محکمہ صحت سندھ کے پاس کینسر کے مریضوں کا ڈیٹا موجود نہیں عذرا پیچوہو
حاملہ خواتین،ملیریا اور مختلف بیماریوں سے ہونے والی اموات کا ڈیٹا بھی درست نہ ہونے کے خدشات موجود ہیں، وزیر صحت سندھ
وزیر صحت و بہبود آبادی سندھ ڈاکٹر عذرا فضل پیچوہو نے کہا کہ محکمہ صحت سندھ کے پاس کینسر اور اس جیسی موزی بیماری پیپیلوما وائرس کا ڈیٹا موجود نہیں ہے۔جبکہ حاملہ خواتین ،ملیریا اور مختلف بیماریوں سے ہونے والی اموات کا ڈیٹا بھی درست نہ ہونے کے خدشات موجود ہیں۔
ان خیالات کا اظہارانہوں نے جمعرات کو جامعہ کراچی میں آئی سی سی بی ایس میں آئی پی وی ایس سمپوزیم کی افتتاحی تقریب میں بطور مہمان خصوصی کیا۔
انہوں نےکہا کہ محکمہ صحت سندھ کے پاس کینسر اور اس جیسی موزی بیماری پیپیلو ما وائرس کا ڈیٹا موجود نہیں ہے۔جبکہ حاملہ خواتین ،ملیریا اور مختلف بیماریوں سے ہونے والی اموات کا ڈیٹا بھی درست نہ ہونے کے خدشات موجود ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ 9000 رجسٹرڈ سیلاب متاثرہ حاملہ خواتین ہمارے پاس کیمپس میں موجود ہیں لیکن ڈینگی کا ڈینا نجی اسپتال سے نہیں آرہا تھا۔150-200 افراد روزانہ کی بنیاد پر ڈینگی سے متاثر ہورہے ہیں۔ اموات کا ڈیٹا درست نا ہونے کا خدشہ ہے کیوں کہ گھروں میں ہونے والے اموات رپورٹ نہیں ہوتی ہیں لیکن زیادہ اموات کیسٹرو ،اسہال اور پیچش سے ہورہی ہیں۔
عذرا پیچوہونے کہا کہ نظام اتنا متاثر ہوچکا ہے کہ 1200 صحت کے مراکز غیر فعال ہوچکے ہیں۔اس کے سبب بھی ڈیٹا جمع کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔اس پروگرام میں نامور خواتین ڈاکٹرز، میڈیا اہلکاروں اور خواتین صحت کارکنوں کے تین سیشن شامل ہیں۔ ملک میں نوعمر لڑکیوں کو پیپیلوما وائرس کے ٹیکے لگواکر بچہ دانی کے سرطان (سروائیکل کینسر) کی رو ک تھام ممکن ہے۔سندھ کی وزارتِ صحت اس کوشش میں ہے کہ صوبے میں اس مرض سے زیادہ متاثرہ علاقوں میں امراض کے مقابل منظم امیونائزیشن پروگرام شروع ہو۔اس مرض کی روک تھام میں تحقیق کی ضرورت کلیدی ہے۔صحت مند ماں ہی صحت مند خاندان کی پرورش کرسکتی ہے۔
صوبائی وزیر کا کہنا تھا کہ ان کی وزارت اس وقت حالیہ تباہ کن سیلاب کے چیلنجوں سے نمٹنے میں مصروف ہے اور وہ انہیں نہ صرف زندگی کی بنیادی ضروریات (خوراک، پانی، رہائش) فراہم کرنے کےلیے ذمہ داری نبھا رہی ہیں بلکہ ان کی حفاظت بھی کر رہی ہے۔ جان لیوا بیماریاں جیسے ڈینگی، ملیریا، گیسٹرو، پانی سے پیدا ہونے والے انفیکشن، جلدی امراض سمیت دیگر امراض کےلیے اقدامات میں مصروف ہیں۔
وزیر صحت سندھ نے کہا کہ وہ اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں کہ نوعمر لڑکیوں کی ایچ پی وی حفاظتی ٹیکوں سے خواتین میں سروائیکل کینسر کے خطرے کو کافی حد تک کم کیا جا سکتا ہے اور یہ کہ وزارت کینسر کو ختم کرنے اور اسے کم کرنے کےلیے حفاظتی ٹیکوں کی مہم شروع کرنے کے لیے جلد حکمت عملی اختیار کرے گی ۔
معزز پینل میں آئی سی سی بی ایس کے سرپرست اعلیٰ ڈاکٹر عطاء الرحمان، کراچی یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر خالد ایم عراقی، جرمنی کے قونصل جنرل روڈیگر لوٹز، ڈائریکٹر آئی سی سی بی ایس ڈاکٹر اقبال چودہری بھی شامل تھے۔
اس کانفرنس میں دنیا بھر کے ان ڈاکٹروں نے آن لائن شرکت کی جنہوں نے ہیومن پیپیلوما وائرس اور اس کی ویکسین کا مطالعہ کیا ہے۔
اس موقع پر انہوں نے کہا کہ چونکہ یہ کینسر کسی ایک ایجنٹ کی وجہ سے ہوتا ہے اس لیے یہ سب سے زیادہ روکے جانے والے کینسروں میں سے ایک ہے لیکن آگاہی اور ویکسینیشن کی کمی کی وجہ سے یہ سب سے زیادہ پھیلنے والے کینسروں میں شمار کرتا ہے۔
محکمہ صحت نے سندھ کے بڑے شہروں میں زچگی کے متعدد مراکز میں اسکریننگ شروع کردی ہے اور انہوں نے کہا کہ وہ ان کوششوں میں بین الاقوامی شراکت داروں کے مشورے اور تکنیکی مدد کی منتظر ہیں۔
ان خیالات کا اظہارانہوں نے جمعرات کو جامعہ کراچی میں آئی سی سی بی ایس میں آئی پی وی ایس سمپوزیم کی افتتاحی تقریب میں بطور مہمان خصوصی کیا۔
انہوں نےکہا کہ محکمہ صحت سندھ کے پاس کینسر اور اس جیسی موزی بیماری پیپیلو ما وائرس کا ڈیٹا موجود نہیں ہے۔جبکہ حاملہ خواتین ،ملیریا اور مختلف بیماریوں سے ہونے والی اموات کا ڈیٹا بھی درست نہ ہونے کے خدشات موجود ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ 9000 رجسٹرڈ سیلاب متاثرہ حاملہ خواتین ہمارے پاس کیمپس میں موجود ہیں لیکن ڈینگی کا ڈینا نجی اسپتال سے نہیں آرہا تھا۔150-200 افراد روزانہ کی بنیاد پر ڈینگی سے متاثر ہورہے ہیں۔ اموات کا ڈیٹا درست نا ہونے کا خدشہ ہے کیوں کہ گھروں میں ہونے والے اموات رپورٹ نہیں ہوتی ہیں لیکن زیادہ اموات کیسٹرو ،اسہال اور پیچش سے ہورہی ہیں۔
عذرا پیچوہونے کہا کہ نظام اتنا متاثر ہوچکا ہے کہ 1200 صحت کے مراکز غیر فعال ہوچکے ہیں۔اس کے سبب بھی ڈیٹا جمع کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔اس پروگرام میں نامور خواتین ڈاکٹرز، میڈیا اہلکاروں اور خواتین صحت کارکنوں کے تین سیشن شامل ہیں۔ ملک میں نوعمر لڑکیوں کو پیپیلوما وائرس کے ٹیکے لگواکر بچہ دانی کے سرطان (سروائیکل کینسر) کی رو ک تھام ممکن ہے۔سندھ کی وزارتِ صحت اس کوشش میں ہے کہ صوبے میں اس مرض سے زیادہ متاثرہ علاقوں میں امراض کے مقابل منظم امیونائزیشن پروگرام شروع ہو۔اس مرض کی روک تھام میں تحقیق کی ضرورت کلیدی ہے۔صحت مند ماں ہی صحت مند خاندان کی پرورش کرسکتی ہے۔
صوبائی وزیر کا کہنا تھا کہ ان کی وزارت اس وقت حالیہ تباہ کن سیلاب کے چیلنجوں سے نمٹنے میں مصروف ہے اور وہ انہیں نہ صرف زندگی کی بنیادی ضروریات (خوراک، پانی، رہائش) فراہم کرنے کےلیے ذمہ داری نبھا رہی ہیں بلکہ ان کی حفاظت بھی کر رہی ہے۔ جان لیوا بیماریاں جیسے ڈینگی، ملیریا، گیسٹرو، پانی سے پیدا ہونے والے انفیکشن، جلدی امراض سمیت دیگر امراض کےلیے اقدامات میں مصروف ہیں۔
وزیر صحت سندھ نے کہا کہ وہ اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں کہ نوعمر لڑکیوں کی ایچ پی وی حفاظتی ٹیکوں سے خواتین میں سروائیکل کینسر کے خطرے کو کافی حد تک کم کیا جا سکتا ہے اور یہ کہ وزارت کینسر کو ختم کرنے اور اسے کم کرنے کےلیے حفاظتی ٹیکوں کی مہم شروع کرنے کے لیے جلد حکمت عملی اختیار کرے گی ۔
معزز پینل میں آئی سی سی بی ایس کے سرپرست اعلیٰ ڈاکٹر عطاء الرحمان، کراچی یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر خالد ایم عراقی، جرمنی کے قونصل جنرل روڈیگر لوٹز، ڈائریکٹر آئی سی سی بی ایس ڈاکٹر اقبال چودہری بھی شامل تھے۔
اس کانفرنس میں دنیا بھر کے ان ڈاکٹروں نے آن لائن شرکت کی جنہوں نے ہیومن پیپیلوما وائرس اور اس کی ویکسین کا مطالعہ کیا ہے۔
اس موقع پر انہوں نے کہا کہ چونکہ یہ کینسر کسی ایک ایجنٹ کی وجہ سے ہوتا ہے اس لیے یہ سب سے زیادہ روکے جانے والے کینسروں میں سے ایک ہے لیکن آگاہی اور ویکسینیشن کی کمی کی وجہ سے یہ سب سے زیادہ پھیلنے والے کینسروں میں شمار کرتا ہے۔
محکمہ صحت نے سندھ کے بڑے شہروں میں زچگی کے متعدد مراکز میں اسکریننگ شروع کردی ہے اور انہوں نے کہا کہ وہ ان کوششوں میں بین الاقوامی شراکت داروں کے مشورے اور تکنیکی مدد کی منتظر ہیں۔