شہباز شریف بلاول بھٹو اور ملالہ یوسفزئی UNGA میں
آج 23ستمبر2022کو وزیر اعظم جناب محمد شہباز شریف نیویارک میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی(UNGA)سے خطاب کریں گے ۔ ہم سب کی منتظر نگاہیں اِس خطاب پر مرکوز ہیں ۔
وزیر خارجہ، بلاول بھٹو زرداری، اور وزیر مملکت برائے امورِ خارجہ، حنا ربانی کھر، بھی نیویارک میں ہیں ۔ پاکستان کی وزارتِ خارجہ کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم صاحب کے خطاب کی بھرپور تیاری کی گئی ہے ۔ یہ تیاری کس قسم کی ہے ، کن کن موضوعات کو محیط ہے اور اِن کے عالمی برادری پر کیااثرات مرتب ہوںگے، یہ سب آج شام تک واضح اور مترشح ہو جائے گا۔
سرکاری سطح پر یہ تو نہیں بتایا گیا کہ شہباز شریف کے ساتھ نیویارک پہنچنے والے سرکاری وفد میں کتنے لوگ شامل ہیں لیکن غیر مصدقہ ذرایع کے مطابق اِس وفد کی تعداد اتنی بھی کم نہیں ہے ۔ اور یہی بات پاکستان کے غربت کے مارے اور شدید مہنگائی کی چکّی کے دونوں پاٹوں کے بیچ بُری طرح پسنے والے عوام کو بُری طرح کھَل رہی ہے ۔ پی ٹی آئی کے چیئرمین ، جناب عمران خان،اِسی عوامی احساس کو لے کر اپنے پُر ہجوم جلسوں میں یہ بنیادی سوال اُٹھا رہے ہیں کہ کیا ضرورت تھی شہباز شریف کو نیویارک جانے اورUNGAکے سالانہ اجلاس سے خطاب کرنے کی ؟ جب کہ پاکستان سیلاب میں بھی ڈُوبا ہُوا ہے ۔
یہ اگر فریضہ ہے تو یہ فریضہ پاکستان میں بیٹھ کر ، وڈیو کانفرنس کی سہولت سے، انجام دیا جا سکتا تھا۔ اور یوں نیویارک جانے اور وہاں قیام و طعام کے بھاری اخرجات اور وقت کے ضیاع سے بچا بھی جا سکتا تھا ۔
پی ٹی آئی کے ایک رہنما اور سابق وفاقی وزیر ، جناب شفقت محمود، نے اپنے ٹوئٹر پر اخراجات کا تفصیلی ذکر بھی کر دیا ہے جو نیویارک میں وزیر اعظم شہباز شریف ، بلاول بھٹو ، حنا ربانی کھر و دیگر وفد کے ارکان کے قیام و طعام پر اُٹھ رہے ہیں۔
ان کے یہ اعداد وشمار کتنے درست ہیں، اس کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ وزارتِ خارجہ نے فی الحال اِن اخراجات کی تردید بھی نہیں کی ہے ۔پی ٹی آئی اور اِس کے چیئرمین کو جناب شہباز شریف کا نیوریاک جانا اورUNGAسے خطاب کرنا ہضم نہیں ہورہا۔ خاص طور پر یہ خبر کہ شہباز شریف نے امریکی صدر( جو بائیڈن ) کے نمایندگان اور فرانسیسی صدر(ایمانوئل میکرون) سے ملاقات بھی کی ہے۔
نتیجے میں فرانسیسی صدر کا یہ اعلان کہ '' ہم وزیر اعظم شہباز شریف حکومت سے مل کر سیلاب زدگان کی تعمیر نو میں حصہ لیںگے'' اور امریکی صدر کا یہ کہنا کہ'' دُنیا سیلاب میں ڈُوبے پاکستان کی مدد کرے'' کم اہم اعلان نہیں ہے ۔ پہلے تو یہ حالت تھی کہ جو بائیڈن ہمارے ایک سابق وزیر اعظم کو فون کال بھی نہیں کررہے تھے۔ پی ٹی آئی اِس بات پر بھی معترض ہے کہ نیویارک پہنچنے سے پہلے شہباز شریف لندن میں اپنے قائد اور بڑے بھائی،میاں محمد نواز شریف صاحب، سے کیوں ملے ہیں اور مبینہ طور پر بعض اہم فیصلوں بارے اُن سے مشورے کیوں کیے ہیں؟ خان صاحب نے چکوال کے جلسے میں شہباز شریف کے لندن و نیویارک دَورے اور نواز شریف سے مبینہ مشوروں کے خلاف سخت الفاظ میں احتجاج بھی کیا ہے۔
نون لیگ نے اِس احتجاج کو '''حسبِ معمول نامعقول'' قرار دے کر مسترد کردیا ہے ۔نون لیگ کی نائب صدر، محترمہ مریم نواز، نے خان صاحب کے اِس تازہ احتجاج کے پیش منظر میں کہاہے:''نواز شریف کو ملکی سیاسی نقشہ بناتے دیکھنا مخالفین کے لیے بڑی سزا ہے ۔''مریم صاحبہ کا یہ بیان اتنا بے بنیاد بھی نہیںہے ۔
پاکستان کے خواص و عوام ، بہرحال، یہ سوال ضرور پوچھ رہے ہیں کہ اب جب کہ پاکستان کی معاشی حالت خاصی دگرگوں ہے اور وہ ایک ایک ڈالر کو ترس رہا ہے، کیا شہباز شریف کا اپنے وفد کے ساتھ UNGAمیں خطاب کے لیے جانا از بس ضروری تھا؟ اِس کا سادہ جواب ''ہاں'' میں ہے ، اس لیے کہ بد قسمتی سے پاکستان رواں لمحوں میں ہلاکت خیز سیلابوں کے کارن جن معاشی عذابوں سے گزررہا ہے ، اِس کا احوال UNGAمیں عالمی برادری کو سنانا بے حد ضروری تھا۔
اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ سیشنز میں اکٹھی ہونے والی یہ دولتمند و عالمی صنعتی برادری وہ ہے جس کے صنعتی جرائم کے کارن پاکستان کو سیلابوں، بیماریوں اور دیگر عذابوں اور لعنتوں میں سے گزرنا پڑ رہا ہے ۔
مغربی و صنعتی دُنیا کے پیدا کردہ کلائمیٹ چینج اور جرائم کی اساس پر جنم لینے والے ان عذابوں سے معصوم اور بے گناہ پاکستان کو سب سے پہلے سزا مل رہی ہے ؛ چنانچہ لازم یہی تھا کہ وزیر اعظم شہباز شریف اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اکٹھے ہونے والی عالمی برادری کو اِس تباہی کی کتھا خود اپنی زبانی سنا ئیں ،تاکہ ہمارے کروڑوں سیلاب زدگان کو مطلوبہ امداد بھی مل سکے۔ وزیر اعظم نے اِس ضمن میں ایک ٹویٹ بھی کی ہے۔ شہبازشریف کے UNGAکے خطاب سے پاکستانی عوام نے بڑی توقعات وابستہ کررکھی ہیں ۔
اِسی پس منظر میں کچھ توقعات بلاول بھٹو زرداری اور محترمہ شیری رحمن سے بھی وابستہ ہیں ۔ہمارے وزیر خارجہ بنفسِ نفیس UNGAمیں دُنیا کے طاقتور و دولتمند ممالک کو پاکستان کے مسائل و مصائب سے براہِ راست آگاہ کرنے کی کوشش میں ہیں ۔ وہ مغربی حکمرانوں سے اُن کی زبان میں بآسانی بات کرنے کا سلیقہ بھی رکھتے ہیں اور امریکی صدر سے اچھا خاصا متعارف بھی ہو چکے ہیں ۔ UNGAمیں اُن کی موجودگی پاکستان کے سیلاب متاثرین کے لیے معاون ہونے کی توقع ہے ۔
وفاقی وزیر شیری رحمن صاحبہ چونکہ وزیر ماحولیات ہیں ، امریکا میں پاکستان کی سفیر بھی رہ چکی ہیں، امریکی میڈیا اور امریکی اسٹیبلشمنٹ سے آگاہ بھی ہیں،اس لیے اُن سے بھی توقع ہے کہ وہ بھی نیویارک میں اپنی موجودگی سے پاکستان کے لیے مطلوبہ فوائد کا موجب بن سکیں گی۔شیری رحمن کے چیئرمین، بلاول بھٹو زرداری، جنرل اسمبلی میں موجود نوبل امن انعام یافتہ پاکستانی ایکٹوسٹ، محترمہ ملالہ یوسفزئی، سے بھی ملے ہیں ۔ اِس ملاقات کے پس منظر میں بلاول بھٹو نے اپنے ٹوئٹر پر لکھا ہے کہ پاکستان سمیت دُنیا بھر میں خواتین اور بچیوں کی تعلیم کے لیے ملالہ یوسفزئی اور اُن کا ادارہ شاندار خدمات انجام دے رہے ہیں ، اِن مستحسن خدمات کو ہم نظر انداز نہیں کر سکتے ۔
25سالہ ملالہ یوسفزئی ایک اور افغان بہاد ر طالبعلم لڑکی، سمیعہ فارُوقی، کے ساتھ مل کر اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کےTransforming Education Summit کے سیشن سے خطاب کررہی ہیں ۔
مذکورہ دونوں مسلمان بچیوں کے ساتھ یوکرائن کے جنگ زدہ علاقوں سے تعلق رکھنے والی ایک اور بہادر طالبعلم لڑکی Yelizaveta Posivynch بھی خطاب کررہی ہے۔یہ تینوں بہادر لڑکیاں UNGAکے مذکورہ سیشن سے خطاب کرتے ہُوئے عالمی برادری کے موثر لیڈروں سے گزارش اور اپیل کررہی ہیں کہ تمہاری جنگیں، تصادم اور سیاسی مفادات اپنی جگہ مگر، پلیز، اپنی بیٹیوں اور اپنے اپنے ملک کی بچیوں کو آزادانہ طور پر تعلیم حاصل کرنے دیجیے ۔ملالہ یوسفزئی اور سمیعہ فارُوقی کے اصل مخاطبین افغان طالبان حکمران ہیں جنھوں نے پچھلے ایک سال سے افغان بچیوں پر اسکولوں کے دروازے مقفل کررکھے ہیں ۔ خدا کرے کہ ملالہ یوسفزئی اورسمیعہ فارُوقی کی اپیلیں افغان طالبان حکمرانوں کے دل کو بھی چھو سکیں۔
وزیر خارجہ، بلاول بھٹو زرداری، اور وزیر مملکت برائے امورِ خارجہ، حنا ربانی کھر، بھی نیویارک میں ہیں ۔ پاکستان کی وزارتِ خارجہ کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم صاحب کے خطاب کی بھرپور تیاری کی گئی ہے ۔ یہ تیاری کس قسم کی ہے ، کن کن موضوعات کو محیط ہے اور اِن کے عالمی برادری پر کیااثرات مرتب ہوںگے، یہ سب آج شام تک واضح اور مترشح ہو جائے گا۔
سرکاری سطح پر یہ تو نہیں بتایا گیا کہ شہباز شریف کے ساتھ نیویارک پہنچنے والے سرکاری وفد میں کتنے لوگ شامل ہیں لیکن غیر مصدقہ ذرایع کے مطابق اِس وفد کی تعداد اتنی بھی کم نہیں ہے ۔ اور یہی بات پاکستان کے غربت کے مارے اور شدید مہنگائی کی چکّی کے دونوں پاٹوں کے بیچ بُری طرح پسنے والے عوام کو بُری طرح کھَل رہی ہے ۔ پی ٹی آئی کے چیئرمین ، جناب عمران خان،اِسی عوامی احساس کو لے کر اپنے پُر ہجوم جلسوں میں یہ بنیادی سوال اُٹھا رہے ہیں کہ کیا ضرورت تھی شہباز شریف کو نیویارک جانے اورUNGAکے سالانہ اجلاس سے خطاب کرنے کی ؟ جب کہ پاکستان سیلاب میں بھی ڈُوبا ہُوا ہے ۔
یہ اگر فریضہ ہے تو یہ فریضہ پاکستان میں بیٹھ کر ، وڈیو کانفرنس کی سہولت سے، انجام دیا جا سکتا تھا۔ اور یوں نیویارک جانے اور وہاں قیام و طعام کے بھاری اخرجات اور وقت کے ضیاع سے بچا بھی جا سکتا تھا ۔
پی ٹی آئی کے ایک رہنما اور سابق وفاقی وزیر ، جناب شفقت محمود، نے اپنے ٹوئٹر پر اخراجات کا تفصیلی ذکر بھی کر دیا ہے جو نیویارک میں وزیر اعظم شہباز شریف ، بلاول بھٹو ، حنا ربانی کھر و دیگر وفد کے ارکان کے قیام و طعام پر اُٹھ رہے ہیں۔
ان کے یہ اعداد وشمار کتنے درست ہیں، اس کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ وزارتِ خارجہ نے فی الحال اِن اخراجات کی تردید بھی نہیں کی ہے ۔پی ٹی آئی اور اِس کے چیئرمین کو جناب شہباز شریف کا نیوریاک جانا اورUNGAسے خطاب کرنا ہضم نہیں ہورہا۔ خاص طور پر یہ خبر کہ شہباز شریف نے امریکی صدر( جو بائیڈن ) کے نمایندگان اور فرانسیسی صدر(ایمانوئل میکرون) سے ملاقات بھی کی ہے۔
نتیجے میں فرانسیسی صدر کا یہ اعلان کہ '' ہم وزیر اعظم شہباز شریف حکومت سے مل کر سیلاب زدگان کی تعمیر نو میں حصہ لیںگے'' اور امریکی صدر کا یہ کہنا کہ'' دُنیا سیلاب میں ڈُوبے پاکستان کی مدد کرے'' کم اہم اعلان نہیں ہے ۔ پہلے تو یہ حالت تھی کہ جو بائیڈن ہمارے ایک سابق وزیر اعظم کو فون کال بھی نہیں کررہے تھے۔ پی ٹی آئی اِس بات پر بھی معترض ہے کہ نیویارک پہنچنے سے پہلے شہباز شریف لندن میں اپنے قائد اور بڑے بھائی،میاں محمد نواز شریف صاحب، سے کیوں ملے ہیں اور مبینہ طور پر بعض اہم فیصلوں بارے اُن سے مشورے کیوں کیے ہیں؟ خان صاحب نے چکوال کے جلسے میں شہباز شریف کے لندن و نیویارک دَورے اور نواز شریف سے مبینہ مشوروں کے خلاف سخت الفاظ میں احتجاج بھی کیا ہے۔
نون لیگ نے اِس احتجاج کو '''حسبِ معمول نامعقول'' قرار دے کر مسترد کردیا ہے ۔نون لیگ کی نائب صدر، محترمہ مریم نواز، نے خان صاحب کے اِس تازہ احتجاج کے پیش منظر میں کہاہے:''نواز شریف کو ملکی سیاسی نقشہ بناتے دیکھنا مخالفین کے لیے بڑی سزا ہے ۔''مریم صاحبہ کا یہ بیان اتنا بے بنیاد بھی نہیںہے ۔
پاکستان کے خواص و عوام ، بہرحال، یہ سوال ضرور پوچھ رہے ہیں کہ اب جب کہ پاکستان کی معاشی حالت خاصی دگرگوں ہے اور وہ ایک ایک ڈالر کو ترس رہا ہے، کیا شہباز شریف کا اپنے وفد کے ساتھ UNGAمیں خطاب کے لیے جانا از بس ضروری تھا؟ اِس کا سادہ جواب ''ہاں'' میں ہے ، اس لیے کہ بد قسمتی سے پاکستان رواں لمحوں میں ہلاکت خیز سیلابوں کے کارن جن معاشی عذابوں سے گزررہا ہے ، اِس کا احوال UNGAمیں عالمی برادری کو سنانا بے حد ضروری تھا۔
اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ سیشنز میں اکٹھی ہونے والی یہ دولتمند و عالمی صنعتی برادری وہ ہے جس کے صنعتی جرائم کے کارن پاکستان کو سیلابوں، بیماریوں اور دیگر عذابوں اور لعنتوں میں سے گزرنا پڑ رہا ہے ۔
مغربی و صنعتی دُنیا کے پیدا کردہ کلائمیٹ چینج اور جرائم کی اساس پر جنم لینے والے ان عذابوں سے معصوم اور بے گناہ پاکستان کو سب سے پہلے سزا مل رہی ہے ؛ چنانچہ لازم یہی تھا کہ وزیر اعظم شہباز شریف اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اکٹھے ہونے والی عالمی برادری کو اِس تباہی کی کتھا خود اپنی زبانی سنا ئیں ،تاکہ ہمارے کروڑوں سیلاب زدگان کو مطلوبہ امداد بھی مل سکے۔ وزیر اعظم نے اِس ضمن میں ایک ٹویٹ بھی کی ہے۔ شہبازشریف کے UNGAکے خطاب سے پاکستانی عوام نے بڑی توقعات وابستہ کررکھی ہیں ۔
اِسی پس منظر میں کچھ توقعات بلاول بھٹو زرداری اور محترمہ شیری رحمن سے بھی وابستہ ہیں ۔ہمارے وزیر خارجہ بنفسِ نفیس UNGAمیں دُنیا کے طاقتور و دولتمند ممالک کو پاکستان کے مسائل و مصائب سے براہِ راست آگاہ کرنے کی کوشش میں ہیں ۔ وہ مغربی حکمرانوں سے اُن کی زبان میں بآسانی بات کرنے کا سلیقہ بھی رکھتے ہیں اور امریکی صدر سے اچھا خاصا متعارف بھی ہو چکے ہیں ۔ UNGAمیں اُن کی موجودگی پاکستان کے سیلاب متاثرین کے لیے معاون ہونے کی توقع ہے ۔
وفاقی وزیر شیری رحمن صاحبہ چونکہ وزیر ماحولیات ہیں ، امریکا میں پاکستان کی سفیر بھی رہ چکی ہیں، امریکی میڈیا اور امریکی اسٹیبلشمنٹ سے آگاہ بھی ہیں،اس لیے اُن سے بھی توقع ہے کہ وہ بھی نیویارک میں اپنی موجودگی سے پاکستان کے لیے مطلوبہ فوائد کا موجب بن سکیں گی۔شیری رحمن کے چیئرمین، بلاول بھٹو زرداری، جنرل اسمبلی میں موجود نوبل امن انعام یافتہ پاکستانی ایکٹوسٹ، محترمہ ملالہ یوسفزئی، سے بھی ملے ہیں ۔ اِس ملاقات کے پس منظر میں بلاول بھٹو نے اپنے ٹوئٹر پر لکھا ہے کہ پاکستان سمیت دُنیا بھر میں خواتین اور بچیوں کی تعلیم کے لیے ملالہ یوسفزئی اور اُن کا ادارہ شاندار خدمات انجام دے رہے ہیں ، اِن مستحسن خدمات کو ہم نظر انداز نہیں کر سکتے ۔
25سالہ ملالہ یوسفزئی ایک اور افغان بہاد ر طالبعلم لڑکی، سمیعہ فارُوقی، کے ساتھ مل کر اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کےTransforming Education Summit کے سیشن سے خطاب کررہی ہیں ۔
مذکورہ دونوں مسلمان بچیوں کے ساتھ یوکرائن کے جنگ زدہ علاقوں سے تعلق رکھنے والی ایک اور بہادر طالبعلم لڑکی Yelizaveta Posivynch بھی خطاب کررہی ہے۔یہ تینوں بہادر لڑکیاں UNGAکے مذکورہ سیشن سے خطاب کرتے ہُوئے عالمی برادری کے موثر لیڈروں سے گزارش اور اپیل کررہی ہیں کہ تمہاری جنگیں، تصادم اور سیاسی مفادات اپنی جگہ مگر، پلیز، اپنی بیٹیوں اور اپنے اپنے ملک کی بچیوں کو آزادانہ طور پر تعلیم حاصل کرنے دیجیے ۔ملالہ یوسفزئی اور سمیعہ فارُوقی کے اصل مخاطبین افغان طالبان حکمران ہیں جنھوں نے پچھلے ایک سال سے افغان بچیوں پر اسکولوں کے دروازے مقفل کررکھے ہیں ۔ خدا کرے کہ ملالہ یوسفزئی اورسمیعہ فارُوقی کی اپیلیں افغان طالبان حکمرانوں کے دل کو بھی چھو سکیں۔