ہم ماحولیاتی تبدیلی کی قیمت چکا رہے ہیں
امریکا کے صدر جوبائیڈن نے کہا ہے کہ پاکستان سیلاب میں ڈوبا ہوا ہے، اسے مدد کی ضرورت ہے، عالمی برادری سیلاب متاثرین کی بھرپور مدد کرے، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ پاکستان کو سیلاب کی وجہ سے مشکلات ، موسمیاتی اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات کا سامنا ہے۔
افسوسناک بات یہ ہے کہ ماحولیاتی تبدیلی کی قیمت انسان کو چکانا پڑ رہی ہے، جس کے لیے تمام ممالک کو مل کر اقدامات کرنا ہونگے۔ دوسری جانب پاکستان کے سیلاب زدہ علاقوں کا دور ہ کرنے والی اقوام متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزین کی نمایندہ خصوصی اور ہالی ووڈ اداکارہ انجلینا جولی نے عالمی برادری سے پاکستانی سیلاب متاثرین کی مدد کے لیے '' ڈو مور'' کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان میں جو صورتحال ہے دنیا کو اس پر جاگنا چاہیے، یہ بہت سارے لوگوں کی زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ کلائمنٹ چینج کے کم ذمے دار ممالک کو تباہی اور اموات کا دوسروں کی نسبت زیادہ سامنا ہے۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ دنیا میں موسمیاتی بحران زیادہ سنگین اور زیادہ واضح ہوتا جارہا ہے، جس کا خمیازہ پاکستان جیسے ممالک بھگت رہے ہیں۔ اَقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان عالمی سطح پر 1 فیصد سے بھی کم اخراج کے باوجود عالمی سطح پر 10 غیر محفوظ ممالک میں سے ایک ہے۔ بلاشبہ عالمی برادری کو مشترکہ لائحہ عمل اپنانا چاہیے اور موسمی تبدیلیوں کے شدید خطرات کا سامنا کرنے والے ملکوں کی ترجیحی بنیادوں پر امداد کرنا چاہیے۔
موسمیاتی بحران کی اِسی سنگینی کی طرف اِشارہ کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوٹیرس کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ ''آج پاکستان ہے اور کل کوئی اور ملک ہو سکتا ہے۔
پاکستان کے لیے وسائل کو متحرک کرنا انصاف کا معاملہ ہے کیونکہ پاکستان کو ایک 'بے مثال قدرتی آفت ' کا سامنا ہے۔'' موسمیاتی تبدیلی کا مقابلہ کرنے کے لیے جہاں تک پاکستان کے کردار کا تعلق ہے تو پاکستان نے نومبر 2021 میں گلاسگو میں منعقد ہونے والی COP26 میں شرکت کی اور مزید 100 ممالک کے ساتھ گلوبل میتھین کے عالمی عہد پر دستخط کرتے ہوئے بین الاقوامی سطح پر اہم کردار ادا کرنے کی کوشش کی ہے۔ اِس عہد کا مقصد اَگلی دو دہائیوں میں دنیا کے میتھین کے اخراج کو تقریباً 30 فیصد تک محدود کرنا ہے۔
پاکستان میں رونما ہونے والے حالیہ موسمی واقعات کو دیکھتے ہوئے اِس حقیقت کو نہیں جھٹلایا جا سکتا کہ موسمیاتی تبدیلی سے لاحق خطرہ واقعتاً وجود میں آچکا ہے اور بروقت تدارک ممکن نہ ہوسکا تو جلد یا بدیر تمام ممالک اپنی باری آنے پر اِس کا سامنا ضرور کریں گے۔
موسمیاتی تبدیلیوں اور اس سے ہونے والے نقصانات سے بچنے کے لیے ہمیں ماحول کو نقصان پہنچانے والی گیسوں کے اخراج میں فوری طور پر 50 فیصد کی کمی لانا ہوگی، پاکستان ماحولیاتی تبدیلیوں سے متاثر ہونے والے 50 سرفہرست ممالک میں شامل ہے، حالانکہ ماحول کو نقصان پہنچانے والی گیسوں کے اخراج میں پاکستان کا حصہ بہت کم ہے، اسی تناظر میں انصاف کا تقاضا ہے کہ پاکستان کی زیادہ سے زیادہ امداد اور معاونت کی جائے تاکہ وہ ماحولیاتی تبدیلیوں سے ہونے والے نقصان کے لیے پائیدار بنیادی ڈھانچہ قائم کرسکے۔
دراصل گلوبل وارمنگ کے باعث سطح سمندر گرم ہونے سے لو پریشر بنتا ہے جس سے سمندری ہوائیں شہر کی طرف آنا بند ہوجاتی ہیں اور لو پریشر کی وجہ سے بلوچستان اور سندھ کے میدانی علاقوں کی ہوا کراچی کو چھوتے ہوئے سمندر کی جانب چلنے لگتی ہے جس کے باعث ہیٹ ویو مزید سنگین ہوجاتی ہے۔ اس دوران بجلی کی کھپت میں اضافے کے باعث لوڈ شیڈنگ عام بات ہے اور جس کے بعد بلند و بالا عمارتوں میں پانی نہیں آتا، اس لیے کراچی میں ہیٹ ویو مزید سنگین ہوجاتی ہے۔ ماہرین کے مطابق کہ گلوبل وارمنگ کئی گنا خطرناک ہے اور یہ پوری انسانیت کا اوّلین مسئلہ ہے۔
ہم اس گھمبیر مسئلے سے آنکھیں نہیں چر ا سکتے۔ المیہ تو یہ ہے کہ ملک بھر کے دریاؤں میں پانی کی کمی اور خشک سالی کے باعث غذائی قلت اور زمینی حالات کی تبدیلی کا بھی خطرہ پیدا ہوگیا ہے۔ پاکستان کے تناظر میں یہ ایک اہم مسئلہ ہے کیونکہ یہاں ملکی غذائی ضروریات کو پورا کرنے اور برآمدات کا انحصار زرعی شعبے پر ہی ہے، جس وقت تک حکومت کو ہوش آئے گا۔
موسمیاتی ماہرین کی عالمی تنظیم نے اپنی تازہ پیش گوئی میں کہا ہے کہ دنیا میں 2025 کے اختتام تک گرم ترین سال کا نیا ریکارڈ بننے کا امکان 90 فیصد ہے اور یہ کہ بحر اوقیانوس میں آیندہ برسوں میں جنم لینے والے سمندری طوفان زیادہ خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔ اس سال شمالی نصف کرئہ ارض پر خشکی کے زیادہ تر حصوں میں درجہ حرارت حالیہ عشروں کے مقابلے 1.4 ڈگری فارن ہائیٹ زیادہ ہو گا جو تقریباً 0.8 ڈگری سینٹی گریڈ کے مساوی ہے۔
امریکا کے جنوب مغربی حصوں میں خشک سالی جاری رہے گی۔ 40 فی صد امکان یہ ہے کہ اگلے 5 برسوں میں کم ازکم ایک سال ایسا ہو سکتا ہے جس میں درجہ حرارت صنعتی دور سے قبل کے عالمی درجہ حرارت کے مقابلے ڈیڑھ ڈگری سینٹی گریڈ یعنی 2.7 ڈگری فارن ہائیٹ سے زیادہ ہو۔ اقوام متحدہ کے فوڈ پروگرام نے دعویٰ کیا ہے کہ شدید موسمی حالات کی وجہ سے صرف وسطیٰ امریکی ممالک میں تقریباً 80 لاکھ افراد بھوک اور قحط کے دہانے پر پہنچ گئے ہیں۔
کاربن گیسوں کے اخراج میں مسلسل اضافہ سے کرئہ ارض کا درجہ حرارت بڑھ رہا ہے جس سے موسموں کی شدت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ حالیہ برسوں میں طوفانوں، سیلابوں، شدید بارش اور افریقہ سمیت دنیا کے کئی علاقوں میں خشک سالی میں اضافہ ہوا ہے جس سے خوراک اور پانی کی دستیابی میں قلت کے باعث لاکھوں افراد کو عالمی امداد کی شدید ضرورت ہے۔
گلوبل وارمنگ سے متعلق پیرس معاہدہ میں 2050 تک کاربن گیسوں کے اخراج کی سطح صفر پر لانے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے لیکن سابق صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی جانب سے امریکا کو معاہدہ سے نکالنے کے بعد اس ہدف کا حصول نہ صرف مشکل ہو گیا تھا بلکہ یہ خدشات بھی پیدا ہو گئے تھے کہ کرئہ ارض کے درجہ حرارت میں مزید اضافہ سے موسموں کی شدت جانی اور مالی نقصانات میں اضافہ کا سبب بن سکتی ہے۔ بہرحال بائیڈن انتظامیہ کی پیرس معاہدہ میں واپسی کو جسے عالمی سطح پر سراہا گیا۔
آب و ہوا میں تیزی سے رونما ہونے والی تبدیلیوں پر اقوام متحدہ کی ایک تازہ ترین رپورٹ نے بھی اس سلسلے میں موجودہ کوششوں کو ناکافی قرار دیتے ہوئے خبردار کیا کہ مناسب اقدامات کرنے میں مزید تاخیر کرئہ ارض کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔
بلا شبہ گلوبل وارمنگ کا مقابلہ کرنے کے لیے صرف دعوے کرنے یا سیاسی رسہ کشی سے کچھ حاصل نہیں ہونے والا ہے بلکہ ملکوں کو عملی اقدامات کرنا ہوں گے۔ سائنس نے یہ واضح کر دیا ہے کہ درجہ حرارت میں اضافہ کو 1.5 ڈگری کی سطح پر رکھنے کے لیے ہمیں زہریلی گیسوں کے اخراج میں 2030 تک 45 فیصد کی کمی کرنا ہو گی لیکن اس سلسلے میں دنیا بھر میں کی جانے والی کوششیں تاحال انتہائی ناکافی ہیں ، اگر ہم نے ماحولیاتی تبدیلیوں کے اس رجحان کو نہ بدلا تو ہمیں درجہ حرارت میں تباہ کن حد تک اضافہ کا سامنا کرنا پڑے گا۔
موسمی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے ضروری ہے کہ ہنگامی حالات کی منصوبہ بندی اس خیال کے ساتھ کی جائے کہ شدید موسمی حالات کا سامنا اب کبھی کبھار نہیں بلکہ اکثر کرنا پڑے گا ، وہ سیلاب جو کبھی 10 سال میں ایک مرتبہ آتا تھا وہ اب ہر سال آئے گا۔
ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے گھروں میں پودے لگائیں ، گھروں اور دفاتر میں نصب اے سی فلٹرز کو صاف رکھیں، گیزر کو کور سے ڈھانپ کر رکھیں، کپڑے دھونے کے لیے ٹھنڈے پانی کا استعمال کریں، گاڑیوں کا کم سے کم استعمال کریں اور یقینی بنائیں کہ انجن اچھی حالت میں ہو، واک، بائی سائیکل یا پبلک ٹرانسپورٹ گاڑیوں کو ترجیح دیں۔
ایک دوسرے پر سیاسی الزام تراشی کے ماحول میں نہ صرف ملک میں ہونے والی تباہ کاری سے نمٹنے کے لیے صوبوں اور مرکز میں کوئی قابل عمل تعاون دیکھنے میں نہیں آ رہا بلکہ عالمی سطح پر بھی ملک کی ضرورتوں کے بارے میں مناسب توجہ حاصل کرنے کی کوشش نہیں ہو پاتی۔ پاکستان میں سامنے آنے والے موجودہ انسانی المیہ کی وجہ سے اس وقت دنیا کے ہر ملک کا میڈیا متوجہ ہے اور پاکستان کے بارے میں خبروں کو مناسب جگہ دی جا رہی ہے۔
یہی موقع ہوتا ہے کہ سفارتی چابک دستی سے پاکستان کا موقف سامنے لایا جائے، خود پر عائد پابندیوں میں نرمی حاصل کرنے کی کوشش کی جائے اور خاص طور اس بات کو نمایاں کیا جائے کہ کس طرح ملک کے ساڑھے تین کروڑ بے گناہ اور بے وسیلہ لوگ دور دراز ترقی یافتہ صنعتی ممالک کے لالچ اور ماحولیاتی جرم کی بھاری قیمت ادا کرنے پر مجبور ہیں۔ یہ ایک ایسی صورت حال ہے جس میں عالمی توجہ حاصل کی جا سکتی ہے اور مختلف عالمی اداروں اور طاقت ور ممالک کو کسی حد تک اخلاقی دباؤ میں لایا جاسکتا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان کی طرف سے ایسی کوئی کوشش دیکھنے میں نہیں آ رہی۔
افسوسناک بات یہ ہے کہ ماحولیاتی تبدیلی کی قیمت انسان کو چکانا پڑ رہی ہے، جس کے لیے تمام ممالک کو مل کر اقدامات کرنا ہونگے۔ دوسری جانب پاکستان کے سیلاب زدہ علاقوں کا دور ہ کرنے والی اقوام متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزین کی نمایندہ خصوصی اور ہالی ووڈ اداکارہ انجلینا جولی نے عالمی برادری سے پاکستانی سیلاب متاثرین کی مدد کے لیے '' ڈو مور'' کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان میں جو صورتحال ہے دنیا کو اس پر جاگنا چاہیے، یہ بہت سارے لوگوں کی زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ کلائمنٹ چینج کے کم ذمے دار ممالک کو تباہی اور اموات کا دوسروں کی نسبت زیادہ سامنا ہے۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ دنیا میں موسمیاتی بحران زیادہ سنگین اور زیادہ واضح ہوتا جارہا ہے، جس کا خمیازہ پاکستان جیسے ممالک بھگت رہے ہیں۔ اَقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان عالمی سطح پر 1 فیصد سے بھی کم اخراج کے باوجود عالمی سطح پر 10 غیر محفوظ ممالک میں سے ایک ہے۔ بلاشبہ عالمی برادری کو مشترکہ لائحہ عمل اپنانا چاہیے اور موسمی تبدیلیوں کے شدید خطرات کا سامنا کرنے والے ملکوں کی ترجیحی بنیادوں پر امداد کرنا چاہیے۔
موسمیاتی بحران کی اِسی سنگینی کی طرف اِشارہ کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوٹیرس کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ ''آج پاکستان ہے اور کل کوئی اور ملک ہو سکتا ہے۔
پاکستان کے لیے وسائل کو متحرک کرنا انصاف کا معاملہ ہے کیونکہ پاکستان کو ایک 'بے مثال قدرتی آفت ' کا سامنا ہے۔'' موسمیاتی تبدیلی کا مقابلہ کرنے کے لیے جہاں تک پاکستان کے کردار کا تعلق ہے تو پاکستان نے نومبر 2021 میں گلاسگو میں منعقد ہونے والی COP26 میں شرکت کی اور مزید 100 ممالک کے ساتھ گلوبل میتھین کے عالمی عہد پر دستخط کرتے ہوئے بین الاقوامی سطح پر اہم کردار ادا کرنے کی کوشش کی ہے۔ اِس عہد کا مقصد اَگلی دو دہائیوں میں دنیا کے میتھین کے اخراج کو تقریباً 30 فیصد تک محدود کرنا ہے۔
پاکستان میں رونما ہونے والے حالیہ موسمی واقعات کو دیکھتے ہوئے اِس حقیقت کو نہیں جھٹلایا جا سکتا کہ موسمیاتی تبدیلی سے لاحق خطرہ واقعتاً وجود میں آچکا ہے اور بروقت تدارک ممکن نہ ہوسکا تو جلد یا بدیر تمام ممالک اپنی باری آنے پر اِس کا سامنا ضرور کریں گے۔
موسمیاتی تبدیلیوں اور اس سے ہونے والے نقصانات سے بچنے کے لیے ہمیں ماحول کو نقصان پہنچانے والی گیسوں کے اخراج میں فوری طور پر 50 فیصد کی کمی لانا ہوگی، پاکستان ماحولیاتی تبدیلیوں سے متاثر ہونے والے 50 سرفہرست ممالک میں شامل ہے، حالانکہ ماحول کو نقصان پہنچانے والی گیسوں کے اخراج میں پاکستان کا حصہ بہت کم ہے، اسی تناظر میں انصاف کا تقاضا ہے کہ پاکستان کی زیادہ سے زیادہ امداد اور معاونت کی جائے تاکہ وہ ماحولیاتی تبدیلیوں سے ہونے والے نقصان کے لیے پائیدار بنیادی ڈھانچہ قائم کرسکے۔
دراصل گلوبل وارمنگ کے باعث سطح سمندر گرم ہونے سے لو پریشر بنتا ہے جس سے سمندری ہوائیں شہر کی طرف آنا بند ہوجاتی ہیں اور لو پریشر کی وجہ سے بلوچستان اور سندھ کے میدانی علاقوں کی ہوا کراچی کو چھوتے ہوئے سمندر کی جانب چلنے لگتی ہے جس کے باعث ہیٹ ویو مزید سنگین ہوجاتی ہے۔ اس دوران بجلی کی کھپت میں اضافے کے باعث لوڈ شیڈنگ عام بات ہے اور جس کے بعد بلند و بالا عمارتوں میں پانی نہیں آتا، اس لیے کراچی میں ہیٹ ویو مزید سنگین ہوجاتی ہے۔ ماہرین کے مطابق کہ گلوبل وارمنگ کئی گنا خطرناک ہے اور یہ پوری انسانیت کا اوّلین مسئلہ ہے۔
ہم اس گھمبیر مسئلے سے آنکھیں نہیں چر ا سکتے۔ المیہ تو یہ ہے کہ ملک بھر کے دریاؤں میں پانی کی کمی اور خشک سالی کے باعث غذائی قلت اور زمینی حالات کی تبدیلی کا بھی خطرہ پیدا ہوگیا ہے۔ پاکستان کے تناظر میں یہ ایک اہم مسئلہ ہے کیونکہ یہاں ملکی غذائی ضروریات کو پورا کرنے اور برآمدات کا انحصار زرعی شعبے پر ہی ہے، جس وقت تک حکومت کو ہوش آئے گا۔
موسمیاتی ماہرین کی عالمی تنظیم نے اپنی تازہ پیش گوئی میں کہا ہے کہ دنیا میں 2025 کے اختتام تک گرم ترین سال کا نیا ریکارڈ بننے کا امکان 90 فیصد ہے اور یہ کہ بحر اوقیانوس میں آیندہ برسوں میں جنم لینے والے سمندری طوفان زیادہ خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔ اس سال شمالی نصف کرئہ ارض پر خشکی کے زیادہ تر حصوں میں درجہ حرارت حالیہ عشروں کے مقابلے 1.4 ڈگری فارن ہائیٹ زیادہ ہو گا جو تقریباً 0.8 ڈگری سینٹی گریڈ کے مساوی ہے۔
امریکا کے جنوب مغربی حصوں میں خشک سالی جاری رہے گی۔ 40 فی صد امکان یہ ہے کہ اگلے 5 برسوں میں کم ازکم ایک سال ایسا ہو سکتا ہے جس میں درجہ حرارت صنعتی دور سے قبل کے عالمی درجہ حرارت کے مقابلے ڈیڑھ ڈگری سینٹی گریڈ یعنی 2.7 ڈگری فارن ہائیٹ سے زیادہ ہو۔ اقوام متحدہ کے فوڈ پروگرام نے دعویٰ کیا ہے کہ شدید موسمی حالات کی وجہ سے صرف وسطیٰ امریکی ممالک میں تقریباً 80 لاکھ افراد بھوک اور قحط کے دہانے پر پہنچ گئے ہیں۔
کاربن گیسوں کے اخراج میں مسلسل اضافہ سے کرئہ ارض کا درجہ حرارت بڑھ رہا ہے جس سے موسموں کی شدت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ حالیہ برسوں میں طوفانوں، سیلابوں، شدید بارش اور افریقہ سمیت دنیا کے کئی علاقوں میں خشک سالی میں اضافہ ہوا ہے جس سے خوراک اور پانی کی دستیابی میں قلت کے باعث لاکھوں افراد کو عالمی امداد کی شدید ضرورت ہے۔
گلوبل وارمنگ سے متعلق پیرس معاہدہ میں 2050 تک کاربن گیسوں کے اخراج کی سطح صفر پر لانے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے لیکن سابق صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی جانب سے امریکا کو معاہدہ سے نکالنے کے بعد اس ہدف کا حصول نہ صرف مشکل ہو گیا تھا بلکہ یہ خدشات بھی پیدا ہو گئے تھے کہ کرئہ ارض کے درجہ حرارت میں مزید اضافہ سے موسموں کی شدت جانی اور مالی نقصانات میں اضافہ کا سبب بن سکتی ہے۔ بہرحال بائیڈن انتظامیہ کی پیرس معاہدہ میں واپسی کو جسے عالمی سطح پر سراہا گیا۔
آب و ہوا میں تیزی سے رونما ہونے والی تبدیلیوں پر اقوام متحدہ کی ایک تازہ ترین رپورٹ نے بھی اس سلسلے میں موجودہ کوششوں کو ناکافی قرار دیتے ہوئے خبردار کیا کہ مناسب اقدامات کرنے میں مزید تاخیر کرئہ ارض کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔
بلا شبہ گلوبل وارمنگ کا مقابلہ کرنے کے لیے صرف دعوے کرنے یا سیاسی رسہ کشی سے کچھ حاصل نہیں ہونے والا ہے بلکہ ملکوں کو عملی اقدامات کرنا ہوں گے۔ سائنس نے یہ واضح کر دیا ہے کہ درجہ حرارت میں اضافہ کو 1.5 ڈگری کی سطح پر رکھنے کے لیے ہمیں زہریلی گیسوں کے اخراج میں 2030 تک 45 فیصد کی کمی کرنا ہو گی لیکن اس سلسلے میں دنیا بھر میں کی جانے والی کوششیں تاحال انتہائی ناکافی ہیں ، اگر ہم نے ماحولیاتی تبدیلیوں کے اس رجحان کو نہ بدلا تو ہمیں درجہ حرارت میں تباہ کن حد تک اضافہ کا سامنا کرنا پڑے گا۔
موسمی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے ضروری ہے کہ ہنگامی حالات کی منصوبہ بندی اس خیال کے ساتھ کی جائے کہ شدید موسمی حالات کا سامنا اب کبھی کبھار نہیں بلکہ اکثر کرنا پڑے گا ، وہ سیلاب جو کبھی 10 سال میں ایک مرتبہ آتا تھا وہ اب ہر سال آئے گا۔
ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے گھروں میں پودے لگائیں ، گھروں اور دفاتر میں نصب اے سی فلٹرز کو صاف رکھیں، گیزر کو کور سے ڈھانپ کر رکھیں، کپڑے دھونے کے لیے ٹھنڈے پانی کا استعمال کریں، گاڑیوں کا کم سے کم استعمال کریں اور یقینی بنائیں کہ انجن اچھی حالت میں ہو، واک، بائی سائیکل یا پبلک ٹرانسپورٹ گاڑیوں کو ترجیح دیں۔
ایک دوسرے پر سیاسی الزام تراشی کے ماحول میں نہ صرف ملک میں ہونے والی تباہ کاری سے نمٹنے کے لیے صوبوں اور مرکز میں کوئی قابل عمل تعاون دیکھنے میں نہیں آ رہا بلکہ عالمی سطح پر بھی ملک کی ضرورتوں کے بارے میں مناسب توجہ حاصل کرنے کی کوشش نہیں ہو پاتی۔ پاکستان میں سامنے آنے والے موجودہ انسانی المیہ کی وجہ سے اس وقت دنیا کے ہر ملک کا میڈیا متوجہ ہے اور پاکستان کے بارے میں خبروں کو مناسب جگہ دی جا رہی ہے۔
یہی موقع ہوتا ہے کہ سفارتی چابک دستی سے پاکستان کا موقف سامنے لایا جائے، خود پر عائد پابندیوں میں نرمی حاصل کرنے کی کوشش کی جائے اور خاص طور اس بات کو نمایاں کیا جائے کہ کس طرح ملک کے ساڑھے تین کروڑ بے گناہ اور بے وسیلہ لوگ دور دراز ترقی یافتہ صنعتی ممالک کے لالچ اور ماحولیاتی جرم کی بھاری قیمت ادا کرنے پر مجبور ہیں۔ یہ ایک ایسی صورت حال ہے جس میں عالمی توجہ حاصل کی جا سکتی ہے اور مختلف عالمی اداروں اور طاقت ور ممالک کو کسی حد تک اخلاقی دباؤ میں لایا جاسکتا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان کی طرف سے ایسی کوئی کوشش دیکھنے میں نہیں آ رہی۔