خلق خدا کا سہارا بنو ۔۔۔۔۔۔۔
بخیل عذاب الہی کے مستحق ہیں جو مال انہوں نے جوڑ رکھا ہے وہ اﷲ ہی کی امانت ہے
سوہنی دھرتی پاکستان آج سیلاب بلاخیز کے نرغے میں ہے۔ اس نے ایسی تباہی مچائی ہے کہ بیان سے قاصر ہے، سیلاب نے گاؤں کے گاؤں اور شہر کے شہر اجاڑ دیے ہیں، کھاتے پیتے، ہنستے بستے لوگ آہ و زاری کر رہے ہیں، بے یار و مددگار ہمیں پکار رہے ہیں۔
آئیے! ان سب کا دست و بازو و مددگار بنیں اور کشادہ دلی اور اعلی ظرفی سے ان کی مدد کریں یہ ہمارا دینی اخلاقی اور انسانی فریضہ ہے، اس موقع پر سخاوت کیجیے اور بخل سے اجتناب برتیے۔
قرآن مجید میں اﷲ تعالی کے ارشاد کا مفہوم ہے: ''اور ایسے لوگ بھی اﷲ کو پسند نہیں ہیں جو کنجوسی کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی کنجوسی کی ہدایت کرتے ہیں اور جو کچھ اﷲ نے اپنے فضل سے انہیں دیا ہے اسے چُھپاتے ہیں، ایسے کفران نعمت کرنے والوں کے لیے ہم نے رسوا کن عذاب مہیا کر رکھا ہے۔'' (النساء)
اس آیت مبارکہ سے ہمیں معلوم ہوا کہ اﷲ نے اپنے کرم سے اگر کسی کو دنیاوی دولت روپیا پیسا اور شہرت سے نوازا ہے اور وہ شخص اس کو اﷲ کی راہ میں خرچ نہیں کرتا اور اس کو چھپا کر رکھتا ہے تو اس کو یہ عمل اﷲ کے نزدیک بہت ناپسندیدہ ہے اور اس کے لیے عذاب کا باعث بنے گا، جب کہ اگر اس مال و دولت پر اﷲ کی نعمت پر اس کا شُکر ادا کیا جائے تو اﷲ تعالی خوش ہوگا اور نعمتوں میں اضافہ فرما دے گا۔
ارشاد ربانی کا مفہوم ہے: ''تم (ان نعمتوں پر) مجھے یاد کرو میں تمہیں (عنایت سے) یاد رکھوں گا اور میری (نعمت کی) شُکر گزاری کرو۔'' (البقرہ)
جب کسی نعمت پر بندہ شکر گزار ہوتا ہے تو اﷲ کریم اپنا فضل و کرم اس بندے کے شکر کے صلے میں اور زیادہ فرما دیتا ہے اور یہ بہت غلط ہے کہ اﷲ کسی پر اپنی نوازش اور کرم کرے اور بندہ اس کو چھپائے اور اپنے آپ کو خستہ حال اور لاچار و مجبور ظاہر کرے۔
ایسا کرنا اﷲ کی نعمت کی ناشکری ہے اور اﷲ بھی جب کسی کو اپنی نعمت سے نوازتا ہے تو یہ چاہتا ہے کہ اس کی عطا کرد ہ نعمت کا اثر اس بندے کے رہن سہن، کھانے پینے، لباس مسکن اور لین دین غرض ہر چیز پر پڑے، اس کے ہر عمل سے اﷲ کی نعمت کے ملنے کا اظہار شکرانہ کی صورت میں ہو، یہ نہ ہو کہ اﷲ تو اس کو اپنے فضل سے نواز رہا ہو اور وہ اپنے قول و فعل سے اس کی نعمتوں کی ناشکری کرے۔ دراصل وہ ہر کس و ناکس پر اپنی مجبوری اس لیے ظاہر کرتا ہے تاکہ جو فضل اﷲ نے اس پر کیا ہے اس میں دوسروں کو حصے دار نہ بنانا پڑے۔
قرآن پاک میں رب کریم ارشاد فرماتا ہے، مفہوم: ''جس نے مال جمع کیا اور گن گن کر رکھا وہ سمجھتا ہے کہ اس کا مال اس کے پاس ہمیشہ رہے گا ہرگز نہیں! وہ توڑ ڈالنے والی آگ میں پھینکا جائے گا۔'' (الھمزہ) تو معلوم ہوا کہ جس نے مال جمع کیا اور اسے نہ اپنے اوپر خرچ کیا نہ اپنے اہل و عیال پر اور نہ ہی دوسرے ضرورت مندوں پر تو ایسے شخص سے اﷲ بہت سخت حساب لے گا، جو مال و دولت اﷲ اپنے کرم سے کسی بندے کو دیتا ہے۔
اس میں غریبوں اور ناداروں کا بہت بڑا حصہ ہوتا ہے، سب سے پہلا خاندان کے غریب و نادار رشتے داروں کا ہوتا ہے جن کے حالات سے خاندان کے لوگ بہت اچھی طرح واقف ہوتے ہیں اس کے بعد یتیموں، محتاجوں اور مسافروں کا حق ہے، اﷲ نے جو بھی مال دیا ہے اسے تمام حق داروں میں درجہ بہ درجہ تقسیم کرنے سے اﷲ کی خوش نودی حاصل ہوتی ہے، یہ صحیح نہیں ہے کہ اپنی خواہشات کو انسان اتنا بڑھا دے کہ ان حق داروں کا حصہ بھی خود ہڑپ کر لیا جائے، جو ان کے مال میں سے اﷲ نے بہ طور امانت اسے ان لوگوں کو حق دیا ہے۔
قرآن مجید میں اﷲ تعالی کے ارشاد کا مفہوم ہے: ''اور جو لوگ سونا چاندی جمع کرکے رکھتے ہیں اور اسے اﷲ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے انہیں دردناک سزا کی خبر دے دو۔'' ضرورت سے زیادہ سونا، چاندی اور مال و دولت جمع کرنے کی اسلام میں سخت ممانعت ہے، یہ سب اﷲ کی راہ میںخرچ ہونا چاہیے، اپنی ضرورت سے زیادہ مال کا جمع کرنا اور اسے غریبوں اور ناداروں میں تقسیم نہ کرنا اپنے آپ کو مشکل اور ہلاکت میں ڈالنے کے مترادف ہے۔
ارشاد ربانی کا مفہوم ہے: ''اور اپنا ہاتھ نہ تو اپنی گردن سے باندھ رکھ کہ خرچ نہ کرے اور نہ اسے بالکل ہی کھول دے تاکہ ملامت زدہ اور حسرت زدہ بن کر بیٹھا رہ جائے۔'' اﷲ کو ہر کام میں اعتدال پسند ہے، حد سے زیادہ اور حد سے کم دونوں ہی عمل نقصان دہ ہیں، اعتدال پسندی بہترین طریقہ کار ہے اسی لیے مسلمانوں کو امت وسط بنایا گیا۔
قرآن کریم میں ارشاد باری تعالی کا مفہوم: ''اور ہم نے تمہیں (ایسی) جماعت بنا دیا ہے جو (ہر پہلو سے) اعتدال پر ہے۔'' اﷲ کے نزدیک پسندیدہ عمل یہ ہے کہ بندہ نہ تو کنجوسی کرے اور نہ ضرورت سے زیادہ خرچ کرے بلکہ اپنے ہر عمل میں اعتدال کا مظاہرہ کرے۔
کنجوسی کی بناء پر انسان اﷲ کے بہت سے احکامات کی بجا آوری میں ناکام رہتا ہے، انسان کو چاہیے کہ نہ تو وہ کنجوسی کر کے اﷲ کی ناراضی مول لے اور نہ سب کچھ دے ڈالے کہ اپنی جائز ضروریات کے لیے بھی کچھ نہ رکھے، اگر یہ ایسا کرے گا تو حسرت زدہ بن جائے گا، بہتر یہ ہے کہ اعتدال کو اپنائے اسی میں نجات ہے۔ ہر عمل میں اعتدال بندے کو اﷲ کی نظر میں سرفراز کرتا ہے۔
ارشاد ربانی کا مفہوم ہے: ''اور جس نے بخل کیا اور (اپنے اﷲ سے) بے نیازی برتی اور بھلائی کو جھٹلایا اس کے لیے سخت عذاب ہے اور اس کا مال آخر اس کے کس کام آئے گا جب کہ وہ ہلاک ہو جائے گا۔'' جس شخص نے کنجوسی سے مال و دولت جوڑ جوڑ کر رکھا اور صرف اپنی ذات اپنے عیش و آرام پر تو دل کھول کر خرچ کیا مگر نیکی اور بھلائی کے کاموں میں تنگ دلی کا مظاہرہ کیا وہ بڑے خسارے میں رہے گا، جو مال اس نے جوڑ کر رکھا ہے وہ اﷲ ہی کی امانت ہے اﷲ نے وہ مال اسے امانت کے طور پر دیا ہے اگر وہ یہ امانت غریبوں اور ضرورت مندوں کو نہیں دے گا تو خیانت کا مرتکب ہوگا، یہ جمع کیا ہوا مال اس کے مرنے کے بعد کس کام آئے گا۔۔۔ ؟
قرآن میں ارشاد کا مفہوم: ''اور جو دل کی تنگی (یا نفس کے بخل) سے محفوظ رہے ایسے ہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔'' زیادہ تر لوگ اپنے نفس کے بخل کی بناء پر ضرورت مندوں کی مدد نہیں کرتے اور نفس کے غلام بنے رہتے ہیں جو انہیں بخل کی طرف مائل رکھتا ہے اور اپنے علاوہ کسی دوسرے پر خرچ کرنے سے روکتا ہے وہ اپنی خواہشوں کی تکمیل میں اﷲ کی امانت میں مسلسل خیانت کرتے رہتے ہیں، ایسے لوگ بڑے نقصان میں ہیں لیکن جو لوگ ضرورت مندوں کی مدد کرتے ہیں اﷲ اپنے فضل سے انہیں اور بھی دے گا جو نیکی کے کاموں میں خرچ نہیں کرتے وہ تنگ دل ہیں اور جو ضرورت کے وقت ضرورت مندوں کے کام آتے ہیں وہی فلاح پانے والا ہیں۔ ایسے شخص کے لیے اﷲ نے بہت انعام رکھا ہے جو شخص اپنے نفس کی بے پناہ خواہشوں کے باوجود کسی دوسرے کی مدد کرے اﷲ اسے اور زیادہ عطا فرماتا ہے اور اس کے رزق میں وسعت عطا فرماتا ہے۔
قرآن مجید میں ارشاد کا مفہوم ہے: ''اور جو لوگ اﷲ کے دیے ہوئے فضل کے معاملے میں بخل سے کام لیتے ہیں وہ اس غلط فہمی میں نہ رہیں کہ یہ ان کے لیے اچھا ہے بلکہ یہ ان کے لیے بہت بُرا ہے جس مال میں انہوں نے بخل کیا ہے۔
اس کا طوق روز قیامت ان کے گلے میں ڈالا جائے گا۔'' اﷲ کی مخلوق جو اپنے تصرف میں لاتی ہے دراصل وہ اﷲ کی ہی ملکیت ہے، اس نے مخلوق کو عارضی طور پر دیا ہے لہذا اس عارضی قبضے کے دوران اﷲ کے مال کو اﷲ کی راہ میں دل کھول کر خرچ کیا جائے اور بخل سے کام نہ لیا جائے۔
قرآن پاک میں ارشاد باری تعالی کا مفہوم ہے: ''انسان جلد باز پیدا کیا گیا جب اس پر مصیبت آتی ہے تو یہ گھبرا جاتا ہے اور جب خوش حالی نصیب ہوتی ہے تو بخل کرنے لگتا ہے۔''
مفہوم: ''اﷲ ایسے لوگوں کو پسند نہیں کرتا کہ جو اپنے آپ کو بڑی چیز سمجھتے ہیں اور فخر جتاتے ہیں وہ خود بخل کرتے ہیں اور دوسروں کو بخل کرنے پر اکساتے ہیں۔'' (الحدید)
اﷲ ہمیں بخل جیسی لعنت سے بچائے رکھے اور دیا ہوا مال اپنی راہ پر زیادہ سے زیادہ خرچ کرنے کی اپنے حبیب پاک ﷺ کے صدقے توفیق عطا فرمائے۔ آمین
آئیے! ان سب کا دست و بازو و مددگار بنیں اور کشادہ دلی اور اعلی ظرفی سے ان کی مدد کریں یہ ہمارا دینی اخلاقی اور انسانی فریضہ ہے، اس موقع پر سخاوت کیجیے اور بخل سے اجتناب برتیے۔
قرآن مجید میں اﷲ تعالی کے ارشاد کا مفہوم ہے: ''اور ایسے لوگ بھی اﷲ کو پسند نہیں ہیں جو کنجوسی کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی کنجوسی کی ہدایت کرتے ہیں اور جو کچھ اﷲ نے اپنے فضل سے انہیں دیا ہے اسے چُھپاتے ہیں، ایسے کفران نعمت کرنے والوں کے لیے ہم نے رسوا کن عذاب مہیا کر رکھا ہے۔'' (النساء)
اس آیت مبارکہ سے ہمیں معلوم ہوا کہ اﷲ نے اپنے کرم سے اگر کسی کو دنیاوی دولت روپیا پیسا اور شہرت سے نوازا ہے اور وہ شخص اس کو اﷲ کی راہ میں خرچ نہیں کرتا اور اس کو چھپا کر رکھتا ہے تو اس کو یہ عمل اﷲ کے نزدیک بہت ناپسندیدہ ہے اور اس کے لیے عذاب کا باعث بنے گا، جب کہ اگر اس مال و دولت پر اﷲ کی نعمت پر اس کا شُکر ادا کیا جائے تو اﷲ تعالی خوش ہوگا اور نعمتوں میں اضافہ فرما دے گا۔
ارشاد ربانی کا مفہوم ہے: ''تم (ان نعمتوں پر) مجھے یاد کرو میں تمہیں (عنایت سے) یاد رکھوں گا اور میری (نعمت کی) شُکر گزاری کرو۔'' (البقرہ)
جب کسی نعمت پر بندہ شکر گزار ہوتا ہے تو اﷲ کریم اپنا فضل و کرم اس بندے کے شکر کے صلے میں اور زیادہ فرما دیتا ہے اور یہ بہت غلط ہے کہ اﷲ کسی پر اپنی نوازش اور کرم کرے اور بندہ اس کو چھپائے اور اپنے آپ کو خستہ حال اور لاچار و مجبور ظاہر کرے۔
ایسا کرنا اﷲ کی نعمت کی ناشکری ہے اور اﷲ بھی جب کسی کو اپنی نعمت سے نوازتا ہے تو یہ چاہتا ہے کہ اس کی عطا کرد ہ نعمت کا اثر اس بندے کے رہن سہن، کھانے پینے، لباس مسکن اور لین دین غرض ہر چیز پر پڑے، اس کے ہر عمل سے اﷲ کی نعمت کے ملنے کا اظہار شکرانہ کی صورت میں ہو، یہ نہ ہو کہ اﷲ تو اس کو اپنے فضل سے نواز رہا ہو اور وہ اپنے قول و فعل سے اس کی نعمتوں کی ناشکری کرے۔ دراصل وہ ہر کس و ناکس پر اپنی مجبوری اس لیے ظاہر کرتا ہے تاکہ جو فضل اﷲ نے اس پر کیا ہے اس میں دوسروں کو حصے دار نہ بنانا پڑے۔
قرآن پاک میں رب کریم ارشاد فرماتا ہے، مفہوم: ''جس نے مال جمع کیا اور گن گن کر رکھا وہ سمجھتا ہے کہ اس کا مال اس کے پاس ہمیشہ رہے گا ہرگز نہیں! وہ توڑ ڈالنے والی آگ میں پھینکا جائے گا۔'' (الھمزہ) تو معلوم ہوا کہ جس نے مال جمع کیا اور اسے نہ اپنے اوپر خرچ کیا نہ اپنے اہل و عیال پر اور نہ ہی دوسرے ضرورت مندوں پر تو ایسے شخص سے اﷲ بہت سخت حساب لے گا، جو مال و دولت اﷲ اپنے کرم سے کسی بندے کو دیتا ہے۔
اس میں غریبوں اور ناداروں کا بہت بڑا حصہ ہوتا ہے، سب سے پہلا خاندان کے غریب و نادار رشتے داروں کا ہوتا ہے جن کے حالات سے خاندان کے لوگ بہت اچھی طرح واقف ہوتے ہیں اس کے بعد یتیموں، محتاجوں اور مسافروں کا حق ہے، اﷲ نے جو بھی مال دیا ہے اسے تمام حق داروں میں درجہ بہ درجہ تقسیم کرنے سے اﷲ کی خوش نودی حاصل ہوتی ہے، یہ صحیح نہیں ہے کہ اپنی خواہشات کو انسان اتنا بڑھا دے کہ ان حق داروں کا حصہ بھی خود ہڑپ کر لیا جائے، جو ان کے مال میں سے اﷲ نے بہ طور امانت اسے ان لوگوں کو حق دیا ہے۔
قرآن مجید میں اﷲ تعالی کے ارشاد کا مفہوم ہے: ''اور جو لوگ سونا چاندی جمع کرکے رکھتے ہیں اور اسے اﷲ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے انہیں دردناک سزا کی خبر دے دو۔'' ضرورت سے زیادہ سونا، چاندی اور مال و دولت جمع کرنے کی اسلام میں سخت ممانعت ہے، یہ سب اﷲ کی راہ میںخرچ ہونا چاہیے، اپنی ضرورت سے زیادہ مال کا جمع کرنا اور اسے غریبوں اور ناداروں میں تقسیم نہ کرنا اپنے آپ کو مشکل اور ہلاکت میں ڈالنے کے مترادف ہے۔
ارشاد ربانی کا مفہوم ہے: ''اور اپنا ہاتھ نہ تو اپنی گردن سے باندھ رکھ کہ خرچ نہ کرے اور نہ اسے بالکل ہی کھول دے تاکہ ملامت زدہ اور حسرت زدہ بن کر بیٹھا رہ جائے۔'' اﷲ کو ہر کام میں اعتدال پسند ہے، حد سے زیادہ اور حد سے کم دونوں ہی عمل نقصان دہ ہیں، اعتدال پسندی بہترین طریقہ کار ہے اسی لیے مسلمانوں کو امت وسط بنایا گیا۔
قرآن کریم میں ارشاد باری تعالی کا مفہوم: ''اور ہم نے تمہیں (ایسی) جماعت بنا دیا ہے جو (ہر پہلو سے) اعتدال پر ہے۔'' اﷲ کے نزدیک پسندیدہ عمل یہ ہے کہ بندہ نہ تو کنجوسی کرے اور نہ ضرورت سے زیادہ خرچ کرے بلکہ اپنے ہر عمل میں اعتدال کا مظاہرہ کرے۔
کنجوسی کی بناء پر انسان اﷲ کے بہت سے احکامات کی بجا آوری میں ناکام رہتا ہے، انسان کو چاہیے کہ نہ تو وہ کنجوسی کر کے اﷲ کی ناراضی مول لے اور نہ سب کچھ دے ڈالے کہ اپنی جائز ضروریات کے لیے بھی کچھ نہ رکھے، اگر یہ ایسا کرے گا تو حسرت زدہ بن جائے گا، بہتر یہ ہے کہ اعتدال کو اپنائے اسی میں نجات ہے۔ ہر عمل میں اعتدال بندے کو اﷲ کی نظر میں سرفراز کرتا ہے۔
ارشاد ربانی کا مفہوم ہے: ''اور جس نے بخل کیا اور (اپنے اﷲ سے) بے نیازی برتی اور بھلائی کو جھٹلایا اس کے لیے سخت عذاب ہے اور اس کا مال آخر اس کے کس کام آئے گا جب کہ وہ ہلاک ہو جائے گا۔'' جس شخص نے کنجوسی سے مال و دولت جوڑ جوڑ کر رکھا اور صرف اپنی ذات اپنے عیش و آرام پر تو دل کھول کر خرچ کیا مگر نیکی اور بھلائی کے کاموں میں تنگ دلی کا مظاہرہ کیا وہ بڑے خسارے میں رہے گا، جو مال اس نے جوڑ کر رکھا ہے وہ اﷲ ہی کی امانت ہے اﷲ نے وہ مال اسے امانت کے طور پر دیا ہے اگر وہ یہ امانت غریبوں اور ضرورت مندوں کو نہیں دے گا تو خیانت کا مرتکب ہوگا، یہ جمع کیا ہوا مال اس کے مرنے کے بعد کس کام آئے گا۔۔۔ ؟
قرآن میں ارشاد کا مفہوم: ''اور جو دل کی تنگی (یا نفس کے بخل) سے محفوظ رہے ایسے ہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔'' زیادہ تر لوگ اپنے نفس کے بخل کی بناء پر ضرورت مندوں کی مدد نہیں کرتے اور نفس کے غلام بنے رہتے ہیں جو انہیں بخل کی طرف مائل رکھتا ہے اور اپنے علاوہ کسی دوسرے پر خرچ کرنے سے روکتا ہے وہ اپنی خواہشوں کی تکمیل میں اﷲ کی امانت میں مسلسل خیانت کرتے رہتے ہیں، ایسے لوگ بڑے نقصان میں ہیں لیکن جو لوگ ضرورت مندوں کی مدد کرتے ہیں اﷲ اپنے فضل سے انہیں اور بھی دے گا جو نیکی کے کاموں میں خرچ نہیں کرتے وہ تنگ دل ہیں اور جو ضرورت کے وقت ضرورت مندوں کے کام آتے ہیں وہی فلاح پانے والا ہیں۔ ایسے شخص کے لیے اﷲ نے بہت انعام رکھا ہے جو شخص اپنے نفس کی بے پناہ خواہشوں کے باوجود کسی دوسرے کی مدد کرے اﷲ اسے اور زیادہ عطا فرماتا ہے اور اس کے رزق میں وسعت عطا فرماتا ہے۔
قرآن مجید میں ارشاد کا مفہوم ہے: ''اور جو لوگ اﷲ کے دیے ہوئے فضل کے معاملے میں بخل سے کام لیتے ہیں وہ اس غلط فہمی میں نہ رہیں کہ یہ ان کے لیے اچھا ہے بلکہ یہ ان کے لیے بہت بُرا ہے جس مال میں انہوں نے بخل کیا ہے۔
اس کا طوق روز قیامت ان کے گلے میں ڈالا جائے گا۔'' اﷲ کی مخلوق جو اپنے تصرف میں لاتی ہے دراصل وہ اﷲ کی ہی ملکیت ہے، اس نے مخلوق کو عارضی طور پر دیا ہے لہذا اس عارضی قبضے کے دوران اﷲ کے مال کو اﷲ کی راہ میں دل کھول کر خرچ کیا جائے اور بخل سے کام نہ لیا جائے۔
قرآن پاک میں ارشاد باری تعالی کا مفہوم ہے: ''انسان جلد باز پیدا کیا گیا جب اس پر مصیبت آتی ہے تو یہ گھبرا جاتا ہے اور جب خوش حالی نصیب ہوتی ہے تو بخل کرنے لگتا ہے۔''
مفہوم: ''اﷲ ایسے لوگوں کو پسند نہیں کرتا کہ جو اپنے آپ کو بڑی چیز سمجھتے ہیں اور فخر جتاتے ہیں وہ خود بخل کرتے ہیں اور دوسروں کو بخل کرنے پر اکساتے ہیں۔'' (الحدید)
اﷲ ہمیں بخل جیسی لعنت سے بچائے رکھے اور دیا ہوا مال اپنی راہ پر زیادہ سے زیادہ خرچ کرنے کی اپنے حبیب پاک ﷺ کے صدقے توفیق عطا فرمائے۔ آمین