیمیکلز کی وجہ سے ڈی این اے کو پہنچنے والا نقصان ہے یا دھواں بھی سوزش کا باعث بنتا ہے؟
یہ خیال کہ تبدیل شدہ ڈی این اے کافی نہیں ہے اور کینسر کو بڑھنے کے لیے ایک اور محرک کی ضرورت ہے سب سے پہلے 1947 میں سائنسدان آئزک بیرن بلم نے تجویز کیا تھا۔ ان معتبر ماہرینِ حیاتیات نے75 برس پہلے یہ کام کیا تھا اور انھیں بڑے پیمانے پر نظر انداز کیا گیا تھا۔
مشعل میچل برطانیہ میں کینسر کے متعلق ریسرچ کے ادارے میں چیف ایگزیکٹو ہیں۔ وہ اس بات پر زور دیتی ہیں کہ سگریٹ نوشی پھیپھڑوں کے کینسر کی سب سے بڑی وجہ رہی ہے۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ اب ہماری سوچ بدل رہی ہے کہ کینسر کیسے پروان چڑھتا ہے۔ 'اب ہمارے پاس یہ جاننے کے لیے کہ پھیپھڑوں کے کینسر کے پیچھے کونسی وجوہات کارفرما ہیں بہتر سمجھ بوجھ ہے۔' ( بشکریہ بی بی سی )