سیاست میں عدم برداشت کا خطرناک رجحان
شائستگی، خیالات کی دُرستگی، غور و فکر کی جگہ دشنام طرازی نے لے لی ہے
سیاست دانوں کے عمومی رویے میں تحمل اور برداشت کا فقدان نظر آتا ہے۔ ماحول تو پہلے ہی اتنا خوشگوار نہیں، اس پر مستزاد یہ کہ حالات بھی بگڑے ہوئے ہیں ، پاکستان کے حالات نے پندرہ سالوں میں جو رُخ اختیار کیا ہے، اس میں کسی قسم کا جواز فراہم نہیں کیا جا سکتا۔
شائستگی، خیالات کی دُرستگی، غور و فکر کی جگہ دشنام طرازی نے لے لی ہے۔ حزب اقتدار اور حزب اختلاف کی سیاسی جماعتیں ایک دوسرے سے بات کرتے ہوئے اخلاقیات سے اُتر کر ذاتیات پر آجاتی ہیں۔ اب حالات نے ایسا پلٹا کھایا گویا کہ ملک میں دریدہ دہنی کا مقابلہ ہی شروع ہوگیا ہو۔
ایسا کوئی دن نہیں جاتا کہ ایک دوسرے پر لفظی حملے نہ کیے جاتے ہوں، طعن و تشنیع کی تو جیسے عادت سی ہوگئی ہو۔ ملک کے دانشور طبقے نے ان کی اصلاح اور سیاستدانوں کو اِس چلن سے دُور رکھنے کی کوشش تو کی ہے، مگر خدانخواستہ حالات قابو سے باہر ہوگئے تو، حالات کو بہتری کی جانب لانا مشکل ہوجائے گا۔
حالیہ دنوں میں عدم برداشت کے بڑھتے رجحان خصوصاً مختلف سیاسی جماعتوں سے وابستہ رہنماؤں، اُن کے ووٹرز، سپورٹرز اور پیروکاروں کے درمیان باہمی چپقلش اب گھروں اور نجی تعلقات پر بھی اثر انداز ہونے لگی ہے، جس کے نتیجے میں آج کل ہر سو نفرتوں اور سیاسی بیان بازیوں کا ایک طوفان برپا ہے۔
آپس میں لایعنی بحث کے ساتھ ساتھ گفتگو کا معیار اِس قدر گر چکا ہے کہ چھوٹے بڑے کے باہمی ادب و احترام کو بالائے طاق رکھ کر ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور کمتر ثابت کرنے کے لیے کسی بھی حد تک جانے کو معیوب نہیں سمجھا جاتا۔ لوگ لاقانونیت کے سائے تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ ایسے میں سیاست دان بھی اپنے سیاسی مخالفین کو للکارنے جیسی اشتعال انگیز زبان استعمال کررہے ہیں ۔
مولا جٹ جیسی زبان کے استعمال سے سیاست دان عوام کے دلوں میں گھر تو ہر گز نہیں کر سکتے، البتہ خود کو ایکسپوز ضرور کر لیتے ہیں۔ نتیجتاً معاشرے میں عدم برداشت اِس حد تک بڑھ چکی ہے کہ بحث مباحثوں میں شائستگی مفقود ہوگئی، کوئی مخالف رائے سننے پر تیار ہی نہیں ، سیاسی تفریق اب دلوں میں کدورت، باہم رنجشیں اور تفریق لانے لگی ہے، دوستوں میں دوریاں، گھروں میں جھگڑے اور سیاسی قائدین باہم دست و گریباں نظر آتے ہیں۔
حالاں کہ سیاست کا بنیادی مقصد صرف اقتدار کا حصول ہی نہیں، بلکہ یہ حقوق کے حصول، باہمی اقدار و جمہوری روایات کے پاس و لحاظ اور ایک دوسرے کو قریب لانے کا نام ہے، لیکن افسوس ناک صورتِ حال یہ ہے کہ اس روش کی وجہ سے آپس میں گفتگو کا معیار، ادب و احترام، باہمی عزت و وقار کا پاس و لحاظ بھی مفقود ہوچکا ہے۔ معاشرے میں بڑھتے عدم برداشت کے رجحان اور بے احترامی و بے تکریمی پر مبنی رویوں کو دیکھ کر دل سے ہوک سی اٹھتی ہے۔
ربِ کائنات نے اِنسان کو اشرف المخلوقات تخلیق کر کے اِس فانی دنیا میں بھیجا، اُسے عقل و شعور عطا کرکے اچھے اور بُرے کی تمیز سے آشنا کیا۔ انسان کو اس کی ان ہی صفات کی بِنا پر اعلیٰ ظرف تصور کیا جاتا ہے۔ انسان میں ایک مادہ پیدا کیا جسے صبر و تحمل، برداشت کہتے ہیں۔
اسی صبر و تحمل کے ساتھ انسان شیریں سُخن ہو تو وہ مسائل سے بَخوبی نِمٹ سکتا ہے۔ بجا کہ معاشروں کی اِقدار میں یَکدم تبدیلیاں پیدا نہیں ہوا کرتیں، ان تبدیلیوں کے پیچھے مختلف عوامل کی ایک طویل تاریخ ہوا کرتی ہے۔
ہمارے سَماج سے بھی برداشت اور حسن عمل آن واحد میں نایاب نہیں ہوا، بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ زیادہ کی ہَوس اور اس کی خاطر بہر صورت طاقتور اور بارسُوخ ہونے کی طَمع نے ان سماجی اوصاف کا گلا دبانے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی اور اب حالات سب کے سامنے ہیں۔
آپ یہ سنتے ہی ہوں گے کہ ''جیسے حکمران ہوتے ہیں، ویسے ہی عوام ہوتے ہیں'' بھلے یہ مقولہ عام زندگی میں بولا جاتا ہو، مگر اس کا حقیقت سے کافی گہرا تعلق ہے۔ سماج کی بالائی پَرت یعنی حکمران طبقہ میں پیدا ہونے والی خرابیاں بتدریج عوام میں منتقل ہوتی چلی آرہی ہیں اور پورا سماج ان ہی قباحتوں کا شکار ہے۔
وطن عزیز کے ماضی میں زیادہ آگے جانے کی ضرورت نہیں ہے، آپ بس گزشتہ پچھتر سال کا دور دیکھ لیں۔ اس میں کیا کچھ ہوتا چلا آرہا ہے اور سیاسی معاملات میں عوام کی دلچسپی کافی نمایاں نظر آئے گی۔ تاہم آپ حقیقت کو فراموش نہیں کر سکتے۔
افسوس کہ جمہوریت کے کئی سال کے تسلسل کے بعد حالات پہلے سے زیادہ ابتر ہیں۔ بعض لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ پاکستان کے لیے جمہوریت مُوزوں نظام نہیں ہے، لیکن اِسی جمہوریت کی خاطر کئی قربانیاں دی گئی ہیں۔ جب آمریت کا ملک پر سایہ تھا، تو لوگ جمہوریت کے متلاشی تھے لیکن جب جمہوری نِظام رائج ہے تو، ہم نے اس کے تقدُس کو پامال کیا ہے۔ اخلاقیات کا جو جنازہ نکالا ہے اس کے بارے میں سوچنا چاہیے۔
آمریت میں کم از کم یہ تو معلوم ہوتا تھاکہ کس سے خوف کھانا ہے اور کس سے بچ نکلنا ہے۔ جمہوریت میں تو یہ آگاہی بھی چھین لی گئی ہے، اگر سیاسی جماعت کے لیڈرز ایک دوسرے کو دھمکیاں دیں گے تو، ان کے کارکن باہم دست و گریباں تو ہوں گے۔ خدا نخواستہ یہ سلسلہ آگے انتشار کی جانب گامزن ہوجاتا ہے تو، سیاستدان ہاتھ ملتے رہ جائیں گے۔
ماہرین عمرانیات کا کہنا ہے کہ آج کل معاشرے کے 90 فیصد مسائل کی جڑ عدم رواداری ہے۔ صبر و تحمل، ملنساری، خندہ پیشانی جیسے اوصاف ہمارے درمیان سے رخصت ہوچکے ہیں۔ آج اگر کوئی ہمیں ایک بات کہے تو ہم اسے چار باتیں سناتے ہیں، پتھر کا جواب اینٹ سے نہ دینے کو شان کے خلاف سمجھتے ہیں۔ ذرا سی بات پر ہوش و حواس سے بیگانہ ہوکر مرنے مارنے پر اتر آتے ہیں۔
آخر ہمارا رویہ ایسا کیوں؟ ہم کیوں مذہب، سیاست، مسلک، رنگ، نسل اور لسانیت کو بنیاد بنا کر عدم رواداری کا رویہ اپنائے ہوئے ہیں۔ ہم کیوں خود ہی گواہ، وکیل اور منصف بنے ہوئے ہیں ؟ یہ عدم برداشت ہی ہے جس کی وجہ سے آج وطن عزیز پاکستان میں جرائم کی بھرمار ہے، معاشرے میں انتشار ہے، بدعنوانی، معاشرتی استحصال اور لاقانونیت کا دور دورہ ہے۔ ہم انفرادی و اجتماعی طور پر عدم برداشت کا شکار ہیں۔
چاہے وہ ہماری ذاتی زندگی ہو یا معاشرتی کوئی پہلو، ہماری نظر میں ہم، ہمارا نظریہ، ہمارا عقیدہ، ہماری رائے درست ہے۔ بصورت دیگر ہم شدت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے تہذیب کی تمام حدود پھلانگ جاتے ہیں اور اگلے بندے کی دھجیاں اڑا کر رکھ دیتے ہیں۔ ہم نے لوگوں کی رائے، ان کے نظریات کا احترام تک کرنا چھوڑ دیا ہے۔ ہم دوسروں پر اپنی مرضی، اپنے عقائد، اپنی سوچ مسلط کرنا چاہتے ہیں۔ حالانکہ اگر خالق کائنات کو یہ اختیار کسی کو دینا ہوتا تو وہ ہر انسان کو فہم و فراست اور عقل و شعور سے نہ نوازتا۔ غور و تدبر کی دعوت نہ دیتا۔ اس مالک کل نے جو تمام اختیارات رکھتا ہے۔
اس نے جب انسان کو صحیح و غلط چننے، پرکھنے اور برتنے کا اختیار دیا ہے، نسخہ کیمیا تھما کر بھی اس میں تدبر کرنے کو کہا۔ کائنات کے رمز تلاشنے کی دعوت دی، اسے سمجھنے اور سمجھ کر صحیح و غلط کا فرق معلوم کرنے کی دعوت فکر دی اور غلط راہ چن لینے کے بعد بھی توبہ کا راستہ دکھایا۔آج ہم معاشرتی طور پر چاہتے ہیں کہ دوسرا ہر شخص دیکھے تو ہماری آنکھوں سے اور سوچے تو ہمارے مطابق اور اختلاف رائے کی صورت میں جج جیوری جلاد بن کر اس سے زندہ رہنے کا حق ہی چھین لیں۔ عدم برداشت ہمارے معاشرے کا وہ ناسور ہے جس کا حل ناگزیر ہے اگر اس کا حل فوری طور پر نہ نکالا گیا تو یہ نسل نو کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لے گا اور نہ جانے کتنی زندگیوں کی تباہی کا سبب بنے گا۔
اس کے حل کے لیے ہمیں انفرادی و اجتماعی سطح پر کوششیں کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ حل تلاش کرنے سے قبل عدم برداشت پیدا ہونے کی وجوہات تلاش کرنا ضروری ہے کہ علاج سے قبل بیماری اور بیماری کی وجوہات کی تشخیص بے حد ضروری ہے۔
عدم برداشت کا رویہ اچانک جنم نہیں لیتا بلکہ اس کے پیچھے کئی عوامل کار فرما ہوتے ہیں جیسے ہم کسی کے بنیادی حقوق ان سے چھین لیں، کسی کے حق پر ہونے کے باوجود اسے انصاف فراہم نہ کیا جائے۔ کسی شخص پر زبردستی اپنی حاکمیت مسلط کردی جائے۔ کسی کو بے جا سختیوں اور پابندیوں میں رکھا جائے تو نتیجتاً وہ شخص ان تمام عوامل کے رد عمل کے طور پر عدم برداشت کا مظاہرہ کرتا ہے ، اگر ہم معاشرتی و اجتماعی سطح پر اس کا حل چاہتے ہیں تو ہمیں چاہیے کہ اس کا آغاز اپنی ذات سے کریں۔
اس وقت سیاستدانوں کو غور و فکر کے ساتھ کام لینا ہوگا ، کیونکہ عوام حکمرانوں سے براہ راست متاثر ہوتے ہیں، تو حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ عوام کی نفسیات کو مدنظر رکھتے ہوئے ان میں اپنا مثبت تاثر پیدا کریں۔ سیاستدانوں کو چاہیے کہ سیاست کو شائستگی، صبر و تحمل، برداشت اور رَواداری کے ساتھ کریں اور کسی بھی قسم کے منفی عمل سے گریز کریں۔
شائستگی، خیالات کی دُرستگی، غور و فکر کی جگہ دشنام طرازی نے لے لی ہے۔ حزب اقتدار اور حزب اختلاف کی سیاسی جماعتیں ایک دوسرے سے بات کرتے ہوئے اخلاقیات سے اُتر کر ذاتیات پر آجاتی ہیں۔ اب حالات نے ایسا پلٹا کھایا گویا کہ ملک میں دریدہ دہنی کا مقابلہ ہی شروع ہوگیا ہو۔
ایسا کوئی دن نہیں جاتا کہ ایک دوسرے پر لفظی حملے نہ کیے جاتے ہوں، طعن و تشنیع کی تو جیسے عادت سی ہوگئی ہو۔ ملک کے دانشور طبقے نے ان کی اصلاح اور سیاستدانوں کو اِس چلن سے دُور رکھنے کی کوشش تو کی ہے، مگر خدانخواستہ حالات قابو سے باہر ہوگئے تو، حالات کو بہتری کی جانب لانا مشکل ہوجائے گا۔
حالیہ دنوں میں عدم برداشت کے بڑھتے رجحان خصوصاً مختلف سیاسی جماعتوں سے وابستہ رہنماؤں، اُن کے ووٹرز، سپورٹرز اور پیروکاروں کے درمیان باہمی چپقلش اب گھروں اور نجی تعلقات پر بھی اثر انداز ہونے لگی ہے، جس کے نتیجے میں آج کل ہر سو نفرتوں اور سیاسی بیان بازیوں کا ایک طوفان برپا ہے۔
آپس میں لایعنی بحث کے ساتھ ساتھ گفتگو کا معیار اِس قدر گر چکا ہے کہ چھوٹے بڑے کے باہمی ادب و احترام کو بالائے طاق رکھ کر ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور کمتر ثابت کرنے کے لیے کسی بھی حد تک جانے کو معیوب نہیں سمجھا جاتا۔ لوگ لاقانونیت کے سائے تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ ایسے میں سیاست دان بھی اپنے سیاسی مخالفین کو للکارنے جیسی اشتعال انگیز زبان استعمال کررہے ہیں ۔
مولا جٹ جیسی زبان کے استعمال سے سیاست دان عوام کے دلوں میں گھر تو ہر گز نہیں کر سکتے، البتہ خود کو ایکسپوز ضرور کر لیتے ہیں۔ نتیجتاً معاشرے میں عدم برداشت اِس حد تک بڑھ چکی ہے کہ بحث مباحثوں میں شائستگی مفقود ہوگئی، کوئی مخالف رائے سننے پر تیار ہی نہیں ، سیاسی تفریق اب دلوں میں کدورت، باہم رنجشیں اور تفریق لانے لگی ہے، دوستوں میں دوریاں، گھروں میں جھگڑے اور سیاسی قائدین باہم دست و گریباں نظر آتے ہیں۔
حالاں کہ سیاست کا بنیادی مقصد صرف اقتدار کا حصول ہی نہیں، بلکہ یہ حقوق کے حصول، باہمی اقدار و جمہوری روایات کے پاس و لحاظ اور ایک دوسرے کو قریب لانے کا نام ہے، لیکن افسوس ناک صورتِ حال یہ ہے کہ اس روش کی وجہ سے آپس میں گفتگو کا معیار، ادب و احترام، باہمی عزت و وقار کا پاس و لحاظ بھی مفقود ہوچکا ہے۔ معاشرے میں بڑھتے عدم برداشت کے رجحان اور بے احترامی و بے تکریمی پر مبنی رویوں کو دیکھ کر دل سے ہوک سی اٹھتی ہے۔
ربِ کائنات نے اِنسان کو اشرف المخلوقات تخلیق کر کے اِس فانی دنیا میں بھیجا، اُسے عقل و شعور عطا کرکے اچھے اور بُرے کی تمیز سے آشنا کیا۔ انسان کو اس کی ان ہی صفات کی بِنا پر اعلیٰ ظرف تصور کیا جاتا ہے۔ انسان میں ایک مادہ پیدا کیا جسے صبر و تحمل، برداشت کہتے ہیں۔
اسی صبر و تحمل کے ساتھ انسان شیریں سُخن ہو تو وہ مسائل سے بَخوبی نِمٹ سکتا ہے۔ بجا کہ معاشروں کی اِقدار میں یَکدم تبدیلیاں پیدا نہیں ہوا کرتیں، ان تبدیلیوں کے پیچھے مختلف عوامل کی ایک طویل تاریخ ہوا کرتی ہے۔
ہمارے سَماج سے بھی برداشت اور حسن عمل آن واحد میں نایاب نہیں ہوا، بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ زیادہ کی ہَوس اور اس کی خاطر بہر صورت طاقتور اور بارسُوخ ہونے کی طَمع نے ان سماجی اوصاف کا گلا دبانے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی اور اب حالات سب کے سامنے ہیں۔
آپ یہ سنتے ہی ہوں گے کہ ''جیسے حکمران ہوتے ہیں، ویسے ہی عوام ہوتے ہیں'' بھلے یہ مقولہ عام زندگی میں بولا جاتا ہو، مگر اس کا حقیقت سے کافی گہرا تعلق ہے۔ سماج کی بالائی پَرت یعنی حکمران طبقہ میں پیدا ہونے والی خرابیاں بتدریج عوام میں منتقل ہوتی چلی آرہی ہیں اور پورا سماج ان ہی قباحتوں کا شکار ہے۔
وطن عزیز کے ماضی میں زیادہ آگے جانے کی ضرورت نہیں ہے، آپ بس گزشتہ پچھتر سال کا دور دیکھ لیں۔ اس میں کیا کچھ ہوتا چلا آرہا ہے اور سیاسی معاملات میں عوام کی دلچسپی کافی نمایاں نظر آئے گی۔ تاہم آپ حقیقت کو فراموش نہیں کر سکتے۔
افسوس کہ جمہوریت کے کئی سال کے تسلسل کے بعد حالات پہلے سے زیادہ ابتر ہیں۔ بعض لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ پاکستان کے لیے جمہوریت مُوزوں نظام نہیں ہے، لیکن اِسی جمہوریت کی خاطر کئی قربانیاں دی گئی ہیں۔ جب آمریت کا ملک پر سایہ تھا، تو لوگ جمہوریت کے متلاشی تھے لیکن جب جمہوری نِظام رائج ہے تو، ہم نے اس کے تقدُس کو پامال کیا ہے۔ اخلاقیات کا جو جنازہ نکالا ہے اس کے بارے میں سوچنا چاہیے۔
آمریت میں کم از کم یہ تو معلوم ہوتا تھاکہ کس سے خوف کھانا ہے اور کس سے بچ نکلنا ہے۔ جمہوریت میں تو یہ آگاہی بھی چھین لی گئی ہے، اگر سیاسی جماعت کے لیڈرز ایک دوسرے کو دھمکیاں دیں گے تو، ان کے کارکن باہم دست و گریباں تو ہوں گے۔ خدا نخواستہ یہ سلسلہ آگے انتشار کی جانب گامزن ہوجاتا ہے تو، سیاستدان ہاتھ ملتے رہ جائیں گے۔
ماہرین عمرانیات کا کہنا ہے کہ آج کل معاشرے کے 90 فیصد مسائل کی جڑ عدم رواداری ہے۔ صبر و تحمل، ملنساری، خندہ پیشانی جیسے اوصاف ہمارے درمیان سے رخصت ہوچکے ہیں۔ آج اگر کوئی ہمیں ایک بات کہے تو ہم اسے چار باتیں سناتے ہیں، پتھر کا جواب اینٹ سے نہ دینے کو شان کے خلاف سمجھتے ہیں۔ ذرا سی بات پر ہوش و حواس سے بیگانہ ہوکر مرنے مارنے پر اتر آتے ہیں۔
آخر ہمارا رویہ ایسا کیوں؟ ہم کیوں مذہب، سیاست، مسلک، رنگ، نسل اور لسانیت کو بنیاد بنا کر عدم رواداری کا رویہ اپنائے ہوئے ہیں۔ ہم کیوں خود ہی گواہ، وکیل اور منصف بنے ہوئے ہیں ؟ یہ عدم برداشت ہی ہے جس کی وجہ سے آج وطن عزیز پاکستان میں جرائم کی بھرمار ہے، معاشرے میں انتشار ہے، بدعنوانی، معاشرتی استحصال اور لاقانونیت کا دور دورہ ہے۔ ہم انفرادی و اجتماعی طور پر عدم برداشت کا شکار ہیں۔
چاہے وہ ہماری ذاتی زندگی ہو یا معاشرتی کوئی پہلو، ہماری نظر میں ہم، ہمارا نظریہ، ہمارا عقیدہ، ہماری رائے درست ہے۔ بصورت دیگر ہم شدت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے تہذیب کی تمام حدود پھلانگ جاتے ہیں اور اگلے بندے کی دھجیاں اڑا کر رکھ دیتے ہیں۔ ہم نے لوگوں کی رائے، ان کے نظریات کا احترام تک کرنا چھوڑ دیا ہے۔ ہم دوسروں پر اپنی مرضی، اپنے عقائد، اپنی سوچ مسلط کرنا چاہتے ہیں۔ حالانکہ اگر خالق کائنات کو یہ اختیار کسی کو دینا ہوتا تو وہ ہر انسان کو فہم و فراست اور عقل و شعور سے نہ نوازتا۔ غور و تدبر کی دعوت نہ دیتا۔ اس مالک کل نے جو تمام اختیارات رکھتا ہے۔
اس نے جب انسان کو صحیح و غلط چننے، پرکھنے اور برتنے کا اختیار دیا ہے، نسخہ کیمیا تھما کر بھی اس میں تدبر کرنے کو کہا۔ کائنات کے رمز تلاشنے کی دعوت دی، اسے سمجھنے اور سمجھ کر صحیح و غلط کا فرق معلوم کرنے کی دعوت فکر دی اور غلط راہ چن لینے کے بعد بھی توبہ کا راستہ دکھایا۔آج ہم معاشرتی طور پر چاہتے ہیں کہ دوسرا ہر شخص دیکھے تو ہماری آنکھوں سے اور سوچے تو ہمارے مطابق اور اختلاف رائے کی صورت میں جج جیوری جلاد بن کر اس سے زندہ رہنے کا حق ہی چھین لیں۔ عدم برداشت ہمارے معاشرے کا وہ ناسور ہے جس کا حل ناگزیر ہے اگر اس کا حل فوری طور پر نہ نکالا گیا تو یہ نسل نو کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لے گا اور نہ جانے کتنی زندگیوں کی تباہی کا سبب بنے گا۔
اس کے حل کے لیے ہمیں انفرادی و اجتماعی سطح پر کوششیں کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ حل تلاش کرنے سے قبل عدم برداشت پیدا ہونے کی وجوہات تلاش کرنا ضروری ہے کہ علاج سے قبل بیماری اور بیماری کی وجوہات کی تشخیص بے حد ضروری ہے۔
عدم برداشت کا رویہ اچانک جنم نہیں لیتا بلکہ اس کے پیچھے کئی عوامل کار فرما ہوتے ہیں جیسے ہم کسی کے بنیادی حقوق ان سے چھین لیں، کسی کے حق پر ہونے کے باوجود اسے انصاف فراہم نہ کیا جائے۔ کسی شخص پر زبردستی اپنی حاکمیت مسلط کردی جائے۔ کسی کو بے جا سختیوں اور پابندیوں میں رکھا جائے تو نتیجتاً وہ شخص ان تمام عوامل کے رد عمل کے طور پر عدم برداشت کا مظاہرہ کرتا ہے ، اگر ہم معاشرتی و اجتماعی سطح پر اس کا حل چاہتے ہیں تو ہمیں چاہیے کہ اس کا آغاز اپنی ذات سے کریں۔
اس وقت سیاستدانوں کو غور و فکر کے ساتھ کام لینا ہوگا ، کیونکہ عوام حکمرانوں سے براہ راست متاثر ہوتے ہیں، تو حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ عوام کی نفسیات کو مدنظر رکھتے ہوئے ان میں اپنا مثبت تاثر پیدا کریں۔ سیاستدانوں کو چاہیے کہ سیاست کو شائستگی، صبر و تحمل، برداشت اور رَواداری کے ساتھ کریں اور کسی بھی قسم کے منفی عمل سے گریز کریں۔