ذخیرہ اندوز جہنّم کے خریدار

ناجائز ذخیرہ اندوزی کے حرام ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اس سے مسلمانوں کو نقصان پہنچتا ہے


’’جس شخص نے مسلمانوں میں گراں فروشی کی تو اﷲ تعالیٰ کا حق ہے کہ اسے قیامت کے دن بہت بڑی آگ میں ڈال دے۔‘‘ (السنن الکبری للبیہقی) ۔ فوٹو : فائل

وطن عزیز سیلاب کی زد میں ہے اور مجبور و بے کس و بے یار و مددگار خلق خدا کی زندگی اجیرن کے ساتھ مُشکل تر ہوتی جارہی ہے، ایسے میں اکثر درد مند پاکستانی جن میں خوف خدا رکھنے والے تاجر بھی شامل ہیں، اپنے ہم وطنوں کی حتی المقدور مدد کر رہے ہیں ان کا یہ جذبہ لائق ستائش و قابل تحسین ہے۔

جہاں ایسے درد مند موجود ہیں وہیں کچھ تاجر حضرات اس موقع کو بھی اپنے دھن دولت میں اضافے کے لیے استعمال کر رہے ہیں، وہ اشیائے خور و نوش کو ذخیرہ کیے ہوئے اور من چاہے داموں فروخت کر رہے ہیں، ایسے میں جہاں اشیائے ضرورت کی قلت ہوگئی ہے وہیں پر کچھ سیاہ قلب و سفاک تاجروں نے دواؤں کو بھی من چاہے داموں فروخت کرنے کے لیے ذخیرہ کرلیا ہے اور اب بخار و درد کش دوائیں بھی نایاب ہیں یا پھر انتہائی مہنگے دام دست یاب ہیں۔

ایسے خود غرض و سفاک تاجر اپنی ہوس زر کی خاطر انسانی زندگی سے کھلواڑ کر رہے ہیں اور انہیں ذرا سا بھی خوف خدا نہیں، لیکن انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ وہ اپنے سیاہ کرتوت کی سزا ضرور بھگتیں گے۔ یقین رکھیے! وہ اپنی زندگی میں ہی اس کا خمیازہ بھگتیں گے اور آخرت میں تو اﷲ تعالی کی شدید پکڑ سے نہیں بچ سکیں گے، اب بھی وقت ہے کہ وہ اپنی ان حرکات سے باز آجائیں اور اپنے لیے جہنم نہ خریدیں۔

انسانی زندگی سے متعلق روز مرہ کی اشیائے خور و نوش کو محض اس بنیاد پر ذخیرہ کرکے رکھنا کہ جب بازار میں اِن کی کم یابی اور قلت ہوجائے گی تو اُس وقت ان کی قیمتیں بڑھا کر مہنگے داموں بیچیں گے ذخیرہ اندوزی کہلاتا ہے۔ اِس کو عربی میں ''احتکار'' کہتے ہیں۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے احتکار یعنی ذخیرہ اندوزی سے سختی سے منع فرمایا ہے۔ حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: ''ذخیرہ اندوزی کرنے والا ملعون ہے۔'' (سنن ابن ماجہ)

حضرت عمر بن خطاب رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے، رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ''دوسرے شہر سے مال لانے والے کو رزق (روزی میں نفع) دیا جاتا ہے اور ذخیرہ اندوزی کرنے والا ملعون ہے۔'' (سنن ابن ماجہ)

حضرت معقل بن یسارؓ فرماتے ہیں: حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: ''جس شخص نے مسلمانوں میں گراں فروشی کی تو اﷲ تعالیٰ کا حق ہے کہ اسے قیامت کے دن اسے بہت بڑی آگ میں ڈال دے۔'' (السنن الکبری للبیہقی)

حضرت ابُوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ اگر کسی نے اِس ارادے سے ذرا بھی ذخیرہ اندوزی کی کہ مسلمانوں کے کھانے پینے کی چیزیں مہنگی ہوجائیں، تو وہ خطا کار ہے اور اﷲ اور اُس کے رسول ﷺ پر اُس کا کوئی ذمہ نہیں۔ (کنز العمال)

ایک حدیث میں ہے کہ جو شخص چالیس دن تک غذائی ضرورتوں کی ذخیرہ اندوزی کرتا ہے، وہ اﷲ سے بَری ہے اور اﷲ اُس سے بَری ہے۔ اورجس خاندان میں ایک آدمی بھی بھوکا رہا، اُن سب سے اﷲ کا ذمہ بری ہے۔ (کنز العمال)۔ (نوٹ) اِس کی مدت میں اختلاف ہے، بعض کے نزدیک ایک ماہ، بعض کے نزدیک چالیس روز، غرض یہ کہ جب لوگوں کو ضرورت پڑنے لگے اور روکنے سے ضرر ہونے لگے تو یہ ذخیرہ اندوزی ہوجاتا ہے۔(امداد الفتاویٰ)

ایک روایت میں ذخیرہ اندوزی کرنے والے کے لیے کوڑھ کے مرض اور مفلسی کی بددعا بھی وارد ہوئی ہے۔ حضرت عمر بن خطاب رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ''جو مسلمانوں کے کھانے پینے کی اشیا میں ذخیرہ اندوزی کرے، اﷲ تعالیٰ اُسے کوڑھ کے مرض اور مفلسی میں مبتلا فرمائیں۔'' (سنن ابن ماجہ)

ایک دن حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ اپنے دورِ خلافت میں مسجد جانے کے لیے گھر سے نکلے تو راستے میں اُنہیں جگہ جگہ غلّہ نظر آیا۔ اُنہوں نے پوچھا: یہ غلّہ کیسا ہے؟ لوگوں نے بتایا: یہ درآمد کیا گیا ہے۔

آپؓ نے فرمایا: اﷲ اِس میں برکت دے اور اُس شخص کو بھی جس نے اِسے درآمد کیا ہے! لوگوں نے کہا: اے امیر المومنینؓ! یہ تو ذخیرہ اندوزی کا مال ہے! آپؓ نے پوچھا: کس نے ذخیرہ کر کے رکھا تھا؟ لوگوں نے بتایا: حضرت عثمانِ غنی رضی اﷲ عنہ کے غلام فروخ اور آپ کے فلاں غلام نے۔ حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ نے اُن دونوں کو بلوا بھیجا اور فرمایا: تم نے مسلمانوں کی غذائی ضروریات کی ذخیرہ اندوزی کیوں کی ؟ اُنہوں نے عرض کیا: امیر المومنین! ہم اپنے پیسوں سے خریدتے اور بیچتے ہیں۔ (اس لیے ہمیں اختیار ہونا چاہیے)۔

آپؓ نے فرمایا: میں نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے: ''جو شخص مسلمانوں کی غذائی ضروریات کی ذخیرہ اندوزی کرتا ہے، اﷲ تعالیٰ اسے تنگ دستی اور کوڑھ کے مرض میں مبتلا کردیتا ہے۔'' فروخ نے یہ سن کر اُسی وقت کہا: امیر المومنینؓ! میں اﷲ سے اور آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ آیندہ ایسا نہیں کروں گا، لیکن حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کا غلام اپنی اُسی بات پر اَڑا رہا کہ ہم اپنے پیسوں سے خریدتے اور بیچتے ہیں (اِس لیے ہمیں اختیار ہونا چاہیے)۔ ابویحییٰؒ کہتے ہیں کہ بعد میں جب میں نے اُسے دیکھا تو وہ کوڑھ کے مرض میں مبتلا ہوچکا تھا۔ (مسند احمد)

احتکار یعنی ذخیرہ اندوزی کے حرام ہونے پر جمہور علماء کا اتفاق ہے۔ یہ حضرات اس آیت سے استدلال کرتے ہیں: ''اور جو کوئی شخص اس میں ظلم کر کے ٹیڑھی راہ نکالے گا، ہم اُسے دردناک عذاب کا مزہ چکھائیں گے۔'' (سورۃ الحج)

علامہ ابنِ حجر ہیتمیؒ نے احتکار یعنی ذخیرہ اندوزی کو کبیرہ گناہوں میں شمار کیا ہے، وہ کہتے ہیں کہ حدیث کے ظاہری الفاظ میں اِس پر جو شدید وعیدیں آئی ہیں مثلاً اﷲ کی لعنت اور اﷲ اور اُس کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کا اُس سے بَری الذمہ ہونا اور ایسا کرنے والے کا کوڑھ اور افلاس میں مبتلا ہونا، اِس سے احتکار کا گناہِ کبیرہ ہونا معلوم ہوتا ہے، بل کہ ان وعیدوں میں سے بعض ہی اِس کے کبیرہ گناہ ہونے پر کافی دلیل ہیں۔ (الزواجر)

فقہاء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ احتکار کے حرام ہونے کی حکمت عوام الناس کو ضَرر سے بچانا ہے اور اسی لیے علماء کا اس پر اجماع ہے کہ اگر کسی شخص نے کسی چیز کا احتکار (ذخیرہ اندوزی) کی اور لوگوں کو اُس چیز کی سخت ضرورت ہو اور کسی دوسرے کے پاس وہ چیز دست یاب نہ ہو تو اِس شخص کو احتکار (ذخیرہ اندوز) کی ہوئی چیز بیچنے پر مجبور کیا جائے گا، تاکہ لوگوں سے ضَرر دور کیا جائے اور باہمی تعاون کی راہ پیدا ہو۔ (الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ)

''احتکار'' ( ذخیرہ اندوزی) کی کئی صورتیں ہیں اور ہر ایک کا حکم جدا ہے۔ ایک صورت یہ ہے کہ کوئی شخص اپنی زمین کا غلّہ روک رکھے اور فروخت نہ کرے، یہ جائز ہے۔ لیکن اس صورت میں گرانی اور قحط کا انتظار کرنا گناہ ہے اور اگر لوگ تنگی میں مبتلا ہوجائیں تو اُس کو اپنی ضرورت سے زاید غلّے کے فروخت کرنے پر مجبور کیا جائے گا۔ دُوسری صورت یہ ہے کہ کوئی شخص غلّہ خرید کر ذخیرہ کرتا ہے اور جب لوگ قحط اور قلّت کا شکار ہوجائیں تب بازار میں لاتا ہے، یہ صورت حرام ہے۔ حضرت رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس کو ملعون قرار دیا ہے۔

تیسری صورت یہ ہے کہ بازار میں اس جنس کی فراوانی ہے اور لوگوں کو کسی طرح کی تنگی اور قلت کا سامنا نہیں، ایسی حالت میں ذخیرہ اندوزی جائز ہے، مگر گرانی کے انتظار میں غلے کو روکے رکھنا کراہت سے خالی نہیں۔ چوتھی صورت یہ ہے کہ انسانوں یا چوپایوں کی خوراک کی ذخیرہ اندوزی نہیں کرتا اِس کے علاوہ دیگر چیزوں کی ذخیرہ اندوزی کرتا ہے، جس سے لوگوں کو تنگی لاحق ہوجاتی ہے، یہ بھی ناجائز ہے۔

حضرات خلفائے راشدین رضی اﷲ عنہم اس چیز پر خاص نظر رکھتے تھے کہ تاجر لوگ ذخیرہ اندوزی کرکے بازار میں گرانی پیدا نہ کردیں۔ چناں چہ حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ بسا اوقات بازار میں اس کی نگرانی کے لیے جایا کرتے تھے۔ حضرت علی المرتضی کرم اﷲ وجہہ ایک مقام سے گزرے اور ایک ذخیرہ اندوز تاجر کا مال دیکھا تو اسے نذر آتش کرا دیا۔ فقہائے کرامؒ نے بھی اسے مکروہ بلکہ حرام تک قرار دیا ہے۔ کیوں کہ اس سے بازار گراں ہوجاتے ہیں اور عام لوگوں کے لیے ضروریاتِ زندگی کا حصول دشوار تر ہو جاتا ہے۔

چناں چہ شریعت نے ناجائز ذخیرہ اندوزی کو حرام اس لیے قرار دیا ہے کہ اس سے لوگوں کو نقصان ہوتا ہے۔ تاہم اہل علم کا اس بارے میں اختلاف ہے کہ ناجائز ذخیرہ اندوزی کس چیز میں ہوتی ہے ؟ بعض کہتے ہیں کہ یہ صرف غذائی اجناس میں ہوتی ہے، جب کہ بعض دوسرے اہل علم کا کہنا ہے کہ یہ ہر اس چیز میں ہو سکتی ہے جس کی لوگوں کو ضرورت ہو، اور اس چیز کو روکنے سے انہیں تکلیف پہنچے، یہ فقہائے مالکیہ اور امام احمد بن حنبلؒ کا موقف ہے، اور یہ ہی صحیح موقف ہے، کیوں کہ حدیث کے ظاہری الفاظ کے مطابق یہ ہی موقف بنتا ہے۔

علامہ شوکانیؒ لکھتے ہیں: ''احادیث کا ظاہری مفہوم یہ ہے کہ انسانوں یا جانوروں کی خوراک میں بلا تفریق ناجائز ذخیرہ اندوزی حرام ہے، لہذا جن چند روایات میں لفظ ''طعام'' یعنی کھانے کی اشیا کا ذکر ہے ان کی وجہ سے دیگر مطلق روایات کو مقید کرنا درست نہیں، کیوں کہ یہ تو محض مطلق احادیث کے اطلاقات میں سے کسی ایک کی نصاً صراحت ہے۔'' (نیل الاوطار للشوکانی)

اسی طرح علامہ رملی شافعیؒ لکھتے ہیں: ''مناسب یہ ہی ہے کہ ناجائز ذخیرہ اندوزی کا حکم ہر اس چیز پر ہونا چاہیے جس کی عام طور پر ضرورت ہو، چاہے اس کا تعلق ملبوسات سے ہو یا کھانے کی اشیا سے۔''

(حاشیہ اسنی المطالب للرملی)

اور یہی موقف اس حکمت کے ساتھ مطابقت رکھتا ہے جس کی وجہ سے ناجائز ذخیرہ اندوزی منع کی گئی ہے، اور وہ ہے لوگوں کو نقصان پہنچانا۔ چناں چہ اس موقف کے مطابق دائمی فتوی کمیٹی نے فتوی جاری کیا، چناں چہ ان کے فتوی نمبر: (6374) میں ہے: ''جس چیز کی لوگوں کو ضرورت ہو اسے ذخیرہ کرنا جائز نہیں ہے، اسے ''احتکار'' (ذخیرہ اندوزی) کہا جاتا ہے۔ اس کی ممانعت کی دلیل رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و سلم کا فرمان ہے: ''ناجائز ذخیرہ اندوزی صرف گناہ گار ہی کرتا ہے۔'' (صحیح مسلم)

اور ناجائز ذخیرہ اندوزی کے حرام ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اس سے مسلمانوں کو نقصان پہنچتا ہے، لہٰذا اگر کوئی چیز لوگوں کے لیے وافر موجود ہو تو اس کو ذخیرہ کرنا جائز ہے، چناں چہ جیسے ہی انہیں ضرورت پڑے تو انہیں وہ چیز مہیا کر دی جائے، اور لوگوں کو کسی قسم کا حرج اور تکلیف بھی محسوس نہ ہو۔'' (فتاوی اللجنۃ الدائمۃ)

جمہور فقہاء کے نزدیک ذخیرہ اندوزی صرف غذائی اشیاء اور حیوانات کے چارے میں ممنوع ہے۔ اور غیر معمولی حالات میں جیسا کہ گزر چکا کہ امام مالک اور امام احمدؒ کے نزدیک تمام ہی اشیاء ضروریہ میں ذخیرہ اندوزی حرام ہے اور یہی رائے امام ابویوسفؒ کی بھی ہے۔

اور یہ رائے زیادہ قرین صواب ہے۔ اس ذخیرہ اندوزی کی مدت چالیس دن متعین کی گئی ہے۔ یعنی چالیس دن تک مال کا روک کے رکھنا تاکہ گراں فروشی کا موقع فراہم ہوسکے ''احتکار'' یعنی ذخیرہ اندوزی کہلاتا ہے جو کہ ممنوع ہے۔ یہاں تک کہ فقہاء نے حکومت اور انتظامیہ کو اس بات کا حق دار گردانا ہے کہ اگر وہ ضروری خیال کریں تو زبردستی ایسا مال نکال کر فروخت کرا دے۔ (بہ حوالہ: جدید فقہی مسائل)

بڑی مقدار میں چیزوں کو خرید کر روک لیا جائے اور مہنگا ہونے کے بعد فروخت کیا جائے یہ ممنوع ہے اور اسی کو ''احتکار'' یعنی ذخیرہ اندوزی کہتے ہیں۔ اپنے ذاتی کھیت سے حاصل شدہ اجناس کو ذخیرہ کرنا یا تاجروں کا زیادہ مقدار میں اجناس خرید کے اسٹاک کرلینا اور حسب طلب و ضرورت انہیں اپنے اصل دام میں فروخت کرنا اور اس میں کسی بھی قسم کی رکاوٹ پیدا نہ کرنا جیسا کہ بڑے تجار کا معمول ہے تو یہ ممنوع نہیں ہے۔ یہ بات بہ ہر حال طے شدہ ہے کہ وہی ذخیرہ اندوزی ممنوع و گناہ ہے جس سے لوگوں کی غذائی اجناس میں قلت پیدا ہوجائے اور وہ پریشانی کا شکار ہوجائیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں