گردش ایام حصہ اول
ایک عرصے بعد آپ سب سے مخاطب ہوں۔ اچانک کالم لکھنا کیوں بند کردیا تھا؟ قارئین کو وجہ بتائے بغیر؟ اس سب کا جواب آج دوں گی کہ طویل عرصے کی غیر حاضری کے بعد رابطہ ہو رہا ہے۔ جب میں نے کالم لکھنا بند کیا تو بے شمار احباب کے فون آتے رہے کہ کیا وجہ ہوئی جو آپ نظر نہیں آ رہیں؟ کالم کیوں نہیں آ رہا؟ وغیرہ وغیرہ۔ جو جانتے تھے وہ مصر تھے کہ میں ڈپریشن سے باہر آ جاؤں ، لیکن جو نہیں جانتے تھے انھیں بتانے کی ہمت ہی نہیں ہوتی تھی۔
کئی بار لکھنے کی کوشش کی لیکن کچھ نہ کچھ ایسا ہو جاتا تھا کہ بات پس پشت چلی جاتی تھی۔ دو ماہ قبل بھی ارادہ کرلیا اور احباب سے بھی فیس بک پر بات شیئر کی کہ اگلے ہفتے سے کالم لکھوں گی ، لیکن شومئی قسمت دیکھیے کہ اگلے ہی دن میرے ہاتھ میں گر جانے سے فریکچر ہو گیا۔ دو ماہ تک کلائی پر پلاسٹر کھلا اور ڈاکٹر نے ہڈی پوری طرح جڑ جانے کی نوید دی تو فوراً ہی کالم لکھنے کے لیے قلم اٹھالیا۔
جیسا کہ قارئین کو یاد ہوگا کہ 4 دسمبر 2015 کو میرے شریک حیات معتبر صحافی، مترجم، شاعر اور ادیب قاضی محمد اختر جوناگڑھی نے اس دار فانی کو الوداع کہا تو یہ صدمہ میرے لیے ناقابل یقین تھا۔ اتنے طویل عرصے کی رفاقت اور دوستانہ رویہ بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتا ہے۔
میں نے تقریباً ایک ماہ کی غیر حاضری کے بعد کالم دوبارہ شروع کردیا تھا۔ پھر یوں ہوا کہ سن 2020 میں میرا ایکسیڈنٹ ہو گیا اور کمر کی ہڈی میں بال آگیا، تب اس اذیت ناک تکلیف میں ایک ماہ تک تو اسپتال میں داخل رہی اور پھر تین ماہ تک مسلسل بیڈ پر رہی۔ روزانہ ایاز نامی ایک انتہائی قابل اور بھروسہ مند فزیوتھراپسٹ نے تقریباً سات ماہ تک فزیوتھراپی گھر پر آکر کروائی اور پھر میں ایک بار پھر اپنے قدموں پر کھڑی ہوگئی لیکن پتا نہیں کیوں کالم لکھنے کی ہمت نہ جٹا پائی، ایکسپریس میں میرے ایکسیڈنٹ کی خبر بھی شایع ہوئی۔
میرے gmail اکاؤنٹ پر بہت ساری پوسٹیں آتی رہیں، لیکن میں کسی کا بھی جواب نہ دے پائی۔ ایک بار پھر میں شدید ڈپریشن میں چلی گئی۔ وجہ تھی کچھ ذاتی تجربات کی جس کا شکار میں اختر کی وفات کے بعد سے مسلسل ہو رہی تھی۔ سب کچھ تو ناموں کے ساتھ نہیں بتا سکتی کہ جن لوگوں نے مجھے تنہا سمجھ کر پریشان کرنا چاہا تھا وہ خدا کے فضل و کرم سے آج بھی موجود ہیں۔یوں تو مجھے تنہا سمجھ کر جن لوگوں نے پریشان کیا۔
ان میں اپنے پرائے سبھی شامل تھے، لوگ جانتے تھے کہ میں، میرا بیٹا راحیل اسلام آباد میں ایک بڑے سرکاری ادارے میں اعلیٰ عہدے پر فائز ہے اور میں کراچی میں رہتی ہوں، ان غیر صحت مندانہ رویوں سے ایک بات بہت اچھی طرح سمجھ میں آگئی کہ واقعی عورت صرف عورت ہے، مجبور اور لاچار۔ عورت کسی بھی عمر کی ہو اسے صرف عورت سمجھا جاتا ہے۔ ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں وہاں مغرب کے بعد عورت کہیں تنہا نہیں نکل سکتی۔
کئی طرح کے خطرات اس کے گرد منڈلاتے رہتے ہیں۔ یہاں میں صرف چند واقعات کا ذکر کروں گی جنھوں نے مجھے اتنا پریشان کردیا تھا کہ میں نے خود کو گھر میں قید کرلیا۔ نہ کہیں آنا نہ جانا۔ بے شمار دعوت نامے مختلف ادبی محفلوں کے موصول ہوتے تھے، لیکن اکیلے جاؤں کیسے؟ کبھی اکیلی کہیں گئی نہیں، البتہ وہاں ضرور گئی جو میرے خیر خواہ تھے اور آج بھی موجود ہیں۔ جب میں نے ان چند لوگوں کا مقابلہ اپنے خیر خواہوں سے کیا تو ان کی فہرست بہت لمبی تھی۔ تب مجھ میں ایک توانائی آئی جس نے آج یہ کالم لکھوایا۔
اختر کے انتقال کے تقریباً پانچ چھ ماہ بعد ایک دن ہمارے ایک دیرینہ شناسا کا فون آیا۔ یہ صاحب میرے یونیورسٹی فیلو بھی تھے اور دیگر احباب کی طرح بہت خیال بھی کرتے تھے۔ ڈیپارٹمنٹ الگ الگ تھے لیکن میں کیونکہ کالج لائف سے میگزین اور اخبارات سے وابستہ رہی ہوں اس لیے جاننے والے بہت زیادہ تھے۔ کالج ہی کے زمانے میں ایک موقر روزنامے میں میرا ایک کالم ''نذر طالبات'' کے عنوان سے چھپتا تھا، جس کے ساتھ میری تصویر بھی ہوتی تھی، اس لیے سبھی واقف تھے۔ یہ وہ وقت تھا جب کتاب کی اہمیت تھی، بعض طلبا و طالبات رعب ڈالنے کے لیے ہمیشہ کوئی ادبی کتاب ہاتھ میں رکھتے تھے۔
زیادہ تر کے ہاتھ میں ساحر لدھیانوی کی ''تلخیاں''، فیض صاحب کا ''نقش فریادی''، ''دست صبا''، جن کا آئی کیو زیادہ تھا وہ غالب کا دیوان ہاتھ میں رکھتے تھے۔ اس طرح کہ جب ان پر نظر پڑے تو شعری مجموعے سامنے نظر آئیں۔ اب یہ سب لوگوں کو بہت عجیب لگتا ہوگا۔ کیونکہ اب مہنگے موبائل شخصیت کے آئینہ دار ہیں۔ یہ مہنگا موبائل کس طرح حاصل کیا گیا، ماں باپ کو بلیک میل کرکے یا کسی اور طریقے سے لیکن یہ سچ ہے کہ کالج اور یونیورسٹیوں میں جگہ جگہ گروپ کی شکل میں طلبا و طالبات کی نظریں موبائل اسکرین پر جمی رہتی ہیں۔
جب ہم جامعہ کراچی پہنچے تو ہمارے ساتھ بہت سارے قلم کار اور جانے مانے لوگ بھی یونیورسٹی آگئے۔ اسی سال ظہورالحسن بھوپالی نے اپنے ایک کالم میں لکھا کہ ''جامعہ کراچی کو ادیبوں اور شاعروں کی نئی کھیپ مبارک ہو۔'' اس میں انھوں نے ہم سب کا ذکر کیا تھا اور ہمیں خوش آمدید کہا تھا۔ اس وقت ہمارے ساتھ ڈاکٹر نیر عزیز مسعودی جو بعد میں سندھ میڈیکل کالج کے پرنسپل بنے، طلعت یار خان ہمارے کلاس فیلو جو بعد میں انٹیلی جنس آفیسر بنے اور عائشہ حنفی سے شادی کی ، جن کے والد ڈاکٹر حنفی شعبہ ریاضی میں پروفیسر تھے۔
طلعت یار خان چند سال قبل انتقال کر گئے ، لیکن عائشہ سے میری ملاقات اب بھی ہے اور انھوں نے اختر کے انتقال کے بعد میرا بہت ساتھ دیا۔ نقاش کاظمی شاعر تھے اور یونیورسٹی میں ہمارے کلاس فیلو، جب کہ ان کی بیگم گلزار فاطمہ ہماری کالج کی ساتھی تھیں۔ گلزار ہم سے ایک سال سینئر تھیں۔ نقاش اور گلزار دونوں کا انتقال ہو چکا ہے اور بھی کئی ساتھی تھے جیسے سعدیہ صدیقی، فائزہ صدیقی، تاجدار عادل جو کہ پی ٹی وی کے پروڈیوسر تھے اور ریڈیو پاکستان کراچی کے ''بزم طلبا'' پروگرام میں ہمارے ساتھی بھی رہے۔ انھی دنوں ہمارے شعبہ اردو میں عبیداللہ علیم اور جون ایلیا بہت آیا کرتے تھے۔
بعد میں عبیداللہ علیم نے ہماری عزیز دوست اور کلاس فیلو نگار یاسمین سے شادی کرلی تھی۔ دونوں کی شادی میں ہم شریک تھے۔ یہ تمام ساتھی اور کچھ اور جن کے نام اس وقت یاد نہیں آ رہے، سب نثار زبیری کے صفحات طلبا میں باقاعدگی سے اپنے اپنے قلم کے جوہر دکھایا کرتے تھے۔ (جاری ہے)
کئی بار لکھنے کی کوشش کی لیکن کچھ نہ کچھ ایسا ہو جاتا تھا کہ بات پس پشت چلی جاتی تھی۔ دو ماہ قبل بھی ارادہ کرلیا اور احباب سے بھی فیس بک پر بات شیئر کی کہ اگلے ہفتے سے کالم لکھوں گی ، لیکن شومئی قسمت دیکھیے کہ اگلے ہی دن میرے ہاتھ میں گر جانے سے فریکچر ہو گیا۔ دو ماہ تک کلائی پر پلاسٹر کھلا اور ڈاکٹر نے ہڈی پوری طرح جڑ جانے کی نوید دی تو فوراً ہی کالم لکھنے کے لیے قلم اٹھالیا۔
جیسا کہ قارئین کو یاد ہوگا کہ 4 دسمبر 2015 کو میرے شریک حیات معتبر صحافی، مترجم، شاعر اور ادیب قاضی محمد اختر جوناگڑھی نے اس دار فانی کو الوداع کہا تو یہ صدمہ میرے لیے ناقابل یقین تھا۔ اتنے طویل عرصے کی رفاقت اور دوستانہ رویہ بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتا ہے۔
میں نے تقریباً ایک ماہ کی غیر حاضری کے بعد کالم دوبارہ شروع کردیا تھا۔ پھر یوں ہوا کہ سن 2020 میں میرا ایکسیڈنٹ ہو گیا اور کمر کی ہڈی میں بال آگیا، تب اس اذیت ناک تکلیف میں ایک ماہ تک تو اسپتال میں داخل رہی اور پھر تین ماہ تک مسلسل بیڈ پر رہی۔ روزانہ ایاز نامی ایک انتہائی قابل اور بھروسہ مند فزیوتھراپسٹ نے تقریباً سات ماہ تک فزیوتھراپی گھر پر آکر کروائی اور پھر میں ایک بار پھر اپنے قدموں پر کھڑی ہوگئی لیکن پتا نہیں کیوں کالم لکھنے کی ہمت نہ جٹا پائی، ایکسپریس میں میرے ایکسیڈنٹ کی خبر بھی شایع ہوئی۔
میرے gmail اکاؤنٹ پر بہت ساری پوسٹیں آتی رہیں، لیکن میں کسی کا بھی جواب نہ دے پائی۔ ایک بار پھر میں شدید ڈپریشن میں چلی گئی۔ وجہ تھی کچھ ذاتی تجربات کی جس کا شکار میں اختر کی وفات کے بعد سے مسلسل ہو رہی تھی۔ سب کچھ تو ناموں کے ساتھ نہیں بتا سکتی کہ جن لوگوں نے مجھے تنہا سمجھ کر پریشان کرنا چاہا تھا وہ خدا کے فضل و کرم سے آج بھی موجود ہیں۔یوں تو مجھے تنہا سمجھ کر جن لوگوں نے پریشان کیا۔
ان میں اپنے پرائے سبھی شامل تھے، لوگ جانتے تھے کہ میں، میرا بیٹا راحیل اسلام آباد میں ایک بڑے سرکاری ادارے میں اعلیٰ عہدے پر فائز ہے اور میں کراچی میں رہتی ہوں، ان غیر صحت مندانہ رویوں سے ایک بات بہت اچھی طرح سمجھ میں آگئی کہ واقعی عورت صرف عورت ہے، مجبور اور لاچار۔ عورت کسی بھی عمر کی ہو اسے صرف عورت سمجھا جاتا ہے۔ ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں وہاں مغرب کے بعد عورت کہیں تنہا نہیں نکل سکتی۔
کئی طرح کے خطرات اس کے گرد منڈلاتے رہتے ہیں۔ یہاں میں صرف چند واقعات کا ذکر کروں گی جنھوں نے مجھے اتنا پریشان کردیا تھا کہ میں نے خود کو گھر میں قید کرلیا۔ نہ کہیں آنا نہ جانا۔ بے شمار دعوت نامے مختلف ادبی محفلوں کے موصول ہوتے تھے، لیکن اکیلے جاؤں کیسے؟ کبھی اکیلی کہیں گئی نہیں، البتہ وہاں ضرور گئی جو میرے خیر خواہ تھے اور آج بھی موجود ہیں۔ جب میں نے ان چند لوگوں کا مقابلہ اپنے خیر خواہوں سے کیا تو ان کی فہرست بہت لمبی تھی۔ تب مجھ میں ایک توانائی آئی جس نے آج یہ کالم لکھوایا۔
اختر کے انتقال کے تقریباً پانچ چھ ماہ بعد ایک دن ہمارے ایک دیرینہ شناسا کا فون آیا۔ یہ صاحب میرے یونیورسٹی فیلو بھی تھے اور دیگر احباب کی طرح بہت خیال بھی کرتے تھے۔ ڈیپارٹمنٹ الگ الگ تھے لیکن میں کیونکہ کالج لائف سے میگزین اور اخبارات سے وابستہ رہی ہوں اس لیے جاننے والے بہت زیادہ تھے۔ کالج ہی کے زمانے میں ایک موقر روزنامے میں میرا ایک کالم ''نذر طالبات'' کے عنوان سے چھپتا تھا، جس کے ساتھ میری تصویر بھی ہوتی تھی، اس لیے سبھی واقف تھے۔ یہ وہ وقت تھا جب کتاب کی اہمیت تھی، بعض طلبا و طالبات رعب ڈالنے کے لیے ہمیشہ کوئی ادبی کتاب ہاتھ میں رکھتے تھے۔
زیادہ تر کے ہاتھ میں ساحر لدھیانوی کی ''تلخیاں''، فیض صاحب کا ''نقش فریادی''، ''دست صبا''، جن کا آئی کیو زیادہ تھا وہ غالب کا دیوان ہاتھ میں رکھتے تھے۔ اس طرح کہ جب ان پر نظر پڑے تو شعری مجموعے سامنے نظر آئیں۔ اب یہ سب لوگوں کو بہت عجیب لگتا ہوگا۔ کیونکہ اب مہنگے موبائل شخصیت کے آئینہ دار ہیں۔ یہ مہنگا موبائل کس طرح حاصل کیا گیا، ماں باپ کو بلیک میل کرکے یا کسی اور طریقے سے لیکن یہ سچ ہے کہ کالج اور یونیورسٹیوں میں جگہ جگہ گروپ کی شکل میں طلبا و طالبات کی نظریں موبائل اسکرین پر جمی رہتی ہیں۔
جب ہم جامعہ کراچی پہنچے تو ہمارے ساتھ بہت سارے قلم کار اور جانے مانے لوگ بھی یونیورسٹی آگئے۔ اسی سال ظہورالحسن بھوپالی نے اپنے ایک کالم میں لکھا کہ ''جامعہ کراچی کو ادیبوں اور شاعروں کی نئی کھیپ مبارک ہو۔'' اس میں انھوں نے ہم سب کا ذکر کیا تھا اور ہمیں خوش آمدید کہا تھا۔ اس وقت ہمارے ساتھ ڈاکٹر نیر عزیز مسعودی جو بعد میں سندھ میڈیکل کالج کے پرنسپل بنے، طلعت یار خان ہمارے کلاس فیلو جو بعد میں انٹیلی جنس آفیسر بنے اور عائشہ حنفی سے شادی کی ، جن کے والد ڈاکٹر حنفی شعبہ ریاضی میں پروفیسر تھے۔
طلعت یار خان چند سال قبل انتقال کر گئے ، لیکن عائشہ سے میری ملاقات اب بھی ہے اور انھوں نے اختر کے انتقال کے بعد میرا بہت ساتھ دیا۔ نقاش کاظمی شاعر تھے اور یونیورسٹی میں ہمارے کلاس فیلو، جب کہ ان کی بیگم گلزار فاطمہ ہماری کالج کی ساتھی تھیں۔ گلزار ہم سے ایک سال سینئر تھیں۔ نقاش اور گلزار دونوں کا انتقال ہو چکا ہے اور بھی کئی ساتھی تھے جیسے سعدیہ صدیقی، فائزہ صدیقی، تاجدار عادل جو کہ پی ٹی وی کے پروڈیوسر تھے اور ریڈیو پاکستان کراچی کے ''بزم طلبا'' پروگرام میں ہمارے ساتھی بھی رہے۔ انھی دنوں ہمارے شعبہ اردو میں عبیداللہ علیم اور جون ایلیا بہت آیا کرتے تھے۔
بعد میں عبیداللہ علیم نے ہماری عزیز دوست اور کلاس فیلو نگار یاسمین سے شادی کرلی تھی۔ دونوں کی شادی میں ہم شریک تھے۔ یہ تمام ساتھی اور کچھ اور جن کے نام اس وقت یاد نہیں آ رہے، سب نثار زبیری کے صفحات طلبا میں باقاعدگی سے اپنے اپنے قلم کے جوہر دکھایا کرتے تھے۔ (جاری ہے)