شمیم جے پوری کے امر فلمی گیت اور ادبی شاعری

hamdam.younus@gmail.com

نغمہ نگار حسرت جے پوری کے بعد جے پور شہر سے آنے والے دوسرے نامور فلمی نغمہ نگار شمیم جے پوری نے بھی شکیل بدایونی، مجروح سلطان پوری ، کیفی اعظمی اور جاں نثار اختر جیسے جید شاعروں اور فلمی نغمہ نگاروں کے درمیان آ کر نہ صرف اپنے آپ کو فلمی دنیا سے منوایا بلکہ اپنے فلمی گیتوں کی ایسی دھوم مچائی کہ سارے ہندوستان میں وہ وقت بھی آیا کہ گلی ،گلی اور گاؤں ،گاؤں شمیم جے پوری کے دلکش گیتوں کی جے جے کار تھی اور ہر موسیقار کی یہ خواہش ہوتی تھی کہ وہ ان کے ساتھ کام کرے۔ بالی ووڈ کے نامور گلوکار مکیش کا پہلا گیت ڈاکٹر صفدر آہ سیتاپوری نے لکھا تھا۔ فلم تھی ''پہلی نظر'' اور گیت کے بول تھے:

دل جلتا ہے تو جلنے دے آنسو نہ بہا فریاد نہ کر

تو پردہ نشیں کا عاشق ہے یوں نام وفا برباد نہ کر

اور پھر مکیش کا جو دوسرا ابتدائی گیت منظر عام پر آیا تو اس گیت نے سارے ہندوستان میں ایک دھوم مچا دی تھی، وہ گیت فلم ''دل بھی تیرا ہم بھی تیرے'' سے تھا جس کے فلم ساز و ہدایت کار ایس مکھرجی تھے اور فلم کی موسیقی دی تھی کلیان جی آنند جی نے اور گیت کے بول تھے:

مجھ کو اس رات کی تنہائی میں آواز نہ دو

جس کی آواز رُلا دے مجھے وہ ساز نہ دو

سروں کے گہرے رچاؤ کے ساتھ مکیش نے یہ گیت کیا خوب گایا تھا جس نے لاکھوں دلوں کو چھو لیا تھا اور اس گیت کی مقبولیت سے ہی مکیش کو آگے بڑھنے کا حوصلہ ملا تھا اور اس گیت کی شہرت نے شمیم جے پوری کو اپنی پہلی ہی فلم سے شہرت کے راستے کا ہم سفر بنا دیا تھا اور اس دور کے نام ور فلمی نغمہ نگاروں کی پہلی صف میں شمیم جے پوری کا نام آ گیا تھا۔

مذکورہ فلم 1960 میں ریلیز ہوئی تھی اور اپنے وقت کی کامیاب ترین فلم تھی اور اس فلم ہی سے نام ور ہیرو دھرمیندر نے ڈیبوکیا تھا اور شمیم جے پوری کے گیت کی خوب صورت عکس بندی نے دھرمیندر کو بھی ایک روشن مستقبل کی طرف گامزن کردیا تھا۔ اس سے پہلے کہ میں شمیم جے پوری کے دیگر امرگیتوں کی طرف آؤں۔

میں ان کی ابتدائی زندگی اور ادبی سفر کا تذکرہ کروں گا۔ حسرت جے پوری تو واجبی سی تعلیم حاصل کرسکے تھے اور نہ ہی اس دور میں ان کو دبستان ادب سے کوئی خاص تعلق رہا تھا مگر شمیم جے پوری نے ابتدا میں ادب ہی کو اپنا اوڑھنا اور بچھونا بنایا تھا ، شمیم جے پوری کا گھریلو نام فہیم الحسن مرزا تھا اور ان کا بھی ایک غریب گھرانے ہی سے تعلق تھا۔

یہ 1933 میں جے پور میں پیدا ہوئے پھر تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے میرٹھ آگئے تھے۔ میرٹھ میں ادبی سرگرمیاں بھی کافی تھیں بلکہ دہلی، لکھنو کی طرح میرٹھ میں بھی مشاعروں کی محفلیں خوب جمتی تھیں اور ادب کا اچھا خاصا ماحول تھا اور اس ماحول میں شمیم جے پوری کی پرورش ہوئی انھیں بھی شعر و ادب سے دلچسپی پیدا ہوگئی۔

پھر وہ فہیم الحسن سے شمیم جے پوری ہوگئے اور شاعروں میں بھی جانے لگے اسی دوران ان کی ملاقات اس دور کے ایک استاد شاعر تسکین قریشی سے ہوئی۔ تسکین قریشی نہ صرف ایک جید اور سینئر شاعر تھے بلکہ ان کے بے شمار شاگرد بھی تھے۔

شمیم جے پوری نے بھی پھر ان کی شاگردی اختیار کر لی اور اس طرح ان کی شاعری میں بھی کافی دم خم پیدا ہو گیا تھا۔ ہندوستان میں اس وقت جگرمراد آبادی اور قمر جلالوی کا بھی بڑا نام تھا اور وہ مشاعرہ لوٹ شاعر سمجھے جاتے تھے۔ شمیم جے پوری کا کلام اس دور کے اخبارات میں شایع ہونے سے ان کا بھی نام مشہور ہوتا گیا اور یہ بھی مشاعروں میں مدعو کیے جانے لگے۔ شمیم جے پوری تحت اللفظ کے ساتھ بھی غزل پڑھتے تھے اور ترنم کے ساتھ بھی غزل سناتے تو مشاعرہ لوٹ لیتے تھے۔

اسی دوران مختلف ادبی رسائل اور اخبارات میں بھی ان کے کلام کو بڑی پذیرائی ملتی تھی۔ ہندوستان کے ہر بڑے شہر میں جہاں مشاعروں کا انعقاد ہوتا تھا اور مشاعروں میں جگر مراد آبادی کی شاعری کی بڑی دھوم رہتی تھی پھر انھی مشاعروں میں جب شمیم جے پوری نے شرکت کی تو ان کا ترنم بھی اور ان کی شاعری کی بھی دھوم مچنے لگی تھی اور پھر ان کی شاعری کی چمک نے بمبئی کے ایک مشاعرے میں خوب جلوہ دکھایا اور یکے بعد دیگرے کئی غزلوں نے مشاعرہ کا رخ اپنی طرف سمیٹ لیا تھا۔ چند اشعار قارئین کی نذر بھی ہیں:

دل لگانے کی کسی سے وہ سزا پائی کہ بس

ایسی ایسی عشق میں اس دل پہ بن آئی کہ بس

اس مشاعرے کی گونج بمبئی کی فلم انڈسٹری تک پہنچ گئی تھی پھر ایک دن شمیم جے پوری کو کئی فلم سازوں نے اپنی فلموں میں گیت لکھنے کے لیے آمادہ کر لیا ، مکیش کے گیت کے بعد محمد رفیع اور لتا منگیشکرکی آوازوں میں تسلسل سے شمیم جے پوری کے لکھے ہوئے گیتوں کی ریکارڈنگ ہونے لگی اور پھر اس وقت کے سپراسٹار اداکار راجیش کھنہ کی فلم ''راز'' میں لکھے گئے گیتوں نے شمیم جے پوری کو بھی شہرت کے آسمان پر پہنچا دیا تھا۔ ''راز'' 1967 کی بلاک بسٹر فلم تھی۔ موسیقار کلیان جی آنند جی تھے اور محمد رفیع کی آواز میں گایا ہوا گیت فلم کی ہائی لائٹ بنا تھا جس کے بول تھے:


اکیلے ہیں چلے آؤ جہاں ہو

کہاں آواز دیں تم کو کہاں ہو

وہ دور ساحر لدھیانوی اور مجروح سلطان پوری کا تھا مگر شمیم جے پوری نے اپنے گیتوں کا وہ جادو جگایا تھا کہ شمیم جے پوری کی شہرت بھی آسمان کو چھو رہی تھی پھر یکے بعد دیگرے بے شمار فلموں کے گیت سپر ہٹ ہوتے چلے گئے۔

ان فلموں میں ہر دوسری فلم میں شمیم جے پوری ہی کے گیت ہوتے تھے۔ یہاں میں ان کے اس میوزک البم کا بھی تذکرہ کرنا ضروری سمجھتا ہوں جو اس دور کی غزل سنگر بیگم اختر کی غزلوں کے ساتھ منظر عام پر آیا تھا۔ اس البم کو سارے ہندوستان میں بڑی مقبولیت حاصل ہوئی تھی۔ ایک غزل بڑی ہٹ ہوئی تھی۔

زمیں پر رہ کے دماغ آسماں سے ملتا ہے

کبھی یہ سفر جو ترے آستاں سے ملتا ہے

شمیم جے پوری کی اس غزل کا ایک ایک شعر اپنے دامن میں بڑا گہرا فلسفہ رکھتا ہے اور بھی کئی غزلیں جو مشہور ہوئی تھیں ان میں ایک قابل ذکر یہ غزل بھی تھی۔

ناؤ ساحل پہ ڈگمگائی ہے

نامرادی تری دھائی ہے

پوچھیے ان سے پوچھیے ان سے

جن کو کانٹوں پہ نیند آئی ہے

مسلم سوشل فلم سہیلی، کالا آدمی، کے ساتھ دو ایکشن فلموں ''تخت اور تلوار'' اور ''باغی حسینہ'' کے گیتوں نے بھی بڑی دھوم مچائی تھی۔ وہ زیادہ عرصہ تک بمبئی کی فلمی دنیا سے وابستہ نہ رہ سکے انھیں ادبی محفلیں اور مشاعرے ہر وقت بے چین کیے رہتے تھے۔

پھر وہ آہستہ آہستہ فلمی دنیا سے کنارہ کشی اختیار کرتے چلے گئے اور دوبارہ ادب کی طرف آگئے تھے اور مشاعروں کی دنیا میں بھی چھاتے چلے گئے تھے۔ وہ دبئی، عرب امارات اور پاکستان میں بھی مشاعروں میں شرکت کرتے تھے۔ شمیم جے پوری کی بے شمار ایسی غزلیں ہیں جو اپنا منفرد انداز رکھتی تھیں۔ جیسے کہ ایک غزل کے یہ اشعار ملاحظہ ہوں:

ہر ایک لمحہ شب غم ہے کیا کیا جائے

امید صبح بہت کم ہے کیا کیا جائے

آخری دنوں میں یہ شدید بیمار ہوگئے تھے اور پھر اسی بیماری کی حالت میں 30 مئی 2003 میں اس دنیائے فانی سے رشتہ توڑ کر اپنے خالق حقیقی سے جا ملے تھے۔ اللہ ان کے درجات بلند کرے۔ (آمین)
Load Next Story