نئی صنف ’’ افکاریہ ‘‘ کے خالق ڈاکٹر حسن فاروقی
دو ہزار پندرہ سے قبل کوئی نہیں جانتا تھا کہ اُردو ادب میں '' افکاریہ '' نام کی کوئی صنف بھی ہے، تاہم ڈاکٹر حسن فاروقی کی کتاب ''جستِ فکر'' کی تقریبِ رونمائی کے موقع پر ڈاکٹر شفیق جالندھری نے اپنا مقالہ پیش کرتے ہوئے یہ موقف اختیار کیا کہ'' ادق اور پیچیدہ اصطلاحات سے پاک فلسفیانہ افکار اور افسانے کی ہئیت سے بے نیاز ڈاکٹر حسن فاروقی کی تحریروں کے لیے میں '' افکاریہ '' کا نام مناسب سمجھتا ہوں۔
'' اظہاریہ '' اور '' افکاریہ '' میں فرق یہ ہے کہ ''اظہاریہ'' کی صنف ادب میں آزاد شاعری کے نام کے ساتھ پہلے سے موجود ہے ، جب کہ ''افکاریہ'' کی صنف ایک بالکل نئی دنیا ہے اور اس دنیا کی دریافت کرنے والے کولمبس ڈاکٹر حسن فاروقی ہیں۔''
ڈاکٹر حسن فاروقی عہدِ حاضر کے غزل شاعر، مصور، کالم نگار، محقق و نقاد اور مقبول براڈ کاسٹر ہیں۔ انھوں نے گورنمنٹ کالج (جی۔ سی) لاہور کے نامور اساتذہ کی رہنمائی میں ایم اے فلسفہ کرنے کے بعد دانشور فلسفی ڈاکٹر عبد الخالق کی زیر نگرانی''سلطان باہوؒ کے فلسفیانہ افکار'' کے تحقیقی مقالہ پر ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ یہ مقالہ کتابی شکل میں چھپ کر حلقہ اہلِ قلم سے داد و تحسین حاصل کر چکا ہے، موصوف نے شاعری و نثر کی متعدد اصناف پر قلم اُٹھایا اور قارئینِ ادب کے لیے مشعلِ راہ ثابت ہوئے۔ اپنی کتاب ''جستِ فکر'' میں مصنف نے مہارت کے ساتھ ادب، رومانس اور فلسفہ کو یکجا کیا ہے۔
جو اپنی نوعیت کا ایک منفرد تجربہ ہے۔ جس میں انھوں نے اپنی سوچوں کو فکر کے پیرائے میں ڈھالنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔اس کوشش میں رومانس کی آمیزش دانستہ طور پر کی گئی ہے جس کے کارن قاری کی دلچسپی قائم رکھنے، فلسفے کو آسان اور دلچسپ بناکر پیش کرنے کے مشن کو کامیاب بنایا گیا ہے۔
بقول ان کہ''میری خواہش ہے کہ فلسفے کے پیچیدہ مضامین کو عوام کی دسترس میں لانے کے لیے تمثیلی انداز سے پیش کیا جائے۔ میرا یقین ہے کہ ہر مشکل سے مشکل گِرہ کو کھولنے کا ایک آسان نسخہ ضرور ہوتا ہے۔ میں اپنی تحریروں میں اسی نسخے کو آزمانے کی کوشش کرتا ہوں۔''
''جستِ فکر '' میں بقول اقبالؒ کہ'' ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں'' اور رومانس ایک ایسی ذہنی کیفیت ہے جس کی خصوصیات حقیقت کے آئیڈیلائزیشن کے ساتھ ہوتی ہے۔ رومانس ایک ایسی ریاست کا نام ہے جس میں مرکزی کردار گیت اور رومانٹک تجربات ، جذبات ، خوابوں ، جذباتی لفٹ کے ذریعے سے ادا کیا جاتا ہے۔ جب کہ فلسفہ علم و آگہی کا علم ہے، یہ ایک ہمہ گیر علم ہے جو وجود کے اغراض اور مقاصد دریافت کرنے کی سعی کرتا ہے۔
افلاطون کے مطابق'' فلسفہ اشیاء کی ماہیت کے لازمی اور ابدی علم کا نام ہے'' جب کہ ارسطو کے نزدیک'' فلسفہ کا مقصد یہ دریافت کرنا ہے کہ وجود بذات خود اپنی فطرت میں کیا ہیں۔ '' تاہم بہت سے عظیم فلسفیوں نے ادب کے ان محاسن کو ایک طرف رکھتے ہوئے اپنا فلسفہ خوبصورت اور دلنشیں ادبی اور شاعرانہ اسلوب میں پیش کیا ہے۔ کیونکہ ہر صنف ادب کی ہیت اور ترکیب میں فلسفیانہ خیالات کی گنجائیش پیدا کی گئی ہے۔
اسی طرح ڈاکٹر حسن فاروقی بھی ''جستِ فکر'' میں اپنی سوچ کے اظہار کے لیے کسی مروجہ پیرائے کو اپنانے کے بجائے ایک منفرد انداز اور اسلوب اختیار کرتے معلوم ہوتے ہیں۔ ان میں وہ تمام خوبیاں موجود ہیں جو ایک اچھے ادیب میں پائی جاتی ہیں۔ڈاکٹر حسن فاروقی ایک بیدار مغز، کہنہ مشق شاعر، صاحبِ بصیرت نثر نگار اور براڈ کاسٹر ہیں۔ اربابِ فکر و نظر کی گفتار اور ادب کی رفتار پر وہ کامل نگاہ رکھتے ہیں۔
لفظ کی حرمت، معنی کی جہتوں اور لطافتوں کو خوب سمجھتے ہیں۔ ڈاکٹر حسن فاروقی اپنے شعور، گہرے فکر اور فلسفانہ سوچ سے ادب، رومانس اور فلسفہ کو ''جستِ فکر'' کی صورت میں تخلیق کر کے ادب کو اگلے لیول تک پہنچا دیا ہے۔''جستِ فکر'' میں ڈاکٹر حسن فاروقی کا فکر فن ایک جائزہ میں پروفیسرمحمد جلیل الرحمن رقم طراز ہیں کہ''ڈاکٹر حسن فاروقی ان مضامین میں بحیثیت مصنف ایک واضح، مثبت اور تعمیری فکر کے اسکالر نظر آتے ہیں۔
ان کا فن توانا اور ارتقا پذیر ہے، جس کے باعث وہ سوچ افسانہ اور نفسیاتی عوامل کی تہہ میں مضمر دانائی کو یکجا کرنے کی کوشش میں مصروف نظر آتے ہیں۔ یہ سعی بنفسہ قابل قدر ہے۔ کیونکہ ہروہ قدم جو زندگی سنوارنے کے لیے اور حقائق کو سمجھنے کے لیے اُٹھایا جائے اعلیٰ و ارفع ہے ۔''
''جستِ فکر'' کے سولہ(16 ) مضامین کی فہرست میں ایک''بیٹا۔ خدا اور فطرت'' کے سوا تمام موضوعات افسانے اور کہانی کے لیے موزوں ترین ہیں لیکن ان کے مواد میں فلسفیانہ نظریات کی جھلک میں حقیقت کا روپ دکھائی دیتا ہے۔
ان مضامین میں انسانی غم، خوشی، رومانس، محبت، عشق، عداوت، حادثات، کرئہ ارض، کائنات، اجل اور زندگی وغیرہ وغیرہ جیسے مختلف پہلوؤں کو نہایت غور وفکر سے بیاں کیا گیا ہے۔ عطاء الحق قاسمی کے مطابق ''جستِ فکر ڈاکٹر حسن فاروقی کے افکار و خیالات کا ایسا مجموعہ ہے، جس میں انھوں نے اپنی سوچ کے اظہار کے لیے کسی مروجہ پیرائے کو اپنانے کے بجائے ایک انوکھا انداز اور اسلوب اختیار کیا ہے، جسے تجرباتی قرار دیا جا سکتا ہے۔
انھوں نے اس میں فلسفیانہ سوالات اور مضامین کو قارئین کے لیے عام فہم بنانے کے لیے بیک وقت تمثیل، انشائیے اور مضمون ایسی اصناف کا سہارا لیا ہے۔ اس تجربے میں وہ کس حد تک کامیاب رہے ہیں اس کا بہتر فیصلہ تو قارئین ہی کریں گے مگر مجھے اس بات کی خوشی ہے کہ فی زمانہ جب کہ غیر سنجیدگی ہمارے ہاں زندگی کے ہر شعبے میں در آئی ہے، ڈاکٹر حسن فاروقی نے بڑی درد مندی سے قاری کو غور و فکر کی طرف مائل کرتے ہوئے سنجیدہ موضوعات پر طبع آزمائی کی ہے جس پر بلاشبہ وہ شاباش کے مستحق ہیں۔''
میرے نزدیک ''جستِ فکر'' میں شامل تحاریرایسے پھل کی مانند معلوم ہوتی ہے جن کا کینوس کٹھا بھی ہے میٹھا بھی ہے اور خوشبودار بھی۔ادب ، رومانس، فلسفہ کا حسین امتزاج ''جستِ فکر'' کے بارے میں ڈاکٹر شہزاد قیصر لکھتے ہیں کہ''اس کتاب میں مصنف کا پیش لفظ بہت سی ان چھوئی حقیقتوں کا پیش خیمہ ثابت ہوتا ہے۔
اس کتاب کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ مابعدالطبیعیاتی حقائق کو نہایت لطیف اور آسان پیرائے میں پیش کرتی ہے۔ ڈاکٹر حسن فاروقی عشقِ مجازی سے عشقِ حقیقی کی طرف ادبی سفر کرتے ہیں۔'' اپنے ارد گرد کے ماحول سے متاثر ہو کر اپنے افکار، مطاعلہ، وجدان اور طرزِ بیان سے سے ادب تخلیق کرنے والے ڈاکٹر حسن فاروقی ''جستِ فکر'' جیسے افکار و خیالات کے مجموعہ میں شجر ادب کی آبیاری ، فلسفہ کی خشک و متعدل آب و ہوا تو کبھی شاعری کے فرحت بخش جھونکوں سے اس میں پھول کھلاتے تو کبھی ریاسیت، رجائیت، غنائیت اور جمالیات کے رنگ بھرتے اپنی فکر کو ''جستِ فکر'' کا نام دے کر ہمیشہ کے لیے خود کو امر کر دیا ہے۔اس کتاب پر لکھنے والے دیگر اہلِ قلم کاروں میں ڈاکٹر صفدر محمود بھی شامل ہیں۔
'' اظہاریہ '' اور '' افکاریہ '' میں فرق یہ ہے کہ ''اظہاریہ'' کی صنف ادب میں آزاد شاعری کے نام کے ساتھ پہلے سے موجود ہے ، جب کہ ''افکاریہ'' کی صنف ایک بالکل نئی دنیا ہے اور اس دنیا کی دریافت کرنے والے کولمبس ڈاکٹر حسن فاروقی ہیں۔''
ڈاکٹر حسن فاروقی عہدِ حاضر کے غزل شاعر، مصور، کالم نگار، محقق و نقاد اور مقبول براڈ کاسٹر ہیں۔ انھوں نے گورنمنٹ کالج (جی۔ سی) لاہور کے نامور اساتذہ کی رہنمائی میں ایم اے فلسفہ کرنے کے بعد دانشور فلسفی ڈاکٹر عبد الخالق کی زیر نگرانی''سلطان باہوؒ کے فلسفیانہ افکار'' کے تحقیقی مقالہ پر ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ یہ مقالہ کتابی شکل میں چھپ کر حلقہ اہلِ قلم سے داد و تحسین حاصل کر چکا ہے، موصوف نے شاعری و نثر کی متعدد اصناف پر قلم اُٹھایا اور قارئینِ ادب کے لیے مشعلِ راہ ثابت ہوئے۔ اپنی کتاب ''جستِ فکر'' میں مصنف نے مہارت کے ساتھ ادب، رومانس اور فلسفہ کو یکجا کیا ہے۔
جو اپنی نوعیت کا ایک منفرد تجربہ ہے۔ جس میں انھوں نے اپنی سوچوں کو فکر کے پیرائے میں ڈھالنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔اس کوشش میں رومانس کی آمیزش دانستہ طور پر کی گئی ہے جس کے کارن قاری کی دلچسپی قائم رکھنے، فلسفے کو آسان اور دلچسپ بناکر پیش کرنے کے مشن کو کامیاب بنایا گیا ہے۔
بقول ان کہ''میری خواہش ہے کہ فلسفے کے پیچیدہ مضامین کو عوام کی دسترس میں لانے کے لیے تمثیلی انداز سے پیش کیا جائے۔ میرا یقین ہے کہ ہر مشکل سے مشکل گِرہ کو کھولنے کا ایک آسان نسخہ ضرور ہوتا ہے۔ میں اپنی تحریروں میں اسی نسخے کو آزمانے کی کوشش کرتا ہوں۔''
''جستِ فکر '' میں بقول اقبالؒ کہ'' ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں'' اور رومانس ایک ایسی ذہنی کیفیت ہے جس کی خصوصیات حقیقت کے آئیڈیلائزیشن کے ساتھ ہوتی ہے۔ رومانس ایک ایسی ریاست کا نام ہے جس میں مرکزی کردار گیت اور رومانٹک تجربات ، جذبات ، خوابوں ، جذباتی لفٹ کے ذریعے سے ادا کیا جاتا ہے۔ جب کہ فلسفہ علم و آگہی کا علم ہے، یہ ایک ہمہ گیر علم ہے جو وجود کے اغراض اور مقاصد دریافت کرنے کی سعی کرتا ہے۔
افلاطون کے مطابق'' فلسفہ اشیاء کی ماہیت کے لازمی اور ابدی علم کا نام ہے'' جب کہ ارسطو کے نزدیک'' فلسفہ کا مقصد یہ دریافت کرنا ہے کہ وجود بذات خود اپنی فطرت میں کیا ہیں۔ '' تاہم بہت سے عظیم فلسفیوں نے ادب کے ان محاسن کو ایک طرف رکھتے ہوئے اپنا فلسفہ خوبصورت اور دلنشیں ادبی اور شاعرانہ اسلوب میں پیش کیا ہے۔ کیونکہ ہر صنف ادب کی ہیت اور ترکیب میں فلسفیانہ خیالات کی گنجائیش پیدا کی گئی ہے۔
اسی طرح ڈاکٹر حسن فاروقی بھی ''جستِ فکر'' میں اپنی سوچ کے اظہار کے لیے کسی مروجہ پیرائے کو اپنانے کے بجائے ایک منفرد انداز اور اسلوب اختیار کرتے معلوم ہوتے ہیں۔ ان میں وہ تمام خوبیاں موجود ہیں جو ایک اچھے ادیب میں پائی جاتی ہیں۔ڈاکٹر حسن فاروقی ایک بیدار مغز، کہنہ مشق شاعر، صاحبِ بصیرت نثر نگار اور براڈ کاسٹر ہیں۔ اربابِ فکر و نظر کی گفتار اور ادب کی رفتار پر وہ کامل نگاہ رکھتے ہیں۔
لفظ کی حرمت، معنی کی جہتوں اور لطافتوں کو خوب سمجھتے ہیں۔ ڈاکٹر حسن فاروقی اپنے شعور، گہرے فکر اور فلسفانہ سوچ سے ادب، رومانس اور فلسفہ کو ''جستِ فکر'' کی صورت میں تخلیق کر کے ادب کو اگلے لیول تک پہنچا دیا ہے۔''جستِ فکر'' میں ڈاکٹر حسن فاروقی کا فکر فن ایک جائزہ میں پروفیسرمحمد جلیل الرحمن رقم طراز ہیں کہ''ڈاکٹر حسن فاروقی ان مضامین میں بحیثیت مصنف ایک واضح، مثبت اور تعمیری فکر کے اسکالر نظر آتے ہیں۔
ان کا فن توانا اور ارتقا پذیر ہے، جس کے باعث وہ سوچ افسانہ اور نفسیاتی عوامل کی تہہ میں مضمر دانائی کو یکجا کرنے کی کوشش میں مصروف نظر آتے ہیں۔ یہ سعی بنفسہ قابل قدر ہے۔ کیونکہ ہروہ قدم جو زندگی سنوارنے کے لیے اور حقائق کو سمجھنے کے لیے اُٹھایا جائے اعلیٰ و ارفع ہے ۔''
''جستِ فکر'' کے سولہ(16 ) مضامین کی فہرست میں ایک''بیٹا۔ خدا اور فطرت'' کے سوا تمام موضوعات افسانے اور کہانی کے لیے موزوں ترین ہیں لیکن ان کے مواد میں فلسفیانہ نظریات کی جھلک میں حقیقت کا روپ دکھائی دیتا ہے۔
ان مضامین میں انسانی غم، خوشی، رومانس، محبت، عشق، عداوت، حادثات، کرئہ ارض، کائنات، اجل اور زندگی وغیرہ وغیرہ جیسے مختلف پہلوؤں کو نہایت غور وفکر سے بیاں کیا گیا ہے۔ عطاء الحق قاسمی کے مطابق ''جستِ فکر ڈاکٹر حسن فاروقی کے افکار و خیالات کا ایسا مجموعہ ہے، جس میں انھوں نے اپنی سوچ کے اظہار کے لیے کسی مروجہ پیرائے کو اپنانے کے بجائے ایک انوکھا انداز اور اسلوب اختیار کیا ہے، جسے تجرباتی قرار دیا جا سکتا ہے۔
انھوں نے اس میں فلسفیانہ سوالات اور مضامین کو قارئین کے لیے عام فہم بنانے کے لیے بیک وقت تمثیل، انشائیے اور مضمون ایسی اصناف کا سہارا لیا ہے۔ اس تجربے میں وہ کس حد تک کامیاب رہے ہیں اس کا بہتر فیصلہ تو قارئین ہی کریں گے مگر مجھے اس بات کی خوشی ہے کہ فی زمانہ جب کہ غیر سنجیدگی ہمارے ہاں زندگی کے ہر شعبے میں در آئی ہے، ڈاکٹر حسن فاروقی نے بڑی درد مندی سے قاری کو غور و فکر کی طرف مائل کرتے ہوئے سنجیدہ موضوعات پر طبع آزمائی کی ہے جس پر بلاشبہ وہ شاباش کے مستحق ہیں۔''
میرے نزدیک ''جستِ فکر'' میں شامل تحاریرایسے پھل کی مانند معلوم ہوتی ہے جن کا کینوس کٹھا بھی ہے میٹھا بھی ہے اور خوشبودار بھی۔ادب ، رومانس، فلسفہ کا حسین امتزاج ''جستِ فکر'' کے بارے میں ڈاکٹر شہزاد قیصر لکھتے ہیں کہ''اس کتاب میں مصنف کا پیش لفظ بہت سی ان چھوئی حقیقتوں کا پیش خیمہ ثابت ہوتا ہے۔
اس کتاب کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ مابعدالطبیعیاتی حقائق کو نہایت لطیف اور آسان پیرائے میں پیش کرتی ہے۔ ڈاکٹر حسن فاروقی عشقِ مجازی سے عشقِ حقیقی کی طرف ادبی سفر کرتے ہیں۔'' اپنے ارد گرد کے ماحول سے متاثر ہو کر اپنے افکار، مطاعلہ، وجدان اور طرزِ بیان سے سے ادب تخلیق کرنے والے ڈاکٹر حسن فاروقی ''جستِ فکر'' جیسے افکار و خیالات کے مجموعہ میں شجر ادب کی آبیاری ، فلسفہ کی خشک و متعدل آب و ہوا تو کبھی شاعری کے فرحت بخش جھونکوں سے اس میں پھول کھلاتے تو کبھی ریاسیت، رجائیت، غنائیت اور جمالیات کے رنگ بھرتے اپنی فکر کو ''جستِ فکر'' کا نام دے کر ہمیشہ کے لیے خود کو امر کر دیا ہے۔اس کتاب پر لکھنے والے دیگر اہلِ قلم کاروں میں ڈاکٹر صفدر محمود بھی شامل ہیں۔