سیلاب سے متاثر ہونے والے مویشیوں کیلیے چارے کے ٹرک روانہ
سیلاب سے اب تک 7 لاکھ 30 ہزار مویشی ہلاک ہوئے، بچ جانے والے جانوروں کیلیے خوراک کی قلت ہے، رپورٹ
پاکستان میں مختلف این جی اوز سیلاب متاثرہ افراد کی مدد میں فعال ہیں وہیں سیلاب سے متاثرہ مویشیوں کے لیے ایک فلاحی تنظیم نے چارے کی فراہمی شروع کردی ہے۔
فلاحی تنظیم کی جانب سے کراچی سے 2 ٹرک بدین اور میرپور خاص روانہ کردیے گئے۔ سی ڈی آر اے کی کنٹری ڈائریکٹر کے مطابق چارے میں 8 ٹن بھوسا اور 4 ٹن چوکر شامل ہیں، تقسیم میں آسانی کے لیے 20 کلو بھوسے کے بنڈلز بنائے گئے ہیں، ایک بنڈل 3 جانوروں کے لیے 4 سے 6 دن کے لیے کافی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ امداد کا یہ سلسلہ 6 ماہ تک جاری رکھنے کی کوشش کی جائے گی۔ میویشیوں کی زندگی بھی اہم ہ،ے خاص طور پر ان کے لیے جن کی آمدنی کا ذریعہ ہی یہ جانور ہیں مگر سیلاب سے متاثرین کے گھروں اور فصلوں کے ساتھ میویشیوں کو بھی نقصان پہنچا ہے، بچ جانے والے جانوروں کے لیے چارے کی شدید قلت ہے اسی وجہ سے کمپری ہینسیو ڈیزاسٹر رسپانس سروسز نے اپنی خدمات کا آغاز کیا۔
نیشنل ڈزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کی رپورٹ کے مطابق طوفان بارشوں اور سیلاب کی وجہ سے 7 لاکھ 30 ہزار سے زائد مویشی ہلاک ہوچکے ہیں، سڑکوں پر پناہ لینے والے متاثرین بچ جانے والے جانوروں کے تحفظ کیلیے بے حد پریشان ہیں، جن کے لیے غذائی قلت ایک مسئلہ ہے ساتھ ہی ان کے مویشی کمزور اور بیمار بھی ہوچکے ہیں۔
سیلاب کا جمع پانی جانوروں کو پینے کیلئے دیا جارہا ہے جس سے مسائل میں مزید اضافہ ہورہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جھل مگسی کے ایک متاثرہ شخص کے مطابق اس کی نظروں کے سامنے 75 مویشی ہلاک ہوگئے جو اس کی پوری زندگی کا سرمایہ تھا مگر وہ کچھ نہیں کر سکا۔ سیلابی صورتحال میں دربدر ہونے والے سیلاب زدگان کوڑیوں کے دام میں اپنے جانور فروخت کرنے پر مجبور ہیں، لاکھوں کا جانور ہزاروں میں فروخت کیا جارہا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ہمیں دیہی معیشت کو بچانا ہوگا کیونکہ اس کا ملک کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کا کردار ہے۔ قطرینہ حسین کے مطابق جب تک وسائل ہیں مویشیوں کی مدد جاری رکھی جائے گی لیکن اس مقصد کے لیے اور لوگوں کو بھی آگے آنا ہوگا تاکہ سیلاب متاثرین کی آخری امید کو بچایا جاسکے اور وہ اپنی زندگی کی دوبارہ شروعات کرسکیں۔
فلاحی تنظیم کی جانب سے کراچی سے 2 ٹرک بدین اور میرپور خاص روانہ کردیے گئے۔ سی ڈی آر اے کی کنٹری ڈائریکٹر کے مطابق چارے میں 8 ٹن بھوسا اور 4 ٹن چوکر شامل ہیں، تقسیم میں آسانی کے لیے 20 کلو بھوسے کے بنڈلز بنائے گئے ہیں، ایک بنڈل 3 جانوروں کے لیے 4 سے 6 دن کے لیے کافی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ امداد کا یہ سلسلہ 6 ماہ تک جاری رکھنے کی کوشش کی جائے گی۔ میویشیوں کی زندگی بھی اہم ہ،ے خاص طور پر ان کے لیے جن کی آمدنی کا ذریعہ ہی یہ جانور ہیں مگر سیلاب سے متاثرین کے گھروں اور فصلوں کے ساتھ میویشیوں کو بھی نقصان پہنچا ہے، بچ جانے والے جانوروں کے لیے چارے کی شدید قلت ہے اسی وجہ سے کمپری ہینسیو ڈیزاسٹر رسپانس سروسز نے اپنی خدمات کا آغاز کیا۔
نیشنل ڈزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کی رپورٹ کے مطابق طوفان بارشوں اور سیلاب کی وجہ سے 7 لاکھ 30 ہزار سے زائد مویشی ہلاک ہوچکے ہیں، سڑکوں پر پناہ لینے والے متاثرین بچ جانے والے جانوروں کے تحفظ کیلیے بے حد پریشان ہیں، جن کے لیے غذائی قلت ایک مسئلہ ہے ساتھ ہی ان کے مویشی کمزور اور بیمار بھی ہوچکے ہیں۔
سیلاب کا جمع پانی جانوروں کو پینے کیلئے دیا جارہا ہے جس سے مسائل میں مزید اضافہ ہورہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جھل مگسی کے ایک متاثرہ شخص کے مطابق اس کی نظروں کے سامنے 75 مویشی ہلاک ہوگئے جو اس کی پوری زندگی کا سرمایہ تھا مگر وہ کچھ نہیں کر سکا۔ سیلابی صورتحال میں دربدر ہونے والے سیلاب زدگان کوڑیوں کے دام میں اپنے جانور فروخت کرنے پر مجبور ہیں، لاکھوں کا جانور ہزاروں میں فروخت کیا جارہا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ہمیں دیہی معیشت کو بچانا ہوگا کیونکہ اس کا ملک کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کا کردار ہے۔ قطرینہ حسین کے مطابق جب تک وسائل ہیں مویشیوں کی مدد جاری رکھی جائے گی لیکن اس مقصد کے لیے اور لوگوں کو بھی آگے آنا ہوگا تاکہ سیلاب متاثرین کی آخری امید کو بچایا جاسکے اور وہ اپنی زندگی کی دوبارہ شروعات کرسکیں۔